جاسم محمد
محفلین
سیالکوٹ؛ جنوبی ایشیا کے امیرترین شہروں میں سے ایک
ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری اتوار 19 جنوری 2020
''ورکنگ باؤنڈری'' اسے مقبوضہ کشمیر کے ضلع جموں سے الگ کرتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے چند امیر ترین شہروں میں سے ایک سیالکوٹ، صوبہ پنجاب کے شمال مشرقی کونے میں واقع ایک گنجان آباد ضلع ہے جس کے مشرق میں ضلع نارووال، مغرب میں ضلع گجرات اور گوجرانوالہ، جنوب میں ضلع گوجرانوالہ اور ضلع شیخوپورہ جب کہ شمال میں مقبوضہ جموں کشمیر واقع ہے۔
”ورکنگ باؤنڈری” اسے مقبوضہ کشمیر کے ضلع جموں سے الگ کرتی ہے۔ 3016مربع کلومیٹر پر محیط ضلع سیالکوٹ ”رچنا دوآب” کا ایک اہم اور زرخیز علاقہ ہے۔ کشمیر ہلز کی آغوش میں آباد اس ضلع کو ایک جانب سے ”نالہ ڈیک” اور دوسری جانب ”دریائے چناب” نے گھیر رکھا ہے۔ ضلع سیالکوٹ کی کُل آبادی 3893?672 نفوس پر مشتمل ہے اور اس میں 7 ٹاؤنز اور2،348 دیہات شامل ہیں۔
کشمیر کے پہاڑوں سے ٹکرا، کر وادی کے گلزاروں سے مہکتی ہوئی ہوائیں بادلوں سے سرسراتی ہوئی جب سیالکوٹ پہنچتی ہیں تو یہاں کا ہر ایک شجر جھوم جھوم کر فضا کو خمار آلود کر دیتا ہے۔ یہ روح پرور ماحول بڑے بڑے عارفوں اور درویشوں کو دھیان سے گیان کی منزل تک لے جاتا ہے اور اسی وجہ سے اس علاقے کو مہاتماؤں کی سرزمین کے نام سے بھی بھی یاد کیا جاتا ہے۔
راجا سل نے یہ شہر آباد کر کے اسکا نام ”سل کوٹ” رکھا جو بدلتے بدلتے سیالکوٹ بن گیا۔ بوسیدہ کھنڈر، سلاطین کے مقبرے، مسمار قلعے، قدیم گلیاں، نوآبادیاتی دور کے چرچ، چپے چپے پر پُرانے ادوار کے نقش و نگار اس کی گذشتہ بڑائی کے افسانے دہراتے ہیں۔ جس قدر پہ در پہ انقلابات اور زمانے کی نیرنگیاں سیالکوٹ کے حصے میں آئی ہیں شاید ہی کوئی اور شہر (ماسوائے ملتان کے) ان کا متحمل ہوسکا ہو۔
اس علاقے کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ نہ صرف ہندو اور مسلمان بلکہ سکھوں، فارسیوں، افغانیوں، ترکوں اور مغلوں نے بھی اس علاقے کی طرف ہجرت کی ہے۔ سیالکوٹ کی قدیم و زرخیزتاریخ کو 4 ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور قدیم شہر ”ساگالہ” کا ہے۔ آس پاس کے علاقے کی کھدائی سے یہاں قدیم یونانی تہذیب کے آثار ملے ہیں جن میں یونانی سِکّے اور اسٹوپے شامل ہیں۔
قدیم یونانی کتابوں میں اس شہر کا ذکر ”ساگالہ” کے نام سے ملتا ہے جو انڈو- یونانی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ ضلع کی مختلف جگہوں پر کھدائیوں سے اس دور کے قدیم یونانی نقشے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ہندو راجا سل کا دور آیا جس نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ راجا سلبان/سالبان نے اسے کشمیر کا حصہ بنا کر یہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا اور اسے اس شہر کے نام پر ”سیالکوٹ قلعہ” کا نام دیا۔ دوسرا دور”مسلم سلطنت” کا دور ہے جو شہاب الدین محمد غوری کی حکومت کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ غوری لاہور تو فتح نہ کر سکا لیکن اس نے سیالکوٹ کو اہمیت دیتے ہوئے یہاں ایک گیریژن کی بنیاد رکھی-
1520 میں عثمان غنی کی قیادت میں مغل افواج شہر میں داخل ہوئیں۔ اکبر کے دور میں موجودہ ضلع سیالکوٹ، ”رچنا بار سرکار” کے نام سے صوبہ لاہور کا حصہ تھا۔ پھر شاہ جہاں کے دور میں علی مردان خان یہاں کا حکم راں رہا۔ 18 ویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سکھ مہاراجا رنجیت سنگھ نے 40 سال تک اس علاقہ پہ اپنا قبضہ برقرار رکھا۔
1849 کی جنگ سے سیالکوٹ کی تاریخ کے تیسرے دور (نوآبادیاتی دور) کا آغاز ہوتا ہے جب انگریزوں نے رنجیت سنگھ کو ہرا کر سیالکوٹ سمیت پورے پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ 1857 کی جنگِ آزادی میں سیالکوٹ میں تعینات رجمنٹ نے بغاوت کردی اور مقامی افراد نے بھی انگریز سرکار کے خلاف ہتھیار اُٹھا لیے۔ بہت سے لوگوں نے سیالکوٹ کے قلعے میں پناہ لی اور اپنی جان بچائی تاہم انگریز سرکار نے اس بغاوت کو کچل دیا۔ سیالکوٹ شہر کی بھرپور ترقی بھی اسی نوآبادیاتی دور میں ہوئی۔ 1889 میں ”مرے کالج” کی بنیاد رکھی گئی۔ 1980 میں وزیرآباد – سیالکوٹ ریلوے ٹریک کو جموں تک توسیع دی گئی جب کہ ”سیالکوٹ تا نارووال’ ریلوے لائن 1915 میں کھول دی گئی۔ اسی دور میں سیالکوٹ دھاتی اشیاء کے حوالے سے اُبھر کر آیا۔
