محسن وقار علی
محفلین
عیسیٰ گل 1975ء میں پیدا ہوا۔ اس کے والد، سعد محمد شاہ ضلع سکھر کی ایک مسجد میں امام اور علاقے کے معزز مذہبی شخصیت تھے۔ ان کے نو بچے تھے اور وہ سب سے یکساں سلوک کرتے۔ رفتہ رفتہ عیسیٰ بڑا ہوا اور باہر نکلا تو لوگ اسے مذاق کرتے اور تضحیک کا نشانہ بنانے لگے۔ بڑے بھائی اس کے ساتھ بازار جاتے، تو دور دور رہتے۔ وہ عیسیٰ سے نفرت کرتے تھے۔ شروع میں عیسیٰ گل کو سمجھ نہ آئی کہ وہ تضحیک اور نفرت کا نشانہ کیوں بنتا ہے؟ لیکن جلد ہی وجہ جان گیا ، وہ مرد ہے نہ عورت بلکہ مخنث ہے۔ لیکن والدین کی نظر میں تو وہ ان کا چاند تارا تھا۔ چنانچہ بھائی اس سے کراہت آمیز سلوک کرتے، تو باپ انہیں ڈانٹتا ۔ سعد محمد پھر عیسی گل کو قرآن پاک حفظ کرانے لگا اور دینی باتیں بتاتا۔عیسیٰ گل باشعور انسان میں ڈھل رہا تھا کہ 1994ء میں یکے بعد دیگرے اس کے والدین فوت ہوگئے۔ یہ عمل عیسیٰ گل کے لیے مصائب کا پیغام لے آیا۔ سب سے پہلے بھائیوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔ظلم یہ کیا کہ عیسیٰ گل کو جائیداد میں سے حصہ بھی نہ دیا۔وہ پھر پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر ایک ہوٹل میں کام کرنے لگا۔ مگر وہاں اوباش لوگ اسے تنگ کرتے ۔ جب مالکان دیکھتے کہ اس کی وجہ سے شریف گاہک ہوٹل آنا چھوڑ دیتے، تو وہ عیسیٰ کی چھٹی کر ڈالتے۔ ظاہر ہے، وہ اپنے گاہک توڑنا نہیں چاہتے تھے۔ جب عیسیٰ گل کو کہیں ملازمت نہ ملی، تو وہ مجبوراً مقامی مخنثوںکے ساتھ رہنے لگا۔ وہ ان کے ساتھ تقریبات میں ناچتا یا گلی گلی جاکر بھیک مانگتا۔ لیکن ان کا نامناسب ماحول اسے کاٹ کھانے کو دوڑتا، وہ ذہنی لحاظ سے بہت مختلف تھا۔ مخنثوں کے ساتھ رہتے ہوئے ہی عیسی کو احساس ہوا کہ یہ معاشرے کا بڑا ستم رسیدہ طبقہ ہے۔ سبھی لوگ انہیں حقارت سے دیکھتے اور نیچ انسان سمجھتے۔ خصوصاً بوڑھے مخنثوں کا کوئی والی وارث نہ ہوتا اور وہ بڑی جسمانی و روحانی تکالیف اٹھاتے۔ ان کے مسائل دیکھتے ہوئے باشعور عیسیٰ گل نے طے کیا کہ وہ اس طبقے کی مدد کرے اور حقوق کی خاطر آواز اٹھائے گا۔ تب تک وہ اپنا نسوانی نام، صنم رکھ چکا تھا۔ اس نے ایک ہمدرد دکان دار سے رقم ادھار لی، کوئٹہ جاکر شالیں خریدیں اور واپس آکر انہیں سکھر فروخت کرنے لگا۔ اس کاروبار میں اسے معقول فائدہ ہوا۔اس نے ناچ گانے کو خیرباد کہا اور کاروبار کرکے پیٹ پالنے لگا۔ یوں اپنی ذہانت، محنت اور دلیری کے بل پر صنم معاشرے میں معزز مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ 2002ء میں اپنے خواب کو عملی جامہ پہناتے ہوئے صنم نے ایک فلاحی تنظیم، صنم فقیر ویلفیئر ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ تب تک وہ علاقے میں ’’صنم فقیر‘‘ کہلانے لگا تھا۔ (فقیر کے عام معنی گداگر یا بھکاری کے ہیں۔ مگر دیہی سندھ میں درویش یا قلندر کو فقیر کہتے ہیں۔) وہ پھر مخنثوں کے علاوہ غریبوں کی فلاح وبہبود کے لیے بھی متفرق اقدامات اٹھانے لگا۔ تنظیم کے زیراہتمام کمپیوٹر سکھانے والا ادارہ کھولا گیا۔ وہاںمخنث کمپیوٹر چلانے کے علاوہ روایتی تعلیم بھی سیکھتے ہیں۔ اس نے پھر بوڑھے مخنثوںکا علاج کرایا۔ معذوروں کوٹرائی سائیکلیں لے کر دیں اور غریبوں کی مالی مدد کرنے لگا۔ چونکہ نیت نیک تھی لہٰذا جلد اسے مخیر ہستیوں کا مالی تعاون حاصل ہوگیا۔ پچھلے دنوں صنم فقیر نے ایک قدم مزید بڑھایا اور اعلان کیا کہ وہ سکھر سے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑے گا۔ صنم فقیر کو علاقے کے سیکڑوںلوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ وہ اسمبلی میں اپنا ایسا نمائندہ چاہتے ہیں جو ان کے کام کرائے، چاہے وہ مخنث ہی ہو۔ وہ ایسا امیدوار نہیں چاہتے جو ووٹ لینے کے بعد یوں غائب ہوتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ صنم فقیراپنے انتخابی منشور کا اعلان کرچکا۔ وہ اسمبلی میں پہنچ کر ایسے قوانین منظور کرانا چاہتا ہے جو غریبوں کو صحت و تعلیم کی سہولیات دیں، نیز خواتین اور خواجہ سرائوں کو ان کے حقوق دلوائیں۔ انتخابات میں پیپلزپارٹی کے امیدوار،ڈاکٹر نصر اللہ بلوچ سے صنم کا سخت مقابلہ متوقع ہے۔ واضح رہے ، بعض ممالک میں مخنث پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوچکے ، بلکہ شہروں کے میئر بھی رہے۔ مثلاً نیوزی لینڈ میں ایک مخنث، جیوریجنا باسٹر 1999ء تا 2007ء رکن پارلیمنٹ رہا۔ برطانوی شہر، کیمبرج میں ایک مخنث ،مس بیلی میئرمنتخب ہوا۔ امریکی شہر سلورٹن میں بھی سٹو راسموسین نامی خواجہ سرا میئر رہا۔ اب صنم فقیر بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سندھ اسمبلی میں پہنچنا چاہتا ہے۔ اگر اسے پی پی 1سکھر کے عوام کی حمایت حاصل ہوگئی تو اس کا یہ خواب بھی عملی جامہ پہن سکتا ہے۔
بہ شکریہ روزنامہ دنیا