السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
سیرت کے موضوع پر لکھی گئی اول انعام یافتہ کتاب کا تعارف۔
-----------------------------------
’’ اردو میں سیرت نگاری کی آگے ہی آگے بڑھتی روایت میں کتاب ’’سیّدالورٰی‘‘ جلد اوّل بہت وقیع و رفیع اضافہ ہے۔ اس کتاب کے فاضل مصنف حضرت علامہ قاضی عبدالدائم دائمؔ دامت برکاتہ ہیں جو خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ ہری پور کے سجادہ نشین، دارا لعلوم ربانیہ کے سربراہ و سرپرست، ماہنامہ ’’جامِ عرفاں‘‘کے مدیر اور عارف ربانی حضرت معظمؒ قاضی محمد صدرالدینؒ کے فرزند ارجمند اور وارث معنوی ہیں۔ وہ ایک بے بدل عالم، باعمل صوفی، صاحبِ طرز ادیب و شاعر اور ماہرالسنہ شرقیہ ہیں۔ انہوں نے اہم اور بنیادی سرچشمہ ہائے سیرت سے استفادہ کرتے ہوئے ’’سیّدالورٰی‘‘ کو عشقِ نبیﷺ سے مملو، دل میں اُترتے چلے جانے والے ادب آفرین اسلوبِ نگارش سے آراستہ و پیراستہ کیا ہے۔ ان کی شعوری کوشش رہی ہے کہ ہر حوالہ مستند ہو، ہر حوالہ معتبر ہو اور حقیقت نگاری کی شان ہر کہیں قائم رہے، اور اس مقصد کے حصول میں انہیں بہت نمایاں کامیابی حاصل ہو ئی ہے۔ یوں ان کے علم و عرفان، ذوق و شوق، نیاز و گداز، شبانہ روز عرق ریزی اور بہاریں اندازِ تحریر نے مل کر ’’سیّدالورٰی‘‘ کو ایک لازوال و بے مثال کتاب سیرت بنا دیا۔ کتاب اس قدر دلچسپ اور معلومات افزا ہے کہ اگلی جلدوں کا شدت سے انتظار رہے گا۔‘‘ پروفیسر حفیظ تائبؔ ، لاہور
نوٹ: جس وقت حفیظ تائب صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا اس وقت صرف جلد اول شائع ہوئی تھی۔
----------------------------------------
جانِ دوعالمﷺ کی سیرت پر یہ دلآویز، بے مثل اور لازوال کتاب ماہنامہ جامِ عرفاں کے مدیرِ اعلیٰ ادیبِ دلپذیر علامہ قاضی عبدالدائم دائمؔ کی شب بیداریوں، عرق ریزیوں، بے لوث کاوشوں، انتھک کوششوں، لگاتار محنتوں، عقیدت و محبت، وجد و کیف اور ذوق و شوق کے بیکراں جذبوں سے لیس جانکاہ فکر کا درخشاں، شیریں اور دل ستاں ثمر ہے۔
یوں تو سرکارِ دوعالم، نورِ مجسمﷺ کی سیرت طیبہ پر ہر دور میں، ہر معروف زبان میں کتابیں لکھی گئیں اور ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ‘‘ کے مصداق یہ سلسلۂ حسیں، قیامت تک جاری رہے گا اور عاشقانِ مصطفی، سرکارِ دوجہاں، سرورِ دل و جاںﷺ کی بیکراں عظمتوں اور بے بہا رفعتوں کے گیت گاتے رہیں گے مگر قاضی عبدالدائم دائمؔ کی کتاب ’’سیّدالورٰی‘‘ جیسی دلنشیں، سلیس، آسان، دلچسپ اور دلکش کتاب شاید ہی لکھی جائے۔
کتاب کا انداز محققانہ اور جداگانہ تو ہے ہی، انتہائی عالمانہ، عاشقانہ اور والہانہ بھی ہے۔ جب یہ کتاب ماہنامہ ’’جامِ عرفاں‘‘ میں قسط وار چھپ رہی تھی تو میں نے متعدد بار اس کی گہر بار اقساط پڑھیں اور گوشۂ تنہائی میں لذتِ آشنائی کے تصور سے سرشار ہوکر اشکبار ہو گیا۔کبھی تو کوئی واقعہ، کوئی حوالہ، کوئی جملہ بے ساختہ رُلا دیتا ، عجیب وجد و کیف کی دولت ملتی اور کئی بار حلقۂ یاراں میں مجھے کہنا پڑا کہ سیّدالورٰی چھپ گئی تو انشاء اﷲ اہل قلب و نظر کے اذہان پر چھا جائے گی اور اس کو پڑھنے والی ہر ہستی مراد پا جائے گی۔
الحمدﷲ کہ اب سیدالوری کتابی شکل میں منظرِ عام پر آ گئی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ یہ عظیم کتاب ہر صاحبِ ہوش کی نظر سے گزرجائے۔قاضی عبدالدائم دائمؔنے عشق و محبت میں ڈوب کرانتہائی محنت اور بے پناہ تحقیق کے بعد یہ شہکار تخلیق کیا ہے۔ بعض نامور سیرت نگاروں سے علمی دنیا کے مسلمہ اصولوں کے مطابق برملااختلاف کیا ہے۔ جاندار حوالہ جات، مستند واقعات، سبق آموز حکایات اور والہانہ انداز ’’سیّدالورٰی‘‘ کی انفرادیت پر شاہد ہیں۔ یارانِ مصطفیﷺکے امتیازات،اوصاف اور کمالات کو اس ادا سے بیان کیا ہے کہ پڑھتے وقت اہل دل کو سرور آ جاتا ہے۔
اگر آپ سیرت طیبہ کے تقدس مآب موضوع پر کوئی جذب آمیز کتاب پڑھنا چاہتے ہیں تو ’’سیّدالورٰی‘‘ ضرور پڑھئے۔ ایسی کتاب کہیں صدیوں میں منظرِعام پر آتی ہے۔ مولانا محمد صحبت خان کوہاٹی مدیر ماہنامہ کاروانِ قمر، کراچی
------------------------------------
امینِ عظمتِ اسلاف، نگینِ خاتمِ اخلاف علامہ قاضی عبدالدائم دائمؔ مدظلہ العالی ایک مقتدر علمی و روحانی شخصیت ہیں۔ زرخیز دماغ شاعر اور دقیقہ رس ادیب ہیں۔ ان کی علمی و ادبی تخلیقات اس حقیقت پر شاہدِ عادل ہیں۔ وہ جس موضوع پر بھی لکھیں ان کا اشہبِ قَلم صفحۂ قرطاس پر نورافشانیاں کرتا ہؤا دکھائی دیتا ہے۔ مگر ’’سیّدالورای‘‘ تو خاص طور پر علم و خبر اور فکر و نظر کا ایسا شہپارہ ہے کہ اسے پڑھ کر کوئی بھی باذوق انسان مصنف کی بے مثال محنت و کاوش اور بے نظیر سعی و کوشش کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
سیّدالورٰی
٭ - ایک ایسی تصنیف ہے جس کا مطالعہ ’’اَحْلیٰ فِی الْعُیُونِ مِنَ الْغَمْضٖ‘‘ کا مصداق ہے۔
٭ - تحقیق و تدقیق کا وہ عظیم شاہکار ہے، جس کی ہر بات قیمّ اور ہر حوالہ مستند ہے۔
٭ - نور کا ایسا بہتا دھارا ہے، جو آنکھوں کی پتلیوں کے راستے نہاں خانۂ دل کو منور کرتا چلا جاتا ہے۔
٭ -عشقِ رسول کا ایسا کھلا ہؤا گلشن ہے جس میں داخل ہوتے ہی مشامِ ایمان تازہ و معطرہوجاتا ہے۔
٭ - وہ مائِ عذب (آبِ شیریں) ہے جس کا پینے والا ھَلْ مِنْ مَّزِیْد کی دہائی دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
٭ - ایسی مئے ناب ہے جس کا ہر ساغر علم افروز اور ہر جرعہ شعور افزا ہے۔
٭ -ایسا آئینہ ہے جس میں انسان خیرالقرون کے عظیم نقوش کی جھلک دیکھ سکتا ہے۔
٭ - اور بہت ہی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہر ہر حرف محبتِ رسولﷺ کا احرام باندھے ہوئے ہے۔
ہماری دعا ہے کہ اﷲکریم اہلسنت کو ایسے رجال کاوفور اور کثرت نصیب فرمائے، قاضی صاحب کے فیض کو عام فرمائے اور انہیں صحت کے ساتھ عمر خضر سے نوازے۔ (آمین) محمد اسلم رضوی
سیکرٹری جنرل ضیاء الامت فاؤنڈیشن، پاکستان
مدرس دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف
----------------------------------
سیّدالورٰی---
عشق و مستی کی کہانی، وجد و کیف کی زبانی۔انوکھی شان، والہانہ انداز، دلنشیں طرز--- حرف حرف عقیدت، لفظ لفظ محبت--- شگفتگی و تازگی، سلاست اور سادگی۔
پڑھنا شروع کیجئے تو پھر پڑھتے ہی چلے جائیے!
