سیاست ہی ریاست بچا سکتی ہے ۔ وصی شاہ

یوسف-2

محفلین
الحمرا کلچرل کامپلیکس میں ’’نئی بات‘‘ کی سالگرہ کے سلسلے میں مختلف شعبوں میں ایوارڈز دیے جانے کی تقریب کا اختتام ہوا تو ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی رانا مشہود صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ رانا صاحب بلاشبہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا ایک سافٹ امیج ہیں نہ صرف مسلم لیگ ن کی سیاست بلکہ سیاستدانوں کی ساکھ آج بھی جن چند سیاستدانوں کی وجہ سے کپکپاتی ٹانگوں پہ بھی قائم ہے وہ رانا صاحب جیسے درویش منش سیاستدانوں ہی کی مرہونِ منت ہے۔
رانا صاحب نے محبت سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہونٹوں پر مخصوص مسکراہٹ سجائے نرم لب و لہجے میں ایک شکوہ میری جانب اچھال دیا کہ ’’شاہ صاحب کسی پروگرام میں آپ ہم سیاستدانوں کو بہت برا بھلا کہہ رہے تھے ہم ایسے بھی بُرے نہیں ہوتے۔‘‘ وقت کم تھا مجھے بھی رخصت ہونا تھا اور رانا صاحب کو بھی۔ مختصراً تو وہیں ان سے عرض کر دیا تھا کہ اس ملک کے مسائل کا واحد حل میرے نزدیک سیاست ہی ہے۔مجھے نہ تو سیاست سے نفرت ہے نہ سیاستدانوں سے البتہ بُرے سیاستدان یقیناًنہ صرف قابلِ سزا ہوتے ہیں بلکہ قابل نفرت بھی۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بُرے سیاستدانوں کی تمام تر نااہلیوں، نالائقیوں، کے باوجود میں یہی سمجھتا ہوں کہ سیاست ہی ہمارے کہنہ وپیچیدہ مسائل کا حل ہے۔
آج کل جو لوگ قوم کو ان جذباتی نعروں میں اُلجھا رہے ہیں کہ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ وہ شاید نہ تاریخ سے آگاہ ہیں نہ انسانی تاریخ سے انہیں کچھ لینا دینا ورنہ ریاستِ مدینہ سے محمد علی جناح کے پاکستان کی تشکیل تک ہر ریاست، سیاست ہی کے باعث جنم لیا کرتی ہے۔ سیاست ہی ریاست کے وجود برقرار رکھ سکتی ہے اور سیاست ہی کی آزادی کے باعث ریاست پرُ امن وآسودہ حال ہو سکتی ہے۔ جب کسی ریاست میں سیاست پر پابندیاں لگ جائیں تو ریاست میں جنم لینے والے باہمی چھوٹے چھوٹے مسائل بھی ’’کالا باغ‘‘ ڈیم کے مسئلے کی طرح دیو بن کر سامنے آکھڑے ہوتے ہیں اور ریاست کی تعمیر وترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جایا کرتے ہیں۔ عُجلت کے باعث میں رانا صاحب سے یہ نہیں عرض کر پایا کہ سیاست جیسی خوبصورت شے جو ڈائیلاگ اور گفتگو کے ذریعے ہر مسئلے کا حل نکالتی ہے، نفاق ختم کر کے باہمی محبت کو جنم دیتی ہے، ریاست میں تعمیر وترقی خوشحالی اور امن وامان کی ضامن ہوتی ہے۔ اسی سیاست کو جو باعثِ رحمت ہوا کرتی ہے ہمارے سیاستدانوں نے گالی اور زحمت کیوں بنا دیا۔۔۔؟؟؟؟ نفرت کی علامت کیوں بنا دیا۔۔۔؟؟؟
