سیاست شرعیہ کی بابت دور حاضر کے کچھ مسائل

x boy

محفلین
سیاست شرعیہ کی بابت دور حاضر کے کچھ مسائل

شیخ ناصر الدین البانی
(ماہنامہ ایقاظ)
الحمد للہ والصلوہ والسلام علی رسول اللہ
عالم اسلام کے متعدد ممالک میں اس وقت جمہوریت کے نام سے ایک سیاسی نظام قائم ہے۔ شریعت کے حوالے سے ہمارے ملک میں بھی عرصہ دراز سے اس پر لے دے ہورہی ہے۔ مگر اس کو کھل کر شرک اور طاغوت قرار دینا بہت واضح ہونے کے باوجود ایسا حق ہے جس پر لبوں کو جنبش ہنوز مشکل ہے۔ گو جمہوریت کو کبھی کبھار شرک کہہ دینے والے طبقے کی بہت زیادہ کمی نہیں مگر اس قائم نظام سے دشمنی اور عداوت ’جو کہ اسے شرک کہنے کا حتمی اور لازمی تقاضا ہے‘ ہمارے ہاں تقریباً نا پید ہے۔ اس طبقے میں اگر ایک صنف شرک اور اہل شرک سے بیر اور عداوت کی فرضیت سے ناواقف ہے تو ایسی صنف کا وجود بھی خارج از امکان نہیں جو اس فرض سے ”ناواقف “ نظر آنے میں اپنی عافیت سمجھتی ہو۔ بلکہ اسلام کی عافیت بھی اسی میں خیال کرتی ہو۔

واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت مغرب میں ہو یا مشرق میںایک نظام طاغوت ہے اور اس میں شرکت شرعاً حرام ہے ۔ اتنی بات تو سمجھ آنا آسان ہے ۔ مگر کچھ لوگ اس نظام شرک میں شمولیت اختیار کرنا اور مشرکانہ عقائد اور نظریات رکھنے والوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کا بھلا کرنا مقصود ہے ۔ اگر و ہ سمجھیں تو اسلام کا بھلا یہی ہے کہ اسلام کو اور اس کے سب احکام کو اپنی اصل حالت میں رہنے دیا جائے اور مشرکوں سے اسلام کی ازلی دشمنی بحال رکھی جائے۔ بنا بریں عالم اسلام میں ایک عرصہ سے جو بحث چل رہی ہے وہ یہ نہیں کہ آیا سیکولر اور لادین جماعتوں کی اس طاغوتی نظام میں شرکت یا تعاون جائز ہے یا ناجائز! بلکہ اصل جھگڑا یہی ہے کہ اسلامی جماعتیں ’اسلام کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے‘ کسی شرکیہ اکٹھ میں شمولیت یا اس سے تعاون کی شرعاً مجاز ہیں یا نہیں؟

اس موضو ع کو اجاگر کرنا یقینا اہل توحید کا فرض ہے اس فرض سے عہد ہ برآئی کےلئے لکھنا اور بولنا ہی کافی نہیں شاید اور بہت کچھ ناگزیر ہے ۔ اس سوچ کے پیش نظر یہاں عالم اسلام کے کچھ نامور علماءکا ایک فتوی اردو زبان میں شائع کیا جارہا ہے ۔ جو ہمارے نزدیک مذکورہ بالا موضوع پر بہت حد تک مفید ہے۔ شیخ محمد ناصر الدین البانی کا نام تو محتاج تعارف نہیں۔ حدیث میں صحیح ضعیف کا معمولی شعور رکھنے والا شخص بھی دور حاضر کے اس محدث سے واقف ہوگا۔ شیخ مقبل بن ہادی یمن کے بڑے عالم ہیں۔ فتوی میں مذکورہ دیگر علماءمیں سے بیشتر بھی یمن ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ فتوی کی عبارت سے یہ واضح ہوگا کہ یہ جمہوریہ یمن کے عام انتخابات میں اسلامی جماعتوں کی شرکت اور اسلام دشمن و سیکولر قوتوں سے سیاسی اتحاد و تعاون کی بابت صادر ہوا ہے۔ یمن ایک ویسا ہی کلمہ گو ملک ہے جیسا کہ ہمار ا ملک ۔ اس کے حکمران بھی ہمارے حکمرانوں جیسے ”کلمہ گو“ ہیں اور اس کی سیاسی پارٹیاں بھی ہمارے ہاں کی سیاسی پارٹیوں سے کوئی جوہری فرق نہیں رکھتیں۔ اتنا ضرور ہے کہ یہ فتوی صادر کرنے والے علماءعرب ہونے کے ناطے پاکستان کی بہ نسبت یمن کے حالات سے زیادہ واقف ہیں۔ جس کی بنا پر وہاں کے نظام شرک میں شمولیت کے جوا ز کی دلیلیں ’جو وہا ں دی جاتی ہیں‘ ان عرب علماءکے کانوں تک باآسانی سے پہنچ جاتی ہیں۔یہ باطل دلائل سن کر ہی ان علماءنے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا ۔ اب چونکہ ہمارے ہاں بھی ویسی ہی دلیلیں چلتی ہیں اس لیے مفید خیال کیا گیا ہے کہ اردو دان طبقہ میں بھی ان باطل دلائل کے رد پر مشتمل یہ مختصر فتویً استفادہ عام کےلئے پیش کیا جائے۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ فتوی کی افادیت اپنی جگہ مگر فیصلہ دلیل پر ہوتا ہے اور حق صرف کتاب و سنت کا نام ہے۔

شیخ ناصر الدین البانی اور ان کے دیگر رفقاءکا یہ فتوی گو جمہوری نظام میں شرکت اور تعاون کے بارے میں ہے مگر بغور دیکھا جائے تو کچھ اور تحریکی اور اصولی مباحث بھی اس فتوی کے دلائل سے ثابت ہوجاتے ہیں۔ مثلاً وہ حضرات جو انتخابی سیاست کے علاوہ کسی اور میدان میں ایک باطل نظام یا باطل قوت کے ساتھ ملکر اسلام کی خدمت و نصرت کے قائل ہیں اور دلیل میں رسول اللہ کا یہود سے میثاق یا حلف خزاعہ یا مطعم بن عدی سے پناہ لینا یا صلح حدیبیہ وغیرہ ایسے واقعات پیش کرتے ہیں ان کا مختصر مگر کافی اور شافی جواب بھی اس فتوی میں موجود ہے۔

یہ فتوی اردن سے عربی میں شائع ہونے والے ایک ماہنامہ ”الاصالہ“ کے شمارہ بابت جمادی الثانی١٤١٣ ھ صفحہ ١٦ تا ٢٤ سے لیا گیا ہے ۔ عربی دان حضرات کے استفادہ اور اطمینان کےلئے مذکورہ مجلہ کے صفحہ نمبر٦ ١ اور ٢٤ کی عکسی نقل بھی دی جاری ہے۔

ان الحمدﷲ نحمدہ و نستعینہ ، ونعوذ باﷲ من شرور انفسنا، ومن سیئات اعمالنا‘ من یھدہ اﷲ فھو المھتد ‘ من یضل فلا ہادی لہ۔ واشھدان لا الہ الا اﷲ وحد ہ لا شریک لہ واشھدان محمدا عبدہ و رسولہ۔ اما بعد:


یقینا اللہ تعالی نے علماء سے یہ عہد اور میثاق کر رکھا ہے کہ وہ لوگوں کےلئے اس دین اور شریعت کو واضح کرتے رہیں جو ان کی خاطر نازل کی گئی ۔اللہ تعالی کا ارشادہے:

وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ۔۔۔۔۔


(آل عمران ١٨٧)

ترجمہ:اور جب اللہ تعالی نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار لیا کہ اس میں جو کچھ لکھا ہے اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا اور اس کی کسی بات کو نہ چھپانا۔

اور وہ لوگ اللہ نے ملعون ٹھہرائے ہیں جو حق کو چھپالیں ۔ فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَ۔ئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ
(البقرہ ١٥٩)’

ترجمہ: بے شک جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدایتوں کوجوہم نے نازل کی ہیں(کسی غرض فاسدسے) چھپاتے ہیں‘ جب کہ ہم نے انہیں لوگوں(کے سمجھانے) کےلئے اپنی کتاب میں کھول کھول کربیان کردیا ہے سو ایسوں پر اللہ اور تما م لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