سیّدالورٰی---
فکر و تدبر کا حسن---واقعات کی صحت۔ مستند حوالے، معتبر روایات۔ معنی خیزی اور اثر آفرینی، علم و یقیں کی گیرائی، فکر و نظر کی گہرائی۔
بادہ نوشانِ علم و عرفان کے لئے انمول تحفہ۔
سیّدالورٰی---
عشق و محبت، جذب و عقیدت، حزم و احتیاط، حقیقت نگاری و سنجیدہ گفتاری کا ایک منہ بولتا حسین مرقع۔ روایت و درایت اور جرح و تعدیل کا عالمانہ معیار۔نہ زبان میں کہیں جھول، نہ بیان میں کوئی ابہام۔
سیّدالورٰی---
سیرت نگاری کے میدان میں ایک اہم پیش رفت اور گرانقدر اضافہ---سیرت سرورِ کائناتﷺ کا مستند حوالہ جاتی سا ئیکلوپیڈیا اور لازوال و بے مثال شہکار۔ محمد سعداﷲکھتران واہوا، ڈیرہ غازی خان
----------------------------------
منظوم کلام
(قطعۂ تاریخِ طباعت)
زمیں آراستہ کی سیرتِ سرور کی دائمؔ نے
خجل جس کے مقابل خوبیٔ چرخِ زبر جَد ہے
وقار و احتشام ، اربابِ علم و فن کی محفل کا
بُزرگانِ طریقت کا وہ فخر و نازِ مَسند ہے
زباں کا اس کی ہر لفظ انتہائی آگہی آور
قلم کی اُس کے ہر تحریر پُر تاثیر بے حد ہے
رضائے مصطفی ، خوشنودیِ حق کے لئے کوشاں
یہی ہے دائمی راحت ، یہی عیشِ مُخَلَّد ہے
نہیں آساں احاطہ اُس کے افضال و محاسن کا
وہ ا فخم ہے ، وہ افضل ہے ، وہ اسعد ہے ، وہ ارشد ہے
لکھی ہے سیرتِ محبوب حق پر وہ کتاب اُس نے
جہانِ لفظ میں ، دنیائے معنی میں جو مُفرد ہے
گلِ رعنائے باغِ سیرتِ پیغمبرِ رحمت
یہ دل آویز نقشِ حُسنِ کردارِ محمد ہے
چھَپی کب اس سے پہلے نادر و جامع کتاب ایسی
بجا ہے جس قدر بھی فرحتِ عشّاقِ احمد ہے
برائے عاشقانِ سرورِ عالم یہ مجموعہ
بہ ہر دور ، انتہائی فیض بخش و کار آمد ہے
’’ادب‘‘ سے اس کی تاریخ طباعت یوں کہی طارقؔ
۷
عجب ایمان پرور ’’ خُوبی و تفضِیلِ احمد ‘‘ ہے
۱۹۹۷ء
(۷ + ۱۹۹۷ = ۲۰۰۴ء)
(واضح رہے کہ پہلی جلد ۱۹۹۷ء میں؛جبکہ
تیسری جلد ۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی) طارقؔ سلطان پوری (حسن ابدال)
-------------------------------
حضرت العلّام مولانا قاضی عبدالدائم دائمؔ مدظلہ‘ العالی زیبِ سجادۂ آستانہ عالیہ نقشبندیہّ، مجددیہّ ہری پور ہزارہ اِس دور کے وہ صاحبِ عرفان و ایقان، پیرِ ارشاد و احسان، دریائے فیوضِ فراوان اور مصنفِ ذیشان ہیں جن کے افکار عالیہ، تحقیق انیق، تدقیق عجیب، تفحیص نادر، بحوثِ دلآرا اور نصوصِ حقائق افشاں پر مبنی و موسّس ہیں۔
آپ کی تصنیف ’’سیّدالورٰی‘‘ کا مطالعہ شبستان محبت و مودّت کے بِسرامیوں کے لئے باعثِ طمانینت، وجہِ فرحتِ جان، سبب ازدِیاد ایمان، ذریعۂ حصولِ رضائے رحمٰن اور ضمانِ خوشنودیٔ سیّدانس و جان ہے۔ اِس تصنیفِ منیف میں قاضی صاحب نے صدیوں سے اذہان میں سَم گھولتے ہوئے اشکالات کا ازالہ کر کے اصح ترین روایات و مراجع سے تاریخ سیرت سیّدالورٰی کی تزئین و آرائش کی ہے اور اسی ایک مہتم بالشان بات کے باعث سیّدالورٰی نے گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے سیرتِ طیّبہ پر لکھی جانے والی کتب پر فوقیت حاصل کر لی ہے۔ کتاب سیّدالورٰی سے قاضی ؔ صاحب کی لوذعیّت و یلمعیت کا اظہار ہوتا ہے اور قاریٔ کتاب ایک ایک سطر کی خواندگی سے آپ کے علم و فضل کا دل و جان سے اقرار کر لیتا ہے اور دورانِ مطالعہ میں کہتا جاتا ہے ؎ ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند۔
بحمدا ﷲ! سیّدالورٰی کی جلد اوّل ودُوُم کو دربارِ مصطفوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ سے ایسی سند قبولیت و طغرائے پذیرائی ملا کہ ہر عارف و عامی نے اس کے مافیہات کو سامانِ نورِ جان اور سرمایۂ ایمان سمجھ کر تعریف و تحسین کی۔ اب اسی کتاب کی جلد سِوُم آپ کے سامنے ہے جس میں حسبِ سابق قاضی صاحب نے توفیق ربّانی سے تحقیق لاثانی کا حق ادا کر دیا ہے۔ شمائل نبویہ اور معجزات پر یوں تو ہر سیرت نگار نے لکھا ہے مگر قاضی صاحب جیسا زندہ و تابندہ اسلوب بیان کس کو نصیب ہے! حقیقت یا فسانہ، نکاح سیّدہ زینبؓ اور تحقیق عمر سیّدہ عائشہؓ جلد سِوُم کے وہ روشن، تاباں اور درخشاں ابواب ہیں جن میںمصنف مبجَّل نے جدید تحقیق اور عمیق تبحّر و تمہّر سے صدیوں کے متنازعہ مسائل کو اصح ترین اسانید و مراجع سے استفادہ کرتے ہوئے حل کر دیا ہے اور ہر قاری کے دل میں عظمت و تقدیس شانِ رسالت کا نقش بٹھا دیا ہے۔ کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اسے شوق فراواں اور ذوقِ مودّت سے پڑھئے!
