بات سچ گپ سے شروع ہوئی تھی اور پاگل کی عقل مندی تک آ پہنچی۔ مگر دیکھئے ہم اپنے موضوع سے پھر بھی نہیں ہٹے کہ پاگل کا بے وقوف ہونے سے انکار کرنا سچ گپ کی بہترین مثال ہے۔ اب ایک اور تقریب کی بات سنئے۔ اس موقع پر کسی ستم ظریف نے یہ اعلان کر دیا کہ جو اپنی بیوی سے نہیں ڈرتا اس کے لیے ایک ہزار روپے کا انعام رکھا جاتا ہے۔ تمام مرد حضرات خاموش ہو گئے اور خواتین میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ اس ستم ظریف نے پھر کہا کہ اپنی بیوی سے ڈرنے والے تمام مرد حضرات اپنی اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھ جائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام مرد اپنی اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھ گئی مگر ایک دبلا پتلا شخص سہما سہما سا اپنی بیوی کے ہمراہ کھڑا رہا۔ لوگوں نے اسے مبارکباد دی اور اس کی جرات کی تعریف کی کہ اتنے بڑے مجمع میں وہ واحد مرد ہے جو اپنی بیوی سے نہین ڈرتا۔ انعام کی رقم دینے سے قبل لوگوں نے اس کی بیوی سے تصدیق کی کہ کیا واقعی اس کا شوہر اس سے نہیں ڈرتا اور اسے کس بات سے اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھنے سے روکے رکھا۔ بیوی نے ایک نظر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور گویا ہوئی۔ میں نے اس کے کان میں کہہ دیا تھا کہ خبردار جو تم میرے قدموں میں بیٹھے، بس سیدھے کھڑے رہو۔ مجھے ایک ہزار روپے کی شدید ضرورت ہے۔
آپ ماشاء اللہ خود سمجھدار ہیں لہذا ہمیں امید ہے کہ اس واقعہ پر کسی قسم کا تبصرہ ہر گز نہیں فرمائیں گے۔ نہ جانے آپ کی نصف بہتر کو کونسی بات ناگوار محسوس ہو۔ اور وہ آپ کے "بقیہ نصف" ہونے کا فادہ اٹھاتے ہوئے آپ پر حملہ آور ہو جائے اور آپ ہوائی حملہ سے بچاؤ کے مسلمہ اصول کے مطابق گھر میں خندق کی عدم دستیابی کی صورت میں پلنگ ہی کے نیچے جا بیٹھیں۔ ایسے میں اگر گڈو آپ کو ڈھونڈتا ہوا آپ تک پہنچ جائے تو پوچھ بیٹھے کہ ابو ابو کیا آپ بھی میری طرح امی سے ڈرتے ہیں اور آپ دائیں بائیں دیکھ کر آہستہ سے کہیں کہ نہیں بیٹے! ایسی تو کوئی بات نہیں۔ لازماً گڈو آپ سے پوچھے گا پھر آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اب آپ کے پاس اس کے سوا اور چارہ کیا ہو گا کہ بھئی یہ میرا گھر ہے۔ میری مرضی میں پلنگ کے اوپر بیٹھوں یا پلنگ کے نیچے۔ میں کوئی ملازم ہوں جو اپنی مرضی نہ چلا سکو۔ ملازم پر یاد آیا کہ کسی گھر کا ملازم روتا ہوا صاحب خانہ کے پاس آیا۔ صاحب نے پوچھا بھئی رو کیوں رہے ہیں۔ ملازم نے روتے ہوئے جواب دیا۔ بیگم صاحب نے مارا ہے۔ یہ سننا تھا کہ صاحب کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ ملازم رونا بھول کر انہیں حیرت سے دیکھنے لگا۔ صاحب نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے فرمایا : اس مین رونے والی کون سی بات ہے۔ ارے او احمق! کبھی ہمیں بھی روتے ہوئے دیکھا ہے۔
دیکھئے دیکھئے! ہم آپ کو ہرگز ہرگز یہ اجازت نہیں دیں گے کہ اس آخر الذکر واقعہ پر آپ کوئی تبصرہ کریں کیونکہ ہم اس واقعہ کو نہ تو سچ مانتے ہیں نہ بالکل ہی گپ۔ البہ آپ کی آسانی اور مضمون ہذا کی رعایت سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ سچ گپ کی بہترین مثال ہے اور اسی کو کہتے ہیں سچ گپ۔
************************