پھر علم چھپا رکھنے والوں کو اللہ تعالی نے دوزخ کی وعید سنائی ہے ۔فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَ۔ئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(البقرہ١٧٤)

ترجمہ:بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں وہ جو اللہ تعالی نے نازل کیا ہے، اور اس کے بدلے میں کچھ تھوڑی سی قیمت لے کھاتے ہیں، تویہ لوگ اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھرتے ہیں، اور اللہ تعالی ان سے قیامت کے دن بات بھی نہیں کریگا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا ، اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔

رسول اللہ کے اس فرمان پر عمل پیرا ہونے کی غرض سے جس میں آپ نے فرمایا :

الدین نصیحہ قلنا لمن یارسول اﷲ ؟ قال: ﷲ ولکتابہ ولرسولہ ولا ئمہ المسلمین وعامتھم (رواہ مسلم)

”دین تو نصیحت اور خیر خواہی ہے(صحابہ) نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ! کس کےلئے؟ فرمایا: اللہ کےلئے اس کی کتاب کےلئے، اس کے رسول کےلئے، مسلمان سربراہوں اور عوام کےلئے“۔

اور اس صورتحال کے پیش نظر بھی جوکہ امت اسلامیہ کو آج درپیش ہے اور جن سازشوں کے جال امت کے خلاف پھیلائے جارہے ہیںخصوصاً ملت میں گھس آنے والے وہ درآمد شدہ افکار جنہوں نے امت کے عقیدہ اور شریعت کو مسخ کردیا ہے۔ ان سب باتوں کے پیش نظر ان لوگوں کا فرض ٹھہرا جن کو اللہ تعالی نے اپنی شریعت کا علم دیا تھا کہ وہ یہ واضح کردیں کہ ان در پیش امور کی بابت اللہ کاحکم و فیصلہ کیا ہے۔

١۔جمہوریت کا حکم

جمہوریت کے بانی اور علمبردار اس کی تعریف یوں کرتے ہیں:عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کےلئے، اور یہ کہ سب اختیارات Mandate& Powers کا سرچشمہ عوام ہیں۔ اس لحاظ سے جمہوریت اسلام کی شریعت اور اسلام کے عقیدہ کے منافی اور ضد ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

ّإِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ۔۔(یوسف٤٠)

ترجمہ: ”حکم و قانون چلانا صرف اللہ کا حق ہے“۔

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَ۔ئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ(المائدہ۴۴)

ترجمہ:” اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہ کرے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں“۔

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ (الشوری ٢١)

ترجمہ:کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کےلئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ تعالی نے حکم نہیں دیا“۔

فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ (النساء٦٥)

ترجمہ:”تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ تب تک مومن نہیں ہونگے جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں“۔

وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا (الکھف٢٦)

ترجمہ:”اور وہ (اللہ تعالی) اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا“۔

مزید برآں یہ کہ جمہوریت ایک نظام طاغوت ہے´ جبکہ طاغوت سے ہمیں کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ(البقرہ٢٥٦)

ترجمہ:پس جو شخص طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایسے مضبوط کڑے کو پکڑا کہ جو ہرگز ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ (النحل٣٦)

ترجمہ:اور ہم نے ہر امت کی طرف رسول بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور طاغوت (کی پرستش) سے دور رہو۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ هَؤُلاء أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُواْ سَبِيلاً( النساء٥١)

ترجمہ:تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ہے کہ بتوں اور طاغوت(ہرو ہ چیز جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے اور وہ اس پر راضی ہو) پرایمان لاتے ہیں اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں کی نسبت زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔

لہذا جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں جو کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ یا تو اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کا نازل کیا ہو ا قانون ہوگا۔ اور یا پھر طاغوت پر ایمان اور اسکا کہا قانون ہوگا۔ کیونکہ اللہ کی شریعت سے متصادم ہر نظام ہی طاغوت ہے۔ رہے وہ لوگ جو جمہوریت کو اسلامی شورائیت کا پر تو قرار دیتے ہیں تو ان کی رائے کسی اعتبار کے قابل نہیں۔ کیونکہ شوری کی نوبت وہاں آتی ہے جہاں شریعت سے نص موجود نہ ہو اور اس(شوریٰ) کے مجاز بھی صرف دین کے عالم اور متقی اہل حل و عقد ہوسکتے ہیں۔ مگر جیسا کہ پیچھے بات گزر چکی ہے جمہوریت اس کے بر عکس ہے۔

٢۔تعدّد(افکار و احزاب) کا حکم

یہ بھی جمہوریت ہی کی پیداوار ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ تعدد احزاب یعنی کثیر جماعتی نظام اور تعدد افکار یعنی کثیرفکری و اعتقادی آزادی۔ جہاں تک تعدد افکار کا تعلق ہے تو اس کی رو سے جمہوری نظام کے اندر لوگوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ جو چاہے اعتقاد رکھیں۔ ان کو اجازت ہے کہ وہ اسلام سے نکل کر کسی بھی مذہب یا ملت کو اختیار کرلیں چاہے و ہ یہودیت ہو، عیسائیت ہو،کمیونزم ہو، سوشلزم ہو یا سیکولرازم ۔ جبکہ دین اسلام میں ارتداد (مرتد ہوجانا) اسی چیز کا نام ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ۔ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ
(محمد٢٥،٢٦)

ترجمہ:بے شک جو لو گ ہدایت کے ظاہر ہونے کے بعد پیٹھ پھیر گئے شیطان نے یہ کام انہیں مزین کردکھایا۔ اور انہیں طول (عمر کا وعدہ) دیا، اس لیے کہ جو لوگ اللہ تعالی کی اتاری ہوئی کتاب سے بیزار ہیں یہ ان سے کہتے ہیں کہ بعض کاموں میں ہم تمہاری بات بھی مانیں گے اور اللہ کریم انکے پوشیدہ(مشوروں سے) واقف ہے۔

اور فرمایا:

وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُوْلَ۔ئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَأُوْلَ۔ئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
(البقرہ٢١٧)

ترجمہ: اور جوکوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر (کر کافرہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے، اور یہی لوگ دوزخ(میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔

اور فرمایا:

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
(آل عمران٨٥)

ترجمہ: او رجو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائیگا اور ایسا شخص آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔

جہاں تک تعددا حزاب (کثیر الجماعتی نظام) کا تعلق ہے تو اس کی رو سے تمام جماعتوں اور پارٹیوں کےلئے قطع نظر اس کے کہ ان کے افکار اور عقائد کیا ہیں، میدان کھلا ہے کہ وہ انتخابات کے راستے سے مسلمانوں پر حکومت چلائیں۔ اس سے مسلم او ر غیرمسلم میں مساوات لازم آتی ہے۔ جو کہ شریعت کے ان قطعی اور حتمی دلائل کی خلا ف ورزی ہے جن کی رو سے مسلمانوں پر دوسرے افکار کے حاملین کا حکمران بننا حرام ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً(النساء١٤١)

ترجمہ: او ر اللہ کریم کافروں کو مومنوں پر ہر گز غلبہ نہیں دے گا۔

اور فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ
( النساء٥٩)

ترجمہ: مومنو ! اللہ تعالی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں(ان کی بھی)۔

أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ(القلم ٣٥)

ترجمہ: کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں کی طرح کردیں گے۔

مزید برآں یہ ہے کہ یہ کثیر فکری اور کثیر جماعتی نظام تفرقہ اور اختلاف کا سبب ہے ۔ جبکہ تفرقہ و اختلاف اللہ کے عذاب کا موجب ۔ ارشاد ربا نی ہے:

وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُوْلَ۔ئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ(آل عمران ١٠٥)

ترجمہ: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہوگئے ۔ اور واضح احکام آنے کے بعد ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے۔

یہ تفرقہ و اختلاف اس امر کا موجب بھی ہے کہ جو اس کا مرتکب ہو اللہ اور اس کا رسول اس سے بری و بیزار ہوں۔ فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ (الانعام١٥٩)

ترجمہ: جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے راستے نکالے اور کئی کئی گروہ ہوگئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