عطر آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید
عبدعاصی و آثم۔ بشیر حسین ناظِم تمغہ حسنِ کارگردگی سابق مشیر وزارتِ مذہبی اُمور، حکومت پاکستان۔ اسلام آباد
-----------------
سیدالورٰی کے مصنف کا مختصر تعارف |
------------------------- بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ حَبِیْبِہٖ الرَّؤُوْفِ الرَّحِیْمِ ط علامۂ اجل، فاضل بے بدل، عاشقِ سیّدالرسلﷺعالی جناب الحاج الحافظ قاضی عبدالدائم دائمؔ صاحب سجادہ نشین خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ صدریہ ہری پور ہزارہ، سرپرست دارالعلوم ربانیہ و مدیر ماہنامہ جامِ عرفاں کی ذات ستودہ صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ جامع شریعت و طریقت، واقفِ رموز حقیقت و معرفت ، ایک بے مثال مقرراور عدیم النظیر صاحب قلم ہیں۔ آپ نے نہایت محققانہ، دلکش، سلیس اور شستہ پیرائے میں سیرۃالنبیﷺ کا سلسلہ ماہنامہ جامِ عرفاں میں اپریل ۱۹۸۴ء سے شروع فرمایا تھا، جسے قارئینِ جامِ عرفاں نے بہت پسند کیا اور اس کی مقبولیت نے جامِ عرفاں کو چار چاند لگا دیئے۔ انہی قسطوں کو اب کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے۔
یہ ایک ایسا مجموعۂ سیرتِ رسول مقبول ﷺہے، جو تحقیق و عمیق کے لحاظ سے علماء کے لئے بھی دلچسپی سے خالی نہیں اور عام فہم تحریر کی وجہ سے عوام کو بھی اس کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں۔
عشق و محبتِ مصطفی (علیہ التحیۃ والثناء) جو اصل و اساس ایمان ہے، کی خوبی سے یہ مجموعہ لبریز ہے، جو پڑھنے والا خود محسوس کر لے گا
مشک آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطار بگوید
سیّدالورٰی بلاشبہ علامہ مذکور مدظلہ العالی کا ایک نادر مرقع ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو عمر طویل مع صحت کاملہ عطا فرمائے تاکہ یہ فیض جاری رہے۔ آمین
بحرمۃ سیّدالمرسلین۔ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و صحبہٖ اجمعین
سیّد محمود شاہ ترمذی
پشاور
۰
مقدمہِ سید الورٰی
------------ اِنَّ اﷲَ وَ مَلٓئِکَتَہ‘ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدنَِا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَ سَلِّمْ۔ شکر صد شکر کہ مرشدی و مخدومی اعلیٰ حضرت قاضی عبدالدائم دائمؔ مدظلہ العالی علینا بھی فخر کون و مکاں، سردارِ دوجہاں، خاتمِ مرسلاں جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کے سیرت نگاروں کے مقدس گروہ میں شامل ہو گئے---ان کی سالہا سال کی شب بیداریوں، کوششوں، کاوشوں، عرق ریزیوں اور جاں گدازیوں کا ثمرہ ’’سیدالورٰی‘‘ کی صورت میں اہل دل اور اہل ایمان کے لئے تحفۂ بے بہا ہے اور ایک نعمتِ عظمیٰ۔
جانِ دوعالمﷺکی سیرت نگاری کاشرف حاصل کرنا ہر صاحبِ علم مسلمان کی ہمیشہ سے آرزو رہی ہے اور بقول علامہ شبلی --- ’’مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے اپنے پیغمبرﷺکے حالات و واقعات کا ایک ایک حرف اس استقصاء کے ساتھ محفوظ رکھا کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت کے ساتھ قلمبند نہیں ہو سکے اور نہ آئندہ کے لئے کئے جا سکتے ہیں۔‘‘
مشہور مستشرق شپرنگر کی رائے میں --- ’’نہ کوئی قوم دنیا میں گزری، نہ آج موجود ہے، جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا سا عظیم الشان فن ایجاد کیا، جس کی بدولت آج پانچ لاکھ اشخاص کا حال معلوم ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ ساری کاوشیں اس لئے ہوئیں کہ رسول پاک ، جان دوعالم ﷺکے صحیح ترین اور مستند ترین حالات کی تدوین ہو سکے۔‘‘
انہیں چھوڑیئے، یہ تو انسانی آرا ہیں---خود اﷲ تعالیٰ اپنے رسولِ مقبولﷺکو ’’وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ‘‘ کی یقین دہانی کراتا ہے---اﷲ کا آخری کلام قرآن مجید، شروع سے آخر تک حضور سرورِ کائنات، فخر موجوداتﷺکی عظمت و رسالت کی شہادت نہیںتواورکیا ہے---؟ حضورﷺکے اخلاق کریمانہ کا قصیدہ نہیں تو اور کیا ہے---؟قرآن کا اعلان ہے ’’جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اﷲ ہی کی اطاعت کی‘‘---’’ایمان لاؤ اﷲ پر اور اس کے رسول پر‘‘ ---’’ اگر تم اﷲ سے محبت کرنا چاہو، تو میری (جانِ دوعالمﷺ کی) پیروی کرو‘‘ ---’’جو رسولِ خدا تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں، اس سے رک جاؤ۔‘‘---’’رسول اﷲﷺ کا اسوہ حسنہ تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔‘‘گویا اﷲ ایک اور لاثانی ہے تو جانِ دوعالمﷺ بھی یکتا اور لاثانی --- نہ اﷲ کے بغیر کوئی معبودہے، نہ رسول اﷲﷺجیسا کوئی نبی اور پیغمبرِ خدا۔
حضورﷺکے اخلاق و عادات، سیرت و کردار کے بارے میں پوچھا گیا، تو مزاج دانِ نبوت حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے کیا ہی جامع اور بلیغ جواب دیا---کَانَ خُلُقُہ‘ اَلْقُرْان---اہلِ بصیرت نے اس کی وضاحت میں یہاں تک کہہ دیا کہ قرآن دو ہیں۔ ایک وہ مصحفِ مقدس جو کتابی صورت میں اوراق اور صفحات کے اندر محفوظ و مسطور ہے اور ایک قرآنِ ناطق، یعنی رسول اﷲﷺ کی ذاتِ گرامی، جن کی ہر ادا، ہر عمل، ہر بات احکامِ خداوندی کا زندہ نمونہ اور قرآن پاک کی عملی تفسیر ہے ---اس طرح سیرت النبیﷺ پر ہر کتاب صرف تاریخ و سوانح حیات یا پند و نصائح پر ہی مبنی نہیں ؛بلکہ اسلام کی حقانیت اور تعلیمات کے فروغ و اشاعت کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
سیّد سلیمان ندوی نے ایک خطبہ میں کیا خوب کہا ہے کہ
’’خدا کی محبت کا اہل اور اس کے پیار کا مستحق بننے کے لئے ہر مذہب نے ایک ہی تدبیر بتائی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس مذہب کے شارع اور طریقہ کے بانی نے جو عمدہ نصیحتیں کی ہیں، ان پر عمل کیا جائے،لیکن اسلام نے اس سے بہتر تدبیر اختیار کی ہے، اُس نے اپنے پیغمبر ﷺ کا عملی مجسمہ سب کے سامنے رکھ دیا اور اس عملی مجسمہ کی پیروی اور اتباع کو خدا کی محبت کے اہل اور اس کے پیار کے مستحق بننے کا ذریعہ بتایا ہے---چنانچہ اسلام میں دو چیزیں ہیں ---کتاب اور سُنّت---کتاب سے مقصود خدا کے احکام ہیں، جو قرآن کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں اور سنت، جس کے لغوی معنی راستہ کے ہیں--- وہ راستہ جس پر انسان پیغمبر اسلامﷺکے احکام پر عمل کرتے ہوئے گزرے --- یعنی آپﷺکا عملی نمونہ جس کی تصویر احادیث میں بصورت الفاظ موجود ہے۔ الغرض ایک مسلمان کی کامیابی اور تکمیلِ روحانی کے لئے جو چیز ہے، وہ سنت و سیرت نبوی ہے۔‘‘
’’ان افعال کے بعد جن کا تعلق اعضائے بدن سے ہے، وہ افعال ہیں، جن کا تعلق دل و دماغ سے ہے اور جن کی تعبیر ہم اعمالِ قلب یا جذبات اور احساسات سے کرتے ہیں، ہر آن ایک نئے قلبی عمل، جذبہ یا احساس سے متاثر ہوتے ہیں--- ہم کبھی راضی ہیں، کبھی ناراض--- کبھی خوش ہیں، کبھی غمزدہ --- کبھی مصائب سے دوچار ہیں اور کبھی نعمتوں سے مالامال--- کبھی ناکام ہوتے ہیں اور کبھی کامیاب---ان سب حالتوں میں ہم مختلف جذبات کے ماتحت ہوتے ہیں---اخلاقِ فاضلہ کا تمام تر انحصار انہی جذبات اور احساسات کے اعتدال اور باقاعدگی پر ہے--- ان سب کے لئے ہمیں ایک عملی سیرت کی حاجت ہے، جس کے ہاتھ میں ہماری ان اندرونی سرکش اور بے قابو قوتوں کی باگ ہو، جو انہی راستوں پر ہمارے نفس کی غیر معتدل قوتوں کو لے کر چلے، جن پر مدینہ منورہ کا بے نفس انسانﷺ کبھی گزر چکا ہے۔‘‘
