سیاسی ڈائری:عمران نے وزیر اعظم کے استعفے کا بھاری پتھر چوم کررکھ دیا

سیاسی ڈائری:عمران نے وزیر اعظم کے استعفے کا بھاری پتھر چوم کررکھ دیا
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

253652_l.jpg

اسلام آباد (محمد صالح ظافر۔ خصوصی تجزیہ نگار) تحریک انصاف کے سربراہ عمرا ن خان نے تین ماہ کی بے مقصد خواری کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے استعفی کا بھاری پتھر چوم کر رکھ دیا ہے، انہیں اس رجعت کا اعلان ریڈزون کے اس ڈی چوک میں کرنا چاہئےتھا جہاں وہ آہنی کنٹینر پر کھڑے ہو کر گزشتہ اگست سے گلا پھاڑ پھاڑ کر دعویٰ کرتے رہے تھے کہ وہ یہاں سے استعفیٰ لئے بغیر نہیں جائیںگے، اپنے فیصلے میں ایک سو اسی ڈگری کے اس یو ٹرن کی اطلاع انہوںنے اپنے ممدوحین یورپی ممالک کے سفیروں کو دی جنہوں نے ان کی درخواست پر ملاقات کی تھی، یہ سفیر پاکستان کی قومی سیاست میں اہم حیثیت اختیار کرگئے ایک کھلاڑی کی گفتگو سے سخت مایوس ا ور مضطرب ہوئے کہ پاکستان کامستقبل کس نوع کے افراد کے ہاتھوں میں سونپا جارہا ہے جن کی سوچ میں اعتدال اور توازن نظر ہی نہیں آتا۔ خان نے اپنی انگریزی سے ان سفیروں کو متاثر کرنے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے وہ گھریلو لہجے کی انگریزی بول رہےتھے جس میں ربط اور ترتیب کا فقدان تھا۔ ان یورپی سفیروں کاخیال تھا کہ برطانیہ سے فارغ التحصیل کرکٹ کا یہ سابق نامور کھلاڑی اپنے ملک اور خطے کے حالات کےبارے میں چشم کشا گفتگو کرے گا۔ انہیں یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ خان اوسط درجے کے پاکستانی شہریوں سے بھی گئی گذری بات چیت کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات کرنے والوںمیں جرمنی، اٹلی، فرانس، سویڈن اور ڈنمارک کے سفیر بھی شامل تھے جو اپنے تبحر علمی کی وجہ سے سفارت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں۔ بیس کے لگ بھگ ان سفیروںاور سفارتکاروںنے فسادی دھرنے اور تیس نومبر کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی دھمکی کے حوالے سے متعدد استفسارات کئے۔ خان ان سوالات کا اطمینان بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔ وہ اس بات پر مضطرب ہوئے کہ عمران خان کے لب و لہجے میں توازن بھی موجود نہیں تھا۔ ان سفیروںنے بڑے اصرار کے ساتھ ایک ہی بات پوچھی کہ وہ اپنے ایجی ٹیشن کو کب تک جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔ جن ممالک کے سفیروںنے خان سے ملاقات کی ان میں پاکستان کےبڑے بڑے تجارتی حصہ دار ملک بھی شامل ہیں جنہیں پاکستان کے ساتھ اپنے کاروبار کو وسعت دینا ہے لیکن یہاں کے حالات میںدر آئی ابتری کےباعث ان ملکوں نے اپنا ہاتھ روک رکھا ہے۔ عمران خان کا اصرا ر تھا کہ انہیں دھرنے کی بدولت زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے ان سے بعض سفیروں نے پوچھا کہ وہ اپنی اس کامیابی کو کس پیرائے میں بیان کرینگے اور اس کی ٹھوس شکل و صورت سے آگاہ کریں، عمران کےپاس اس کا کوئی جواب موجودنہیں تھا وہ بار بار یہی کہتےر ہے کہ ان کے نام نہاددھرنے نے نوجوانوں، خواتین اور دیہی سطح پر سیاسی شعور بیدار کردیا ہے۔ سفیروںنے ان پر واضح کیا کہ یہی کام ٹیلی ویژن اورریڈیو کے ذریعے اپنی آواز عوام تک پہنچا کر انجام دیا جاسکتا تھا پورے ملک کی ترقی اور زندگی کے نظام کو معطل کرکے اس مقصد کو حاصل کرنا قابل فہم نہیں ۔ انہوںنے انتخابی بے ضابطگیوں کا رونا رویا سفیروں نے انہیں یاد دلایا کہ اس مقصد کے لئے ملکی آئین میں طریق کار موجودہے جس سے انحراف کی راہ کیوںا ختیار کی گئی ہے ،خان نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اگر حکومت ان کے اعلان کے مطابق چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کرالیتی تو وہ دھرنے پرمجبور نہ ہوتے۔ یہ حکومتی سرد مہری کانتیجہ ہے کہ تحریک انصاف کو لانگ مارچ کے لئے مجبور ہوناپڑا ہے انہوں نے بتایاکہ حکومت جوڈیشل کمیشن سمیت ان کے تمام مطالبات ماسویٰ وزیراعظم کے استعفیٰ ماننے کے لئے رضامند ہوگئی تھی اب وہ اس سے بھی منحرف ہورہی ہے حالانکہ وہ وزیراعظم کے استعفیٰ کے مطالبے سے بھی دستبردار ہوگئےہیں۔ عمران خان کے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے ہیں جن سے وہ بوکھلا کرالٹی سیدھی باتیں کرنے لگے ہیںا نہیں بخوبی علم ہے کہ اگر وہ گرفتار کرلئے گئے توان کی ضمانت یا رہائی ممکن نہیں رہے گی کیونکہ انسداد دہشت گردی کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ بار بار اپنی صفائی دے رہے ہیں کہ جب سرکاری ٹی وی پر حملہ ہوا تو وہ سورہےتھے انہیںچاہئے کہ وہ صفائی کے طورپر اپنا یہ بیان عدالت میں جاکردیں۔ عمران خان کے لئے جیل یقیناً بہت مشکل جگہ ہوگی کیونکہ انہیں جس ’’خوراکی‘‘ کی ضرورت ہے وہ اس جیل میں سخت نگرانی کے باعث نہیں ملے گی۔ خان شائد ہر طرح کی مشکل کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے لیکن ’’خوراکی‘‘ کے بغیر ان کے ہاں زندگی کا کوئی تصور نہیں اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالتی کارروائی کواس کے منطقی انجام تک پہنچائے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے اور اشتہاری مجرم قرار پانے کے بعد تحریک انصاف اور عوامی اتحاد کے بے ہمت رہنمائوں کا حکومت کو للکارنا کسی چیلنج سے کم نہیں، حکومت کو اپنے اختیارات کی رٹ ثابت کرنے کے لئے ان تمام اشتہاری مجرموں اور مقدمےمیں ماخوذ ملزموں کو ایک مرتبہ پکڑ کر عدالت سماعت کے حوالے کرنا پڑے گا۔
 
ایسی خبریں تو آرہی ہیں کہ 30 نومبر کو تحریک انصاف اسلام آباد پر یلغار کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ جس کی دلیل شیخ رشید کی ننکانہ صاحب میں اشتعال انگیز تقریر اور عمران کا یہ بیان کہ وہ پر امن رہنے کی ضمانت نہیں دے سکتے ہے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ ان کا منصوبہ ہے کہ 30 نومبر کو حکومت کو ڈس فنکشنل کرنے کی کوشش کریں۔
بلکہ کل ٹی وی پر عوامی تحریک کے ایک رہنماء نے یہ بھی کہا کہ ان کو لگتا ہے تحریک انصاف 30 نومبر کو ہنگامہ آرائی کا منصوبہ رکھتی ہے اس لئے وہ اس دفعہ ان کا ساتھ 30 نومبر کے احتجاج میں نہیں دینگے کیونکہ وہ خود پر امن جدوجہد کےخواہشمند ہیں۔
 
اچھی بات ہے لیکن اس "غالباً" کیا کیا جائے۔ :)
صالح ظافر نے یہ خبر رپورٹ کی ہے تو وہ اس کی سچائی کا پورا ذمہ دار وہ وہاں موجود تھا یا نہیں۔ کیونکہ ظافر نے وہاں اپنی موجودگی کا ذکر نہیں کیا تو میں نے "غالباً" کا لفظ استعمال کیا ہے۔
ویسے آپ کی کیا رائے ہے کہ 30 نومبر کے جلسے کو ہنگامہ آرئی کے لئے استعمال کرنا چاہئے تحریک اصاف کو؟
 