رہے وہ لوگ جو تعدد کو مسلکوں کے تعدد(کئی ایک فکری راستوں) کی بجائے منشوروںکا تعدد قرار دیتے ہیں یا پھر علماء اور آئمہ اسلام کے مابین ہونے والے فقہی اختلاف کی طرز کے اختلاف قرار دیتے ہیں تو یہ بات واقعہ کے سراسر خلاف ہے۔ مزید برآں یہ کہ ہر پارٹی کا منشور دراصل اس کی فکر اور اس کے عقیدے ہی سے برآمد ہو کر آتا ہے۔ چنانچہ کسی سوشلسٹ کا منشور لازما سوشلزم ہی سے نکلا ہوگا اور ایک جمہوریت پرست سیکولر کا منشور۔ جمہوریت کے اصولوں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہی مثال دوسری پارٹیوں کی ہوگی۔

٣۔سیکولر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد(Alliance) اور تنسیق(Coordination)

اتحاد (تحالف) کا مطلب ہے طرفین میں کچھ ایسے امور پر اتفاق ہونا جن کی بابت دونوںایک دوسرے کی نصرت اور پشت پناہی کریں۔ رہی تنسیق تو جیسا کہ لسان العرب (١٢/٢٣٠)میں آیا ہے ۔ ہر چیز میں نسق کا مطلب ہے اشیاءمیں کسی امر کا ایک ہی نظام اور قانون پر ہونا۔ تنسیق کا مطلب ہے تنظیم کرنا، جو کہ اتحاد(تحالف)سے زیادہ قوی لفظ ہے۔ اب یہ تنسیق جو ہوگی جمہوریت کی نصرت کےلئے ، تعدد افکار و احزاب کےلئے، اپنی اور دوسرے کی رائے کےلئے اور پر امن طور پر اقتدار میں ایک دوسرے کے ساتھ باری لینے کےلئے۔ جیسا کہ متعدد ملکوں میں اسلامی جماعتیں سیکولر پارٹیوں کے ساتھ سمجھوتے کرتی رہی ہیں۔ جس کی تازہ ترین مثال یمن میں یمنی اتحاد برائے اصلاح نامی جماعت کا عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کے ساتھ اتحاد ہے۔ تو یہ اتحاداور یہ تنسیق اسلام میں حرام ہے۔ کیونکہ یہ ا ثم اور عدوان پر تعاون ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ٢)

ترجمہ: اور (دیکھو) آپس میں مددکیا کرو نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں، اور نہ مددکیا کرو گناہ اور ظلم کے کاموں میں۔

وَلاَ تَرْكَنُواْ إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ(ھود١١٣)

ترجمہ: اور جو لوگ ظالم ہیں ان کی طرف مائل نہ ہونا ، نہیں تو تمہیں(دوزخ کی) آگ آلپٹے گی۔

اور فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لاَ يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الآيَاتِ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ(آل عمران١١٨)

ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے علاوہ کسی اور (مذہب کے آدمی) کو اپنا ولی(رازدان، دوست) نہ بنائو یہ لوگ تمہاری خرابی اور (فتنہ انگیزی کرنے) میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے۔ اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو)تمہیں تکلیف پہنچے انکے مونہوں سے تو یقینا دشمنی ظاہر ہوچکی ہے، اور جو (کینے) ان کے سینوں میں محفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کر سناد ی ہیں۔

مزید برآں یہ کہ اس تنسیق او ر اس اتحاد کے لوازم میں یہ بات شامل ہے کہ یہ ایک دوسرے سے اظہار قربت و مودت کریں، جبکہ یہ امر اسلامی عقیدہ ولا ءوبراءمیں خلل انداز ہوتا ہے۔ یہ ولاء(اللہ کے دوستوں سے دوستی) اور براء(اللہ کے دشمنوں سے برات) تو ایمان کی زنجیر کے مضبوط ترین جوڑ ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ومن یتولھم منکم فانہ منھم۔ تم میں سے جو شخص ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔ رسول اللہ فرماتے ہیں :”المرءمع من احب“( متفق علیہ) آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرے۔

غیر اسلامی قوتوں سے اتحاد و تنسیق کرنے والے بعض دلائل سے استدلال بھی کرتے ہیں جبکہ یہ دلائل ان کا دعوی ثابت نہیں کرتے۔

ان حضرات کی ایک دلیل تویہ ہے کہ-:

