سچ گپ

یوسف-2

محفلین
such+gup-1.jpg


such+gup-2.jpg


such+gup-3.jpg


such+gup-4.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
سچ گپ
باتیں یا تو سچی ہوتی ہیں یا پھر جھوٹی یعنی گپ۔ لیکن کچھ باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو نہ تو سچی ہوتی ہیں اور نہ جھوٹی۔ ایسی باتوں کو سچ گپ کہا جاتا ہے۔ مثلاً کسی مخلوط محفل میں جب ایک صاحب نے ازراہ مزاح یہ کہہ دیا کہ دنیا کی سب سے بڑی گپ یہ ہے کہ ایک جگہ چند خواتین بیٹھی تھیں اور وہ سب خاموش تھیں۔ تو خواتین نے احتجاجاً شور مچانا شروع کر دیا۔ چنانچہ موصوف کو وضاحت کرنا پڑی کہ بھئی یہ گپ نہیں بلکہ سچ گپ ہے۔ خواتین نہ جانے کیا سمجھیں بہر حال خاموش ہو گئیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ملا دو پیازہ کی زوجہ محترمہ خاموش ہو گئی تھیں۔​
راوی کی روایت ہے کہ ملا دو پیازہ کے گھر کے باہر سے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آئیں تو وہ باہ رنکلے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دو افراد آپ میں دست و گریباں ہیں۔ ماجرا دریافت کرنے پر ایک نے اپنا دعویٰ ملا دو پیازہ کے گوش گزار کیا تو ملا بولے بھئی بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔ اس پر دوسرے نے احتجاج کیا کہ آپ نے میری بات تو سنی نہیں اور فیصلہ یکطرفہ سنا دیا۔ ملا کے استفسار پر دوسرے صاحب نے بھی اپنی رام کہانی سنائی تو ملا نے کہا : کہتے تو تم بھی ٹھیک ہی ہو۔ ملا کی بیوی جو دروازے سے لگی یہ ساری باتیں سن رہی تھی فوراً پکار اٹھیں : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دونوں کی باتیں درست بھی ہوں اور دونوں لڑ بھی رہے ہوں۔ ملا دو پیازہ تھوڑی دیر تک تو بیوی کی اس بات پر غور کرتے رہے۔ پھر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے بھاگوان! کہتی تو تم بھی ٹھیک ہو۔ اور یوں وہ اپنی بات کی تائید پر حسب سابق خاموش ہو گئیں۔ راوی بھی یہیں پر خاموش ہو جاتا ہے مگر گمان غالب ہے کہ ملا اور راوی کے رخصت ہونے کے بعد دونوں نے دوبارہ لڑنا شروع کر دیا ہو گا۔​
بالکل اسی طرح جیسے امریکہ کے ایک انتخابی جلسہ میں حاضرین جلسہ اپنے صدارتی امیدوار سے لڑ پڑے تھے۔ صدارتی امیدوار نے جوش خطابت میں کہیں یہ کہہ دیا کہ ہماری آدھی قوم بے وقوف ہے۔ حاضرین کے احتجاج پر فاضل مقرر نے اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آدھی امریکی قوم بے وقوف نہیں ہے۔ اس امریکی رہنما کی نظر میں آدھی قوم بے وقوف ہو یا نہ ہو مگر ہمارے ہاں کا تو ایک پاگل بھی اپنے آپ کو بے وقوف کہلانے پر راضی نہیں ہوتا۔ ایک صاحب کی گاڑی ایک پاگل خانے کے قریب پنکچر ہو گئی۔ وہ پنکچر وھیل کھول کر اسپئیر وھیل لگانے لگا تو پتہ چلا کہ پنکچر وھیل سے کھولے ہوئے سارے نٹ غائب ہیں۔ بہت تلاش کیا مگر نہ ملے۔ موصوف پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے کہ پاگل خانے کی سلاخوں کے پیچھے کھڑا ایک پاگل جو یہ سارا تماشہ دیکھ رہا تھا کہنے لگا آپ کے سارے نٹ تو ایک بچہ لے اُڑا۔ صاحب نے پوچھا۔ ارے کب؟ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ اب میں کیا کروں گا؟ پاگل بولا اب وہ بچہ تو ملنے سے رہا۔ آپ ایسا کریں کہ بقیہ تینوں وھیل سے ایک ایک نٹ کھول کر کام چلا لیں۔ موصوف نے حیرت کی نگاہوں سے پاگل کو دیکھا اور بولے بات تو تمہاری معقول ہے مگر تم تو پاگل ہو تم نے یہ بات کیسے سوچی؟ پاگل کہنے لگا۔ حضرت میں پاگل ضرور ہوں مگر آپ کی طرح بیوقوف نہیں۔​
 

شمشاد

لائبریرین
بات سچ گپ سے شروع ہوئی تھی اور پاگل کی عقل مندی تک آ پہنچی۔ مگر دیکھئے ہم اپنے موضوع سے پھر بھی نہیں ہٹے کہ پاگل کا بے وقوف ہونے سے انکار کرنا سچ گپ کی بہترین مثال ہے۔ اب ایک اور تقریب کی بات سنئے۔ اس موقع پر کسی ستم ظریف نے یہ اعلان کر دیا کہ جو اپنی بیوی سے نہیں ڈرتا اس کے لیے ایک ہزار روپے کا انعام رکھا جاتا ہے۔ تمام مرد حضرات خاموش ہو گئے اور خواتین میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ اس ستم ظریف نے پھر کہا کہ اپنی بیوی سے ڈرنے والے تمام مرد حضرات اپنی اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھ جائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام مرد اپنی اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھ گئی مگر ایک دبلا پتلا شخص سہما سہما سا اپنی بیوی کے ہمراہ کھڑا رہا۔ لوگوں نے اسے مبارکباد دی اور اس کی جرات کی تعریف کی کہ اتنے بڑے مجمع میں وہ واحد مرد ہے جو اپنی بیوی سے نہین ڈرتا۔ انعام کی رقم دینے سے قبل لوگوں نے اس کی بیوی سے تصدیق کی کہ کیا واقعی اس کا شوہر اس سے نہیں ڈرتا اور اسے کس بات سے اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھنے سے روکے رکھا۔ بیوی نے ایک نظر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور گویا ہوئی۔ میں نے اس کے کان میں کہہ دیا تھا کہ خبردار جو تم میرے قدموں میں بیٹھے، بس سیدھے کھڑے رہو۔ مجھے ایک ہزار روپے کی شدید ضرورت ہے۔​
آپ ماشاء اللہ خود سمجھدار ہیں لہذا ہمیں امید ہے کہ اس واقعہ پر کسی قسم کا تبصرہ ہر گز نہیں فرمائیں گے۔ نہ جانے آپ کی نصف بہتر کو کونسی بات ناگوار محسوس ہو۔ اور وہ آپ کے "بقیہ نصف" ہونے کا فادہ اٹھاتے ہوئے آپ پر حملہ آور ہو جائے اور آپ ہوائی حملہ سے بچاؤ کے مسلمہ اصول کے مطابق گھر میں خندق کی عدم دستیابی کی صورت میں پلنگ ہی کے نیچے جا بیٹھیں۔ ایسے میں اگر گڈو آپ کو ڈھونڈتا ہوا آپ تک پہنچ جائے تو پوچھ بیٹھے کہ ابو ابو کیا آپ بھی میری طرح امی سے ڈرتے ہیں اور آپ دائیں بائیں دیکھ کر آہستہ سے کہیں کہ نہیں بیٹے! ایسی تو کوئی بات نہیں۔ لازماً گڈو آپ سے پوچھے گا پھر آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اب آپ کے پاس اس کے سوا اور چارہ کیا ہو گا کہ بھئی یہ میرا گھر ہے۔ میری مرضی میں پلنگ کے اوپر بیٹھوں یا پلنگ کے نیچے۔ میں کوئی ملازم ہوں جو اپنی مرضی نہ چلا سکو۔ ملازم پر یاد آیا کہ کسی گھر کا ملازم روتا ہوا صاحب خانہ کے پاس آیا۔ صاحب نے پوچھا بھئی رو کیوں رہے ہیں۔ ملازم نے روتے ہوئے جواب دیا۔ بیگم صاحب نے مارا ہے۔ یہ سننا تھا کہ صاحب کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ ملازم رونا بھول کر انہیں حیرت سے دیکھنے لگا۔ صاحب نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے فرمایا : اس مین رونے والی کون سی بات ہے۔ ارے او احمق! کبھی ہمیں بھی روتے ہوئے دیکھا ہے۔​
دیکھئے دیکھئے! ہم آپ کو ہرگز ہرگز یہ اجازت نہیں دیں گے کہ اس آخر الذکر واقعہ پر آپ کوئی تبصرہ کریں کیونکہ ہم اس واقعہ کو نہ تو سچ مانتے ہیں نہ بالکل ہی گپ۔ البہ آپ کی آسانی اور مضمون ہذا کی رعایت سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ سچ گپ کی بہترین مثال ہے اور اسی کو کہتے ہیں سچ گپ۔​
************************​
 
Top