محمداحمد

لائبریرین
صالح ظافر نے یہ خبر رپورٹ کی ہے تو وہ اس کی سچائی کا پورا ذمہ دار وہ وہاں موجود تھا یا نہیں۔ کیونکہ ظافر نے وہاں اپنی موجودگی کا ذکر نہیں کیا تو میں نے "غالباً" کا لفظ استعمال کیا ہے۔

دراصل یہ اسٹائل پڑھ کر مجھے کربلا سے متعلق وہ مشہورِ زمانہ تقریر یاد آگئی جو کسی زمانے میں کیسٹوں پر سنی جاتی تھی اور اُس میں منظر کشی کے وہ جوہر دکھائے گئے تھے کہ جیسے موصوف چشم دید گواہ ہوں اس واقعے کے۔

ویسے آپ کی کیا رائے ہے کہ 30 نومبر کے جلسے کو ہنگامہ آرئی کے لئے استعمال کرنا چاہئے تحریک اصاف کو؟

میری رائے میں 30 نومبر سے پہلے نواز شریف کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کی ہنگامہ آرائی سے بچا جا سکے۔ :)

ہاں اگر وہ پھر بھی پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے پاس اتنی دولت ہےکہ وہ باآسانی پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت کے ارمان نکال سکتے ہیں۔ اگر وہ خدمت کے حقیقی مفہوم سے آگاہ ہیں تو یہ اُن کے لئے یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اگر نواز استعفی نا دے تو کیا تحریک انصاف کو ہنگامہ آرائی کا حق حاصل ہوگا؟

نہیں ! کسی کو بھی یہ حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ہنگامہ آرائی کرے ہاں بہتر انداز میں اپنا موقف پیش کرنے کے لئے جد و جہد کرنا اُن کا حق ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہاں اگر وہ (نواز شریف) پھر بھی پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے پاس اتنی دولت ہےکہ وہ باآسانی پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت کے ارمان نکال سکتے ہیں۔ اگر وہ خدمت کے حقیقی مفہوم سے آگاہ ہیں تو یہ اُن کے لئے یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔

لئیق احمد

اس بابت بھی آپ کی رائے ملتی تو خوشی ہوتی۔ :)
 
لئیق احمد

اس بابت بھی آپ کی رائے ملتی تو خوشی ہوتی۔ :)
ہاں اگر وہ پھر بھی پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے پاس اتنی دولت ہےکہ وہ باآسانی پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت کے ارمان نکال سکتے ہیں۔ اگر وہ خدمت کے حقیقی مفہوم سے آگاہ ہیں تو یہ اُن کے لئے یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔
اگر آپ شریف خاندان کے فلاحی کاموں کا ذکر کر رہے تو اتفاق ہسپتال تو ہمارے گھر کے قریب ہے جو ٹرسٹ ہے اور میں بہت سے ایسے گواہان سے مل چکا ہوں جنہوں نے بتایا کہ وہاں غریبوں کا علاج مفت ہوتا ہے۔ اتفاق مسجد بھی اس کے قریب ہے جو اس خاندان نے بنائی۔ شریف میڈیکل سٹی وہ بھی ٹرسٹ ہے اور رائونڈ میں ہے۔
اس کے علاوہ شریف خاندان کی طرف سے ایک دفتر بنایا گیا تھا نواز کے ماڈل ٹاؤن والے گھر کے قریب جہاں غریبوں اور بیواؤں کی بجلی کے بل ادا کئے جاتے تھے جو بھی جاکر درخواست دے ۔
ان فلاحی کاموں کی کبھی سیاسی فائدے کے لئے تشہیر میں نے ہوتے نہیں دیکھی۔
باقی نواز شریف کے پاس کتنی دولت ہے اس کا قطعی علم مجھے نہیں اور نا ہی میں یہ فیصلہ کر سکتا ہوں کہ ان کو اپنی کتنی دولت فلاحی کاموں میں صرف کرنا چاہئے اور کتنی ذاتی استعمال میں۔ فلاہی کاموں میں اپنا مال استعمال کرنا انسان کی اپنی صوابدید پر ہوتا ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اگر آپ شریف خاندان کے فلاحی کاموں کا ذکر کر رہے تو اتفاق ہسپتال تو ہمارے گھر کے قریب ہے جو ٹرسٹ ہے اور میں بہت سے ایسے گواہان سے مل چکا ہوں جنہوں نے بتایا کہ وہاں غریبوں کا علاج مفت ہوتا ہے۔ اتفاق مسجد بھی اس کے قریب ہے جو اس خاندان نے بنائی۔ شریف میڈیکل سٹی وہ بھی ٹرسٹ ہے اور رائونڈ میں ہے۔
اس کے علاوہ شریف خاندان کی طرف سے ایک دفتر بنایا گیا تھا نواز کے ماڈل ٹاؤن والے گھر کے قریب جہاں غریبوں اور بیواؤں کی بجلی کے بل ادا کئے جاتے تھے جو بھی جاکر درخواست دے ۔
ان فلاحی کاموں کی کبھی سیاسی فائدے کے لئے تشہیر میں نے ہوتے نہیں دیکھی۔
باقی نواز شریف کے پاس کتنی دولت ہے اس کا قطعی علم مجھے نہیں اور نا ہی میں یہ فیصلہ کر سکتا ہوں کہ ان کو اپنی کتنی دولت فلاحی کاموں میں صرف کرنا چاہئے اور کتنی ذاتی استعمال میں۔ فلاہی کاموں میں اپنا مال استعمال کرنا انسان کی اپنی صوابدید پر ہوتا ۔

میں شریف خاندان کے فلاحی کاموں کا ذکر نہیں کر رہا۔

اور جن فلاحی کاموں کا ذکر آپ نے کیا ہے تو جتنا انہوں نے ان فلاحی کاموں پر خرچ کیا ہے اس سے 100 گنا زیادہ انہوں نے پاکستان سے کما لیا۔

میرا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ شریف خاندان کا حکومت کا شوق کیوں ختم نہیں ہوتا اور یہ لوگ آخر کب تک پاکستان کی "خدمت" کرتے رہیں گے۔

ویسے کیا آپ کے خیال میں شریف برادران "کرپٹ" نہیں ہیں؟
 

محمداحمد

لائبریرین
اگر آپ شریف خاندان کے فلاحی کاموں کا ذکر کر رہے تو اتفاق ہسپتال تو ہمارے گھر کے قریب ہے جو ٹرسٹ ہے اور میں بہت سے ایسے گواہان سے مل چکا ہوں جنہوں نے بتایا کہ وہاں غریبوں کا علاج مفت ہوتا ہے۔ اتفاق مسجد بھی اس کے قریب ہے جو اس خاندان نے بنائی۔ شریف میڈیکل سٹی وہ بھی ٹرسٹ ہے اور رائونڈ میں ہے۔

ویسے نام کمانے کا بہت شوق ہے ان لوگوں کو۔

اتفاق مسجد :) حیرت ہے۔ :)
 
میں شریف خاندان کے فلاحی کاموں کا ذکر نہیں کر رہا۔
آپ نے فرمایا تھا کہ
ہاں اگر وہ پھر بھی پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے پاس اتنی دولت ہےکہ وہ باآسانی پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت کے ارمان نکال سکتے ہیں
تو کیا دولت کے ذریعے خدمت کو فلاحی کام نہیں کہتے؟ میری اصلاح کر دیجئے۔
اور جن فلاحی کاموں کا ذکر آپ نے کیا ہے تو جتنا انہوں نے ان فلاحی کاموں پر خرچ کیا ہے اس سے 100 گنا زیادہ انہوں نے پاکستان سے کما لیا۔
آپ کے پاس الزام کا کوئی ثبوت ہے تحریک انصاف کے الزامات کو علاوہ؟ یا محض ایک بد گمانی ہے؟
میرا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ شریف خاندان کا حکومت کا شوق کیوں ختم نہیں ہوتا اور یہ لوگ آخر کب تک پاکستان کی "خدمت" کرتے رہیں گے۔
سیاست میں حصہ لینا ہر پاکستانی کا حق ہے اس سے آپ کسی کو روک نہیں سکتے ۔ البتہ ان کی ذاتی خواہشات کا جواب وہ خود ہی دے سکتے ہیں ۔ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ وہ سیاست چھوڑ دیں؟
ویسے کیا آپ کے خیال میں شریف برادران "کرپٹ" نہیں ہیں؟
میرے خیال میں پاکستان میں سیاست میں حصہ لینے والا ہر شخص محض مال بنانے کے لئے ہی سیاست میں حصہ لیتا ہے اس میں کسی کی تخصیص نہیں۔
البتہ کچھ لوگ حکومت کے دوران کچھ اچھے کام بھی کر جاتے ہیں شریف برادران ان میں سے ہیں۔ کپتان کی حکومت نے بھی سرحد میں کچھ اچھے کام کئے ہیں۔
 
Top