رسول اﷲﷺ کی سیرت طیّبہ کی جامعیت کا بیان بھی سید سلیمان ندوی سے بہتر انداز میں اور کون کر سکے گا --- وہ بتاتے ہیں کہ
’’عزم ،استقلال، شجاعت، صبر، شکر، توّکل، رضا بتقدیر، مصیبتوں کی برداشت، قربانی، قناعت، استغناء، ایثار، جود، تواضع، خاکساری، مسکنت --- غرض نشیب و فراز، بلند و پست تمام اخلاقی پہلوؤں کے لئے جو مختلف انسانوں کو، مختلف حالتوں میں یا ہر انسان کو مختلف صورتوں میں پیش آتے ہیں،ہم کو عملی ہدایت اور مثال کی ضرورت ہے، مگر وہ کہاں سے مل سکتی ہے؟ صرف مُحَمَّدٌ رسول اﷲﷺکے پاس --- حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہمیں سرگرم شجاعانہ قوتوں کا خزانہ مل سکتا ہے، مگر نرم اخلاق کا نہیں--- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاں نرم خوئی کی بہتات ہے، مگر سرگرم اور خون میں حرکت پیدا کرنے والی قوتوں کا وجود نہیں---انسان کو اس دنیا میں ان دونوں قوتوں کی معتدل حالت میں ضرورت ہے اور ان دونوں قوتوں کی جامع اور معتدل مثالیں صرف اور صرف پیغمبرِ اسلامﷺ کی سوانح اور سیرت میں مل سکتی ہیں۔‘‘
’’حضرت نوح ں کی زندگی کفر کے خلاف غیظ و غضب کا ولولہ پیش کرتی ہے، حضرت ابراہیم ں کی حیات بت شکنی کا منظر دکھاتی ہے --- حضرت موسیٰ ںکی زندگی کفار سے جنگ و جہاد، شاہانہ نظم و نسق اور اجتماعی دستور و قوانین کی مثال پیش کرتی ہے --- حضرت عیسیٰ ں کی زندگی صرف خاکساری، تواضع، عفو و درگزر اور قناعت کی تعلیم دیتی ہے --- حضرت سلیمان ں کی زندگی شاہانہ اولوالعزمیوں کی جلوہ گاہ ہے --- حضرت ایوب ں کی حیات صبر و شکر کا نمونہ ہے --- حضرت یونس ں کی سیرت ندامت و انابت اور اعتراف کی مثال ہے --- حضرت یوسف ں کی زندگی قید و بند میں بھی دعوتِ حق اور جوش تبلیغ کا سبق ہے --- حضرت داؤد ں کی سیرت گریہ وبکاء، حمد و ستائش اور دعاء و زاری کا صحیفہ ہے --- حضرت یعقوب ں کی زندگی امید، خدا پر توکل اور اعتماد کی مثال ہے، لیکن محمد ﷺ کی سیرت مقدسہ کو دیکھو کہ اس میں نوح اور ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ ، سلیمان اور داؤد، ایوب اور یونس ، یوسف اور یعقوب علیہم السلام سبھی کی زندگیاں اور سیرتیں سمٹ آئی ہیں۔‘‘
’’سیدالورٰی‘‘ میں جانِ دو عالم ﷺ کی اسی صفتِ جامعیت پر بڑی عمدگی سے روشنی ڈالی گئی ہے اور دین و دنیا میں کامیابی کے متلاشی اور تمنّائی پر واضح کیا گیا ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر ہدایت چاہتے ہو تو آؤ اس مینارئہ نور کی طرف، آؤ، اس مشعل ہدایت ﷺ کی طرف، اور آؤ اس ہادیٔ دوجہانﷺکی طرف!--- خاتم الانبیاءﷺ کی سیرت مطہرہ وہ آئینہ ہے، جو انسان کو افراط تفریط سے ہٹا کر اعتدال کے راستے پر لاتا ہے،--- سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ انسان پر یہ حقیقت واضح کرتا ہے کہ زندگی کو مختلف اکائیوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا کہ زندگی مادی، اخلاقی اور روحانی اقدار کے مجموعے کا نام ہے --- زندگی فرار نہیں، جِدوجُہد سکھاتی ہے، زندگی کنارِ بحر پر کھڑے ہوکر تماشا کرنے کا نہیں، بلکہ تلاطمِ دریا میں اترنے کا نام ہے، زندگی قنوطیت نہیں، رجائیت کی علمبردار ہے۔ ’’سیدالورٰی‘‘ کے صفحات میں دیکھئے کہ ہمارے رسول ﷺ یتیم رہے، یسیر رہے، نادار رہے، تاجر رہے، تنگی و عُسرت سے ہمکنار رہے، بادشاہ اور حاکم رہے، مجاہد اور سپہ سالار رہے، بیٹے رہے، باپ بنے، دشمنوں میں گِھرے رہے، مسائل سے دوچار رہے --- لیکن ہرحال میں ان کا کردار ایک مثالی کردار رہا--- اسلئے ان کی سیرت صرف اہل اسلام کے لئے نہیں ؛بلکہ ہر انسان دوست کے لئے بہترین نمونۂ عمل قرار پائی--- حضور ﷺ کی سیرتِ مطہرہ کا ہرگوشہ ہر اس انسان کے لئے، جو اپنی اور انسانیت کی بھلائی کا خواہاں ہے، ایک روشن اور واضح سبق ہے--- اور سبق یہ ہے کہ انسان کا شرف پاکیزہ سیرت ہے --- جو انسان پاک سیرت نہیں، صورت میں انسان ہو تو ہو، جو ہرِ انسانیت سے محروم ہے۔
جانِ دو عالم ﷺ کی سیرت و سوانح لکھنے والوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اور اس میں نام لکھوانا بھی باعثِ فخر و سعادت ہے۔ یہ انہی نیک بخت، ہستیوں کی کاوش کا نتیجہ ہے، کہ آج ہم بجا طور پر یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ دنیا کے کسی راہنما، مصلح، قائد اور لیڈر کی زندگی تاریخی اعتبار سے اس قدر محفوظ نہیں، جتنی رسولِ خدا ﷺ کی زندگی ہے--- خاتم النبیین، سیدالمرسلین ﷺ کی سیرتِ مطہرہ پر یہ نگارشات نہ صرف ہمیں ایک بہتر اور پاکیزہ زندگی گزارنے کے لئے رہنمائی مہیا کرتی ہیں ؛بلکہ حضورﷺ کی ذات اقدس سے یہ جذباتی وابستگی دلوں کو نورِ نبوت سے منّور کرنے کا باعث بھی ہے --- آج دشمنان اسلام کا سارا زور اسی بات پر صرف ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے اذہان و قلوب میں ایسے شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں، جن کے نتیجے میں عشقِ محمدی ﷺ کی چنگاریاں سرد پڑ جائیں اور مسلمان محض خاک کا ڈھیر بن کر رہ جائے۔ اور تو اور خود نام نہاد ’’روشن خیال‘‘ اور ترقی پسند مسلمان بھی اپنے اپنے فلسفہ وفن پر نازاں اور اپنی عقل و دانش پر مغرور اس ناپاک مہم میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی معجزوں کے انکار پر بضد ہے تو کوئی پیغمبر اسلام اور اس کے جاں نثار ساتھیوں کے طرزِ عمل پر تنقید کو باعث فخر گردانتا ہے۔ آج کفار کی ان سپر طاقتوں کی پوری کوشش ہے کہ اسلام پر بہتان تراشیوں کی مہم تیز سے تیز تر ہوتی جائے، مسلمانوں کے جسموں سے ’’روحِ محمد‘‘ نکال دی جائے، مسلمان کو مسلمان سے لڑا کر ان میں حریفانہ کشمکش پیدا کی جائے تاکہ ان سادہ دلوں میں ہیجانی کیفیت اور چڑ چڑا پن جڑ پکڑ جائے اور وہ امن و سکون سے دعوت الیٰ اﷲ کا فریضہ انجام نہ دے سکیں۔