سیالکوٹ کی ”سرجیکل صنعت” کی بھی ایک الگ کہانی ہے۔ انگریز دور میں یہاں کے ”مشن اسپتال” کے تمام تر آپریشنوں کے لیے اوزار شہر میں مرمت کیے جاتے تھے اور آہستہ آہستہ ان کو بنانے کا کام بھی شروع کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ 1920 تک سیالکوٹ کے آلاتِ جراحی پورے برِصغیر میں استعمال ہونے لگے۔ دوسری جنگِ عظیم کی بدولت یہ صنعت اپنے عروج پر پہنچ گئی جب تاجِ برطانیہ نے اپنی سرجیکل اوزاروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں نت نئی تکنیکیں متعارف کروائیں۔ جنگِ عظیم دوئم کے بعد، سیالکوٹ امرتسر کے بعد پنجاب کا دوسرا بڑا صنعتی شہر قرار پایا۔ شہر کی بھرپور ترقی کو دیکھتے ہوئے ریاست کشمیر کے لاتعداد لوگ بھی ضلع سیالکوٹ میں آن بسے۔ بڑی تعداد میں بسنے والی عوام کے ٹیکسوں سے شہر کا ڈھانچا کھڑا کیا گیا۔ یہاں تک کہ سیالکوٹ کا شمار برِصغیر کے ان چند شہروں میں ہونے لگا کہ جن کا اپنا ذاتی بجلی فراہم کرنے کا ادارہ تھا۔
آزادی کی تحریک شروع ہونے کے کافی عرصے بعد بھی سیالکوٹ پُرامن رہا جب کہ اس کے قرب و جوار میں لاہور، امرتسر اور لُدھیانہ فسادات میں جلتے رہے۔ تحریک پاکستان میں اس شہر کا ایک اہم کردار تھا۔ پاکستان کا نظریہ پیش کرنے والے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اسی دھرتی کے سسپوت تھے، جب کہ 1994 کا تاریخی ”سیالکوٹ کنونشن” بھی یہاں منعقد ہوا جس میں قائدِاعظم سمیت مسلم لیگ کے بڑے بڑے راہ نماؤں نے شرکت کی اور آخر کار1947 میں تقسیمِ پاکستان کے وقت اسے پاکستان میں شامل کر دیا گیا۔
سیالکوٹ کا چوتھا اور آخری دور اس کی موجودہ تاریخ ہے۔ تقسیم کے بعد بہت سے مسلمان مہاجرین یہاں آ بسے۔ آزادی کے بعد سیالکوٹ میں بہت کم صنعتیں رہ گئی تھیں۔ سیالکوٹ کی صنعت کر یہاں ہجرت کرکے آنے والوں نے نئے جوش وجذبے کے ساتھ دوبارہ پروان چڑھایا اور حکومتِ پاکستان نے بھی ان کی بھرپور مدد کی۔ 1960 کے دوران ضلع بھر میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا اور سیالکوٹ کو جی ٹی روڈ سے ملادیا گیا۔ 1965 کی جنگ میں بھارت نے جموں کی طرف سے سیالکوٹ پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج نے کام یابی سے شہر کا دفاع کیا اور سیالکوٹیوں نے بے جگری سے اپنی فوج کا ساتھ دیا۔
غیور شہری بھارتی ٹینکوں کے سامنے بم باندھ کر لیٹ گئے اور چونڈہ کے محاذ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ یہ وہ محاذ ہے جہاں جنگِ عظیم دوئم کے بعد دنیا کی دوسری بڑی ٹینکوں کی لڑائی لڑی گئی۔ اہلِ سیالکوٹ کی بہادری کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے 1966 میں سیالکوٹ کے باسیوں کو ”ہلالِ استقلال” سے نوازا (اہلیانِ لاہور اور سرگودھا کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے)۔ 1971 کی جنگ میں بھی سیالکوٹ کا بھرپور دفاع کیا گیا یہاں تک کہ بھارتی علاقے ”چھمب سیکٹر” پر پاک فوج کا قبضہ ہو گیا۔
1991 میں ضلع سیالکوٹ کی ایک تحصیل نارووال کو الگ کرکے ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ ضلع سیالکوٹ میں پسرور، سمبڑیال، ڈسکہ اور سیالکوٹ کی تحصیلیں شامل ہیں۔
3016 مربع کلومیٹر رقبے کے حامل ضلع سیالکوٹ کی آبادی لگ بھگ اڑتیس لاکھ ترانوے ہزار چھ سو بہتر نفوس پر مشتمل ہے۔ طبعی خدوخال کے لحاظ سے سیالکوٹ کی زمین ہموار اور زرخیز ہے۔ ضلع کے شمال مغرب میں ”بجوات” کا جنگلی حفاظتی علاقہ ہے جو دریائے چناب اور اس کے معاون توی دریا کے درمیان ہے۔
دریائے چناب ضلع سیالکوٹ اور گجرات کی سرحد پر بہتا ہے۔ جموں کے پہاڑوں میں ایک چھوٹے سے نالے کی شکل میں بہتا یہ دریا سرحد کے اس پار “چندربھاگ” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ سرحد کے اِس پار اِسے “چناب” کا نام دیا گیا ہے۔ چناب کا نام ‘چن’ اور ‘آب’ سے مل کر بنا ہے جس میں چن کا مطلب چاند اور آب کا مطلب پانی ہے، یہ دریائے چندرا اور دریائے بھاگا کے بالائی ہمالیہ میں ٹنڈی کے مقام پر ملاپ سے بنتا ہے، جو بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع لاہول میں واقع ہے۔
بالائی علاقوں میں اس کو ”چندرابھاگا” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ جموں و کشمیر کے جموں کے علاقہ سے بہتا ہوا بذریعہ کوہِ پیر پنجال ضِلع سیالکوٹ کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ مرالا کے مقام پر اِس کے سینے پہ بندھ باندھا گیا ہے جِسے “مرالا ہیڈورکس” کہا جاتا ہے۔ یہاں سے دو بڑی نہریں “مرالا راوی لِنک کینال” اور “اَپر چناب کینال” کے نام سے نِکالی گئی ہیں۔ 1968میں بنایا گیا یہ بند ضلع کا ایک مشہور تفریحی مقام ہے۔
نالہ ڈیک سیالکوٹ کے مغرب میں بہتا ہے۔ یہ ایک برساتی نالہ ہے جو مقبوضہ جموں کشمیر سے سیالکوٹ میں داخل ہوتا ہے جس کے ایک طرف تحصیل پسرور جب کہ دوسری جانب ضلع نارووال کا علاقہ ہے۔ سیالکوٹ کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ گرمیوں میں درجہ حرارت 41 ڈگری سینٹی گریڈ جب کہ سردیوں میں کم سے کم 2- ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سیالکوٹ کا شمار پنجاب کے ان چند اضلاع میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ سالانہ بارش کی اوسط 980 ملی لیٹر ہے۔ ضلع کا بیشتر رقبہ زرخیز ہے جس پہ چاول، گندم، گنا، مکئی، جوار، آلو، لہسن اور دالیں کاشت کی جاتی ہیں جب کہ کئی مقامات پر امرود، جامن اور انار کے باغات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ضلع کا 6401ایکڑ رقبہ جنگلات نے گھیر رکھا ہے۔
سیالکوٹ پنجاب کا تیسرا بڑا صنعتی شہر ہے جس کی مشہور صنعتوں میں کھیلوں کا سامان بنانے، آلاتِ جراحی، چمڑے کی مصنوعات، کیمیکل بنانے، کوکنگ آئل اور ویجیٹیبل گھی، ٹائر اور ربڑ کی مصنوعات، ادویات بنانے، سٹیل کے برتن بنانے، آٹا پیسنے، دستانے بنانے، موسیقی کے آلات بنانے اور چاول چھڑنے کے کارخانے شامل ہیں۔ پاکستان کے امیر ترین شہروں میں سے ایک، سیال کوٹ کی سب سے بڑی صنعت کھیلوں کا سامان بنانے کی صنعت ہے۔ 100 سال سے بھی زیادہ پرانی یہ صنعت شروع میں کرکٹ، ہاکی اور پولو کا سامان بناتی تھی۔ 1918 میں فٹبال بھی ان میں شامل ہو گئی جو سنگاپور میں مقیم برطانوی فوج کے لیے بنائی جاتی تھی۔
آج کھیلوں کی دنیا کی تمام مشہور کمپنیاں اس شہر سے پوری دنیا میں سامان برآمد کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر فٹبال کی 60 سے 70 فی صد طلب سیالکوٹ سے پوری کی جاتی ہے۔ سیالکوٹ کی تقریباً تمام مصنوعات برآمد کر دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے یہ شہر پاکستان کی کل برآمدات میں 9 فی صد حصہ رکھتا ہے۔ یہ برآمدات ”سیالکوٹ ڈرائی پورٹ” کے علاوہ لاہور اور کراچی سے بھی بھیجی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سیالکوٹ – لاہور موٹروے بھی تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے جو اس شہر کی ترقی کو ساتویں آسمان تک لے جائے گی۔ اقبال کے شاہینوں کی محنت اور لگن سے پاکستان کے نقشے پر ایک اور ایئرپورٹ ”سیالکوٹ ایئرپورٹ” کے نام سے ابھر کہ سامنے آیا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد ”نجی انٹرنیشنل ایئرپورٹ” ہے جہاں سے اندرونی پروازوں کے علاوہ خلیجی ممالک کو بھی پروازیں جاتی ہیں۔
اب ذکر ہو جائے شہرِ اقبال کی تاریخی و سیاحتی جگہوں کا۔
٭ اقبال منزل؛
اقبال کے دیس کی سب سے بڑی پہچان خود شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ہیں۔ سیالکوٹ کے پرانے حصے میں واقع ان کے گھر ”اقبال منزل” کو دور دور سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔ یہ گھر علامہ اقبال کی جائے پیدائش ضرور ہے مگر یہ مکان اُن کے بھائی شیخ عطا محمد کے حصے میں آیا تھا جب کہ سیالکوٹ ہی میں علامہ اقبال کے والد کا ایک اور مکان تھا جو علامہ کے حصے میں آیا تھا۔
1971میں حکومت نے پاکستان کے قومی شاعر کی جائے پیدائش کو قومی یادگار قرار دے کر یہ مکان شیخ عطا محمد کی اولاد سے خریدا تھا مگر نو مرلے کے اس تین منزلہ مکان کی حالت بہت بوسیدہ تھی۔ اب اس عمارت کو حکومتِ پاکستان نے قومی ورثہ قرار دے دیا ہے اور نئے سرے سے اس کی تزئین و آرائش کروا کر اسکے کچھ حصوں کو سیاحوں کے لیے کھول دیا ہے۔
٭ شوالہ تیجا سنگھ ٹیمپل؛
مہاراجا رنجیت سنگھ نے ہندوستان اور خصوصاً سرزمینِ پنجاب پے گہرے اثرات چھوڑے ہیں، چاہے وہ تاریخ ہو، ثقافت ہو، فنِ تعمیر ہو یا رسم و رِواج۔
رنجیت سنگھ کے دورِحکومت میں پنجاب کے طول و عرض میں کئی مندِر اور عبادت گاہیں بنائی گئیں۔ سیالکوٹ شہر کا شوالا تیجا سنگھ مندِر بھی اُنھی میں سے ایک ہے جو کہ تیجا سنگھ نامی ہندو نے بنوایا تھا۔ یہ آج بھی سیالکوٹ کی بلند ترین عمارات میں سے ایک ہے۔
1857 کی جنگ آزادی جس کو انگریز غدر کا نام دیتے تھے، میں سیالکوٹ میں ہوئی بغاوت میں انگریزوں نے اس شوالے میں پناہ لی۔ بہت سے انگریز اس دوران مارے گئے، لاہور سے آنے والی انگریز فوج نے ان کو یہاں سے نکالا۔
شہر کے پرانے حِصے میں اِقبال منزِل سے کچھ آگے جائیں تو ایک راستہ اوپر کی طرف اِس مندِر کی طرف لے جاتا ہے۔ شوالا ہندو دیوتا شیو کے مندر کو کہا جاتا ہے جہاں خاص طور پر شیو کی پوجا کی جاتی ہے۔ ساتھ میں شیو کی بیوی پاربتی کی بھی پوجا ہوتی ہے اور شیو کے بیل نندی کی مورتی یا تصویر بھی موجود ہوتی ہے۔
مقامی افراد کے مُطابق 200سال قدیم (اور “تاریخِ سیالکوٹ” کے مُصنف راشِد نیاز مرحوم کے مطابِق ایک ہزار سال قدیم یہ مندِر تقریباً سو فٹ کی اونچائی پر واقع ہے۔
1992 کے بابری مسجِد فسادات کے جواب میں ایک مشتعِل گروہ نے اِسے نقصان پہنچایا تھا۔ اس دن کے بعد سے مقامی ہندوؤں نے یہاں عِبادت کرنا بند کر دیا۔ سیالکوٹ کی میونسپل کمیٹی نے یہاں ایک پارک بنا دیا ہے جہاں آس پاس کے گھروں کے بچے کھیلنے آتے ہیں۔ ہماری قومی بے حِسی کے عین مطابق تاریخ کے اس یادگار دور کو ہم نے اِس عِمارت کی طرح فراموش کر دیا تھا لیکن حکومت وقت نے حال ہی میں اس کی مرمت اور تزئین و آرائش کروا کر اسے عوام کے لیے کھول دیا ہے۔
٭ گھنٹہ گھر سیالکوٹ؛
سیالکوٹ کا گھنٹہ گھر، کینٹ میں صدر بازار کے بیچوں بیچ ایستادہ ہے جسے اقبال اسکوائر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا سنگ بنیاد شیخ غلام قادر اور سیٹھ رائے بہادر نے رکھا تھا۔ ایک صدی سے بھی قدیم اس گھنٹہ گھر نے تاریخ کے کئی عروج و زوال دیکھ رکھے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی کئی بار مرمت کی گئی ہے لیکن بنیادی ڈھانچا وہی ہے۔ پانچ منزلہ اس ٹاور کی اوپری منزل پر بڑی سائز کی گھڑیاں لگی ہیں جو رومن ہندسوں میں وقت بتاتی ہیں۔ برطانوی دور میں برصغیر کے کئی شہروں میں گھنٹہ گھر بنائے گئے تھے جن میں سے سیالکوٹ بھی ایک تھا۔
٭سیالکوٹ کیتھیڈرل؛
1852 میں بنایا گیا ہولی ٹرینٹی چرچ سیالکوٹ، کینٹ میں واقع ایک قدیم اور خوب صورت چرچ ہے جس کی سفید اور لال، گوتھک طرز تعمیر کی حامل عمارت واقعی ایک شاہ کار ہے۔ اس کے خوب صورت مینار کو آپ دور سے ہی دیکھ سکتے ہیں، جب کہ اس کی محرابیں اور لمبی کھڑکیاں اس کی دل کشی میں اور اضافہ کرتی ہیں۔ یہاں لگی ایک تختی کے مطابق اسے بنگال انجنیئرز کے ہارٹلے میکسویل نے ڈیزائن اور تعمیر کیا تھا جب کہ 1 مارچ 1852 کو اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ 30 جنوری 1857 کو اسے کلکتہ کے بشپ ڈینیئل ولسن کی طرف سے مقدس ترین قرار دے کر مذہبی کاموں کے لیے وقف کر دیا گیا تھا۔
یہ کینٹ میں واقع دو چرچوں میں سے بڑا اور سیالکوٹ شہر کا مرکزی چرچ ہے جسے برطانوی راج میں انگریز سرکار نے کینٹ میں رہائش پزیر فوجیوں کی سہولت کے لیے بنوایا تھا اور اب اس کی دیکھ بھال حکومتِ پاکستان بہت اچھے طریقے سے کر رہی ہے۔ اس پر سالانہ بنیادوں پر رنگ روغن کیا جاتا ہے اور کرسمس کی مرکزی تقریبات بھی یہیں منعقد کی جاتی ہیں۔ یقیناً یہ ہمارے زرخیز تاریخی ورثے کا امین ہے۔
اس کے نزدیک ہی گلابی رنگ کا ایک اور چرچ واقع ہے جو بہت زیادہ مشہور نہیں ہے لیکن اس کی عمارت بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ سینٹ جیمز کیتھولک چرچ ہے۔
٭ہیڈ مرالہ؛
دریائے چناب کے پاکستان میں قدم رکھتے ہی جو پہلا بند اس کے سینے پر باندھا گیا ہے، وہ ہیڈ مرالہ ہے۔ اس بیراج کو 1968 میں دریائے چناب کا پانی کنٹرول کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جو اب ایک بہت بڑا تفریحی مقام بن چکا ہے۔ مرالہ ہیڈ ورکس تقریباً 7 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ مرالہ راوی لنک کینال اور نہر اپر چناب یہاں سے نکالی گئی مشہور نہریں ہیں۔ ہر ہفتے یہاں کئی لوگ فیملی سمیت پکنک منانے آتے ہیں۔
سیالکوٹ جانے والے شوقین مزاج یہاں مچھلی کھانے لازمی جاتے ہیں۔
٭ قلعہ سیالکوٹ؛
سیالکوٹ قلعہ پاکستان کے قدیم ترین اور تاریخی قلعوں میں سے ایک ہے۔ یہ قلعہ دوسری صدی میں ہندو بادشاہ راجا سلوان نے تعمیر کروایا۔ اس قلعہ کو دس ہزار مزدوروں نے دو سال میں تعمیر کیا۔ اس کی تعمیر لکڑی کے پٹھوں، کنکریوں اور اینٹوں سے کی گئی اور یہ سارا سامان بھارت کے شہر پٹھان کوٹ سے منگوایا گیا۔ ایک سیاح کے لیے اس شہر میں بہت کچھ ہے۔ سیالکوٹ پنجاب کے ان چند شہروں میں سے ایک ہے جو قدیم و جدید کا ایک حسین امتزاج ہے۔
اس کے علاوہ سیالکوٹ میں جگّن ناتھ ٹیمپل، مرے کالج، پورن بھگت، درگاہ امام الحق، سینٹ جیمس کیتھیڈرل اور سیالکوٹ کینٹ مشہور و معروف جگہیں ہیں۔
اب آتے ہیں اس ضلع کی مشہور اور قدآور شخصیات کی طرف۔ سیالکوٹ نے بڑے بڑے سیاست داں، شاعر، فلسفی، لیڈر، ناول نگار، قلم کار، اداکار و موسیقار، کھلاڑی، صحافی، مصنف اور بزنس مین پیدا کیے ہیں جن پہ بلاشبہ پورے ملک کو فخر ہے۔ ان میں مندرجہ ذیل شخصیات قابلِ ذکر ہیں:
1۔ شاعرِ مشرق، مفکرِ پاکستان اور عظیم فلسفہ داں، ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال۔
2۔ مسلم اسکالر و مشہور لیڈر، مولانا عبید اللہ سندھی۔
3۔ پاکستان کے پہلے وزیرِخارجہ، سرظفر اللہ خان۔
4۔ عظیم انقلابی شاعر، فیض احمد فیض۔
5۔ گلزاری لال نندا، بھارتی وزیرِاعظم و سیاست داں۔
6۔ پہلے پاکستانی ایئر چیف، ایئرمارشل ظفر چوہدری۔
7۔ بھارتی جرنلسٹ، کلدیپ نائر۔
8۔ اردو شاعر اور مصنف، امجد اسلام امجد۔
9۔ متحدہ پنجاب کے راہ نما، سر فضل حسین۔
10- مشہور ادیب راجندر سنگھ بیدی۔
11۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو، وحید مراد۔
12۔ مشہور مصنفہ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار، عمیرہ احمد۔
13۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے اہم کھلاڑی، شعیب ملک۔
14۔ بھارتی اداکار، راجندر کمار۔
15۔ برِصغیر کے نامور غزل گائیک، محمد علی۔
16۔ صحافی و کالم نگار، حامد میر۔
17۔ بھارتی فلم اسٹار، دیو آنند (شکرگڑھ میں پیدا ہوئے جو اس زمانے میں سیالکوٹ کا حصہ تھا)
18۔ پاکستانی کرکٹر ظہیر عباس۔
19۔ صوفی رائٹر، بابا محمد یحییٰ خان۔
20۔ سابق قائم مقام صدرِ پاکستان، خواجہ محمد صفدر۔
21۔ چاچا کرکٹ، چوہدری عبدالمجید۔
22۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی، چوہدری امیر حسین۔
23۔ سیاست داں و موجودہ سیکرٹری برائے اطلاعات و نشریات، فردوس عاشق اعوان صاحبہ۔
24۔ سابق پاکستانی وزیرِخارجہ، خواجہ محمد آصف۔
محمد وارث
ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری اتوار 19 جنوری 2020
''ورکنگ باؤنڈری'' اسے مقبوضہ کشمیر کے ضلع جموں سے الگ کرتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے چند امیر ترین شہروں میں سے ایک سیالکوٹ، صوبہ پنجاب کے شمال مشرقی کونے میں واقع ایک گنجان آباد ضلع ہے جس کے مشرق میں ضلع نارووال، مغرب میں ضلع گجرات اور گوجرانوالہ، جنوب میں ضلع گوجرانوالہ اور ضلع شیخوپورہ جب کہ شمال میں مقبوضہ جموں کشمیر واقع ہے۔
”ورکنگ باؤنڈری” اسے مقبوضہ کشمیر کے ضلع جموں سے الگ کرتی ہے۔ 3016مربع کلومیٹر پر محیط ضلع سیالکوٹ ”رچنا دوآب” کا ایک اہم اور زرخیز علاقہ ہے۔ کشمیر ہلز کی آغوش میں آباد اس ضلع کو ایک جانب سے ”نالہ ڈیک” اور دوسری جانب ”دریائے چناب” نے گھیر رکھا ہے۔ ضلع سیالکوٹ کی کُل آبادی 3893?672 نفوس پر مشتمل ہے اور اس میں 7 ٹاؤنز اور2،348 دیہات شامل ہیں۔
کشمیر کے پہاڑوں سے ٹکرا، کر وادی کے گلزاروں سے مہکتی ہوئی ہوائیں بادلوں سے سرسراتی ہوئی جب سیالکوٹ پہنچتی ہیں تو یہاں کا ہر ایک شجر جھوم جھوم کر فضا کو خمار آلود کر دیتا ہے۔ یہ روح پرور ماحول بڑے بڑے عارفوں اور درویشوں کو دھیان سے گیان کی منزل تک لے جاتا ہے اور اسی وجہ سے اس علاقے کو مہاتماؤں کی سرزمین کے نام سے بھی بھی یاد کیا جاتا ہے۔
راجا سل نے یہ شہر آباد کر کے اسکا نام ”سل کوٹ” رکھا جو بدلتے بدلتے سیالکوٹ بن گیا۔ بوسیدہ کھنڈر، سلاطین کے مقبرے، مسمار قلعے، قدیم گلیاں، نوآبادیاتی دور کے چرچ، چپے چپے پر پُرانے ادوار کے نقش و نگار اس کی گذشتہ بڑائی کے افسانے دہراتے ہیں۔ جس قدر پہ در پہ انقلابات اور زمانے کی نیرنگیاں سیالکوٹ کے حصے میں آئی ہیں شاید ہی کوئی اور شہر (ماسوائے ملتان کے) ان کا متحمل ہوسکا ہو۔
اس علاقے کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ نہ صرف ہندو اور مسلمان بلکہ سکھوں، فارسیوں، افغانیوں، ترکوں اور مغلوں نے بھی اس علاقے کی طرف ہجرت کی ہے۔ سیالکوٹ کی قدیم و زرخیزتاریخ کو 4 ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور قدیم شہر ”ساگالہ” کا ہے۔ آس پاس کے علاقے کی کھدائی سے یہاں قدیم یونانی تہذیب کے آثار ملے ہیں جن میں یونانی سِکّے اور اسٹوپے شامل ہیں۔
قدیم یونانی کتابوں میں اس شہر کا ذکر ”ساگالہ” کے نام سے ملتا ہے جو انڈو- یونانی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ ضلع کی مختلف جگہوں پر کھدائیوں سے اس دور کے قدیم یونانی نقشے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ہندو راجا سل کا دور آیا جس نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ راجا سلبان/سالبان نے اسے کشمیر کا حصہ بنا کر یہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا اور اسے اس شہر کے نام پر ”سیالکوٹ قلعہ” کا نام دیا۔ دوسرا دور”مسلم سلطنت” کا دور ہے جو شہاب الدین محمد غوری کی حکومت کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ غوری لاہور تو فتح نہ کر سکا لیکن اس نے سیالکوٹ کو اہمیت دیتے ہوئے یہاں ایک گیریژن کی بنیاد رکھی-
1520 میں عثمان غنی کی قیادت میں مغل افواج شہر میں داخل ہوئیں۔ اکبر کے دور میں موجودہ ضلع سیالکوٹ، ”رچنا بار سرکار” کے نام سے صوبہ لاہور کا حصہ تھا۔ پھر شاہ جہاں کے دور میں علی مردان خان یہاں کا حکم راں رہا۔ 18 ویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سکھ مہاراجا رنجیت سنگھ نے 40 سال تک اس علاقہ پہ اپنا قبضہ برقرار رکھا۔
1849 کی جنگ سے سیالکوٹ کی تاریخ کے تیسرے دور (نوآبادیاتی دور) کا آغاز ہوتا ہے جب انگریزوں نے رنجیت سنگھ کو ہرا کر سیالکوٹ سمیت پورے پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ 1857 کی جنگِ آزادی میں سیالکوٹ میں تعینات رجمنٹ نے بغاوت کردی اور مقامی افراد نے بھی انگریز سرکار کے خلاف ہتھیار اُٹھا لیے۔ بہت سے لوگوں نے سیالکوٹ کے قلعے میں پناہ لی اور اپنی جان بچائی تاہم انگریز سرکار نے اس بغاوت کو کچل دیا۔ سیالکوٹ شہر کی بھرپور ترقی بھی اسی نوآبادیاتی دور میں ہوئی۔ 1889 میں ”مرے کالج” کی بنیاد رکھی گئی۔ 1980 میں وزیرآباد – سیالکوٹ ریلوے ٹریک کو جموں تک توسیع دی گئی جب کہ ”سیالکوٹ تا نارووال’ ریلوے لائن 1915 میں کھول دی گئی۔ اسی دور میں سیالکوٹ دھاتی اشیاء کے حوالے سے اُبھر کر آیا۔
سیالکوٹ کی ”سرجیکل صنعت” کی بھی ایک الگ کہانی ہے۔ انگریز دور میں یہاں کے ”مشن اسپتال” کے تمام تر آپریشنوں کے لیے اوزار شہر میں مرمت کیے جاتے تھے اور آہستہ آہستہ ان کو بنانے کا کام بھی شروع کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ 1920 تک سیالکوٹ کے آلاتِ جراحی پورے برِصغیر میں استعمال ہونے لگے۔ دوسری جنگِ عظیم کی بدولت یہ صنعت اپنے عروج پر پہنچ گئی جب تاجِ برطانیہ نے اپنی سرجیکل اوزاروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں نت نئی تکنیکیں متعارف کروائیں۔ جنگِ عظیم دوئم کے بعد، سیالکوٹ امرتسر کے بعد پنجاب کا دوسرا بڑا صنعتی شہر قرار پایا۔ شہر کی بھرپور ترقی کو دیکھتے ہوئے ریاست کشمیر کے لاتعداد لوگ بھی ضلع سیالکوٹ میں آن بسے۔ بڑی تعداد میں بسنے والی عوام کے ٹیکسوں سے شہر کا ڈھانچا کھڑا کیا گیا۔ یہاں تک کہ سیالکوٹ کا شمار برِصغیر کے ان چند شہروں میں ہونے لگا کہ جن کا اپنا ذاتی بجلی فراہم کرنے کا ادارہ تھا۔
آزادی کی تحریک شروع ہونے کے کافی عرصے بعد بھی سیالکوٹ پُرامن رہا جب کہ اس کے قرب و جوار میں لاہور، امرتسر اور لُدھیانہ فسادات میں جلتے رہے۔ تحریک پاکستان میں اس شہر کا ایک اہم کردار تھا۔ پاکستان کا نظریہ پیش کرنے والے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اسی دھرتی کے سسپوت تھے، جب کہ 1994 کا تاریخی ”سیالکوٹ کنونشن” بھی یہاں منعقد ہوا جس میں قائدِاعظم سمیت مسلم لیگ کے بڑے بڑے راہ نماؤں نے شرکت کی اور آخر کار1947 میں تقسیمِ پاکستان کے وقت اسے پاکستان میں شامل کر دیا گیا۔
سیالکوٹ کا چوتھا اور آخری دور اس کی موجودہ تاریخ ہے۔ تقسیم کے بعد بہت سے مسلمان مہاجرین یہاں آ بسے۔ آزادی کے بعد سیالکوٹ میں بہت کم صنعتیں رہ گئی تھیں۔ سیالکوٹ کی صنعت کر یہاں ہجرت کرکے آنے والوں نے نئے جوش وجذبے کے ساتھ دوبارہ پروان چڑھایا اور حکومتِ پاکستان نے بھی ان کی بھرپور مدد کی۔ 1960 کے دوران ضلع بھر میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا اور سیالکوٹ کو جی ٹی روڈ سے ملادیا گیا۔ 1965 کی جنگ میں بھارت نے جموں کی طرف سے سیالکوٹ پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج نے کام یابی سے شہر کا دفاع کیا اور سیالکوٹیوں نے بے جگری سے اپنی فوج کا ساتھ دیا۔
غیور شہری بھارتی ٹینکوں کے سامنے بم باندھ کر لیٹ گئے اور چونڈہ کے محاذ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ یہ وہ محاذ ہے جہاں جنگِ عظیم دوئم کے بعد دنیا کی دوسری بڑی ٹینکوں کی لڑائی لڑی گئی۔ اہلِ سیالکوٹ کی بہادری کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے 1966 میں سیالکوٹ کے باسیوں کو ”ہلالِ استقلال” سے نوازا (اہلیانِ لاہور اور سرگودھا کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے)۔ 1971 کی جنگ میں بھی سیالکوٹ کا بھرپور دفاع کیا گیا یہاں تک کہ بھارتی علاقے ”چھمب سیکٹر” پر پاک فوج کا قبضہ ہو گیا۔
1991 میں ضلع سیالکوٹ کی ایک تحصیل نارووال کو الگ کرکے ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ ضلع سیالکوٹ میں پسرور، سمبڑیال، ڈسکہ اور سیالکوٹ کی تحصیلیں شامل ہیں۔
3016 مربع کلومیٹر رقبے کے حامل ضلع سیالکوٹ کی آبادی لگ بھگ اڑتیس لاکھ ترانوے ہزار چھ سو بہتر نفوس پر مشتمل ہے۔ طبعی خدوخال کے لحاظ سے سیالکوٹ کی زمین ہموار اور زرخیز ہے۔ ضلع کے شمال مغرب میں ”بجوات” کا جنگلی حفاظتی علاقہ ہے جو دریائے چناب اور اس کے معاون توی دریا کے درمیان ہے۔
دریائے چناب ضلع سیالکوٹ اور گجرات کی سرحد پر بہتا ہے۔ جموں کے پہاڑوں میں ایک چھوٹے سے نالے کی شکل میں بہتا یہ دریا سرحد کے اس پار “چندربھاگ” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ سرحد کے اِس پار اِسے “چناب” کا نام دیا گیا ہے۔ چناب کا نام ‘چن’ اور ‘آب’ سے مل کر بنا ہے جس میں چن کا مطلب چاند اور آب کا مطلب پانی ہے، یہ دریائے چندرا اور دریائے بھاگا کے بالائی ہمالیہ میں ٹنڈی کے مقام پر ملاپ سے بنتا ہے، جو بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع لاہول میں واقع ہے۔
بالائی علاقوں میں اس کو ”چندرابھاگا” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ جموں و کشمیر کے جموں کے علاقہ سے بہتا ہوا بذریعہ کوہِ پیر پنجال ضِلع سیالکوٹ کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ مرالا کے مقام پر اِس کے سینے پہ بندھ باندھا گیا ہے جِسے “مرالا ہیڈورکس” کہا جاتا ہے۔ یہاں سے دو بڑی نہریں “مرالا راوی لِنک کینال” اور “اَپر چناب کینال” کے نام سے نِکالی گئی ہیں۔ 1968میں بنایا گیا یہ بند ضلع کا ایک مشہور تفریحی مقام ہے۔
نالہ ڈیک سیالکوٹ کے مغرب میں بہتا ہے۔ یہ ایک برساتی نالہ ہے جو مقبوضہ جموں کشمیر سے سیالکوٹ میں داخل ہوتا ہے جس کے ایک طرف تحصیل پسرور جب کہ دوسری جانب ضلع نارووال کا علاقہ ہے۔ سیالکوٹ کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ گرمیوں میں درجہ حرارت 41 ڈگری سینٹی گریڈ جب کہ سردیوں میں کم سے کم 2- ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سیالکوٹ کا شمار پنجاب کے ان چند اضلاع میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ سالانہ بارش کی اوسط 980 ملی لیٹر ہے۔ ضلع کا بیشتر رقبہ زرخیز ہے جس پہ چاول، گندم، گنا، مکئی، جوار، آلو، لہسن اور دالیں کاشت کی جاتی ہیں جب کہ کئی مقامات پر امرود، جامن اور انار کے باغات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ضلع کا 6401ایکڑ رقبہ جنگلات نے گھیر رکھا ہے۔
سیالکوٹ پنجاب کا تیسرا بڑا صنعتی شہر ہے جس کی مشہور صنعتوں میں کھیلوں کا سامان بنانے، آلاتِ جراحی، چمڑے کی مصنوعات، کیمیکل بنانے، کوکنگ آئل اور ویجیٹیبل گھی، ٹائر اور ربڑ کی مصنوعات، ادویات بنانے، سٹیل کے برتن بنانے، آٹا پیسنے، دستانے بنانے، موسیقی کے آلات بنانے اور چاول چھڑنے کے کارخانے شامل ہیں۔ پاکستان کے امیر ترین شہروں میں سے ایک، سیال کوٹ کی سب سے بڑی صنعت کھیلوں کا سامان بنانے کی صنعت ہے۔ 100 سال سے بھی زیادہ پرانی یہ صنعت شروع میں کرکٹ، ہاکی اور پولو کا سامان بناتی تھی۔ 1918 میں فٹبال بھی ان میں شامل ہو گئی جو سنگاپور میں مقیم برطانوی فوج کے لیے بنائی جاتی تھی۔
آج کھیلوں کی دنیا کی تمام مشہور کمپنیاں اس شہر سے پوری دنیا میں سامان برآمد کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر فٹبال کی 60 سے 70 فی صد طلب سیالکوٹ سے پوری کی جاتی ہے۔ سیالکوٹ کی تقریباً تمام مصنوعات برآمد کر دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے یہ شہر پاکستان کی کل برآمدات میں 9 فی صد حصہ رکھتا ہے۔ یہ برآمدات ”سیالکوٹ ڈرائی پورٹ” کے علاوہ لاہور اور کراچی سے بھی بھیجی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سیالکوٹ – لاہور موٹروے بھی تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے جو اس شہر کی ترقی کو ساتویں آسمان تک لے جائے گی۔ اقبال کے شاہینوں کی محنت اور لگن سے پاکستان کے نقشے پر ایک اور ایئرپورٹ ”سیالکوٹ ایئرپورٹ” کے نام سے ابھر کہ سامنے آیا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد ”نجی انٹرنیشنل ایئرپورٹ” ہے جہاں سے اندرونی پروازوں کے علاوہ خلیجی ممالک کو بھی پروازیں جاتی ہیں۔
اب ذکر ہو جائے شہرِ اقبال کی تاریخی و سیاحتی جگہوں کا۔
٭ اقبال منزل؛
اقبال کے دیس کی سب سے بڑی پہچان خود شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ہیں۔ سیالکوٹ کے پرانے حصے میں واقع ان کے گھر ”اقبال منزل” کو دور دور سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔ یہ گھر علامہ اقبال کی جائے پیدائش ضرور ہے مگر یہ مکان اُن کے بھائی شیخ عطا محمد کے حصے میں آیا تھا جب کہ سیالکوٹ ہی میں علامہ اقبال کے والد کا ایک اور مکان تھا جو علامہ کے حصے میں آیا تھا۔
1971میں حکومت نے پاکستان کے قومی شاعر کی جائے پیدائش کو قومی یادگار قرار دے کر یہ مکان شیخ عطا محمد کی اولاد سے خریدا تھا مگر نو مرلے کے اس تین منزلہ مکان کی حالت بہت بوسیدہ تھی۔ اب اس عمارت کو حکومتِ پاکستان نے قومی ورثہ قرار دے دیا ہے اور نئے سرے سے اس کی تزئین و آرائش کروا کر اسکے کچھ حصوں کو سیاحوں کے لیے کھول دیا ہے۔
٭ شوالہ تیجا سنگھ ٹیمپل؛
مہاراجا رنجیت سنگھ نے ہندوستان اور خصوصاً سرزمینِ پنجاب پے گہرے اثرات چھوڑے ہیں، چاہے وہ تاریخ ہو، ثقافت ہو، فنِ تعمیر ہو یا رسم و رِواج۔
رنجیت سنگھ کے دورِحکومت میں پنجاب کے طول و عرض میں کئی مندِر اور عبادت گاہیں بنائی گئیں۔ سیالکوٹ شہر کا شوالا تیجا سنگھ مندِر بھی اُنھی میں سے ایک ہے جو کہ تیجا سنگھ نامی ہندو نے بنوایا تھا۔ یہ آج بھی سیالکوٹ کی بلند ترین عمارات میں سے ایک ہے۔
1857 کی جنگ آزادی جس کو انگریز غدر کا نام دیتے تھے، میں سیالکوٹ میں ہوئی بغاوت میں انگریزوں نے اس شوالے میں پناہ لی۔ بہت سے انگریز اس دوران مارے گئے، لاہور سے آنے والی انگریز فوج نے ان کو یہاں سے نکالا۔
شہر کے پرانے حِصے میں اِقبال منزِل سے کچھ آگے جائیں تو ایک راستہ اوپر کی طرف اِس مندِر کی طرف لے جاتا ہے۔ شوالا ہندو دیوتا شیو کے مندر کو کہا جاتا ہے جہاں خاص طور پر شیو کی پوجا کی جاتی ہے۔ ساتھ میں شیو کی بیوی پاربتی کی بھی پوجا ہوتی ہے اور شیو کے بیل نندی کی مورتی یا تصویر بھی موجود ہوتی ہے۔
مقامی افراد کے مُطابق 200سال قدیم (اور “تاریخِ سیالکوٹ” کے مُصنف راشِد نیاز مرحوم کے مطابِق ایک ہزار سال قدیم یہ مندِر تقریباً سو فٹ کی اونچائی پر واقع ہے۔
1992 کے بابری مسجِد فسادات کے جواب میں ایک مشتعِل گروہ نے اِسے نقصان پہنچایا تھا۔ اس دن کے بعد سے مقامی ہندوؤں نے یہاں عِبادت کرنا بند کر دیا۔ سیالکوٹ کی میونسپل کمیٹی نے یہاں ایک پارک بنا دیا ہے جہاں آس پاس کے گھروں کے بچے کھیلنے آتے ہیں۔ ہماری قومی بے حِسی کے عین مطابق تاریخ کے اس یادگار دور کو ہم نے اِس عِمارت کی طرح فراموش کر دیا تھا لیکن حکومت وقت نے حال ہی میں اس کی مرمت اور تزئین و آرائش کروا کر اسے عوام کے لیے کھول دیا ہے۔
٭ گھنٹہ گھر سیالکوٹ؛
