طالوت
محفلین
سر پیٹتے بیٹے ، آنسو بہاتی مائیں ، سسکتے بلکتے بچے ، افسردہ گم سم بوڑھے ، غرض یہ کہ جس طرف نظر دوڑائیں تو بچہ بھوکا ہے تو مسلم ، عزت تارتار ہے تو مسلم ، جاہل ہیں تو مسلم ، قدرتی آفتوں میں مرتا ہے تو مسلم ، انتہا پسند ہے تو مسلم ، انسان بک رہا ہے تو مسلم ، مر رہا ہے تو مسلم ، دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی ذلت ہو جس کا طوق مسلم کی گردن پر نہ سجا ہو ۔۔ اور جواب میں مسلم کیا ہے ؟ بھانت بھانت کی بولیاں ، زمین کے ٹکڑوں پہ لڑنا جھگڑنا ، عرب و عجم کا بےہودہ نعرہ ، خاندان و قبیلے کی برتری ، کام چوری ، علم سے بیزاری ، اقرباء پروری ، عدم مساوات ، کمزور کے لیے قانون کی پاسداری ، طاقتور کے لئیے قانون گھر کی لونڈی ، غریب بچے کو پیٹ کے لالے ، امیر بچے کی تعلیم یورپ و امریکہ ، ایک مشک میں روز نہاتا ہے ، دوسرا اپنی ہی بو سے گھبراتا ہے ، ایک پچاس ہزار کے سوٹ پر اتراتا ہے ، ایک برہنگی چھپانے کو ٹاٹ لٹکاتا ہے ، ایک کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے ، ایک سونے میں تولی جاتی ہے ، ایک "حلالے" میں مست ، دوسرا سر جھکائے پست ، ایک کی زندگی تفریح سے خالی ، دوسرے کا وطن "بالی" ، ایک کے ہاتھ میں کوئلوں کا منجن ، دوسرے کا مطب لندن ، کیا قومیں ان خلیجوں کے ساتھ ترقی کا سفر کیا کرتی ہیں ؟
سچ تو یہ ہے کہ قومیں اپنے ارادے و عمل سے آگے بڑھتی ہیں ۔۔ سیدنا احمد (علیۃ الصلوۃ و سلام) کی مکی و مدنی زندگی بالترتیب اس ارادے و عمل کا ایک ایسا نادر نمونہ ہے جس کی مثال دینے سے مشرق و مغرب کی ہزار ہا صدیاں و باشندے قاصر ہیں ۔۔ دنیا جانتی ہے کہ 23 برسوں کے اس مضبوط ارادے اور بہترین عمل نے ایک ایسی چھوٹی سی قوم تشکیل دی جس نے اگلے محض 13 برسوں میں مشرق و مغرب کی تاریخ کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا کہ شاید ہی دنیا کبھی اس تاریخ کو دہرا سکے ۔۔ اپنے پیر کامل سے حاصل شدہ الھدٰی سے عدل و انصاف کے ان مٹ نقوش چھوڑنے والے یہ عظیم لوگ دنیا کے ہر جبر ہر ظلم کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندتے چلے گئے ۔۔ کجھوروں کی پوٹلی اور پانی کی چھاگل سے ایک ایسا نظام قائم کرنا جس کی نظیر نہ کبھی ملتی ہو نہ آئندہ ملنے کی امید ہو یقیننا قابل غور ہے ۔۔ مگر ہمارا سارا غور ، سارا زور اس بات پر ہے ؟ کہ آیا چند کجھوروں اور پانی کی بوندوں سے کیسے لاکھوں مربع میل میں بسی سینکڑوں اقوام کو عدل مہیا کیا گیا ، کیونکر ہر تن ڈھانکا گیا ، کیونکر ہر شکم بھرا گیا ، کس طرح سے انسان کی فلاح ممکن ہوئی ۔۔ نہیں یقیننا نہیں ! ہمیں تو بس اس بات کی فکر ہے کہ کس طرح میرے گروہ کی برتری و فضیلت ثابت ہو ، کس طرح سے میں اپنی انا کو تسکین دینے کی خاطر کسی کو طنز و تضحیک کا نشانہ بناؤں ، کس طرح سے میرا گروہ ممتاز اور بڑا نظر آئے ، ہر ایک اپنی ڈیڑھ اینٹ کو سینے سے چمٹائے خود کو برحق اور دوسرے باطل قرار دینے میں جٹا ہے ، مگر سب کے سب ذلیل ، خوار ، پستیوں میں گھرے ۔۔ آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنے معمولی اور بےجا اختلافات پس پشت ڈال کر خود کو ارادے و عمل کے حوالے کریں ، ہر اس بات سے گریز کریں جو نفرت میں اضافے کا سبب ہو ، ایک دوسرے کا لحاظ کریں ، بغیر کسی مصلحت یا اندیشے کے ایک دوسرے کی مدد کریں ، اپنے دروازوں کو ہر ہر مسلم کے لیے ہر ہر لمحے کھلا رکھیں ، بھائی چارے کی فضاء کے لیے عدم تشدد اور برداشت کا مظاہرہ کریں ، کانٹے بونے کی بجائے رستوں کا صاف کریں لیکن کیا یہ سب تقریروں یا تحریروں سے ممکن ہو گا ؟ جناب اس کے لیے ایک مضبوط ارادہ باندھیں ، ایک دوسرے سے عہد کریں ، کوئی بھٹکنے لگے تو اسے اس کا عہد یاد دلائیں ، اپنی ذات کے خول سے نکل کر اجتماعی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں جس سے نفرتوں کو ہوا ملتی ہو ، یاد رکھیے جس نفرت میں آپ کسی کو جلانا چاہ رہے ہیں نفرت کی وہ آگ دراصل آپ کے اپنے آپے کو ہی جلائے جا رہی ہے ۔۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اور دوسرے بچوں کو تعلیمی میدان میں دھکیلیں ، اخلاقی پستی سے نکلیں ، جدید علم نہ صرف حاصل کریں بلکہ دوسروں کو اس طرف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی راہنمائی بھی کریں ، اپنے جیب خرچ یا آمدنی میں سے چھوٹے چھوٹے گروپس کی صورت میں ایسے لوگوں کے لیے کتابوں ، لباس و خواراک کا اہتمام کریں جو اس سے محروم ہیں ، ذہین افراد کے لیے تعلیمی وظائف کا اہتمام کریں ، سینکڑوں ایسے کام ہیں جن کو سر انجام سے کر ہم اپنی دنیا اور عاقبت دونوں سنوار سکتے ہیں ۔۔ کسی ادارے کو اپنی قیمتی رقم دے کر یخود کو یہ تسلی دے لینا کہ ہم نے تو نیک نیتی کے ساتھ دیا اب وہ جانیں اور خدا ، بھی اپنے فرائض سے غفلت ہے ۔۔ ہمارا ایک ایک قطرہ ایک ایسے دریا کو جنم دے گا جو طاغوت کی طاقتوں کو لے ڈوبے گا ، ایک دن میں ہم کچھ بھی بدل نہیں سکتے ہمارا ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل ایک بڑے نتیجے کی صورت ظاہر ہو گا اس لیے کسی بھی اچھے کام کو معمولی یا فضول سمجھ کر اس سے صرف نظر نہ کریں ۔۔ کب تک ہم اپنے شاندار ماضی پر چمکتی آنکھوں اور برے حال پر نمناک آنکھوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے چلے جائیں گے ، سال نو کا آغاز ہو چکا ہے اس سال پر کم از کم یہ عہد تو ہمیں کرنا ہی چاہیے کہ بہت ہو چکیں نفرتیں اب کچھ پل محبت کے بھی !
