فاخر
محفلین
غزل
فاخر
(نوٹ: یہ غزل جون ایلیا صاحب مرحوم کی نظم ’’رمز‘‘کےایک مصرعے ’’مرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘ سے متأثر ہے اور اسی زمین میں ہے،اِس غزل کو براہِ کرم اختر شمار کی غزل کی زمین میں اور اس سے متأثر نہ سمجھا جائے، نیز ایک مصرعہ اختر شمار کے ایک مصرعہ سے مشابہ ہے، اسے بھی توارُد سمجھیں، سرقہ نہیں )
تمہیں کھو کر تو مِرے پاس رَہا کچھ بھی نہیں
تم سمجھتے ہو، مِرے ساتھ ہُوا کچھ بھی نہیں
ہجر میں چھن گئیں خوشیاں سبھی مجھ سے آخر
اَور قَیامت ہے کہ اشکوں کے سِوا کچھ بھی نہیں
کچھ بھی مقصود نہیں مجھ کو تمہارے بدلے
خواہش جا نہیں، دَستار و قبا کچھ بھی نہیں
تم نے ایجادِ ستم مجھ پہ کیا ہے پھر بھی
سچ تو یہ ہے کہ مجھے تم سے گلہ کچھ بھی نہیں
سروَرِی مل گئی اُلفت میں تمہاری مجھ کو
میں بھلا کیسے کہوں تم سے ِملا کچھ بھی نہیں؟
جب مقدر دَرِ جاناں کی جبیں سائی ہے
تو پھر اِس جذبہ و سودا کی جزا کچھ بھی نہیں
یہی فاخر کا اَثاثہ ہے ، تو ہے مجھ کو عزیز
اس سے بہتر نہیں شی ، بیش بہا کچھ بھی نہیں!
فاخر
(نوٹ: یہ غزل جون ایلیا صاحب مرحوم کی نظم ’’رمز‘‘کےایک مصرعے ’’مرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘ سے متأثر ہے اور اسی زمین میں ہے،اِس غزل کو براہِ کرم اختر شمار کی غزل کی زمین میں اور اس سے متأثر نہ سمجھا جائے، نیز ایک مصرعہ اختر شمار کے ایک مصرعہ سے مشابہ ہے، اسے بھی توارُد سمجھیں، سرقہ نہیں )
تمہیں کھو کر تو مِرے پاس رَہا کچھ بھی نہیں
تم سمجھتے ہو، مِرے ساتھ ہُوا کچھ بھی نہیں
ہجر میں چھن گئیں خوشیاں سبھی مجھ سے آخر
اَور قَیامت ہے کہ اشکوں کے سِوا کچھ بھی نہیں
کچھ بھی مقصود نہیں مجھ کو تمہارے بدلے
خواہش جا نہیں، دَستار و قبا کچھ بھی نہیں
تم نے ایجادِ ستم مجھ پہ کیا ہے پھر بھی
سچ تو یہ ہے کہ مجھے تم سے گلہ کچھ بھی نہیں
سروَرِی مل گئی اُلفت میں تمہاری مجھ کو
میں بھلا کیسے کہوں تم سے ِملا کچھ بھی نہیں؟
جب مقدر دَرِ جاناں کی جبیں سائی ہے
تو پھر اِس جذبہ و سودا کی جزا کچھ بھی نہیں
یہی فاخر کا اَثاثہ ہے ، تو ہے مجھ کو عزیز
اس سے بہتر نہیں شی ، بیش بہا کچھ بھی نہیں!
آخری تدوین: