حسان خان
لائبریرین
رستم اور سہراب کی داستان شاہنامۂ فردوسی کی مشہورترین داستانوں میں سے ہے۔ داستان کے مطابق، سہراب کو جب اُس کی ماں تہمینہ آگاہ کرتی ہے کہ وہ رستم کا بیٹا ہے، تو وہ یہ بات سن کر بہت خوش ہوتا ہے اور اپنے باپ سے ملاقات کے لیے لشکر لے کر ایران کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔ اُس کی نیت یہ تھی کہ وہ ایرانی شہنشاہ کو جنگ میں شکست دے کر اُس کی جگہ پر اپنے باپ رستم کو تخت پر بٹھائے گا۔ مشکل صرف یہ تھی کہ سہراب اور رستم ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے تھے۔ اس لیے یہ المیہ ہوا کہ دورانِ جنگ رستم کے ہاتھوں اُس کا اپنا بیٹا سہراب مارا جاتا ہے۔ جب سہراب کے مارے جانے کی خبر اُس کی ماں تہمینہ تک پہنچی تو اُس کی آہ و زاری کا فردوسی نے یوں نقشہ کھینچا ہے۔
(حُسن سے عاری اردو ترجمہ: ماں کو خبر دی گئی کہ دلاور سہراب اپنے باپ کی تیغ سے مجروح ہو کر مارا گیا ہے۔ (اُس نے یہ سن کر) اپنے جوان بچے کی یاد میں روتے ہوئے فریاد بلند کی، وہ مضطرب ہوئی، اور اُس نے اپنا جامہ پھاڑ ڈالا۔ اُس نے بانگ بلند کی اور چیخیں ماریں۔۔ وقفے وقفے سے وہ بے ہوش ہوتی رہی۔۔ اُس نے آنکھوں میں ناخن ڈال کر اپنی آنکھیں نکالیں اور انہیں آگ میں پھینک ڈالا۔۔۔ پھر اپنی گھمائی ہوئی کمند جیسی زلفوں کو انگلیوں میں لپیٹا اور اُنہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ سر پر آگ مشتعل کی اور اپنے سارے سیاہ بال آگ میں جلا ڈالے۔ وہ کہے جا رہے تھی کہ اے جانِ مادر! اس وقت کہاں خاک و خون میں آغشتہ پڑے ہو؟ میں اس وقت کسے آغوش میں لوں کہ میرے بدن کو غم گسار کی حاجت ہو رہی ہے۔ اے لشکر کی پناہ پہلوان! تم تو پدر کی تلاش کر رہے تھے لیکن پدر کے بجائے تمہاری قبر راستے میں آ گئی۔ ہائے میں کیوں تمہارے ساتھ سفر نہ کر رہی تھی!! ورنہ تم اس گھومنے والی دنیا میں مشہور ہو جاتے۔۔۔ مجھے رستم دور ہی سے پہچان لیتا اور میرے ساتھ تمہیں بھی نوازتا۔ وہ تیغ پھینک دیتا اور پھر تمہارے بدن کو یوں نہ چیرتا۔۔۔ وہ یہ سب کہہ رہی تھی اور آزردہ ہو رہی تھی اور اپنے بال نوچ رہی تھی۔۔۔ وہ اپنے زیبا چہرے پر طمانچے مارے جا رہی تھی۔۔۔ اُس نے اپنے خونِ جگر سے پانی لال کر دیا تھا۔۔۔ پھر وہ سہراب کے گھوڑے کو اپنے پاس لائی اور اُس کے سر کو آغوش میں لے لیا۔۔۔ سارا جہاں اُس پر متعجب رہ گیا تھا۔۔۔ کبھی وہ اُس گھوڑے کے سر پر بوسہ کرتی تھی تو کبھی چہرے پر۔۔۔ گھوڑے کے قدموں تلے خون کی نہر جاری تھی۔۔۔ وہ سہراب کا شاہانہ جامہ لائی اور اُسے اپنے فرزند کی طرح گلے لگایا۔ پھر وہ اُس کی زرہ اور کمان لائی، ساتھ میں نیزہ، تیغ اور بھاری گرز بھی لائی۔ وہ سر پر بھاری گرز مارے جاتی تھی اور اپنے جوان بیٹے کے قد و قامت کو یاد کرتی جاتی تھی۔ پھر وہ زین، لگام اور سپر لائی اور لگام اور سپر سے بھی سر پر ضربیں لگاتی رہی۔ اُس نے اتنی گریہ و زاری کی کہ تمام لوگوں کی آنکھیں شبنم سے پُر ہو گئیں۔ وہ روز و شب نوحہ کرتی تھی اور رویا کرتی تھی۔ سہراب کی موت کے بعد وہ بس ایک سال ہی زندہ رہی۔ بالآخر وہ بھی سہراب کے غم میں مر گئی اور اُس کی روح سہراب پہلوان کی جانب روانہ ہو گئی۔
به مادر خبر شد كه سهراب گرد
ز تیغ پدر خسته گشت و بمرد
خروشید و جوشید و جامه درید
به زاری بر آن كودک نارسید
برآورد بانگ و غریو و خروش
زمان تا زمان زو همیرفت هوش
فرو برد ناخن دو دیده بکند
برآورد بالا، در آتش فگند
مر آن زلف چون تابداده کمند
به انگشت پیچید و از بن بکند
به سر برفکند آتش و برفروخت
همه موی مشکین به آتش بسوخت
همیگفت کای جان مادر کنون
کجایی سرشته به خاک و به خون؟!
کنون من که را گیرم اندر کنار
که خواهد بدن مر مرا غمگسار
پدر جستی ای گرد لشکر پناه
به جای پدر گورت آمد به راه
چرا نامدم با تو اندر سفر
که گشتی به گردان گیتی سمر
مرا رستم از دور بشناختی
ترا با من ای پور بنواختی
بینداختی تیغ، آن سرفراز
نکردی جگرگاهت ای پور باز
همیگفت و میخست و میکند موی
همیزد کف دست بر خوب روی
ز خون جگر کرد لعل آب را
به پیش آورید اسب سهراب را
سر اسب او را به بر در گرفت
بمانده جهانی بر او بر شگفت
گهی بوسه زد بر سرش، گه به روی
ز خون زیر سُمش همیراند جوی
بیاورد آن جامهٔ شاهوار
گرفتش چو فرزند اندر کنار
بیاورد خفتان و درع و کمان
همان نیزه و تیغ و گرز گران
بسر بر همیزد گران گرز را
همییاد کرد آن بر و برز را
بیاورد زین و لگام و سپر
لگام و سپر را همیزد به سر
ز بس كو همی شیون و ناله كرد
همه خلق را چشم پر ژاله كرد
به روز و به شب مویه كرد و گریست
پس از مرگ سهراب سالی بزیست
سرانجام هم در غم او بمرد
روانش بشد سوی سهراب گرد
(حکیم ابوالقاسم فردوسی)
ز تیغ پدر خسته گشت و بمرد
خروشید و جوشید و جامه درید
به زاری بر آن كودک نارسید
برآورد بانگ و غریو و خروش
زمان تا زمان زو همیرفت هوش
فرو برد ناخن دو دیده بکند
برآورد بالا، در آتش فگند
مر آن زلف چون تابداده کمند
به انگشت پیچید و از بن بکند
به سر برفکند آتش و برفروخت
همه موی مشکین به آتش بسوخت
همیگفت کای جان مادر کنون
کجایی سرشته به خاک و به خون؟!
