ام اویس
محفلین
فروری کے آخری دن تھے مارچ سے بچوں کے سکول میں نئے داخلے شروع ہونے والے تھے ۔ چھٹی کے دن ابوبکر ، حسن اور زیان نانو سے ملنے آئے ۔ سب اکٹھے بیٹھے باتیں کر رہے تھے تبھی زیان کی امی جان نے بتایا زیان چار سال کا ہوگیا ہے اس لیے اس سال وہ اسے سکول داخل کروا دیں گی ۔ زیان نے رونا شروع کر دیا نہیں میں سکول نہیں جاؤں گا ۔ آنسو اس کی گالوں پر بہہ رہے تھے اور وہ زور زور سے رو رہا تھا ۔ سب ایک دم پریشان ہوگئے ۔ ابوبکر نے زیان کو چُپ کرواتے ہوئے کہا بھلا تم سکول کیوں نہیں جاؤ گے سکول میں تو بہت مزا آتا ہے وہاں جھولے ہوتے ہیں پلے گروپ کے بچے کھلونوں سے کھیلتے ہیں اور پھر وہاں نئے نئے دوست بنتے ہیں بہت مزہ آتا ہے ۔ حسن بھی سر ہلا ہلا کر اس کی تائید کر رہا تھا ۔
زیان کی امی نے بتایا کہ جب بھی میں اس کے سامنے سکول جانے کا کہتی ہوں یہ رونے لگتا ہے ۔ نانو نے زیان کو اپنی گود میں بٹھا لیا ۔ اس کے آنسو صاف کیے اور اسے پیار کرتے ہوئے کہنے لگیں ۔
اچھے بچے سکول جاتے ہیں ۔ خوب پڑھتے ہیں اور اچھے انسان بنتے ہیں ۔ نانو نے کہا یہ آپ کے ماموں بیٹھے ہیں ان سے پوچھو کہ انہیں اپنے سکول کا پہلا دن یاد ہے ؟
ماموں جان نے ہنستے ہوئے بچوں کو بتایا مجھے سکول کا پہلا دن بہت اچھی طرح یاد ہے ۔ سکول میں پہلی جماعت میں داخلے کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو تھا ۔ اس سے پہلے میں دو سال ایک اکیڈمی میں پڑھنے جایا کرتا تھا جہاں کھیل بھی ہوتے تھے اور پڑھائی بھی ۔ وہاں مجھے سکول میں داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کروائی جاتی تھی مجھے سب کچھ اچھی طرح آتا تھا ۔
ٹیسٹ کے دن امی جان اور دادا ابو بھی میرے ساتھ تھے ۔ سکول بہت بڑا اور خوبصورت تھا چاروں طرف بڑے بڑے گراؤنڈ تھے اور درمیان میں بے شمار کمرے گولائی میں بنے ہوئے تھے ۔ کمروں کے سامنے کھلے برآمدے تھے ۔ برآمدوں میں جگہ جگہ خوبصورت اور رنگ برنگے گملے رکھے تھے جن میں پیارے پیارے پھول کھلے ہوئے تھے ۔ سکول کی دیواروں کا رنگ سرخ تھا اور انہیں مختلف رنگوں کے پینٹ سے سجایا گیا تھا ۔ کہیں علم کی فضیلت پر قرآن مجید اور احادیث سے منتخب کلمات اور ان کا ترجمہ لکھا تھا توکہیں قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصویر کے ساتھ ان کے فرمان لکھے تھے۔ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ وہاں بے شمار بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ ٹیسٹ دینے کے لیے آئے ہوئے تھے ۔ بڑے سے گراؤنڈ میں مختلف کھیلوں کے لیے چیزیں لگی ہوئی تھیں ایک طرف سوئمنگ پول بنا ہوا تھا ۔ ابھی میں یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک بچہ اپنی امی اور ابو کے ساتھ آیا اور تیزی سے بھاگتے ہوئے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا دی ۔ اس کی امی اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی اور اس بچے کے ابواسے آوازیں دے رہے تھے لیکن بچہ کچھ نہیں سن رہا تھا سیدھا دھڑام سے پانی میں کود گیا ۔ کچھ لوگ ہنسنے لگے میں بہت حیرانی سے ادھر دیکھ رہا تھا ۔ اس بچے کو اس کے امی ابو نے سوئمنگ پول سے باہر نکالا اور پھر اسی طرح گیلے کپڑوں میں وہ ٹیسٹ دینے پہنچ گیا ۔
ابوبکر ، حسن اور زیان حیرانی سے ماموں جان کا قصہ سُن رہے تھے ۔
پھر کیا ہوا ؟ ماموں جان
ابوبکر نے بے تابی سے پوچھا ۔
ماموں جان نے بتایا وہاں کچھ بچے ٹیسٹ کے ڈر سے رو رہے تھے ۔ جیسے زیان سکول کا نام سن کر رونے لگتا ہے ۔ امی جان نے کہا ادھر مت دیکھو آپ بہت بہادر بچے ہو اور آپ کو تو سب کچھ آتا ہے آپ احتیاط سے سارا پرچہ حل کرلینا ۔ میں نے جواب دیا ٹھیک ہے ۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے ڈر لگ رہا تھا ۔
حسن بولا ماموں جان آپ کو بھی ڈر لگا تھا ۔ ماموں نے کہا بھئی میں اس وقت ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور جیسے آپ لوگوں کو ڈر لگتا ہے مجھے بھی لگتا تھا ۔ سب ہنسنے لگے
اچھا پھر کیا ہوا ؟ نانو نے پوچھا
پھر یوں ہوا کہ سارے بچے اندر ایک بڑے سے ہال میں چلے گئے اور ان کے ماں باپ باہر رہ گئے ۔ سب بچوں کو بٹھا کر انہیں حل کرنے کے لیے پرچے دے دیے گئے ۔
میں نے آرام سے اپنا پرچہ کھولا اور اسے حل کرنا شروع کر دیا ۔ جب اردو کے حصے میں پہنچا تو جوڑ توڑ پر آکر اٹک گیا ۔ مجھے وہ لفظ لکھنا آتا تھا لیکن اس وقت بھول گیا ۔
وہ لفظ کیا تھا ؟ ابوبکر نے جلدی سے پوچھا
وہاں “میرا” لکھا ہوا تھا جس کا توڑ کرنا تھا ۔ اور میں چھوٹی ی اور بڑی ے کے بارے میں شک میں پڑ گیا کہ یہاں چھوٹی لکھنی ہے یا بڑی ۔
اسی وقت میں نے سر اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھا تو اپنے ساتھ والی لائن میں مجھے ایک بچہ روتا ہوا نظر آیا ۔۔۔ میں بھی گھبرا گیا میری آنکھوں میں آنسوآگئے اور میں رونے لگا
سب بڑے دھیان سے ماموں جان کی داستانِ غم سن رہے تھے زیان کی تو آنکھوں میں آنسو آنا شروع ہوگئے اور ابوبکر اور حسن کا منہ بھی رونے والا ہو گیا
پھر پھر کیا ہوا ابوبکر نے تیزی سے سوال کیا ؟
وہاں ایک استانی صاحبہ تھیں انہوں نے مجھے دیکھا تو کہا آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ میں نے انہیں بتایا مجھے یہ لفظ لکھنا نہیں آرہا ۔ انہوں نے مجھے پیار کیا اور کہا اس کو چھوڑ دو اور باقی پرچہ حل کرو جب یاد آجائے گا تو لکھ لینا انہوں نے مجھے ٹشو پیپر دیا اور کہا اپنا منہ صاف کرو اور شاباش اچھے بچوں کی طرح رونا بند کرو اورباقی پرچہ حل کرو ۔
مجھے کچھ تسلی ہوئی اور میں باقی پرچہ حل کرنے لگا ۔
کیا آپ نے اس لفظ کو صحیح کرلیا تھا ؟ حسن نے سوال کیا
