عاطف بٹ
محفلین
اولمپک سوئمنگ پول کے حجم کا ایک سیارہ آج یعنی جمعہ کو کرہ ارض سے ستائیس ہزار کلومیٹر کے فاصلے سے گزرے گا اور پیشینگوئی کی گئی ہے کہ اس سائز کا یہ واحد سیارہ ہے جو زمین کے اتنے قریب سے گزرے گا۔
زمین کے مدار میں چکر لگانے والے سیٹیلائیٹ بھی زمین کے اتنے قریب نہیں ہوتے جتنا کہ یہ سیارہ ہو گا۔ تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سیارے کا زمین سے ٹکرانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
یہ سیارہ زمین سے سب سے زیادہ قریب سات بج کر پچیس منٹ جی ایم ٹی یا پاکستانی معیاری وقت کے مطابق رات بارہ بج کر پچیس منٹ پر ہوگا۔
جن علاقوں میں اندھیرا ہو گا اس وقت اس سیارے کو اچھی دوربین سے دیکھا جا سکے گا۔
2012 ڈی اے 14 نامی یہ سیارہ سورج کے گرد چکر 368 دنوں میں لگاتا ہے جیسے کہ زمین لگاتی ہے۔ لیکن اس کا مدار زمین سے مختلف ہے۔
یہ سیارہ زمین کے قریب سے سترہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ سے گزرے گا۔ یہ سیارہ زمین کے نیچے سے گزرتا ہوا سورج کی جانب سفر جاری رکھے گا۔
سیارے کے اس سفر میں مشرقی یورپ، ایشیا اور آسٹریلیا میں سب سے زیادہ بہتر طریقے سے دیکھا جاسکے گا۔
تاہم شوقین لوگ سیارے کے سفر کو لائیو انٹرنیٹ پر دیکھ سکیں گے۔ اس سلسلے میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے جیٹ پروپلژن لیباریٹری سے بھی لائیو فیڈ سات بجے جی ایم ٹی سے شروع کی جائے گی۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر اس حجم کا سیارہ لندن سے ٹکراتا ہے تو پورا شہر تباہ ہو جائے گا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ سیارے کا زمین سے ٹکرانے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
2012 ڈی اے 14 نامی یہ سیارہ سپین کے سکائی سروے کے ہیئت دانوں نے پچھلے سال فروری میں دریافت کیا گیا تھا۔
انہوں نے اس کو اس وقت دریافت کیا جب یہ سیارہ پچھلے سال زمین کے قریب سے گزرا تھا۔ لیکن اس وقت یہ زمین سے اتنا قریب نہیں تھا جتنا کہ اس بار ہو گا۔
انہوں نے سیارے کے مشاہدے سے اس کے ماضی اور مستقبل کے سفر کی معلومات حاصل کیں اور انہوں ہی نے آج کے سفر کی پیشینگوئی کی تھی۔
زمین کے اتنے قریب سے پچھلے تیس سالوں میں کوئی سیارہ نہیں گزرا ہے۔
بیلفاسٹ کی جوئنز یونیورسٹی کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ یہ ایک سائنسی موقع ہے جس کو کھونا نہیں چاہیے۔
’جب سیارے اتنے قریب سے گزریں تو ان کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ یہ اتنے روشن ہو جاتے ہیں کہ ان کے بارے معلومات حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‘
ربط
زمین کے مدار میں چکر لگانے والے سیٹیلائیٹ بھی زمین کے اتنے قریب نہیں ہوتے جتنا کہ یہ سیارہ ہو گا۔ تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سیارے کا زمین سے ٹکرانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
یہ سیارہ زمین سے سب سے زیادہ قریب سات بج کر پچیس منٹ جی ایم ٹی یا پاکستانی معیاری وقت کے مطابق رات بارہ بج کر پچیس منٹ پر ہوگا۔
جن علاقوں میں اندھیرا ہو گا اس وقت اس سیارے کو اچھی دوربین سے دیکھا جا سکے گا۔
2012 ڈی اے 14 نامی یہ سیارہ سورج کے گرد چکر 368 دنوں میں لگاتا ہے جیسے کہ زمین لگاتی ہے۔ لیکن اس کا مدار زمین سے مختلف ہے۔
یہ سیارہ زمین کے قریب سے سترہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ سے گزرے گا۔ یہ سیارہ زمین کے نیچے سے گزرتا ہوا سورج کی جانب سفر جاری رکھے گا۔
سیارے کے اس سفر میں مشرقی یورپ، ایشیا اور آسٹریلیا میں سب سے زیادہ بہتر طریقے سے دیکھا جاسکے گا۔
تاہم شوقین لوگ سیارے کے سفر کو لائیو انٹرنیٹ پر دیکھ سکیں گے۔ اس سلسلے میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے جیٹ پروپلژن لیباریٹری سے بھی لائیو فیڈ سات بجے جی ایم ٹی سے شروع کی جائے گی۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر اس حجم کا سیارہ لندن سے ٹکراتا ہے تو پورا شہر تباہ ہو جائے گا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ سیارے کا زمین سے ٹکرانے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
2012 ڈی اے 14 نامی یہ سیارہ سپین کے سکائی سروے کے ہیئت دانوں نے پچھلے سال فروری میں دریافت کیا گیا تھا۔
انہوں نے اس کو اس وقت دریافت کیا جب یہ سیارہ پچھلے سال زمین کے قریب سے گزرا تھا۔ لیکن اس وقت یہ زمین سے اتنا قریب نہیں تھا جتنا کہ اس بار ہو گا۔
انہوں نے سیارے کے مشاہدے سے اس کے ماضی اور مستقبل کے سفر کی معلومات حاصل کیں اور انہوں ہی نے آج کے سفر کی پیشینگوئی کی تھی۔
زمین کے اتنے قریب سے پچھلے تیس سالوں میں کوئی سیارہ نہیں گزرا ہے۔
بیلفاسٹ کی جوئنز یونیورسٹی کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ یہ ایک سائنسی موقع ہے جس کو کھونا نہیں چاہیے۔
’جب سیارے اتنے قریب سے گزریں تو ان کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ یہ اتنے روشن ہو جاتے ہیں کہ ان کے بارے معلومات حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‘
ربط