----------
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔۔
وسلام
سچ تو یہ ہے کہ قومیں اپنے ارادے و عمل سے آگے بڑھتی ہیں ۔۔ سیدنا احمد (علیۃ الصلوۃ و سلام) کی مکی و مدنی زندگی بالترتیب اس ارادے و عمل کا ایک ایسا نادر نمونہ ہے جس کی مثال دینے سے مشرق و مغرب کی ہزار ہا صدیاں و باشندے قاصر ہیں ۔۔ دنیا جانتی ہے کہ 23 برسوں کے اس مضبوط ارادے اور بہترین عمل نے ایک ایسی چھوٹی سی قوم تشکیل دی جس نے اگلے محض 13 برسوں میں مشرق و مغرب کی تاریخ کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا کہ شاید ہی دنیا کبھی اس تاریخ کو دہرا سکے ۔۔ اپنے پیر کامل سے حاصل شدہ الھدٰی سے عدل و انصاف کے ان مٹ نقوش چھوڑنے والے یہ عظیم لوگ دنیا کے ہر جبر ہر ظلم کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندتے چلے گئے ۔۔ کجھوروں کی پوٹلی اور پانی کی چھاگل سے ایک ایسا نظام قائم کرنا جس کی نظیر نہ کبھی ملتی ہو نہ آئندہ ملنے کی امید ہو یقیننا قابل غور ہے ۔۔ مگر ہمارا سارا غور ، سارا زور اس بات پر ہے ؟ کہ آیا چند کجھوروں اور پانی کی بوندوں سے کیسے لاکھوں مربع میل میں بسی سینکڑوں اقوام کو عدل مہیا کیا گیا ، کیونکر ہر تن ڈھانکا گیا ، کیونکر ہر شکم بھرا گیا ، کس طرح سے انسان کی فلاح ممکن ہوئی ۔۔ نہیں یقیننا نہیں ! ہمیں تو بس اس بات کی فکر ہے کہ کس طرح میرے گروہ کی برتری و فضیلت ثابت ہو ، کس طرح سے میں اپنی انا کو تسکین دینے کی خاطر کسی کو طنز و تضحیک کا نشانہ بناؤں ، کس طرح سے میرا گروہ ممتاز اور بڑا نظر آئے ، ہر ایک اپنی ڈیڑھ اینٹ کو سینے سے چمٹائے خود کو برحق اور دوسرے باطل قرار دینے میں جٹا ہے ، مگر سب کے سب ذلیل ، خوار ، پستیوں میں گھرے ۔۔ آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنے معمولی اور بےجا اختلافات پس پشت ڈال کر خود کو ارادے و عمل کے حوالے کریں ، ہر اس بات سے گریز کریں جو نفرت میں اضافے کا سبب ہو ، ایک دوسرے کا لحاظ کریں ، بغیر کسی مصلحت یا اندیشے کے ایک دوسرے کی مدد کریں ، اپنے دروازوں کو ہر ہر مسلم کے لیے ہر ہر لمحے کھلا رکھیں ، بھائی چارے کی فضاء کے لیے عدم تشدد اور برداشت کا مظاہرہ کریں ، کانٹے بونے کی بجائے رستوں کا صاف کریں لیکن کیا یہ سب تقریروں یا تحریروں سے ممکن ہو گا ؟ جناب اس کے لیے ایک مضبوط ارادہ باندھیں ، ایک دوسرے سے عہد کریں ، کوئی بھٹکنے لگے تو اسے اس کا عہد یاد دلائیں ، اپنی ذات کے خول سے نکل کر اجتماعی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں جس سے نفرتوں کو ہوا ملتی ہو ، یاد رکھیے جس نفرت میں آپ کسی کو جلانا چاہ رہے ہیں نفرت کی وہ آگ دراصل آپ کے اپنے آپے کو ہی جلائے جا رہی ہے ۔۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اور دوسرے بچوں کو تعلیمی میدان میں دھکیلیں ، اخلاقی پستی سے نکلیں ، جدید علم نہ صرف حاصل کریں بلکہ دوسروں کو اس طرف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی راہنمائی بھی کریں ، اپنے جیب خرچ یا آمدنی میں سے چھوٹے چھوٹے گروپس کی صورت میں ایسے لوگوں کے لیے کتابوں ، لباس و خواراک کا اہتمام کریں جو اس سے محروم ہیں ، ذہین افراد کے لیے تعلیمی وظائف کا اہتمام کریں ، سینکڑوں ایسے کام ہیں جن کو سر انجام سے کر ہم اپنی دنیا اور عاقبت دونوں سنوار سکتے ہیں ۔۔ کسی ادارے کو اپنی قیمتی رقم دے کر یخود کو یہ تسلی دے لینا کہ ہم نے تو نیک نیتی کے ساتھ دیا اب وہ جانیں اور خدا ، بھی اپنے فرائض سے غفلت ہے ۔۔ ہمارا ایک ایک قطرہ ایک ایسے دریا کو جنم دے گا جو طاغوت کی طاقتوں کو لے ڈوبے گا ، ایک دن میں ہم کچھ بھی بدل نہیں سکتے ہمارا ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل ایک بڑے نتیجے کی صورت ظاہر ہو گا اس لیے کسی بھی اچھے کام کو معمولی یا فضول سمجھ کر اس سے صرف نظر نہ کریں ۔۔ کب تک ہم اپنے شاندار ماضی پر چمکتی آنکھوں اور برے حال پر نمناک آنکھوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے چلے جائیں گے ، سال نو کا آغاز ہو چکا ہے اس سال پر کم از کم یہ عہد تو ہمیں کرنا ہی چاہیے کہ بہت ہو چکیں نفرتیں اب کچھ پل محبت کے بھی !
----------
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔۔
وسلام