با ادب
محفلین
سہانے ڈھول
اتنے سے پیسوں میں گزارا ہو جاتا ہے کیا ؟؟
وہ جھکے سر اورخوشی سے بھرے دل کے ساتھ دوپٹے پہ ستارے ٹانک رہی تھی ۔ انجان اور بے خبر
اسکی شادی میں اتنی دور سے وہ ملنے آئی تھیں ۔ کہتی تھیں پرستار ہیں اسکی ۔۔۔۔
بھلا کیسے کوئی پرستار ہوگیا ۔۔ لوگ بھی جانے کیسے کیسے ہوتے ہیں ۔ بیٹھے بٹھائے دل لگا بیٹھتے ہیں
بغیر جانے ' بغیر دیکھے اور بغیر سنے
" کسی کے لفظوں سے بھی عشق ہوجاتا ہے کیا ؟؟ "
اس نے سوچا ۔ اور جواب آیا
عشق لفظوں سے نہیں ہوتا ۔ اس تخیل سے ہو جاتا ہے جو لفظ پڑھنے والے نے باندھ لیا ہوتا ہے ۔
آپ لفظ پڑھتے ہیں ۔ مسحور کن ۔۔
تو لگتا ہے لکھنے والے بھی ساحر ہونگے
لفظوں سے دکھ ٹپکے تو قاری اس دردرکھنے والے کے لیے بلک اٹھتا ہے کہ وہ کہیں ملے کہیں تو دکھائی دے ان ہی کے پاس تو مرہم ہے درد کا ۔
لکھنے والا رومان لکھے تو پڑھنے والا جانتا ہے انھی سب جذبوں سے لکھنے والے کو گوندھا گیا ہے ۔
اور جب وہ بلند اخلاق ' اونچے آدرشوں والے کردار تخلیق کرتے ہیں تو لوگ انھیں ہی دیوتا مان لیتے ہیں ۔
کتابیں جادو نگر ہیں ۔ ہمیں وہیں تو لے جاتی ہیں جہاں ہم جانا چاہتے ہیں ۔ حقیقت کی دنیا سے دور خوابوں کے نگر میں
تو بس یہ بھی ملنے چلی آئیں خواب لکھنے والی کو دیکھنے اس سے ملنے ۔۔۔
اول جلول بکھری بکھری عجیب پگلی سی ۔۔۔ اسے دیکھ کے انھیں پہلا جھٹکا لگا تھا ۔
وہ تو سوچ کے آئی تھیں میدے اے بنی مورت ہوگی ۔ سلیقہ شعار ہنر مند اعلیٰ خاندان طمطراق سے جیتی ہونگی
لیکن سب تصور ٹوٹ گئے تھے ۔ وہ قلمی دوستیں تھیں ۔ ایک دوسرے کے لفظ پڑھتی تھیں ۔ اور لفظ پڑھتے پڑھتے بھول گئی تھیں دنیا لفظ کہاں دیکھتی ہے ۔
یہ تو مال و دولت جاہ و حشمت کی پجاری ہے ۔
بھلا لفظوں سے پیٹ بھرتے ہیں کیا ؟؟
ڈھولک بجی تو دور پار سے آئی مہمان کا جی چاہا تھا ڈھولکی بجائے لیکن اس تنگ اور چھوٹے سے گھر میں اس کا دم گھٹا جاتا تھا ۔
وہ ڈھولک کی تھاپ سے اٹھ کر لفظوں کی ساحرہ کے پاس آن رکی تھی ۔
تم بہت پیارا لکھتی ہو ۔۔۔
اچھا ۔۔۔ وہ کھلکھلا کے ہنس دی ۔۔
پیارا لکھنا اور سب کچھ پیارا ہونے میں فرق ہوتا ہے ۔ مجھے لگتا ہے تم نے یہاں آکے غلطی کر دی ۔ایک تصور کو خوش رہنے کے لیے چھوڑ دیتی تو بھلا کیا بگڑنا تھا ۔ لیکن نہیں ۔۔ تم مانتی کب ہو ۔۔ چلی آئی اوراب بیٹھی پچھتا رہی ہو ۔
نہیں ! میں پچھتا تو نہیں رہی ۔ وہ پھیکی ہنسی لیے مسکرائی ۔ بس سوچ رہی ہوں تم یہاں کیسے رہ لیتی ہو ۔