جی ہاں جب میں پرچہ حل کررہا تھا تو اسی دوران مجھے یاد آگیا کہ اسے کیسے لکھنا ہے پھر میں نے اسے بھی صحیح لکھ لیا ۔
جب ہم باہرآئے تو جو بچہ اندر رو رہا تھا اس نے باہر آتے ہی زور سے میری امی جان اور دادا ابو کے سامنے اپنی امی سے کہا امی امی یہ بچہ اندر رو رہا تھا ۔ مجھے بہت غصہ آیا
امی جان نے مجھ سے پوچھا کیا آپ روئے تھے ؟
میں نے کہا میں تو اتنی زور سے نہیں رویا جیسے یہ بچہ خود اونچی آواز سے رو رہا تھا ۔
کیونکہ اس کے بعد انٹرویو بھی تھا اس لیے دادا ابو نے امی کواشارے سے منع کیا اور مجھے کہنے لگے میرا بچہ تو بہت بہادر ہے امی جان بھی ہنسنے لگیں ۔
کیا آپ کا انٹرویو بھی اسی دن ہوا ؟
ابوبکر نے پوچھا
دو گھنٹے کے بعد ہمارا انٹرویو بھی ہوا لیکن تب امی جان اور دادا ابو میرے ساتھ ہی تھے ۔ سکول کی ہیڈمسٹریس نے میرا انٹرویو لیا ۔ وہ جو بھی سوال پوچھتیں میں فورا کرسی پر سے کھڑا ہوجاتا اور جلدی سے جواب دے دیتا ۔ آخر انہوں نے کہا بیٹھے رہو لیکن میں پھر بھی ہر سوال کا جواب دینے کے لیے کھڑا ہوجاتا ۔
کیا آپ اس انٹرویو میں کامیاب ہوگئے ؟ ابوبکر نے ہوچھا
اور کیا وہ لڑکا جس نے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگائی تھی وہ بھی پاس ہوگیا تھا ؟
ہاں بھئی میرا داخلہ اس سکول میں ہی ہوا اور وہ لڑکا بھی میری کلاس میں تھا اور ہم جب بھی سوئمنگ کی کلاس لیتے اس کا مذاق بنایا کرتے تھے ۔
ماموں جان نے بتایا کہ سکول میں بہت مزا آتا ہے پڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف کھیل اور نئے بچوں سے دوستی کا بہت مزا آتا ہے ۔
زیان کیا آپ سکول پڑھنے جاؤ گے ؟ ماموں جان نے زیان سے پوچھا
جی میں بھی سکول جاؤں گا ۔ پڑھوں گا ، کھیلوں گا بھی اور پانی میں تیرنا بھی سیکھوں گا زیان نے بھر پور عزم سے جواب دیا ۔
زیان کی امی نے بتایا کہ جب بھی میں اس کے سامنے سکول جانے کا کہتی ہوں یہ رونے لگتا ہے ۔ نانو نے زیان کو اپنی گود میں بٹھا لیا ۔ اس کے آنسو صاف کیے اور اسے پیار کرتے ہوئے کہنے لگیں ۔
اچھے بچے سکول جاتے ہیں ۔ خوب پڑھتے ہیں اور اچھے انسان بنتے ہیں ۔ نانو نے کہا یہ آپ کے ماموں بیٹھے ہیں ان سے پوچھو کہ انہیں اپنے سکول کا پہلا دن یاد ہے ؟
ماموں جان نے ہنستے ہوئے بچوں کو بتایا مجھے سکول کا پہلا دن بہت اچھی طرح یاد ہے ۔ سکول میں پہلی جماعت میں داخلے کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو تھا ۔ اس سے پہلے میں دو سال ایک اکیڈمی میں پڑھنے جایا کرتا تھا جہاں کھیل بھی ہوتے تھے اور پڑھائی بھی ۔ وہاں مجھے سکول میں داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کروائی جاتی تھی مجھے سب کچھ اچھی طرح آتا تھا ۔
