سکتا تھا۔

رشید حسرت

محفلین
سکتا تھا۔


تیرا قرضہ اُتار سکتا تھا
دِل محبّت میں ہار سکتا تھا

کام محنت طلب نہ تھا ہرگز
مُجھ کو آنکھوں سے مار سکتا تھا

ایک میں گُونجتا تھا اُس بن میں
چار سُو میرے یار سکتہ تھا

سر ہی اُس کا قلم کیا میں نے
میری پگڑی اُتار سکتا تھا

غیر کو تُو نے دی صدا ورنہ
تُو مجھے بھی پُکار سکتا تھا

تُو نے دیکھا نہ آنکھ بھر مُجھ کو
جان آنکھوں پہ وار سکتا تھا

غم نہ پلٹا رشِیدؔ خیر ہوئی
اِک نیا رُوپ دھار سکتا تھا۔

رشِید حسرتؔ۔
 
Top