(١) ُپہلی دلیل :رسول اللہ کا یہود کا حلیف ہونا

اس کا جوا ب متعدد پہلوئوں سے ہے

١۔ سند کے لحاظ سے یہ ثابت ہی نہیں کیونکہ یہ روایت معضل ہے

٢۔ اس وثیقہ کو اگر صحیح مان لیا جائے تب بھی اس کی شقیں موجود ہ سیاسی اتحاد کے مضمون سے مماثلت نہیں رکھتیں۔

٣۔ اسلامی شریعت میں یہود کا حکم ان لوگوں کے حکم سے مختلف ہے جو اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

٤۔ ان لوگوں سے اتحاد کےلئے اضطرار بھی درپیش نہیں کیونکہ شرعی معنی میں اضطرار کی صورتحال واقع نہیں ہوتی اور شرط اضطرار مفقود ہے۔

٥۔ اگر ایسا اتحاد رسول اللہ سے صحیح ثابت ہو تو بھی (بعد میں نازل ہونے والے) جزیہ کے احکام کی رو سے منسوخ ہوگا۔

٦۔ رسول اللہ اسلامی ریاست کے سربراہ تھے جبکہ دعوت الی اللہ کے مرحلہ میں کسی جماعت یا کسی پارٹی کو یہ حق نہیں کہ وہ خود کوریاست اسلامی کا قائم مقام ٹھہرالے۔

٧۔ یہود ریاست اسلامی کی رعایا کا حصہ تھے۔ یہ کسی ہمسر کا اپنے ہمسر سے اتحاد نہ تھا۔

(٢)دوسری دلیل :ان کی دوسری دلیل ہے بنو خزاعہ کا رسول اللہ کا حلیف ہونا

جواب:

١۔ صحیح یہ ہے کہ بنو خزاعہ مسلمان تھے جیسا کہ بنو خزاعہ کا یہ قول آتا ہے ثم اسلمنا فلم ننزع یداوقتلو نا رکعا و سجدا۔ پھر ہم مسلمان ہوئے ہم اس سے دشت کش نہ ہوئے ۔ ان لوگوں نے ہمیں رکوع اورسجدہ میں پڑے ہوئوں کو قتل کیا۔

٢۔ ان (خزاعہ) کو مشرک فرض کر لیا جائے۔ تب بھی ایک اصلی کافر کا حکم ان لوگوں سے مختلف ہوگا جو اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے سے گریز کریں۔

٣۔ اس وقت جو اتحاد کیا جاتا ہے اسکا مضمون حلف خزاعہ کے مضمون سے مختلف ہے۔ چنانچہ ان پارٹیوں کے سیاسی اتحاد کاجو مضمون ہے اس کی طرف تو پیچھے اشارہ کردیا گیا ۔ رہا حلف خزاعہ تو اس میں نہ تو کسی حق بات سے دستبرداری ہوتی تھی اور نہ کسی باطل امر پر رضامندی ظاہر کی گئی ۔

(٣)تیسری دلیل :ان کی تیسری دلیل ہے کہ مطعم بن عدی اور ابو طالب نے رسول اللہ کو پناہ دی تھی۔

اس کا جوا ب یہ ہے کہ :

موجودہ سیاسی اتحاد میں حق سے دستبرداری ہوتی ہے ۔ جبکہ سیاسی اتحاد کرنے والوں کے متعارض موقف ہیں۔ کبھی کہتے ہیں :یہ سیکولر پارٹیاں ہیں ، کبھی کہتے ہیں یہ تعدد و اختلاف منشوروں کاہے نہ کہ مسلکوں کا۔ کبھی کہتے ہیںفلاں پارٹی اپنی موجود حالت میں مرتد تو ہے مگر اب وہ توبہ کر آئی ہے تب وہ پارٹی والوں کو مسلمان اور ان کی توبہ کودرست قرار دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ دلیل دینے کی کیا ضرورت کہ نبی یہود اور مشرکین کے حلیف بنے تھے؟ اور اگر ان کو مرتد قرار دیتے ہیں تو ان سے تحالف(اتحاد) کیسے کرلیا؟ یہ صاف تعارض ہے۔!! حقیقت یہ ہے کہ اگر ان(سیکولر پارٹیوں) کا تائب ہونا فرض کرلیا جائے تب بھی شرعاً ان پارٹیوں پر یہ باتیں لازم تھیں۔

(الف) یہ (سیکولر ) لوگ اپنے سابقہ عقیدہ اور مشہور عام رویے سے برات اور بیزاری کا اعلان کرتے اور کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کرتے کہ جو منہج انہوں نے پہلے اختیار کررکھا تھا وہ غلط ہے۔

(ب) (یہ سیکولرقوتیں) ایسی ہر بات سے دستبردار ہوجاتیں جو اسلام سے ظاہر ی یا باطنی طور پر متصادم ہو۔

(٤)چوتھی دلیل:صلح حدیبیہ

اسکا جواب یہ ہے کہ:

١۔ وہ اسلای ریاست تھی جسے اپنے جنگی دشمنو ں سے صلح (جنگ بندی) کا ہر ایسا معاہدہ کرنے کا حق

تھا جسے وہ مفسدت کے مقابلے میں راجح مصلحت سمجھتی ہو۔

٢۔ (سیکولر) پارٹیوں کے اسلامی اتحادیوں کی صورتحال کے برعکس ، صلح حدیبیہ میں اسلام کی کسی بات سے جوہری دستبرداری نہ ہوتی تھی۔ چنانچہ آپ نے الرحمن الرحیم کی جگہ(با سمک اللھم) لکھ دیا۔

رہی یہ بات کہ آپ نے (اس وثیقہ میں) رسول اللہ نہ لکھا تو اس بات سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے اپنی رسالت کی نفی کردی تھی۔ بلکہ آپ نے فرمایا تھا:”واﷲ انی لرسول اﷲ“ اللہ کی قسم میں یقینااور بے شک اللہ کا رسول ہوں۔

سیاسی انتخابات کا حکم

جمہوری طریقہ سے عمل میں آنے والے انتخابات بھی حرام اور ناجائز ہیں۔ کیونکہ نہ تو منتخب ہونے والوں میں اور نہ منتخب کرنے والوں میں ان شرعی مواصفات کی شرط لگائی جاتی ہے جو اسلامی شریعت میں ولایت عامہ یا ولایت خاصہ کےلئے ضروری ہیں۔ چنانچہ یہ انتخابات اس طریقہ سے اس بات کاسبب بنتے ہیں کہ مسلمانوں پر اقتدار کا حق ان لوگوں کو ملنے لگے جن کو یہ اقتدار سونپنا جائز نہیں بلکہ ان کوشریک مشورہ تک کرنا جائز نہیں۔ مزیدبرآں یہ کہ اس کو منتخب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قانون ساز مجلس نمائندگان اور ان نمائندہ ایوانوں کار کن بنے جو اپنا فیصلہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے نہیں بلکہ اکثریت سے طے کرتے ہیں۔ بنابریں یہ طاغوتی ایوان ہیںان کو سرے سے تسلیم کرنا جائز نہیں کجا یہ کہ ایک مسلمان ان کو وجود میں لانے کےلئے دوڑ دھوپ کرے اور انکو قائم کرنے میں تعاون کرے۔ درآں حال یہ کہ یہ (ایوان) اللہ کی شریعت سے مصروف جنگ ہوں۔ مزید برآں یہ کہ یہ مغربی طریقہ کار ہے اور یہود و نصاری کی پیداوار جبکہ ان سے مشابہت رکھنا شرعا ناجائز ہے۔

اور اگر کوئی یہ کہے کہ شریعت میں حکمران کے چناؤ کی بابت کوئی طے شدہ طریقہ کار ثابت نہیں اور اس بنا پر انتخابات میں کوئی حرج نہیں۔ ۔۔۔ تو اسے کہا جائے گا کہ یہ غلط ہے کہ یہ بات شریعت سے ثابت نہیں بلکہ حکمرانوں کے انتخاب کے طریق ہائے کار کی بابت صحابہ نے جو کچھ کیا وہ سب کے سب شرعی طریق ہائے کار ہیں۔