مسلمان نوجوان کا ذہن مغربی مادہ پر ستوں اور نام نہاد مسلمان دانشوروں نے اتنابے حس اور ماؤف کر دیا ہے کہ روشن خیالی کے نام پر کبھی کوئی رشدیؔ اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو کبھی کوئی منکرِ حدیث اور منکرِ معجزات۔ کبھی اسلامی جہاد کی ’’سفاکیوں‘‘ کو اجاگر کیا جاتا ہے تو کبھی اسلامی عبادات اور ذکر و فکر کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کبھی بے پردگی اور فحاشی کے جواز ڈھونڈے جاتے ہیں تو کبھی شرک و الحاد سے اپنے فکری ڈانڈے ملائے جاتے ہیں۔ دشمن کے ان سبھی حملوں کو ناکام بنانے اور مسلمان کے ایمان کو اس ملحدانہ یلغار سے بچانے کے اور ذرائع بھی ضروری ہیں، لیکن سب سے مؤثر اور فوری طریقِ کار یہ ہے کہ ہر ممکن ذریعہ سے کام لے کر ’’ حُبّ رسول‘‘ کے جذبۂ صادقہ کو بیدار کیا جائے اور حضورﷺ سے گہری جذباتی وابستگی کو شرطِ ایمان سمجھا جائے۔ ذاتِ مصطفوی سے کمال کی حد تک لگاؤ اور والہانہ عشق ہو کہ یہ محبت ہی سرمایہ دین و ایمان ہے۔ قرآنِ کریم ہم سے اسی بات کا خواہاں ہے کہ دین کی محبت میں ڈوب جائیں۔ اﷲ کی عبادت کریں تو اس میںذوق ہو، سرور ہو، وا رفتگیہو، خشوع و خضوع ہو بے غرضی اور بے نفسی ہو --- جانِ دو عالم، محبوبِ خدا ﷺ کا یہ فرمان ہمیشہ پیش نظر اور حرزِ جاں ہوکہ --- ’’تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا، جب تک وہ مجھے اپنے والدین سے، اپنی اولاد سے اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ جانے‘‘ --- محبت عقیدے کو پختہ کرتی ہے، محبوب کا ہر حکم آسان لگتا ہے، اس کی ہر ادا پیاری لگتی ہے اور اس کی بے چون و چرا اطاعت میں خوشی محسوس ہوتی ہے۔
ایک دردمند عالمِ دین (مولانا خلیل الرحمن سجادندوی’’الحق‘‘ جون ۱۹۸۸ء) کا پر سوز پیغام آج کے دوراہے پر کھڑے مسلمان نوجوان کے لئے یہ ہے کہ --- ’’سب سے پہلے تو آپ یہ سمجھئے کہ اﷲ تعالیٰ نے سیدنا محمد رسول اﷲﷺ (ہمارے ماں باپ اور دل و جاں آپ پر قربان ہوں) کو محبوبیت کا وہ مقامِ محمود عطا فرمایا ہے جو ہزاروں دوسری خصوصیات کی طرح صرف آپ ہی کا حصہ ہے۔ ایک عامی مسلمان کے دل میں آنحضرت کے ساتھ عقیدت و محبت کے ایسے جذبات چھپے ہوتے ہیں، جن کا بعض وقت دوسروں کو تو کیا خود اس شخص کو بھی احساس نہیں ہوتا، جس کا کھلا ہؤا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی بدبخت شان رسالت میں کوئی گستاخی کرتا ہے تو وہ لوگ بھی جو بظاہر بس نام کے مسلمان نظر آتے ہیں، آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور ناموسِ رسول کے تحفظ کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔‘‘
’’سچی بات یہ ہے کہ بے شمار حوصلہ شکن اور مایوس کن علامتوں کے درمیان یہ ایک بات ہے جو امید افزا ہے، جب تک یہ باقی ہے اور جب تک محبوبِ خدا ﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ محبت کا یہ نورانی دھاگہ سلامت ہے تب تک گویا ہمارے پاس دلوں کے تالوں کو کھولنے کی ایک چابی موجود ہے۔ جس دن، دل اس بچے کھچے سرمایہ سے بھی خالی ہو جائیں گے، اس دن ہم ایک بڑی نعمت سے محروم ہو جائیں گے اور پھر نام کے مسلمانوں کو کام کے مسلمان بنانے کا کام پہلے سے زیادہ مشکل ہو جائے گا۔‘‘
’’سیدالورٰی‘‘ کو جوبات سیرت النبی ﷺ کی دوسری کتابوں سے ممیز کرتی ہے، وہ یہی ہے کہ اس میں محض تاریخی واقعات کو صحت و صفائی ہی سے پیش نہیں کیا گیا ؛ بلکہ جو کچھ لکھا گیا ہے، محبت میں ڈوب کر لکھا گیا ہے۔ ہر واقعہ عقیدت کا رنگ لئے ہوئے ہے اور ہر تحریر عظمتِ رسول میں اضافہ کرنے کا باعث ہے۔
یوں تو ہر تحریر پر صاحبِ تحریر کی چھاپ ہوتی ہے، لیکن ’’سیدالورٰی‘‘ کے ہر صفحہ سے مؤلّفِ علام کی عظیم شخصیت جھانکتی ہوئی نظر آتی ہے--- انہوں نے جو کچھ لکھا ہے، پر خلوص جذبۂ عقیدت ہی کے تحت لکھا ہے اور جہاں عقیدت آجائے وہاں مبالغے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ فرطِ جذبات میں قلم اور زبان پر قابو پانا کوئی آسان بات نہیں۔ لیکن مؤلفِ والا جاہ اس کٹھن آزمائش میں پورے اترے ہیں، ان کے احساسِ ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ قارئین کو یہ باور کرانا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ
’’آپ یقین کیجئے کہ جو کچھ لکھا ہے، اس احساس کے ساتھ لکھا ہے کہ بروز قیامت اس کے حرف حرف کا جواب دینا ہے۔ اس لئے حتی الوسع پوری کوشش کی ہے کہ ترتیب درست ہو۔‘‘
حقیقت ہے بھی یہی کہ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے، اس کی سند بھی دی ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے پچھلے تمام دفتر کھنگالے ہیں۔ اور انتہائی مستند کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔ سیرت حلبیہ، آثار محمدیہ، البدایہ والنہایہ، طبقاتِ ابن سعد، سیرتِ ابن ہشام، زرقانی، طبری، مستدرک، تاریخ الخمیس اور صحاح ستّہ جیسی بلند پایہ کتب کا کوئی گوشہ ان سے چھپا نہیں رہا، نہ متاخرین کی اختلافی تحریروں کو انہوں نے درخور اعتناء سمجھا ہے اور نہ اپنی طرف سے حشو و زوائد کی ضرورت محسوس کی ہے۔ جہاں ایک واقعہ کے بارے میں ایک سے زیادہ آراء ہیں، وہاں فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سبھی پہلوؤں کا تذکرہ ضروری سمجھا ہے اور جہاں وہ کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے وہاں بھی اعترافِ حقیقت سے پہلو تہی نہیں کی۔
غزوئہ احد کا تفصیلی تذکرہ کرنے کے بعد اس بات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ
’’قارئین کرام! غزوئہ احد کے واقعات بحمد اﷲ اختتام پذیر ہوئے۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اس غزوے کے کسی واقعے کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے، جب کہ اس سے پہلے ہر واقعے کا فرداً فرداً حوالہ پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس غزوہ کے واقعات کی ترتیب میں مؤرخین کا بیان مختلف تھا۔ ایک واقعہ کسی مؤرخ نے ایک جگہ ذکر کیا ہے اور کسی نے دوسری جگہ --- فی الاصل اس غزوہ میں ایسی افراتفری مچ گئی تھی کہ کسی واقعے کے وقت کا تعین کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ اس لئے ہر مؤرخ نے اپنی صوابدید کے مطابق واقعات بیان کئے ہیں۔ میرے پاس کسی ایک مؤرخ کی ترتیب کو ترجیح دینے کی کوئی مثبت وجہ نہ تھی، اس لئے میں نے تمام حالات و واقعات اور ان کی مختلف ترتیبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے طور پر ان کو مرتب کرکے آپ کے روبرو پیش کیا ہے۔ اس صورت میں ہر واقعہ کا حوالہ ثبت کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہ تھا۔‘‘
اسی طرح غزوئہ بدر کی تفصیل بیان کرتے وقت ’’فٹ نوٹ‘‘ میں اس امر کی وضاحت کر دی ہے کہ
’’کون کس کے مقابل تھا؟ اس میں خاصا اختلاف ہے۔ ہم کوشش کے باوجود کسی رائے کو ترجیح نہیں دے سکے، اس لئے اس سے صرفِ نظر کر لیا ہے۔‘‘
یہ احساس بھی ہر لمحہ اور ہر لحظہ مؤلفِ ذی شان کے ذہن میں انگڑائیاں لیتا رہا ہے کہ وہ اس عظیم ہستی کے بارے میں لکھنے کی جسارت کر رہے ہیں جو بعد از خدا بزرگ ترین ہستی ہے، اس لئے نہ صرف انہوں نے خود تمام لوازمات ملحوظ رکھے ہیں اور باوضو اور باادب رہ کر ایک ایک لفظ بصد عقیدت و احترام لکھا ہے ؛بلکہ ’’سیدالورٰی‘‘ کے قارئین سے بھی وہ اسی ادب و احترام کو ملحوظ رکھنے کے متمنی ہیں۔ چنانچہ جن دنوں ’’سیّدالورٰی‘‘ ’’جامِ عرفاں‘‘ میں قسط وار چھپا کرتی تھی، اس زمانے میں ہر قسط کے آغاز میں لکھا ہوتا تھا کہ
’’خوش ذوق قارئین سے التماس ہے کہ اس کے مطالعہ کے دوران باادب بیٹھیں، اور تمباکو نوشی وغیرہ سے پرہیز کریں۔‘‘