اس نے دوپٹے پہ ستارے ٹانکتے اسکی آنکھوں میں جھانکا ۔۔۔
کیسی بے یقین آنکھیں تھیں ۔
سنو ! یہ تو میں بھی نہیں جانتی لیکن مجھے لگتاہے میں کہیں بھی رہ لونگی ۔ یہ اہم نہیں کہ رہنے کے لیے جگہ کیسی ہے ۔ اہم یہ ہے کہ ساتھ رہنے والے کیسے ہیں ۔ انکے دل ہیرے ہیں گھر بھلے نہ ہوں
اور وہ جو تمھارا سسرال ہے وہ بھی ایسا ہی ہے ؟
نہیں اس سے بھی گیا گزرا ہے ۔ میاں چار پیسے بمشکل کماتے ہیں ۔
تو کیا اتنے پیسوں میں گزارا ہو جائے گا ؟؟
اور وہ جو دنیا جہان بھلائے بیٹھی خوشی خوشی ستارے ٹانک رہی تھی اس نے دیکھا ہی نہیں تب کیسے سوال کرنے والی کا دل ڈوب گیا تھا ۔
سر جھکائےجھکائےبول اٹھی ۔۔۔
گزارا تو اس سے کم میں بھی ہو سکتا ہے ۔ ہاں خواہشات تو قارون کے خزانے سے بھی پوری نہیں ہوتیں ۔۔۔۔
اور لفظوں کو چاہنے والی آج پہلی مرتبہ ان لفظوں سے وحشت محسوس کر رہی تھی ۔
نہیں نہیں یہ غلیظ چھوٹے گھر میں رہنے والی وہ نہیں جسکے لفظ میں نے پڑھے تھے ۔ جو لکھتی تو لگتا دل کھینچ لے گی ۔ وہ یہ لڑکی کیسے ہو سکتی ہے جس کی آنکھوں کے گرد گہرے حلقے تھے جس کی اانگلیاں سخت مشقت سے کھردری اور بے جان تھیں ۔ جسکا سیاہی مائل رنگ اس قدر خوف ناک تھا کہ اسے لگا چند ثانیے بھی اسے مزید دیکھا تو اسے اس سے نفرت ہو جائے گی ۔
اسکے سامنے کھڑی وہ کسی دیس کی ملکہ دکھائی دے رہی تھی ۔ اور ملکہ ملک کی ادنیٰ رعایا کو تخت پہ اپنے پاس لا بٹھائے یہ بھلا اسے کیسے گوارا ہو سکتا تھا ۔ ملوکیت کا تصور ہی رعیت کو اسکے مقام پہ رکھنا ہے ۔ شاہ و گدا کا فرق ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے ۔ ایسی مساوات جس میں رعایا بادشاہ کے برابر آن بیٹھے اپنے پیلےہوتے بے جان وجوداور غربت زدہ نحوست سمیت ' بادشاہ کے مَلک کو چاٹ جاتی ہے ۔
ملکہ کے تاج کا راز یہی ہے کہ وہ دولت کے ترازو میں سب سے اوپر ہو ۔
پس اس نے بھی فیصلہ کر لیا تھا ۔ جس لفظوں کی ساحرہ کو اس نے پوجا تھا اسے اسکے لفظوں سمیت وہاں سے دھکا دے کر گرا دیا جائے ۔ کیونکہ لفظوں سے نہ تو پیٹ بھرتے ہیں ۔
نہ ہی وہ رتبہ و مقام ملتا ہے جوبادشاہوں کا خاصہ ہے ۔
ادیب کی جھولی میں داد سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اور داد کی قیمت جنس کے بازار میں کوئی نہیں ۔
ادیبہ نے اپنی پجارن کو لوٹتے دیکھا ۔مسکرائی اور اپنے آنچل کو پھر سے اپنے ہاتھوں تاروں سے بھرنے لگی