ٹیسٹ کے دن امی جان اور دادا ابو بھی میرے ساتھ تھے ۔ سکول بہت بڑا اور خوبصورت تھا چاروں طرف بڑے بڑے گراؤنڈ تھے اور درمیان میں بے شمار کمرے گولائی میں بنے ہوئے تھے ۔ کمروں کے سامنے کھلے برآمدے تھے ۔ برآمدوں میں جگہ جگہ خوبصورت اور رنگ برنگے گملے رکھے تھے جن میں پیارے پیارے پھول کھلے ہوئے تھے ۔ سکول کی دیواروں کا رنگ سرخ تھا اور انہیں مختلف رنگوں کے پینٹ سے سجایا گیا تھا ۔ کہیں علم کی فضیلت پر قرآن مجید اور احادیث سے منتخب کلمات اور ان کا ترجمہ لکھا تھا توکہیں قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصویر کے ساتھ ان کے فرمان لکھے تھے۔ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ وہاں بے شمار بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ ٹیسٹ دینے کے لیے آئے ہوئے تھے ۔ بڑے سے گراؤنڈ میں مختلف کھیلوں کے لیے چیزیں لگی ہوئی تھیں ایک طرف سوئمنگ پول بنا ہوا تھا ۔ ابھی میں یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک بچہ اپنی امی اور ابو کے ساتھ آیا اور تیزی سے بھاگتے ہوئے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا دی ۔ اس کی امی اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی اور اس بچے کے ابواسے آوازیں دے رہے تھے لیکن بچہ کچھ نہیں سن رہا تھا سیدھا دھڑام سے پانی میں کود گیا ۔ کچھ لوگ ہنسنے لگے میں بہت حیرانی سے ادھر دیکھ رہا تھا ۔ اس بچے کو اس کے امی ابو نے سوئمنگ پول سے باہر نکالا اور پھر اسی طرح گیلے کپڑوں میں وہ ٹیسٹ دینے پہنچ گیا ۔
ابوبکر ، حسن اور زیان حیرانی سے ماموں جان کا قصہ سُن رہے تھے ۔
پھر کیا ہوا ؟ ماموں جان
ابوبکر نے بے تابی سے پوچھا ۔
ماموں جان نے بتایا وہاں کچھ بچے ٹیسٹ کے ڈر سے رو رہے تھے ۔ جیسے زیان سکول کا نام سن کر رونے لگتا ہے ۔ امی جان نے کہا ادھر مت دیکھو آپ بہت بہادر بچے ہو اور آپ کو تو سب کچھ آتا ہے آپ احتیاط سے سارا پرچہ حل کرلینا ۔ میں نے جواب دیا ٹھیک ہے ۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے ڈر لگ رہا تھا ۔
حسن بولا ماموں جان آپ کو بھی ڈر لگا تھا ۔ ماموں نے کہا بھئی میں اس وقت ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور جیسے آپ لوگوں کو ڈر لگتا ہے مجھے بھی لگتا تھا ۔ سب ہنسنے لگے
اچھا پھر کیا ہوا ؟ نانو نے پوچھا
پھر یوں ہوا کہ سارے بچے اندر ایک بڑے سے ہال میں چلے گئے اور ان کے ماں باپ باہر رہ گئے ۔ سب بچوں کو بٹھا کر انہیں حل کرنے کے لیے پرچے دے دیے گئے ۔
میں نے آرام سے اپنا پرچہ کھولا اور اسے حل کرنا شروع کر دیا ۔ جب اردو کے حصے میں پہنچا تو جوڑ توڑ پر آکر اٹک گیا ۔ مجھے وہ لفظ لکھنا آتا تھا لیکن اس وقت بھول گیا ۔
وہ لفظ کیا تھا ؟ ابوبکر نے جلدی سے پوچھا
وہاں “میرا” لکھا ہوا تھا جس کا توڑ کرنا تھا ۔ اور میں چھوٹی ی اور بڑی ے کے بارے میں شک میں پڑ گیا کہ یہاں چھوٹی لکھنی ہے یا بڑی ۔