آج جب کہ علم التواریخ کو ایک سوشل سائنس (معاشرتی علم) قرار دے دیا گیا ہے، مؤرخ اور سوانح نگار کا کام اور بھی مشکل اور اَدق ہے، آج کے مؤرخ کے لئے صرف واقعات کو سن و سال کی ترتیب سے پیش کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا ؛ بلکہ ان حالات و واقعات کو اس عمدگی سے پیش کرنا ہوتا ہے کہ اُس دور کا پورا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجائے، اس لئے کہ واقعات و حوادث بلائے ناگہانی کی طرح آسمان سے نازل نہیں ہؤا کرتے،بلکہ ہر واقعہ اپنے اسباب و نتائج لئے ہوئے ہوتا ہے۔ واقعات کے پس منظر میں پورا معاشرہ اپنے رسم و رواج، عقائد و افکار اور اعمال و افعال کے ساتھ جیتا جاگتا اور سانس لیتا دکھائی دیتا ہے۔ ’’سیدالورٰی‘‘ میں اس امر کا اہتمام بڑے التزام کے ساتھ موجود ہے اور سیرت رسولِ انامﷺ کے بیان کے ساتھ ساتھ اُس دور کے عرب معاشرہ، اُس کے مشاہیر، عوام کا رہن سہن، عقائد و عبادات، شعر و ادب، معیشت و معاشرت کی تمام جزئیات سے قارئین کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا گیا ہے اور ’’فٹ نوٹوں‘‘ سے اس سلسلے میں بڑا مفید کام لیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے شاید ہی سیرت النبی ﷺ کی کوئی کتاب اتنی جامع اور مکمل ہو۔ مؤلّف کی ژرف نگاری اور دِقّتِ نگاہ کی داد دینی پڑتی ہے کہ انہوں نے اُس دور کے عرب معاشرے کی عکاسی کا حق ادا کیا ہے اور اپنی اس کوشش میں وہ ہر طرح کامیاب رہے ہیں۔
’’سیدالورٰی‘‘ ایک اور اعتبارسے بھی تاریخِ اسلام اور سیرت النبی ﷺ پر کتابوں میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اس کے فاضل مؤلف نے مغربی اہلِ قلم کے ’’واویلا‘‘ کا کوئی اثر قبول کیا اور نہ ان کے طمطراق سے ذہنی مرعوبیت کا شکار ہوئے۔ اسلامی جہاد بالسیف کے بارے میں اکثر لکھنے والوں نے معذرت خواہانہ پالیسی اختیار کئے رکھی اور اپنی تحریروں میں اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں نے تمام لڑائیاں محض دفاعی انداز سے لڑیں۔ ان مصلحت اندیشوں کے برعکس ’’سیدالورٰی‘‘ کے فاضل مؤلّف نے حقیقت نگاری سے کام لیتے ہوئے علی الاعلان کہا کہ
’’ اسلام میں جہاد کی جو اہمیت ہے، وہ ہر صاحبِ علم پر روشن اور واضح ہے، اسی جہاد کی بدولت جانِ دو عالم ﷺ کی حیاتِ طیبہ ہی میں عرب کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے زِیر نگیں آگیا تھا۔ پھر صدیق اکبر ص، فاروق اعظم ص اور عثمانِ غنی ص نے اس سلسلے کو اتنا آگے بڑھایا کہ اس دور کی فتوحات کا حال پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ مجاہدین ’’ہر مُلک مِلکِ ماست کہ ملکِ خدا ماست‘‘ کے جذبے سے سرشار عرب سے نکلے اور چھوٹی موٹی ریاستوں کا تو ذکر ہی کیا، روم و ایران جیسی بظاہر ناقابل تسخیر طاقتیں بھی ان کے سامنے ٹھہر نہ سکیں اور ’’صحرا است کہ دریااست تہ بال و پر ما است‘‘ کا منظر آشکارا ہوگیا۔ ہیروں سے مرصع سونے کے تاج توڑ دئیے گئے، بلند و بالا تخت پیوندِ زمین کر دئیے گئے اور جہاں تک ہوسکا، خدا کی زمین پر خدا کا قانون نافذ کر دیا گیا، رہی سہی کسرنورالدین زنگیؒ اور صلاح الدین ایوبی ؒنے پوری کر دی اور آخر میں سلطان محمد عثمانی نے قسطنطنیہ فتح کرکے عیسائی اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔‘‘
’’یورپ کے مؤرخین نے جب اپنی شرمناک تاریخ پر نظر دوڑائی اور اپنے آباء و اجداد کی المناک شکستوں کے حالات پڑھے تو انہیں ماضی کی اس ذلت سے نکلنے کا اس کے سوا اور کوئی طریقہ نظر نہ آیا کہ وہ اپنی مظلومیت کا رونا روئیں اور مسلمانوں کو دنیا کے سامنے خونخوار اور ظالم قوم کی حیثیت سے پیش کریں۔ چنانچہ انہوں نے مجاہدین اسلام کی ایسی بھیانک تصویر پیش کی کہ ہر پڑھنے والے کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ ان کے نزدیک مجاہدین گویا وحشت و بربریت کے مجسمے اور سفاکی و قہرمانی کے پتلے تھے، جو ہاتھوں میں خون آشام تلواریں لئے آگ اور خون کی ہولی کھیلتے ہوئے اور تہذیب و تمدن کا ہر نقش مٹاتے ہوئے دنیا بھر میں مصروف تاخت و تاراج تھے۔‘‘
’’اس بھیانک تصور کا اتنا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ خود مسلمان اپنے تابناک ماضی سے ندامت و شرمندگی محسوس کرنے لگے اور اس طعنے سے گلو خلاصی کی تدبیریں سوچنے لگے۔‘‘
’’اس دور کے اہلِ قلم محققین بھی اسی معاشرے کے افراد تھے، اس لئے وہ بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے اور اس سوچ میں پڑگئے کہ اسلام کے دامن سے ’’جارحیت‘‘ اور ’’پیش قدمی‘‘ کا یہ ’’داغ‘‘ کس طرح دھویا جائے۔ آخر انہوں نے یہ تدبیر کی کہ تاریخِ اسلام کی تمام جنگوں کو کھینچ تان کر دفاعی جنگیں قرار دینا شروع کر دیا اور یہ نظریہ پیش کیا کہ اسلام تو ایک امن پسند مذہب ہے اس کو جنگ و جدل سے کیا کام---؟ ہاں، جب مسلمانوں پر حملے کئے گئے اور انہیں بار بار ستایا گیا تو مجبوراً انہیں بھی تلوار اٹھانی پڑی --- اور وہ بھی محض اپنے دفاع کے لئے!‘‘
’’گویا سارا جھگڑا سلامی ریاست کی بقاء کا تھا، اگر کسی محدود سے خطۂ زمین پر اسلامی سلطنت سلامت رہتی تو پھر دنیا بھر میں خواہ کچھ بھی ہوتا رہتا مسلمانوں کو اس سے کوئی غرض نہ ہوتی۔ وہ اپنی ریاضت اور عبادت میں مگن رہتے اور اپنی مملکت کی حدود سے ایک اِنچ آگے نہ سرکتے۔‘‘
’’قارئین کرام! تصویر کے یہ دونوں رخ غلط ہیں۔ اسلام نے مجاہدین کے لئے جو ضابطۂ اخلاق مقرر کیا ہے، اس کے ہوتے ہوئے کسی وحشت و بربریت کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا --- بہر حال اگر آپ صلح و جنگ کے تفصیلی ضوابط سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سیدابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کا مطالعہ کیجئے!‘‘
یہ تو تھا اسلامی نظریہ جہاد، مؤلف ’’سیدالورٰی‘‘ کے نزدیک۔ جہاں تک رسول اﷲﷺ کی جمہور دوستی کا تعلق ہے، اسلام پہلا دین اور پہلی تحریک ہے، جس نے عوام الناس کی قدر پہچانی، غلامی اور اونچ نیچ کا خاتمہ کیا، ہر ایک کو قانون کا یکساں پابند بنایا اور تقویٰ کو معیار فضیلت گردانا۔ غزوئہ بدر میں رسول اﷲ ﷺ نے ایک جگہ اپنے قیام کے لئے پسند فرمائی تھی، لیکن اپنے ایک جان نثار حضرت خباب ص کے مشورے پر بعد میں دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔ اس سلسلے میں فاضل مؤلف مولوی افضل حق کی تالیف ’’محبوب خدا‘‘ کا یہ اقتباس پیش کرتے ہیں
’’آنحضرت ﷺ آزادیٔ رائے کے بڑے قدر دان تھے--- تدبیر کے معاملہ میں مشورہ قبول فرما لیتے تھے۔ سلیم الفطرت صحابہ ث، وحی کے حامل پیغمبر ﷺ کے حضور بڑی جرأت سے رائے دیا کرتے تھے اور سرورِ عالم مناسب رائے کو خوشی سے قبول فرما لیا کرتے تھے۔‘‘
رسولِ خدا ﷺ کی زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح تھی۔ آپ پوچھا کرتے تھے۔ ’’کیا میں نے ایک عمر تمہارے درمیان بسر نہیں کی؟‘‘ ان کا بڑے سے بڑا دشمن بھی ان کی اخلاقی عظمت سے انکار نہ کرسکتا تھا۔ اسی خلقِ عظیم، اسی صداقت، اسی امانت اور انہی فضائل کو دیکھ کر لوگ ان پر ایمان لائے تھے اور جو ایک بار ان کے حلقۂ احباب میں داخل ہوتا، ان کا عاشق جاں نثار بن جاتا۔ حضرت سعد ابن ابی وقاص ص بیان فرماتے ہیں کہ
