سچ پوچھو تو روگ اپنا جمہوری تخت نشینی ہے ... محمد ساجد خان

جب شانتی دیوی نے مجھے رخصت کرتے وقت پوچھا کہ تمہارا2013ء کا کیا ایجنڈا ہوگا؟ تو میرا دماغ یکسر خالی تھا۔ شانتی دیوی نے بھانپ لیا کہ رخصتی منظور نہیں۔ نہ میں شانتی دیوی کو روک سکتا تھااور نہ ہی 2012ء کو۔ دونوں کو رخصت ہونا تھا، میں نے دونوں کوالوداع کہا مگر شانتی ایک خیال اور تصور دے گئی کہ 2013ء میں پاکستان کی سیاست، ریاست کو کتنی اہمیت دے گی۔ آج کل کچھ لوگ سیاست بچاؤ اورکچھ ریاست بچاؤکی گردان کر رہے ہیں۔ مقصد دونوں کا صاف تو ہے مگر شفاف نظر نہیں آتا۔ پاکستان کے عوام ملکی سیاست کے کارن مایوس اور نادم ہیں کہ یہ کیسی ریاست ہے جس میں ان کاحق اور حصہ ہے مگر جو عوام کے سچ کو مانتی نہیں اور اپنی خودپسندی اور من مانی کرتی ہے۔ اصل میں ہمارے ہاں ریاست حق اور سچ کے معاملے پر تقسیم ہے۔ وہ سچ سنتی نہیں اور لوگوں کو حق دینے کو تیار نہیں۔ بقول بلھے شاہ (ترجمہ )
جو نہ جانے حق کی طاقت، رب نہ دے اس کو ہمت
اصل میں اس میں سارا سچ ہے۔ آج کے دور میں حق دینا اور سچ سننا بڑا عذاب ہے اور ہم ہی اس عذاب سے گزر رہے ہیں۔یہ بھی سچ ہے پیپلزپارٹی کا شہزادہ اور زرداری پریوار کا راج دلارا بلاول بڑا ہی خوش قسمت ہے۔ اس کو نہ فکر نہ فاقہ مگر اس کے لئے ایک دنیا پریشان ہے۔ کوئی سوچے ہے یہ نوجوان انقلاب کا نشان نہ بن جائے اور کوئی خوفزدہ ہے کہ وہ سیاست کے کھیل کا حصہ ہی نہ بن جائے۔ جس سے عوام بدحال اور پریوار خوشحال ہوتا ہو۔ آنے والے دنوں میں بلاول کا کردار ملکی سیاسی نقشہ پر معتبر ہو جائے گا۔ بلاول کی تربیت میں غیرملکی اساتذہ کرام اور دوستوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ وطن کی خاک تو اس کے وجود پرجمی نہیں مگر وہ میدان میں آچکا ہے اور جنتا اس کے روپ کو دیکھنے جارہی ہے۔ میرا مولا اس کاحامی اور ناصر ہو، وہ عوام کے خوابوں کی تعبیر دے۔بلاول کی طرح پاکستان کے میدان سیاست میں چند اور لوگ بھی پیدائشی خوش قسمت ہیں۔ پنجاب کے صوبیدار آج کل المعروف خادم اعلیٰ کے فرزند ارجمند حمزہ خاصے حرکت پذیر نظر آتے ہیں۔ ان کی مرضی اور منشا سے نوکر شاہی میں تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ ان کی گفتگو تقریباً صوبیدار صاحب کی طرح کی ہے مگر خادم اعلیٰ کی طرح نزاکت سے شعر نہیں سنا سکتے۔ قبلہ والد محترم کا شاعر انقلابی تھا مگر صاحبزادے ابھی انقلابی روپ نہیں دکھا سکے۔ ہاں ان کو خیال اور خواب خوب سوجھتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ انقلاب کی راہ آسان ہو۔ یہی ان کا نعرہ اور راستہ لگ رہا ہے۔ اسی طرح سے ان کے ہی پریوار میں ان کا مقابلہ اپنی کزن مریم صفدر سے ہوتا نظر آرہا ہے جو دختر نیک اختر نوازشریف ہیں۔ مریم صفدر کی محفل آج کل ہر دم سجی نظرآتی ہے۔ ان کا مشغلہ ٹویٹر پر والد مکرم نوازشریف کی مالا جپنا ہے اور دوسرا شغل اخبار کے لوگوں سے ربط اور ضبط رکھنا۔ ایک اخباری ملنگ ان پر فدا بھی ہو چکے ہیں۔ وہ بلامعاوضہ ان کی مشیر ہیں۔ مریم صفدر عقلمند ہیں۔ ان کی انکساری اور حلیمی کی حد نہیں۔ ایک بات تمام اخباری دوستوں سے ضرور پوچھتی ہیں ۔حمزہ اور بلاول میں سے کون زیادہ عوامی اور سیاسی ہے۔ بلاول کے لئے ان کے دل میں نرم گوشہ لگتا ہے۔ وہ بے نظیر کی بھی مداح نظر آتی ہیں مگر زرداری صاحب کی صدارت ان کو نہیں بھاتی۔ دوسری طرف کیپٹن صفدر کی وجہ سے خاصی دباؤ میں رہتی ہیں۔ یہ دونوں مسلم لیگی سپوت سیاست اور ریاست میں کردار ادا کرنے کے لئے ریاضت میں جتے ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جانشینی کس کی قسمت میں آتی ہے۔ دونوں مغلیہ دور کی یاد تازہ کروا رہے ہیں۔پنجاب کی سیاست کا ایک اور اہم مگر ابھی ادھورا کردار سابق وزیراعلیٰ پڑھا لکھا پنجاب کے دعویدار کا منچلا بیٹا چوہدری مونس الٰہی ہے۔ وہ آج کل خاصے سرگرم عمل ہیں۔ چوہدری شجاعت ان کی خصوصی تربیت کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پنجاب بنک کے سلسلے میں ان کا نام گونجتا رہا مگر عدالت نے انصاف کیا، ان پر لگے داغ پر فیصلہ دیا کہ وہ بے داغ ہیں۔ ان پر پرانے مہربان جنرل مشرف کے زمانہ میں برا وقت آیا تھا۔ اس وقت بھی چوہدری شجاعت کی فراست نے کام دکھایا اور بات بن گئی اور معاملہ ٹل گیا۔ مونس الٰہی خوشگوار طبیعت کے باذوق نوجوان ہیں، ان کو معلوم ہے کہ سیاست میں وعدے اور اصول کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ کسی سے بھی بحث نہیں کرتے، من موجی ہیں۔ اب زرداری صاحب کو پسند کرتے ہیں۔ میاں نوازشریف کے بارے میں رائے دینے سے گزیر کرتے ہیں۔ جنرل مشرف کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ اخباری لوگوں سے ذاتی رابطہ رکھتے ہیں۔ چوہدری شجاعت کے صوفی کی تربیت ان کو پسند نہیں۔ صوفی کو اکثرکہتے ہیں کہ اوئے صوفی سیاست میں کوئی صوفی نہیں ہوتا، سب کے سب فقیر ہوتے ہیں اور ہم سب سیاست کے فقیر ہیں اور عوام ہمارے پالن ہار ہیں اور یہی ان کی آئندہ کی سیاست کا نعرہ مستانہ نظر آ رہا ہے۔ چوہدری مونس الٰہی کیلئے ان کا سارا پریوار ہروقت صدقہ اور خیرات کرتا رہتاہے۔ اصل میں اشرافیہ کی سیاست اور تجارت نے ملکی معاملات میں خرابی پیدا کی ہے، اشرافیہ کا ورثہ تو نظر نہیں آتا مگر وراثت ان کا ترکہ ہے اور اسی وجہ سے جانشینی کی گنجائش نہیں مگر جہاں جمہوریت بہترین انتقام ہو،آئین بس دکھانے والی کتاب ہو وہاں سب جائز ہو سکتا ہے اور ہمارے تمام بحران اسی وجہ سے نظر آتے ہیں۔ سرکار کو عوام پر اعتبار نہیں۔ وہ عوام کی زندگی تنگ کرکے دعوے کرتی ہے کہ وہ عوامی ہے۔ اب عوام کو ان کے جانشینوں سے امید ہے کہ وہ ”جمہوریت بہترین“ انتقام کا نعرہ لگا کر سیاست میں انتقامی نظریہ کو مزید فروغ نہیں دیں گے۔ ریاست کے سب وسائل سب کیلئے ہوں گے۔ شاعر ضمیر کی کیا خوب سوچ ہے اورہمارے بحرانوں کی اصل وجہ بھی یہ ہے:
قانونی لاقانونی، آئینی بے آئینی ہے
سچ پوچھو روگ اپنا جمہوری تخت نشینی ہے
بس اس روگ کا علاج ہے انتخاب اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ علاج کون شروع کرتاہے۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
کالم کا لنک
 
Top