اسی وقت میں نے سر اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھا تو اپنے ساتھ والی لائن میں مجھے ایک بچہ روتا ہوا نظر آیا ۔۔۔ میں بھی گھبرا گیا میری آنکھوں میں آنسوآگئے اور میں رونے لگا
سب بڑے دھیان سے ماموں جان کی داستانِ غم سن رہے تھے زیان کی تو آنکھوں میں آنسو آنا شروع ہوگئے اور ابوبکر اور حسن کا منہ بھی رونے والا ہو گیا
پھر پھر کیا ہوا ابوبکر نے تیزی سے سوال کیا ؟
وہاں ایک استانی صاحبہ تھیں انہوں نے مجھے دیکھا تو کہا آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ میں نے انہیں بتایا مجھے یہ لفظ لکھنا نہیں آرہا ۔ انہوں نے مجھے پیار کیا اور کہا اس کو چھوڑ دو اور باقی پرچہ حل کرو جب یاد آجائے گا تو لکھ لینا انہوں نے مجھے ٹشو پیپر دیا اور کہا اپنا منہ صاف کرو اور شاباش اچھے بچوں کی طرح رونا بند کرو اورباقی پرچہ حل کرو ۔
مجھے کچھ تسلی ہوئی اور میں باقی پرچہ حل کرنے لگا ۔
کیا آپ نے اس لفظ کو صحیح کرلیا تھا ؟ حسن نے سوال کیا
جی ہاں جب میں پرچہ حل کررہا تھا تو اسی دوران مجھے یاد آگیا کہ اسے کیسے لکھنا ہے پھر میں نے اسے بھی صحیح لکھ لیا ۔
جب ہم باہرآئے تو جو بچہ اندر رو رہا تھا اس نے باہر آتے ہی زور سے میری امی جان اور دادا ابو کے سامنے اپنی امی سے کہا امی امی یہ بچہ اندر رو رہا تھا ۔ مجھے بہت غصہ آیا
امی جان نے مجھ سے پوچھا کیا آپ روئے تھے ؟
میں نے کہا میں تو اتنی زور سے نہیں رویا جیسے یہ بچہ خود اونچی آواز سے رو رہا تھا ۔
کیونکہ اس کے بعد انٹرویو بھی تھا اس لیے دادا ابو نے امی کواشارے سے منع کیا اور مجھے کہنے لگے میرا بچہ تو بہت بہادر ہے امی جان بھی ہنسنے لگیں ۔
کیا آپ کا انٹرویو بھی اسی دن ہوا ؟
ابوبکر نے پوچھا
دو گھنٹے کے بعد ہمارا انٹرویو بھی ہوا لیکن تب امی جان اور دادا ابو میرے ساتھ ہی تھے ۔ سکول کی ہیڈمسٹریس نے میرا انٹرویو لیا ۔ وہ جو بھی سوال پوچھتیں میں فورا کرسی پر سے کھڑا ہوجاتا اور جلدی سے جواب دے دیتا ۔ آخر انہوں نے کہا بیٹھے رہو لیکن میں پھر بھی ہر سوال کا جواب دینے کے لیے کھڑا ہوجاتا ۔
کیا آپ اس انٹرویو میں کامیاب ہوگئے ؟ ابوبکر نے ہوچھا
اور کیا وہ لڑکا جس نے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگائی تھی وہ بھی پاس ہوگیا تھا ؟
ہاں بھئی میرا داخلہ اس سکول میں ہی ہوا اور وہ لڑکا بھی میری کلاس میں تھا اور ہم جب بھی سوئمنگ کی کلاس لیتے اس کا مذاق بنایا کرتے تھے ۔
ماموں جان نے بتایا کہ سکول میں بہت مزا آتا ہے پڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف کھیل اور نئے بچوں سے دوستی کا بہت مزا آتا ہے ۔
زیان کیا آپ سکول پڑھنے جاؤ گے ؟ ماموں جان نے زیان سے پوچھا
جی میں بھی سکول جاؤں گا ۔ پڑھوں گا ، کھیلوں گا بھی اور پانی میں تیرنا بھی سیکھوں گا زیان نے بھر پور عزم سے جواب دیا ۔