’’احد کے دن عبداﷲ ابن جحش ص نے مجھے کہا کہ آؤ! دونوں مل کر دعا کریں، آپ دعا کریں،میں آمین کہوں گا۔ میں دعا کروں گا، آپ آمین کہئے۔ حضرت سعد ص کہتے ہیں۔ میں نے دعا کی --- ’’الٰہی! میرا سامنا کسی مضبوط دشمن سے ہو، وہ مجھ پر بھرپور حملہ کرے اور میں بھی اس پر پورے زور سے حملہ کروں۔ آخروہ مارا جائے اور مجھے فتح حاصل ہوجائے۔‘‘
عبداﷲابنِ جحش ص نے آمین کہی، پھر عبداﷲ نے دعا کی --- ’’الٰہی! میرا مقابلہ بھی کسی طاقتور دشمن سے کرا، وہ مجھ پر زور دار حملہ کرے اور میں اس پر وارکروں، آخر میں تیری راہ میں مارا جاؤں اور میرے ناک کان بھی کاٹ لئے جائیں --- اور جب میں اس حال میں تیرے روبرو پیش ہوں تو تُو پوچھے، ’’ابن جحش! تیرے ناک کان کیوں کاٹ لئے گئے تھے؟‘‘ میں جواب دوں ’’اے اﷲ! وہ تیری اور تیرے رسول کی راہ میں کاٹے گئے تھے‘‘ پھر تو کہے کہ ’’سچ کہتے ہو، عبداﷲ ابن جحش! واقعی، میری ہی راہ میں کاٹے گئے تھے۔‘‘
اﷲ اﷲ! کیسے لذت آشنائے درد لوگ تھے
لذتِ رقصِ بِسمل شہیدوں سے پوچھ
آگئے وجد میں سر جو کٹنے لگا‘‘
زندگی ایک بے مقصد اور بے معنی چیز نہیں، کامیاب وہی ہے جس کے سامنے ایک مقصد عالی ہو اوروہ اس مقصد کے حصول کے لئے اپنی ساری توانائیاں وقف کر دے، مقصد سے لگاؤ اور عشق کا راز سیکھنا ہو تو کوئی سیرتِ محمدی سے سیکھے۔ مکہ کی زندگی میں جب قریشِ مکہ جناب ابو طالب پر پورا دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ آنحضرت ﷺ کی حمایت اور اعانت سے ہاتھ اٹھالیں اور چچا ابو طالب کی برداشت بھی دم توڑتی معلوم ہوتی ہے، رسول اﷲﷺ کس صبر واستقلال سے گویا ہوتے ہیں
’’چچا جان! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند لاکر رکھ دیں اور پھر مجھ سے مطالبہ کریں کہ میں اعلانِ توحیدترک کر دوں تو میں پھر بھی ان کا مطالبہ مان نہیں سکتا --- اب یہ کام جاری رہے گا۔ یاتو میں کامیاب ہو جاؤں گا، یا اسی راہ میں میری جان چلی جائے گی۔‘‘
’’سیدالورٰی‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھ ایسا قاری تو ایک عالمِ حیرت و استعجاب میں پہنچ جاتا ہے۔ معلومات کا اتنا ذخیرہ اور پھر اتنی صحت اور احتیاط سے، اتنے سلیقہ اور ترتیب سے---!! ان کی تدوین وہی کرسکتا ہے جس پر اﷲ کی خاص نظر کرم ہو --- کوئی باور نہیں کرسکتا کہ ہری پور ہزارہ جیسے غیر معروف مقام میں رہتے ہوئے کوئی اتنا وقیع دینی اور ادبی کارنامہ انجام دے گا۔ زمان و مکان کے تناظر میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتاکہ چالیس برس کی عمر میں، ایک انتہائی مصروف اور انتہائی سادہ وضع قطع اور دیہی طور طریقوں والا مردِ درویش، جانِ دو عالم ﷺ کے سیرت نگاروں اور مدح سراؤں میں اتنا قابلِ رشک مقام حاصل کرنے میں کامیاب اور کامران ہوسکے گا --- ایک عرصہ سے ان کا گھرانا ملک کے ایک کونے میں چراغِ علم و معرفت روشن کئے بیٹھا ہے --- یوں تو اس علمی خانوادے کا ہر فرد نور علی نور ہے۔ تاہم مؤلف ’’سیدالورٰی‘‘ اور مدیر اعلیٰ ماہنامہ ’’جامِ عرفاں‘‘ حضرت قاضی عبدالدائم دائمؔ مدظلہ العالی کی شان ہی کچھ اور ہے۔ وہ گدڑی میں چھپے ہوئے لعل ہیں --- کسی یونیورسٹی یا علمی مرکز میں ہوتے تو کسی اونچے مرتبے پر فائز ہوتے، لیکن یہاں تو سادگی اور گوشہ نشینی ہے۔ وہ سجادہ نشین ضرور ہیں لیکن نہ پیروں ایسی سج دھج ہے، نہ کوئی مخصوص وضع قطع۔ نہ ملاقات کا وقت متعین ہے، نہ ارادتمندوں سے رکھ رکھاؤ کا مظاہرہ --- بات چیت بھی علمیت اور تفاخر سے مبرّا --- علم کا بحرنا پیدا کنار ہیں۔ تعلیم و تدریس، وعظ و نصیحت امامت وخطابت کے ساتھ ساتھ مجاہدہ و مراقبہ، غور و فکر اور عبادت و ریاضت کا سلسلہ بھی جاری ہے اور تصنیف و تالیف کا شغلِ لطیف بھی --- انہیں نہ لکھنؤ کے دبستانِ ادب سے مستفید ہونے کا موقع ملا، نہ انہوں نے دہلی کے مکتبِ فکر کی خوشہ چینی کی ہے؛ تاہم ان کی تحریر میں وہ لطیف چاشنی اور مٹھاس ہے جوبہت ہی کم تحریروں میں پائی جاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے فقرے ہیں جو دل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا تخاطب عوام الناس سے ہے، اس لئے وہ انہی کی زبان میں بات کرتے ہیں --- علمیت کا اظہار کبھی ان کا مقصود نہیں رہا، نہ علمی اصطلاحات سے انہوں نے کبھی اپنی تحریر کو بوجھل ہونے دیا ہے۔ البتہ یہ احساس ہر وقت انہیں دامن گیر ہے کہ بات کیسے کی جائے، اندازِ بیان کیسا ہو، اس لئے کہ انہیں اسلوبِ بیان کی اہمیت کا اندازہ ہے۔
سیفؔ اندازِ بیاں بات بنا دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
وہ بات کرنے کا ڈھنگ جانتے ہیں اور بات میں دلچسپی پیدا کرنے کے فن سے کماحقہ‘ آگاہ ہیں۔ اسی لئے اظہارِ بیان میں کبھی بات چیت اور مکالمے کا انتخاب کرلیتے ہیں اور کبھی کوئی شعر ایسا برمحل کہہ دیتے ہیں کہ قاری پورے سیاق و سباق کے ساتھ بات بھی سمجھ جاتا ہے اور اس کی دلچسپی بھی برقرار رہتی ہے۔ جانِ دو عالمﷺکے والدِ ماجد جناب عبداﷲ کے جمالِ بے مثال کو کس حسن و خوبی سے بیان کیا ہے کہ
’’دس بیس نہیں، سینکڑوں لڑکیاں ان کی محبت میں گرفتار تھیں اور آس لگائے بیٹھی تھیں کہ ہماری شادی عبداﷲ سے ہو جائے گی، مگر جب عبدالمطّلب نے سیدہ آمنہ کو بہو منتخب کرلیا تو عشقِ عبداﷲ میں وارفتہ لڑکیاں عمر بھر غم محبت کو دل میں بسائے کنواری بیٹھی رہیں اور انہوں نے کہیں بھی شادی نہیں کی کہ ہاں! اگر عبداﷲ نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں۔
ہاں مجھے اب اپنی اِن تنہائیوں سے پیار ہے
یہ جو میرے ساتھ ہیں تیرے چلے جانے کے بعد‘‘
حضور سرورِ کائنات، فخر موجودات ﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری کا تذکرہ ہر سیرت نگار نے بڑے التزام اور بڑی توجہ سے کیا ہے، تو مصنف ’’سیدالورٰی‘‘ بھی اس سلسلے میں کسی سے پیچھے کیوں رہتے۔ انہوں نے حضورﷺکی ولادت مبارکہ کی تصویر کشی یوں کی ہے
’’بالآخر انتظار کا زمانہ کٹ گیا --- فراق کا عرصہ ختم ہؤا اور نبوت و رسالت کے آفتاب عالمتاب کے ضیا بار ہونے کا وقت قریب آن لگا --- یہ اپریل کا مہینہ تھا اور موسمِ بہار --- اس سہانے موسم کی ایک ایک چیز پر --- اس کی مہکتی فضاؤں پر، دُربار گھٹاؤں پر، عنبر افشاں ہواؤں پر، مسکراتی کلیوں پر، کھلکھلاتے پھولوں پر، مرغزاروں، شاخساروں پر اور ان میں چہچہاتی گنگناتی چڑیوں پر، ڈالی ڈالی پر رقصاں خوش نما و خوش نوا پرندوں پر، گلوں کو چومتی اور فرطِ مسرت سے جھومتی بلبلوں پر --- غرضیکہ بہار کی ایک ایک ادائے دلنواز پر شاعروں نے کئی کئی غزلیں کہہ ڈالیں، ادیبوں نے فن پارے تخلیق کر دیئے مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہؤا۔‘‘
اسی موضوع کو آگے چل کر یوں بیان کیا ہے
------اس بہار میں-------
٭--- وہ گلِ رعنا کھلا، جس کی بوئے دلآویز سے چمنستانِ دہر کا ہر طائر مست و
بیخود ہوگیا۔
٭--- وہ نسیمِ سحر چلی، جس کے ہر جھونکے میں گلزارِ ازل کی مہک رچی تھی۔
٭--- وہ صبا محوِ خرام ہوئی، جس کی اٹکھیلیوں سے باغِ ابد کی ہر کلی مسکرا پڑی،
ہر شگوفہ کھل اٹھا۔
٭--- وہ بادِ بہاری چلی جس کی راحت بخش تھپکیوں سے بیقرارانِ عالم کو قرار آگیا۔
٭--- وہ ابرِ نیساں برسا جس کا ہر قطرہ منت کشِ صدف ہوئے بغیر دُرِّشہوار بن گیا۔
٭--- وہ شبنم پڑی، جس کانم گلستانِ عالم کے پتیّ پتیّ کے لئے آب حیات ثابت ہؤا۔
یہ ربیع الاوّل کی بارھویں تاریخ تھی اور سوموار کی رات
اس رات کو
وہ مہرتاباں نور بار ہوا جس کی رو پہلی کرنوں سے کائنات کا ذرہ ذرہ روشنی میں نہا گیا--- وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا --- اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھی۔‘‘
تحریر کے لطف کو دوبالا کرنے کے لئے مؤلف علام نے کبھی کبھی گفتگو کا انداز اور مکالمہ کا طریق اختیار کیا ہے۔ یہ تنوع اور جدت بہت خوب ہے --- راہب بحیرہ اور جناب ابو طالب کی بات چیت ملاحظہ کیجئے۔
’’یہ بچہ آپ کا کیا ہے؟‘‘
’’بیٹا ہے میرا۔‘‘ ابو طالب نے جواب دیا۔
’’بیٹا ---؟ نہیں،یہ آپ کا بیٹا نہیں ہوسکتا‘‘ راہب بولا ’’اس کا باپ زندہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’ٹھیک ہے --- بھتیجا ہے میرا۔‘‘ ابو طالب کو حقیقت بیان کرتے ہی بن پڑی۔
’’اس کے باپ کی وفات کو کتنا عرصہ ہوگیا ہے؟‘‘
’’وہ تو اسی دوران چل بسا تھا جب یہ شکمِ مادر میں تھا۔‘‘
’’اس کی ماں موجود ہے؟ ‘‘
’’نہیں --- وہ بھی چند سال پہلے انتقال کرگئی ہے۔‘‘
اپنا اطمینان کرلینے کے بعد راہب گویا ہؤا --- ’’بلاشبہ آپ سچ کہہ رہے ہیں اور میں آپ کو متنّبہ کرتا ہوں کہ اس کو یہودیوں سے بچا کر رکھیئے، کیونکہ یہودی حاسد لوگ ہیں اور اگر انہیں ان علامات کا پتہ چل گیا جو مجھے معلوم ہوئی ہیں تو وہ ضرور اسے قتل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
تصویر کشی اور منظر نگاری کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔ معجزہ شق الصدر کا بیان ہے۔
’’مائی حلیمہ کہتی ہیں --- ’’دوپہر کا وقت تھا --- ہم گھر میں بیٹھے تھے کہ اچانک میرا بیٹا چیختا چلاتا اور شور مچاتا ہؤا آیا --- ’’او امی!‘‘ --- ’’او ابو! میرے قریشی بھائی کو بچا لیجئے، مجھے ڈر ہے، آپ اسے زندہ نہیں پاسکیں گے۔‘‘
میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا --- ’’قصہ کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہم اُدھر کھڑے تھے۔‘‘ اس نے ہانپتے ہوئے وادی کی طرف اشارہ کیا’’ کہ اچانک ایک آدمی آیا اور اس کو پکڑ کر پہاڑ کی چوٹی پر لے گیا،پھر اسے لٹا کر اس کا سینہ چیرنے لگا --- مجھے کچھ پتہ نہیں کہ پھر کیا ہؤا؟‘‘
جذبات کی عکاسی کا کیا رنگ اختیار کیا گیا ہے---!
ساری کتاب ہی یہی ادبی شان لئے ہوئے ہے۔ ایک اور تصویرِ درد ملاحظہ ہو۔
’’جب عمارص ، یاسر ص اور سمیہ تینوں ہی ایمان لے آئے تو مشرکین کی آتشِ انتقام بھڑک اٹھی اور انہوں نے ان تینوں کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچانا شروع کر دیں۔ حضرت یاسر ص تشدد کی تاب نہ لاسکے اور واصل بحق ہوگئے۔ حضرت سمیہ کو ابوجہل نے اس زور سے برچھی ماری کہ وہ تڑپ تڑپ کر مرگئیں۔ یہ اسلام کی پہلی شہیدہ تھیں۔ حضرت عمارص البتہ زندہ رہے اور مدتوں سخیتاں جھیلتے رہے۔ کبھی ان کو لوہے کی زرہ پہنا کر سخت دھوپ میں بٹھایا جاتا۔ کبھی ان کے بدن کو آگ سے جلایا جاتا، جب اذیت رسانی کا مرحلہ گزر جاتا تو جانِ دو عالم ﷺ تشریف لاتے اور ان کے جلے ہوئے بدن پر اپنا دستِ شفقت پھیرتے ہوئے اس طرح دم کرتے --- یَانَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی عَمَّارٍکَمَا کُنْتِ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ۔
(اے آگ! تو عمار کے لئے اس طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا، جس طرح ابراہیم کے لئے بنی تھی۔)
کون جانے کہ اس پیار بھرے انداز سے دم کرنے میں اور اس نورانی ہاتھ کے لمس سے حضرت عمار ص کے بدن میں کیف و سرور اور برودت و سکون کی کیسی لہریں دوڑ جاتی ہوں گی---!‘‘
سیرت النبی ﷺ کے بیان کا حق اسی اہل دل سے ادا ہوسکتا ہے جو کتابی علم میں بھی یکتا ہو اور اسے علم لدنی سے بھی وافر حصہ ملا ہو۔ جو محض گفتار کا دھنی نہ ہو ؛بلکہ صاحب کردار بھی ہو۔ اس لئے کہ ہر شئے سے کہیں زیادہ رسول اﷲ ﷺ کے حسنِ کردار ہی نے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا --- جب آپ تن تنہا تھے، تب بھی اور جب آپ لاکھوں کے محبوب مقتدا تھے، تب بھی معترضوں کو یہی چیلنج تھا --- ’’کیا میں نے ایک عمر آپ کے درمیان نہیں گزاری؟‘‘
مؤلّف ’’سیدالورٰی‘‘ حضور اکرم ﷺ کی سیرتِ مطہرہ کا یہی شفاف آئینہ ہمارے سامنے رکھ کر پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارے کردار میں اس ذاتِ والا صفات کے کردار کی کوئی جھلک ہے---؟ کیا ہمارے دل نورِ نبوت سے منور و مستنیر ہیں ---؟ کیا ہمارا طرزِ عمل آقائے نامدار ﷺ کی سیرت و کردار سے کوئی لگا کھاتا ہے ---؟کیا ہمارے دل، جانِ دو عالم ﷺ کے عشق و محبت کے جذبات سے بھرپور ہیں ---؟ کیا ہمارا ضمیر عظمتِ رسالت پر گواہی دیتا ہے ---؟ محمد ﷺ کا مشن صرف لوگوں کے ظاہر کو بدلنا نہ تھا؛ بلکہ انسانیت کے باطن کو متاثر کرنا تھا۔ پیغمبروں کے نزدیک کامیابی، مالیاتی کا نام نہیں ہوتا، نہ وہ معاشی اور معاشرتی خوشحالی کے حصول تک اپنی مساعی کو محدود رکھتے ہیں؛بلکہ پیغمبر، دل کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے کے لئے آتے ہیں، اس لئے کہ جب تک دل کی دنیا نہیں بدلتی، باہر کی دنیا بھی اصلاح پذیر نہیں ہوسکتی --- انسانی دل سدھرے گا تو خارجی ماحول بھی سدھرے گا۔ انسانی دل میں بگاڑ آئے گا توسارے معاشرے میں بگاڑ آجائے گا --- اہل ایمان و اخلاص کے لئے، شمع محمدی کے پروانوں کے لئے، یہ جان لینا ضروری ہے کہ روحِ محمدی کے بغیر، اتباع سنت کے بغیر، پیرویٔ سیرت جانِ دو عالم ﷺ کے بغیر ہماری نجات ہے، نہ دنیوی فلاح --- کیا بات کہہ گئے ہیں اقبالؔ
حق تعالیٰ پیکرِما آفرید
از رسالت در جہاں تکوینِ ما
از رسالت صد ہزار مایک است
ماز حکمِ نسبتِ او ملّتیم
قوتِ قلب و جگر گرددنبی ﷺ
وز رسالت درتنِ ما جاں دمید
از رسالت دینِ ما ، آئین ما
جزوِ ما از جزوما لاینفک است
اہلِ عالم راپیامِ رحمتیم
از خدا محبوب تر گردد نبی ﷺ
خالقِ حقیقی شادو آباد رکھے ساقیٔ ’’جامِ عرفاں‘‘ کو، مسند نشین خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ صدریہ ہری پور (ہزارہ) کو، وارثِ امیر شریعت و طریقت، عارف ربانی حضرت معظم علامہ قاضی محمدصدرالدین ؒ کو، اور سیرت نگارِ سیدالمرسلین خاتم النبیینﷺ کو، جنہوں نے اسوئہ حسنۂ ہادیٔ دو جہاں ﷺ کو اتنی عمدگی، اتنی عقیدت، اتنے خلوص اور اتنی جامعیت سے ’’سیدالورٰی‘‘ کی صورت میں ہم عاجزوں اور ہیچمدانوں کی رہبری، رہنمائی اور فلاحِ دارین کے لئے پیش کیا۔
اﷲ پاک انہیں جزائے عظیم دے اور ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اپنی زندگیوں کو سنت و سیرتِ محمدی کے سانچے میں ڈھال سکیں کہ یہی صراطِ مستقیم ہے اور یہی منزلِ مومن!
وَصَلَّی اﷲُ تَعَالیٰ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ وَنُوْرِ عَرْشِہٖ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