کنون من که را گیرم اندر کنار
که خواهد بدن مر مرا غمگسار
پدر جستی ای گرد لشکر پناه
به جای پدر گورت آمد به راه
چرا نامدم با تو اندر سفر
که گشتی به گردان گیتی سمر
مرا رستم از دور بشناختی
ترا با من ای پور بنواختی
بینداختی تیغ، آن سرفراز
نکردی جگرگاهت ای پور باز
همیگفت و میخست و میکند موی
همیزد کف دست بر خوب روی
ز خون جگر کرد لعل آب را
به پیش آورید اسب سهراب را
سر اسب او را به بر در گرفت
بمانده جهانی بر او بر شگفت
گهی بوسه زد بر سرش، گه به روی
ز خون زیر سُمش همیراند جوی
بیاورد آن جامهٔ شاهوار
گرفتش چو فرزند اندر کنار
بیاورد خفتان و درع و کمان
همان نیزه و تیغ و گرز گران
بسر بر همیزد گران گرز را
همییاد کرد آن بر و برز را
بیاورد زین و لگام و سپر
لگام و سپر را همیزد به سر
ز بس كو همی شیون و ناله كرد
همه خلق را چشم پر ژاله كرد
به روز و به شب مویه كرد و گریست
پس از مرگ سهراب سالی بزیست
سرانجام هم در غم او بمرد
روانش بشد سوی سهراب گرد
(حکیم ابوالقاسم فردوسی)
(حُسن سے عاری اردو ترجمہ: ماں کو خبر دی گئی کہ دلاور سہراب اپنے باپ کی تیغ سے مجروح ہو کر مارا گیا ہے۔ (اُس نے یہ سن کر) اپنے جوان بچے کی یاد میں روتے ہوئے فریاد بلند کی، وہ مضطرب ہوئی، اور اُس نے اپنا جامہ پھاڑ ڈالا۔ اُس نے بانگ بلند کی اور چیخیں ماریں۔۔ وقفے وقفے سے وہ بے ہوش ہوتی رہی۔۔ اُس نے آنکھوں میں ناخن ڈال کر اپنی آنکھیں نکالیں اور انہیں آگ میں پھینک ڈالا۔۔۔ پھر اپنی گھمائی ہوئی کمند جیسی زلفوں کو انگلیوں میں لپیٹا اور اُنہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ سر پر آگ مشتعل کی اور اپنے سارے سیاہ بال آگ میں جلا ڈالے۔ وہ کہے جا رہے تھی کہ اے جانِ مادر! اس وقت کہاں خاک و خون میں آغشتہ پڑے ہو؟ میں اس وقت کسے آغوش میں لوں کہ میرے بدن کو غم گسار کی حاجت ہو رہی ہے۔ اے لشکر کی پناہ پہلوان! تم تو پدر کی تلاش کر رہے تھے لیکن پدر کے بجائے تمہاری قبر راستے میں آ گئی۔ ہائے میں کیوں تمہارے ساتھ سفر نہ کر رہی تھی!! ورنہ تم اس گھومنے والی دنیا میں مشہور ہو جاتے۔۔۔ مجھے رستم دور ہی سے پہچان لیتا اور میرے ساتھ تمہیں بھی نوازتا۔ وہ تیغ پھینک دیتا اور پھر تمہارے بدن کو یوں نہ چیرتا۔۔۔ وہ یہ سب کہہ رہی تھی اور آزردہ ہو رہی تھی اور اپنے بال نوچ رہی تھی۔۔۔ وہ اپنے زیبا چہرے پر طمانچے مارے جا رہی تھی۔۔۔ اُس نے اپنے خونِ جگر سے پانی لال کر دیا تھا۔۔۔ پھر وہ سہراب کے گھوڑے کو اپنے پاس لائی اور اُس کے سر کو آغوش میں لے لیا۔۔۔ سارا جہاں اُس پر متعجب رہ گیا تھا۔۔۔ کبھی وہ اُس گھوڑے کے سر پر بوسہ کرتی تھی تو کبھی چہرے پر۔۔۔ گھوڑے کے قدموں تلے خون کی نہر جاری تھی۔۔۔ وہ سہراب کا شاہانہ جامہ لائی اور اُسے اپنے فرزند کی طرح گلے لگایا۔ پھر وہ اُس کی زرہ اور کمان لائی، ساتھ میں نیزہ، تیغ اور بھاری گرز بھی لائی۔ وہ سر پر بھاری گرز مارے جاتی تھی اور اپنے جوان بیٹے کے قد و قامت کو یاد کرتی جاتی تھی۔ پھر وہ زین، لگام اور سپر لائی اور لگام اور سپر سے بھی سر پر ضربیں لگاتی رہی۔ اُس نے اتنی گریہ و زاری کی کہ تمام لوگوں کی آنکھیں شبنم سے پُر ہو گئیں۔ وہ روز و شب نوحہ کرتی تھی اور رویا کرتی تھی۔ سہراب کی موت کے بعد وہ بس ایک سال ہی زندہ رہی۔ بالآخر وہ بھی سہراب کے غم میں مر گئی اور اُس کی روح سہراب پہلوان کی جانب روانہ ہو گئی۔
آخری تدوین: