سکھی تُو ہیر جیسی ہے۔ فاخرہ بتول

ماہی احمد

لائبریرین
سکھی تُو ہیر جیسی ہے
کہانی پھر چلی آئی مجھے ملنے،
سکھی!کیسے گزرتی ہے؟
میرے ہونٹوں پہ تالے دیکھ کر وہ چونک سی اٹھی،
وہ کچھ پل سوچ کر بولی،
سکھی تو ہیر جیسی ہے،
سکھی! تو زہر کا پی کر پیالہ جی رہی ہے کیوں؟
تیرا "رانجھا" تو "قیدو" سے بھی کچھ بڑھ کر ہی تھا شاید
سکھی اچھا تھا۔۔۔تو کھیڑوں کے ہی گھرکو بسا لیتی،
انہیں اپنا بنا لیتی، انہیں ہی آزما لیتی،
سکھی تو ٹوٹتی جڑتی ہوئی زنجیر جیسی ہے
مِٹی تحریر جیسی ہے، لُٹی جاگیر جیسی ہے
سکھی تو ہیر جیسی ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

عمر سیف

محفلین
سکھی تو ٹوٹتی جڑتی ہوئی زنجیر جیسی ہے
مِٹی تحریر جیسی ہے، لُٹی جاگیر جیسی ہے
سکھی تو ہیر جیسی ہے۔۔۔

بہت خوب
 
Top