سیالکوٹ کا گھنٹہ گھر، کینٹ میں صدر بازار کے بیچوں بیچ ایستادہ ہے جسے اقبال اسکوائر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا سنگ بنیاد شیخ غلام قادر اور سیٹھ رائے بہادر نے رکھا تھا۔ ایک صدی سے بھی قدیم اس گھنٹہ گھر نے تاریخ کے کئی عروج و زوال دیکھ رکھے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی کئی بار مرمت کی گئی ہے لیکن بنیادی ڈھانچا وہی ہے۔ پانچ منزلہ اس ٹاور کی اوپری منزل پر بڑی سائز کی گھڑیاں لگی ہیں جو رومن ہندسوں میں وقت بتاتی ہیں۔ برطانوی دور میں برصغیر کے کئی شہروں میں گھنٹہ گھر بنائے گئے تھے جن میں سے سیالکوٹ بھی ایک تھا۔
٭سیالکوٹ کیتھیڈرل؛
1852 میں بنایا گیا ہولی ٹرینٹی چرچ سیالکوٹ، کینٹ میں واقع ایک قدیم اور خوب صورت چرچ ہے جس کی سفید اور لال، گوتھک طرز تعمیر کی حامل عمارت واقعی ایک شاہ کار ہے۔ اس کے خوب صورت مینار کو آپ دور سے ہی دیکھ سکتے ہیں، جب کہ اس کی محرابیں اور لمبی کھڑکیاں اس کی دل کشی میں اور اضافہ کرتی ہیں۔ یہاں لگی ایک تختی کے مطابق اسے بنگال انجنیئرز کے ہارٹلے میکسویل نے ڈیزائن اور تعمیر کیا تھا جب کہ 1 مارچ 1852 کو اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ 30 جنوری 1857 کو اسے کلکتہ کے بشپ ڈینیئل ولسن کی طرف سے مقدس ترین قرار دے کر مذہبی کاموں کے لیے وقف کر دیا گیا تھا۔
یہ کینٹ میں واقع دو چرچوں میں سے بڑا اور سیالکوٹ شہر کا مرکزی چرچ ہے جسے برطانوی راج میں انگریز سرکار نے کینٹ میں رہائش پزیر فوجیوں کی سہولت کے لیے بنوایا تھا اور اب اس کی دیکھ بھال حکومتِ پاکستان بہت اچھے طریقے سے کر رہی ہے۔ اس پر سالانہ بنیادوں پر رنگ روغن کیا جاتا ہے اور کرسمس کی مرکزی تقریبات بھی یہیں منعقد کی جاتی ہیں۔ یقیناً یہ ہمارے زرخیز تاریخی ورثے کا امین ہے۔
اس کے نزدیک ہی گلابی رنگ کا ایک اور چرچ واقع ہے جو بہت زیادہ مشہور نہیں ہے لیکن اس کی عمارت بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ سینٹ جیمز کیتھولک چرچ ہے۔
٭ہیڈ مرالہ؛
دریائے چناب کے پاکستان میں قدم رکھتے ہی جو پہلا بند اس کے سینے پر باندھا گیا ہے، وہ ہیڈ مرالہ ہے۔ اس بیراج کو 1968 میں دریائے چناب کا پانی کنٹرول کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جو اب ایک بہت بڑا تفریحی مقام بن چکا ہے۔ مرالہ ہیڈ ورکس تقریباً 7 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ مرالہ راوی لنک کینال اور نہر اپر چناب یہاں سے نکالی گئی مشہور نہریں ہیں۔ ہر ہفتے یہاں کئی لوگ فیملی سمیت پکنک منانے آتے ہیں۔
سیالکوٹ جانے والے شوقین مزاج یہاں مچھلی کھانے لازمی جاتے ہیں۔
٭ قلعہ سیالکوٹ؛
سیالکوٹ قلعہ پاکستان کے قدیم ترین اور تاریخی قلعوں میں سے ایک ہے۔ یہ قلعہ دوسری صدی میں ہندو بادشاہ راجا سلوان نے تعمیر کروایا۔ اس قلعہ کو دس ہزار مزدوروں نے دو سال میں تعمیر کیا۔ اس کی تعمیر لکڑی کے پٹھوں، کنکریوں اور اینٹوں سے کی گئی اور یہ سارا سامان بھارت کے شہر پٹھان کوٹ سے منگوایا گیا۔ ایک سیاح کے لیے اس شہر میں بہت کچھ ہے۔ سیالکوٹ پنجاب کے ان چند شہروں میں سے ایک ہے جو قدیم و جدید کا ایک حسین امتزاج ہے۔
اس کے علاوہ سیالکوٹ میں جگّن ناتھ ٹیمپل، مرے کالج، پورن بھگت، درگاہ امام الحق، سینٹ جیمس کیتھیڈرل اور سیالکوٹ کینٹ مشہور و معروف جگہیں ہیں۔
اب آتے ہیں اس ضلع کی مشہور اور قدآور شخصیات کی طرف۔ سیالکوٹ نے بڑے بڑے سیاست داں، شاعر، فلسفی، لیڈر، ناول نگار، قلم کار، اداکار و موسیقار، کھلاڑی، صحافی، مصنف اور بزنس مین پیدا کیے ہیں جن پہ بلاشبہ پورے ملک کو فخر ہے۔ ان میں مندرجہ ذیل شخصیات قابلِ ذکر ہیں:
1۔ شاعرِ مشرق، مفکرِ پاکستان اور عظیم فلسفہ داں، ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال۔
2۔ مسلم اسکالر و مشہور لیڈر، مولانا عبید اللہ سندھی۔
3۔ پاکستان کے پہلے وزیرِخارجہ، سرظفر اللہ خان۔
4۔ عظیم انقلابی شاعر، فیض احمد فیض۔
5۔ گلزاری لال نندا، بھارتی وزیرِاعظم و سیاست داں۔
6۔ پہلے پاکستانی ایئر چیف، ایئرمارشل ظفر چوہدری۔
7۔ بھارتی جرنلسٹ، کلدیپ نائر۔
8۔ اردو شاعر اور مصنف، امجد اسلام امجد۔
9۔ متحدہ پنجاب کے راہ نما، سر فضل حسین۔
10- مشہور ادیب راجندر سنگھ بیدی۔
11۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو، وحید مراد۔
12۔ مشہور مصنفہ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار، عمیرہ احمد۔
13۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے اہم کھلاڑی، شعیب ملک۔
14۔ بھارتی اداکار، راجندر کمار۔
15۔ برِصغیر کے نامور غزل گائیک، محمد علی۔
16۔ صحافی و کالم نگار، حامد میر۔
17۔ بھارتی فلم اسٹار، دیو آنند (شکرگڑھ میں پیدا ہوئے جو اس زمانے میں سیالکوٹ کا حصہ تھا)
18۔ پاکستانی کرکٹر ظہیر عباس۔
19۔ صوفی رائٹر، بابا محمد یحییٰ خان۔
20۔ سابق قائم مقام صدرِ پاکستان، خواجہ محمد صفدر۔
21۔ چاچا کرکٹ، چوہدری عبدالمجید۔
22۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی، چوہدری امیر حسین۔
23۔ سیاست داں و موجودہ سیکرٹری برائے اطلاعات و نشریات، فردوس عاشق اعوان صاحبہ۔
24۔ سابق پاکستانی وزیرِخارجہ، خواجہ محمد آصف۔
محمد وارث