رہا سیاسی جماعتوں کا طریقہ کار تو اس کی ممانعت کےلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کےلئے کوئی(شرعی) ضابطے مقرر نہیں اور(جو مقرر ہیں) وہ اس بات کا موجب ہیں کہ ایک غیر اسلامی قوت کو اقتدار ملے جبکہ فقہاءمیں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اس کو جائز کہتا ہو۔

سیاسی معاملات کا حکم

احترام باہمی کاسمجھوتہ

اس سمجھوتے کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قوتیں جمہوری اصولوں کوپختہ کرتے ہوئے ایک دوسرے پر کفر کا حکم نہ لگائیں جبکہ اس معاملہ میں اسلام کاحکم یہ ہے کہ جس کو اللہ اور اس کا رسول کافر قراردے اسے کافر ہی قرار دیا جائے، جسے اللہ اور اس کا رسول فاسق قرار دے اسے فاسق ہی قرار دیا جائے۔ اور جسے اللہ اور اس کا رسول گمراہ کہے اسے گمراہ ہی کہا جائے۔ اسلام میں (عیسائیت کی طرزپر) نہ تو مغفرت کے چیک ملتے ہیں اور نہ مغفرت سے محروم کرنے کے۔ ایک گناہ گار مسلمان کی تکفیر کرنا تو، جب تک وہ کسی معصیت کو روا نہ کرلے، اہل سنت والجماعت کے منہج میں نہیں۔ رہی انسانی وضع کردہ آئینوں اور دستوروں کی بات جن میں ایک جمہوریہ یمن کا آئین بھی ہے۔ تو علماءیمن نے اس میں موجود رخنوں اور شریعت سے متصادم امور کی اتنی وضاحت کررکھی ہے کہ ان کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔

ہمارا دعوت الی اللہ کا طریق کار جو سب کو جان لینا چاہیے

١۔ فہم سلف کی بنیادپر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔

٢۔ ہم اپنا یہ اہم ترین دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ درآمد شدہ افکار اور درآئندہ بد عات کا مقابلہ علم نافع اور دعوت الی اللہ کے ساتھ کیا جائے اس کے لئے بیداری پید ا کی جائے۔ عقائد اور مفہومات درست کئے جائیں اور اس پر مسلمانوں کی وحدت مجتمع ہو۔

٣۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تختے الٹنا قاتلانہ حملے اور فتنے امت کی ضرورت نہیں، بلکہ امت کی ضرورت یہ ہے کہ اس کوایمانی تربیت دی جائے اور فکر کو صاف ستھرا بنایا جائے، امت کو اپنی شوکت رفتہ اورعظمت کی راہ پر پھر سے گامزن کرنے کےلئے یہی سب سے کامیاب ذریعہ ہے۔

آخر میں ہم متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ یہ بیان شائع کرنے کاایک سبب یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوا کچھ حلقے ، یمن میں اسلام اور علماءکی ترجمانی کرتے ہوئے کچھ ایسے مسائل میں کلام فرمارہے ہیں جو کچھ اسلامی پارٹیوں نے اپنا رکھے ہیں۔ یہ حلقے ان جماعتوں کو ان کی سیاسی روش میں موجود تناقضات اور شرعی انحرافات کے باوجود ، شرعی جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں ۔سو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حضرات صرف اپنی نمائندگی کرتے ہیں یا پھر اس پارٹی کی جس کی یہ رکنیت رکھتے ہیں، اعتبار بہرحال دلیل کاہوگا نہ کہ کسی کی کثرت کا یا کسی قیل و قال کا۔

وصلی اﷲ علی سیدنا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین۔ والحمد ﷲرب العالمین
 
آخری تدوین:

حسینی

محفلین
یقینا اسلام کا دیا ہوا نظام اہل تسنن کے بقول بعد از رسول خلافت اور اہل تشیع کے نزدیک ً نظام امامت جبکہ زمان غیبت میں (اکثریت کے نزدیکً) نظام ولایت فقیہ ہے۔
لیکن اسلامی ملکوں کی موجودہ صورت حال کے تناظر مٰیں حل کیا ہے؟؟
کیا ان سب کو کفر اور بکواس قرار دے کر ہم زندگی کر سکتے ہیں؟؟
کیا اکثریت کی رائے کا احترام نہیں کیا جانا چاہیے؟ ورنہ نظام حیات تباہ وبرباد ہو جائے گا۔
 
Top