الف نظامی
لائبریرین
مسلم لیگ نون ، پی پی پی کے منشور
قیوم نظامی
قیوم نظامی
پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ نون نے اپنے پارٹی منشور عوام کے سامنے پیش کر دیے ہیں-
مسلم لیگ نون کا منشور "پاکستان کو نواز دو" کی سرخی کے ساتھ بلند بانگ ہے- جس میں عوام سے عہد کیا گیا ہے کہ
مسلم لیگ نون کی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد پانچ سال میں ایک کروڑ بے روزگار نوجوانوں کو نوکریاں دے گی-
گروتھ ریٹ کی شرح کو 6 فیصد تک لایا جائے گا
بجلی کی قیمت 30 فیصد کم کی جائے گی-
نیب کو ختم کر دیا جائے گا -
آئین کے آرٹیکل نمبر 62 اور 63 کو اس کی اصل شکل 1973 میں بحال کیا جائے گا - گویا احتساب کا خاتمہ ہو جائے گا اور عوامی نمائندوں کے لیے صادق اور امین ہونا لازم نہیں رہے گا-
مسلم لیگ نون نے وعدہ کیا ہے کہ بجلی کی پیداوار میں 15000 میگاواٹ کا اضافہ کیا جائے گا-
سولر پاور کو ترجیح دی جائے گی اور گردشی قرضے کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے-
برآمدات 60 بلین ڈالر تک بڑھائی جائیں گی اور بیرونی ترسیلات کو 40 ارب ڈالر تک لایا جائے گا-
مسلم لیگ نون نے پرائمری سے ہائر ایجوکیشن تک انقلاب لانے کا وعدہ کیا ہے-
آئینی قانونی عدالتی اور انتظامی اصلاحات لانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے جن میں پہلے ہی غیر معمولی تاخیر ہو چکی ہے-
مسلم لیگ نون کے منشور میں ماحولیاتی تبدیلی اور آئی ٹی کے شعبے پر خصوصی توجہ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے-
دہشت گردی کے خاتمے کا مصمم عزم ظاہر کیا گیا ہے-
نوجوانوں کی ترقی کے لیے مختلف نوعیت کے اقدامات بھی منشور میں شامل ہیں-
پاکستان کی خارجہ پالیسی کو موثر بنا کر پاکستان کے قومی مفادات کے تحفظ اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو خوشگوار اور دوستانہ بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے البتہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو کشمیر کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے- جب تک بھارت کشمیر کے سلسلے میں 5 اگست 2019 کے یک طرفہ اقدامات واپس نہیں لے گا اس کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لائے جا سکیں گے-
سیاسی جماعتیں جب نیا انتخابی منشور عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں تو اپنے پرانے منشور کا حساب کتاب عوام کے سامنے پیش نہیں کرتیں - اقتدار میں آنے سے پہلے بلند بانگ دعوے تو کر لیے جاتے ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد منشور ایک طرف رکھ دیے جاتے ہیں -اس صورت حال پر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے-
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے جو اعتبار ہوتا
پی پی پی نے اپنے منشور کو "چنو نئی سوچ کو" کی سرخی سے سجایا ہے-
بلاول بھٹو ووٹروں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ پرانی سوچ اور سیاست کو بدل دیں جو نفرت اور تقسیم پر مبنی ہے-
بقول اقبال
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطان سے بیزار ہے
پی پی پی نے اپنے منشور میں معیشت عدلیہ اور گورننس کو بہتر کرنے کا وعدہ کیا ہے-
منشور میں وعدہ کیا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کو با اختیار بنایا جائے گا اور انہیں مالی وسائل منتقل کیے جائیں گے-
افراد کو لا پتہ کرنے کا سلسلہ ختم کرنے اور خفیہ ایجنسیوں کو آئین اور قانون کے تابع لانے کا دلیرانہ اعلان بھی کیا گیا ہے-
انسانی حقوق کے خلاف تمام کلونیل لاز کے خاتمے کا وعدہ بھی کیا گیاہے-
ٹرکل ڈاؤن اکانومی کے تصور کو ختم کرکے عوام کو غربت کی لکیر باہر نکالنے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے-
فری معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے اور صارفین کو 300 یونٹ بجلی مفت دینےکا وعدہ بھی منشور میں شامل ہے-
وعدہ کیا گیا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ کی طرح کسانوں مزدوروں اور نوجوانوں کو بھی کارڈ جاری کیے جائیں گے-
17 وفاقی وزارتیں ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے-
تمام سرکاری غیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو دوگنا کرنے کا وعدہ بھی منشور میں شامل ہے-
پی پی پی نے عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے سلسلے میں پارلیمنٹ کے رول کو بڑھانے کا وعدہ کیا ہے-
بد قسمتی سے عدلیہ کو انگریزوں کے نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے جسے ترجیحی بنیادوں پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے-
ججوں کی تعیناتی برطانیہ کی طرح آزاد اور خودمختار کمیشن کے ذریعے ہونی چاہیے تاکہ ججوں کی تعیناتی میرٹ پر کی جا سکے -
مسلم لیگ نون نے وعدہ کیا ہے کہ وہ عدلیہ کے نظام میں بامقصد تبدیلی کرے گی- جس کے بعد بڑے مقدمات کا فیصلہ ایک سال اور چھوٹے مقدمات کا فیصلہ دو ماہ کے اندر کیا جائے گا-
بد قسمتی سے سیاسی جماعتوں کا ماضی کا کردار تسلی بخش نہیں رہا - پاکستان کی تمام بڑی جماعتوں کو میثاق معیشت پر اتفاق رائے کر لینا چاہیے - معاشی پالیسیوں کے تسلسل کے بغیر معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہو سکتا - عوام بادل ناخواستہ اپنے ووٹ کا حق تو استعمال کریں گے مگر افسوس یہ ہے کہ عوام کا پاکستان کے سیاسی جمہوری نظام پر اعتماد مسلسل متزلزل ہوتا جا رہا ہے- سیاسی جماعتوں کے منشور کے بارے میں بقول شاعر یہ کہا جا سکتا ہے-
نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں