سیاسی ڈائری:عمران نے وزیر اعظم کے استعفے کا بھاری پتھر چوم کررکھ دیا
اسلام آباد (محمد صالح ظافر۔ خصوصی تجزیہ نگار) تحریک انصاف کے سربراہ عمرا ن خان نے تین ماہ کی بے مقصد خواری کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے استعفی کا بھاری پتھر چوم کر رکھ دیا ہے، انہیں اس رجعت کا اعلان ریڈزون کے اس ڈی چوک میں کرنا چاہئےتھا جہاں وہ آہنی کنٹینر پر کھڑے ہو کر گزشتہ اگست سے گلا پھاڑ پھاڑ کر دعویٰ کرتے رہے تھے کہ وہ یہاں سے استعفیٰ لئے بغیر نہیں جائیںگے، اپنے فیصلے میں ایک سو اسی ڈگری کے اس یو ٹرن کی اطلاع انہوںنے اپنے ممدوحین یورپی ممالک کے سفیروں کو دی جنہوں نے ان کی درخواست پر ملاقات کی تھی، یہ سفیر پاکستان کی قومی سیاست میں اہم حیثیت اختیار کرگئے ایک کھلاڑی کی گفتگو سے سخت مایوس ا ور مضطرب ہوئے کہ پاکستان کامستقبل کس نوع کے افراد کے ہاتھوں میں سونپا جارہا ہے جن کی سوچ میں اعتدال اور توازن نظر ہی نہیں آتا۔ خان نے اپنی انگریزی سے ان سفیروں کو متاثر کرنے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے وہ گھریلو لہجے کی انگریزی بول رہےتھے جس میں ربط اور ترتیب کا فقدان تھا۔ ان یورپی سفیروں کاخیال تھا کہ برطانیہ سے فارغ التحصیل کرکٹ کا یہ سابق نامور کھلاڑی اپنے ملک اور خطے کے حالات کےبارے میں چشم کشا گفتگو کرے گا۔ انہیں یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ خان اوسط درجے کے پاکستانی شہریوں سے بھی گئی گذری بات چیت کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات کرنے والوںمیں جرمنی، اٹلی، فرانس، سویڈن اور ڈنمارک کے سفیر بھی شامل تھے جو اپنے تبحر علمی کی وجہ سے سفارت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں۔ بیس کے لگ بھگ ان سفیروںاور سفارتکاروںنے فسادی دھرنے اور تیس نومبر کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی دھمکی کے حوالے سے متعدد استفسارات کئے۔ خان ان سوالات کا اطمینان بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔ وہ اس بات پر مضطرب ہوئے کہ عمران خان کے لب و لہجے میں توازن بھی موجود نہیں تھا۔ ان سفیروںنے بڑے اصرار کے ساتھ ایک ہی بات پوچھی کہ وہ اپنے ایجی ٹیشن کو کب تک جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔ جن ممالک کے سفیروںنے خان سے ملاقات کی ان میں پاکستان کےبڑے بڑے تجارتی حصہ دار ملک بھی شامل ہیں جنہیں پاکستان کے ساتھ اپنے کاروبار کو وسعت دینا ہے لیکن یہاں کے حالات میںدر آئی ابتری کےباعث ان ملکوں نے اپنا ہاتھ روک رکھا ہے۔ عمران خان کا اصرا ر تھا کہ انہیں دھرنے کی بدولت زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے ان سے بعض سفیروں نے پوچھا کہ وہ اپنی اس کامیابی کو کس پیرائے میں بیان کرینگے اور اس کی ٹھوس شکل و صورت سے آگاہ کریں، عمران کےپاس اس کا کوئی جواب موجودنہیں تھا وہ بار بار یہی کہتےر ہے کہ ان کے نام نہاددھرنے نے نوجوانوں، خواتین اور دیہی سطح پر سیاسی شعور بیدار کردیا ہے۔ سفیروںنے ان پر واضح کیا کہ یہی کام ٹیلی ویژن اورریڈیو کے ذریعے اپنی آواز عوام تک پہنچا کر انجام دیا جاسکتا تھا پورے ملک کی ترقی اور زندگی کے نظام کو معطل کرکے اس مقصد کو حاصل کرنا قابل فہم نہیں ۔ انہوںنے انتخابی بے ضابطگیوں کا رونا رویا سفیروں نے انہیں یاد دلایا کہ اس مقصد کے لئے ملکی آئین میں طریق کار موجودہے جس سے انحراف کی راہ کیوںا ختیار کی گئی ہے ،خان نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اگر حکومت ان کے اعلان کے مطابق چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کرالیتی تو وہ دھرنے پرمجبور نہ ہوتے۔ یہ حکومتی سرد مہری کانتیجہ ہے کہ تحریک انصاف کو لانگ مارچ کے لئے مجبور ہوناپڑا ہے انہوں نے بتایاکہ حکومت جوڈیشل کمیشن سمیت ان کے تمام مطالبات ماسویٰ وزیراعظم کے استعفیٰ ماننے کے لئے رضامند ہوگئی تھی اب وہ اس سے بھی منحرف ہورہی ہے حالانکہ وہ وزیراعظم کے استعفیٰ کے مطالبے سے بھی دستبردار ہوگئےہیں۔ عمران خان کے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے ہیں جن سے وہ بوکھلا کرالٹی سیدھی باتیں کرنے لگے ہیںا نہیں بخوبی علم ہے کہ اگر وہ گرفتار کرلئے گئے توان کی ضمانت یا رہائی ممکن نہیں رہے گی کیونکہ انسداد دہشت گردی کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ بار بار اپنی صفائی دے رہے ہیں کہ جب سرکاری ٹی وی پر حملہ ہوا تو وہ سورہےتھے انہیںچاہئے کہ وہ صفائی کے طورپر اپنا یہ بیان عدالت میں جاکردیں۔ عمران خان کے لئے جیل یقیناً بہت مشکل جگہ ہوگی کیونکہ انہیں جس ’’خوراکی‘‘ کی ضرورت ہے وہ اس جیل میں سخت نگرانی کے باعث نہیں ملے گی۔ خان شائد ہر طرح کی مشکل کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے لیکن ’’خوراکی‘‘ کے بغیر ان کے ہاں زندگی کا کوئی تصور نہیں اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالتی کارروائی کواس کے منطقی انجام تک پہنچائے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے اور اشتہاری مجرم قرار پانے کے بعد تحریک انصاف اور عوامی اتحاد کے بے ہمت رہنمائوں کا حکومت کو للکارنا کسی چیلنج سے کم نہیں، حکومت کو اپنے اختیارات کی رٹ ثابت کرنے کے لئے ان تمام اشتہاری مجرموں اور مقدمےمیں ماخوذ ملزموں کو ایک مرتبہ پکڑ کر عدالت سماعت کے حوالے کرنا پڑے گا۔
اسلام آباد (محمد صالح ظافر۔ خصوصی تجزیہ نگار) تحریک انصاف کے سربراہ عمرا ن خان نے تین ماہ کی بے مقصد خواری کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے استعفی کا بھاری پتھر چوم کر رکھ دیا ہے، انہیں اس رجعت کا اعلان ریڈزون کے اس ڈی چوک میں کرنا چاہئےتھا جہاں وہ آہنی کنٹینر پر کھڑے ہو کر گزشتہ اگست سے گلا پھاڑ پھاڑ کر دعویٰ کرتے رہے تھے کہ وہ یہاں سے استعفیٰ لئے بغیر نہیں جائیںگے، اپنے فیصلے میں ایک سو اسی ڈگری کے اس یو ٹرن کی اطلاع انہوںنے اپنے ممدوحین یورپی ممالک کے سفیروں کو دی جنہوں نے ان کی درخواست پر ملاقات کی تھی، یہ سفیر پاکستان کی قومی سیاست میں اہم حیثیت اختیار کرگئے ایک کھلاڑی کی گفتگو سے سخت مایوس ا ور مضطرب ہوئے کہ پاکستان کامستقبل کس نوع کے افراد کے ہاتھوں میں سونپا جارہا ہے جن کی سوچ میں اعتدال اور توازن نظر ہی نہیں آتا۔ خان نے اپنی انگریزی سے ان سفیروں کو متاثر کرنے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے وہ گھریلو لہجے کی انگریزی بول رہےتھے جس میں ربط اور ترتیب کا فقدان تھا۔ ان یورپی سفیروں کاخیال تھا کہ برطانیہ سے فارغ التحصیل کرکٹ کا یہ سابق نامور کھلاڑی اپنے ملک اور خطے کے حالات کےبارے میں چشم کشا گفتگو کرے گا۔ انہیں یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ خان اوسط درجے کے پاکستانی شہریوں سے بھی گئی گذری بات چیت کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات کرنے والوںمیں جرمنی، اٹلی، فرانس، سویڈن اور ڈنمارک کے سفیر بھی شامل تھے جو اپنے تبحر علمی کی وجہ سے سفارت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں۔ بیس کے لگ بھگ ان سفیروںاور سفارتکاروںنے فسادی دھرنے اور تیس نومبر کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی دھمکی کے حوالے سے متعدد استفسارات کئے۔ خان ان سوالات کا اطمینان بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔ وہ اس بات پر مضطرب ہوئے کہ عمران خان کے لب و لہجے میں توازن بھی موجود نہیں تھا۔ ان سفیروںنے بڑے اصرار کے ساتھ ایک ہی بات پوچھی کہ وہ اپنے ایجی ٹیشن کو کب تک جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔ جن ممالک کے سفیروںنے خان سے ملاقات کی ان میں پاکستان کےبڑے بڑے تجارتی حصہ دار ملک بھی شامل ہیں جنہیں پاکستان کے ساتھ اپنے کاروبار کو وسعت دینا ہے لیکن یہاں کے حالات میںدر آئی ابتری کےباعث ان ملکوں نے اپنا ہاتھ روک رکھا ہے۔ عمران خان کا اصرا ر تھا کہ انہیں دھرنے کی بدولت زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے ان سے بعض سفیروں نے پوچھا کہ وہ اپنی اس کامیابی کو کس پیرائے میں بیان کرینگے اور اس کی ٹھوس شکل و صورت سے آگاہ کریں، عمران کےپاس اس کا کوئی جواب موجودنہیں تھا وہ بار بار یہی کہتےر ہے کہ ان کے نام نہاددھرنے نے نوجوانوں، خواتین اور دیہی سطح پر سیاسی شعور بیدار کردیا ہے۔ سفیروںنے ان پر واضح کیا کہ یہی کام ٹیلی ویژن اورریڈیو کے ذریعے اپنی آواز عوام تک پہنچا کر انجام دیا جاسکتا تھا پورے ملک کی ترقی اور زندگی کے نظام کو معطل کرکے اس مقصد کو حاصل کرنا قابل فہم نہیں ۔ انہوںنے انتخابی بے ضابطگیوں کا رونا رویا سفیروں نے انہیں یاد دلایا کہ اس مقصد کے لئے ملکی آئین میں طریق کار موجودہے جس سے انحراف کی راہ کیوںا ختیار کی گئی ہے ،خان نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اگر حکومت ان کے اعلان کے مطابق چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کرالیتی تو وہ دھرنے پرمجبور نہ ہوتے۔ یہ حکومتی سرد مہری کانتیجہ ہے کہ تحریک انصاف کو لانگ مارچ کے لئے مجبور ہوناپڑا ہے انہوں نے بتایاکہ حکومت جوڈیشل کمیشن سمیت ان کے تمام مطالبات ماسویٰ وزیراعظم کے استعفیٰ ماننے کے لئے رضامند ہوگئی تھی اب وہ اس سے بھی منحرف ہورہی ہے حالانکہ وہ وزیراعظم کے استعفیٰ کے مطالبے سے بھی دستبردار ہوگئےہیں۔ عمران خان کے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے ہیں جن سے وہ بوکھلا کرالٹی سیدھی باتیں کرنے لگے ہیںا نہیں بخوبی علم ہے کہ اگر وہ گرفتار کرلئے گئے توان کی ضمانت یا رہائی ممکن نہیں رہے گی کیونکہ انسداد دہشت گردی کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ بار بار اپنی صفائی دے رہے ہیں کہ جب سرکاری ٹی وی پر حملہ ہوا تو وہ سورہےتھے انہیںچاہئے کہ وہ صفائی کے طورپر اپنا یہ بیان عدالت میں جاکردیں۔ عمران خان کے لئے جیل یقیناً بہت مشکل جگہ ہوگی کیونکہ انہیں جس ’’خوراکی‘‘ کی ضرورت ہے وہ اس جیل میں سخت نگرانی کے باعث نہیں ملے گی۔ خان شائد ہر طرح کی مشکل کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے لیکن ’’خوراکی‘‘ کے بغیر ان کے ہاں زندگی کا کوئی تصور نہیں اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالتی کارروائی کواس کے منطقی انجام تک پہنچائے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے اور اشتہاری مجرم قرار پانے کے بعد تحریک انصاف اور عوامی اتحاد کے بے ہمت رہنمائوں کا حکومت کو للکارنا کسی چیلنج سے کم نہیں، حکومت کو اپنے اختیارات کی رٹ ثابت کرنے کے لئے ان تمام اشتہاری مجرموں اور مقدمےمیں ماخوذ ملزموں کو ایک مرتبہ پکڑ کر عدالت سماعت کے حوالے کرنا پڑے گا۔