سمیرا امام
اتنے سے پیسوں میں گزارا ہو جاتا ہے کیا ؟؟
وہ جھکے سر اورخوشی سے بھرے دل کے ساتھ دوپٹے پہ ستارے ٹانک رہی تھی ۔ انجان اور بے خبر
اسکی شادی میں اتنی دور سے وہ ملنے آئی تھیں ۔ کہتی تھیں پرستار ہیں اسکی ۔۔۔۔
بھلا کیسے کوئی پرستار ہوگیا ۔۔ لوگ بھی جانے کیسے کیسے ہوتے ہیں ۔ بیٹھے بٹھائے دل لگا بیٹھتے ہیں
بغیر جانے ' بغیر دیکھے اور بغیر سنے
" کسی کے لفظوں سے بھی عشق ہوجاتا ہے کیا ؟؟ "
اس نے سوچا ۔ اور جواب آیا
عشق لفظوں سے نہیں ہوتا ۔ اس تخیل سے ہو جاتا ہے جو لفظ پڑھنے والے نے باندھ لیا ہوتا ہے ۔
آپ لفظ پڑھتے ہیں ۔ مسحور کن ۔۔
تو لگتا ہے لکھنے والے بھی ساحر ہونگے
لفظوں سے دکھ ٹپکے تو قاری اس دردرکھنے والے کے لیے بلک اٹھتا ہے کہ وہ کہیں ملے کہیں تو دکھائی دے ان ہی کے پاس تو مرہم ہے درد کا ۔
لکھنے والا رومان لکھے تو پڑھنے والا جانتا ہے انھی سب جذبوں سے لکھنے والے کو گوندھا گیا ہے ۔
اور جب وہ بلند اخلاق ' اونچے آدرشوں والے کردار تخلیق کرتے ہیں تو لوگ انھیں ہی دیوتا مان لیتے ہیں ۔
کتابیں جادو نگر ہیں ۔ ہمیں وہیں تو لے جاتی ہیں جہاں ہم جانا چاہتے ہیں ۔ حقیقت کی دنیا سے دور خوابوں کے نگر میں
تو بس یہ بھی ملنے چلی آئیں خواب لکھنے والی کو دیکھنے اس سے ملنے ۔۔۔
اول جلول بکھری بکھری عجیب پگلی سی ۔۔۔ اسے دیکھ کے انھیں پہلا جھٹکا لگا تھا ۔
وہ تو سوچ کے آئی تھیں میدے اے بنی مورت ہوگی ۔ سلیقہ شعار ہنر مند اعلیٰ خاندان طمطراق سے جیتی ہونگی
لیکن سب تصور ٹوٹ گئے تھے ۔ وہ قلمی دوستیں تھیں ۔ ایک دوسرے کے لفظ پڑھتی تھیں ۔ اور لفظ پڑھتے پڑھتے بھول گئی تھیں دنیا لفظ کہاں دیکھتی ہے ۔
یہ تو مال و دولت جاہ و حشمت کی پجاری ہے ۔
بھلا لفظوں سے پیٹ بھرتے ہیں کیا ؟؟
ڈھولک بجی تو دور پار سے آئی مہمان کا جی چاہا تھا ڈھولکی بجائے لیکن اس تنگ اور چھوٹے سے گھر میں اس کا دم گھٹا جاتا تھا ۔
وہ ڈھولک کی تھاپ سے اٹھ کر لفظوں کی ساحرہ کے پاس آن رکی تھی ۔
تم بہت پیارا لکھتی ہو ۔۔۔
اچھا ۔۔۔ وہ کھلکھلا کے ہنس دی ۔۔
پیارا لکھنا اور سب کچھ پیارا ہونے میں فرق ہوتا ہے ۔ مجھے لگتا ہے تم نے یہاں آکے غلطی کر دی ۔ایک تصور کو خوش رہنے کے لیے چھوڑ دیتی تو بھلا کیا بگڑنا تھا ۔ لیکن نہیں ۔۔ تم مانتی کب ہو ۔۔ چلی آئی اوراب بیٹھی پچھتا رہی ہو ۔
نہیں ! میں پچھتا تو نہیں رہی ۔ وہ پھیکی ہنسی لیے مسکرائی ۔ بس سوچ رہی ہوں تم یہاں کیسے رہ لیتی ہو ۔
اس نے دوپٹے پہ ستارے ٹانکتے اسکی آنکھوں میں جھانکا ۔۔۔
کیسی بے یقین آنکھیں تھیں ۔
سنو ! یہ تو میں بھی نہیں جانتی لیکن مجھے لگتاہے میں کہیں بھی رہ لونگی ۔ یہ اہم نہیں کہ رہنے کے لیے جگہ کیسی ہے ۔ اہم یہ ہے کہ ساتھ رہنے والے کیسے ہیں ۔ انکے دل ہیرے ہیں گھر بھلے نہ ہوں
اور وہ جو تمھارا سسرال ہے وہ بھی ایسا ہی ہے ؟
نہیں اس سے بھی گیا گزرا ہے ۔ میاں چار پیسے بمشکل کماتے ہیں ۔
تو کیا اتنے پیسوں میں گزارا ہو جائے گا ؟؟
اور وہ جو دنیا جہان بھلائے بیٹھی خوشی خوشی ستارے ٹانک رہی تھی اس نے دیکھا ہی نہیں تب کیسے سوال کرنے والی کا دل ڈوب گیا تھا ۔
سر جھکائےجھکائےبول اٹھی ۔۔۔
گزارا تو اس سے کم میں بھی ہو سکتا ہے ۔ ہاں خواہشات تو قارون کے خزانے سے بھی پوری نہیں ہوتیں ۔۔۔۔
اور لفظوں کو چاہنے والی آج پہلی مرتبہ ان لفظوں سے وحشت محسوس کر رہی تھی ۔
نہیں نہیں یہ غلیظ چھوٹے گھر میں رہنے والی وہ نہیں جسکے لفظ میں نے پڑھے تھے ۔ جو لکھتی تو لگتا دل کھینچ لے گی ۔ وہ یہ لڑکی کیسے ہو سکتی ہے جس کی آنکھوں کے گرد گہرے حلقے تھے جس کی اانگلیاں سخت مشقت سے کھردری اور بے جان تھیں ۔ جسکا سیاہی مائل رنگ اس قدر خوف ناک تھا کہ اسے لگا چند ثانیے بھی اسے مزید دیکھا تو اسے اس سے نفرت ہو جائے گی ۔
اسکے سامنے کھڑی وہ کسی دیس کی ملکہ دکھائی دے رہی تھی ۔ اور ملکہ ملک کی ادنیٰ رعایا کو تخت پہ اپنے پاس لا بٹھائے یہ بھلا اسے کیسے گوارا ہو سکتا تھا ۔ ملوکیت کا تصور ہی رعیت کو اسکے مقام پہ رکھنا ہے ۔ شاہ و گدا کا فرق ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے ۔ ایسی مساوات جس میں رعایا بادشاہ کے برابر آن بیٹھے اپنے پیلےہوتے بے جان وجوداور غربت زدہ نحوست سمیت ' بادشاہ کے مَلک کو چاٹ جاتی ہے ۔
ملکہ کے تاج کا راز یہی ہے کہ وہ دولت کے ترازو میں سب سے اوپر ہو ۔
پس اس نے بھی فیصلہ کر لیا تھا ۔ جس لفظوں کی ساحرہ کو اس نے پوجا تھا اسے اسکے لفظوں سمیت وہاں سے دھکا دے کر گرا دیا جائے ۔ کیونکہ لفظوں سے نہ تو پیٹ بھرتے ہیں ۔
نہ ہی وہ رتبہ و مقام ملتا ہے جوبادشاہوں کا خاصہ ہے ۔
ادیب کی جھولی میں داد سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اور داد کی قیمت جنس کے بازار میں کوئی نہیں ۔
ادیبہ نے اپنی پجارن کو لوٹتے دیکھا ۔مسکرائی اور اپنے آنچل کو پھر سے اپنے ہاتھوں تاروں سے بھرنے لگی
سمیرا امام