یہ نعرہ لگانے کی جرأت کیسے پیدا ہوئی نوبت کیسے آئی کہ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ جو گلہ میرے محترم رانا مشہود صاحب نے مجھ سے کیا وہ شکوہ انہیں اپنے ساتھی سیاستدانوں سے کرنا چاہیے کہ سیاست اور سیاستدان اس معاشرے میں گالی کیوں بن کر رہ گئے ہیں۔؟؟؟ کیا وجہ ہے کہ آج کسی مسئلے کو حل کرنے کیلئے ہم یہ الفاظ استعمال نہیں کرتے کہ ’’آؤ اس مسئلے کو سیاست سے حل کرتے ہیں ‘‘بلکہ ہم گلیوں محلوں چوکوں چوراہوں نجی محفلوں میں کسی چالباز کی چالاکیوں اور سازشوں پر یہ فقرے کثرت سے کستے ہیں کہ ’’میرے ساتھ سیاست نہ کرو‘‘ کیا وجہ ہے کہ سیاست جسے محبت، عبادت، برداشت، دیانت، خلوص، انصاف، مسائل کے حل کی علامت ہونا چاہیے تھا۔ وہ سیاستدانوں کے اعمال اور کرتوت کے باعث کرپشن، بددیانتی، جھوٹ، سازش، اور عدم برداشت کی صف میں کھڑی نظر آتی ہے۔ ان ساری حقیقتوں کے باوجود کہ سیاست اوباش تماش بینوں کے درمیان گھری طوائف بن کر رہ گئی ہے تلخ حقیقت آج بھی یہی ہے کہ آج بھی ہمارے مسائل کا واحد حل سیاست سے فرار میں نہیں ہے بلکہ سیاست ہی میں چھپا ہے۔ بالکل ایسے جیسے کوئی مریض اگر غلط ڈاکٹر کے ہاتھوں اپنی صحت تباہ وبرباد بھی کر بیٹھے تب بھی اپنی صحت کی بحالی کے لیے کسی کرکٹر، تاجر، جاگیر داریا ٹیکنو کریٹ کے پاس نہیں جائے گا بلکہ مرتے دم تک کسی ماہر ڈاکٹر، کسی اعلیٰ طبیب کی تلاش میں رہے گا، کیونکہ جاہل سے جاہل شخص بھی یہ جانتا ہے کہ مرض کا علاج طبیب کے پاس ہی ملے گا افاقہ نہ ہونے کی صورت میں طبیب بدلے گا۔۔۔ علاج سے فرار اختیار نہیں کرے گا۔۔۔ کرے گا تو مرے گا۔۔۔!!!
جیسے بدنی امراض کا علاج ڈاکٹر یا طبیب ہی کے پاس ہوا کرتا ہے اور تسلی، تشفی، افاقہ نہ ہونے کی صورت میں علاج سے فرار کے بجائے طبیب بدلا جاتا ہے اسی طرح ملکی امراض کا علاج صرف سیاست میں پوشیدہ ہوا کرتا ہے ’’سیاست‘‘ جس کا ماہر سیاستدان کہلاتا ہے۔ اگر ملکی امراض کا حل ڈھونڈنا ہے اور کسی سیاستدان سے یا سیاستدانوں سے ان کی حرکتوں کے باعث شکایت یا نفرت پیدا ہو گئی ہے تو عقل وشعور کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسے بدنما، بدکردار، بدقماش، نااہل سیاستدانوں کو ووٹ کی طاقت سے بدل دیا جائے۔ نئے سیاستدانوں کو موقع دیا جائے۔ مگر ملکی امراض کا علاج ہے صرف سیاست ہی میں۔۔۔!!!
اگرجرنیلوں، تاجروں، جاگیرداروں ٹیکنو کریٹوں کے ذریعے ریاست بچانے کی کوشش کی جائے گی تو وہی حشر ہو گا جو دم توڑتے مریض کا ماہر طبیب کے بجائے کسی غیر ڈاکٹریا نیم حکیم سے علاج کروانے پر ہو سکتا ہے۔۔۔ یعنی ایسا کرے گا۔۔۔ تو مرے گا۔۔۔!!! (نئی دنیا 24 دسمبر 2012)
 

arifkarim

معطل
اگرجرنیلوں، تاجروں، جاگیرداروں ٹیکنو کریٹوں کے ذریعے ریاست بچانے کی کوشش کی جائے گی تو وہی حشر ہو گا جو دم توڑتے مریض کا ماہر طبیب کے بجائے کسی غیر ڈاکٹریا نیم حکیم سے علاج کروانے پر ہو سکتا ہے۔۔۔ یعنی ایسا کرے گا۔۔۔ تو مرے گا۔۔۔ !!! (نئی دنیا 24 دسمبر 2012)
زبردست! آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہمنے امیروں، جاگیرداروں، صنعتکاروں اور وڈیروں کو اپنا حاکم تسلیم کر لیا ہے۔ اس نظام کو انگریزی میں اولیگارکی کہتے ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Oligarchy
 
Top