نعمان اکرم

محفلین
جنرل ضیاء الحق: مولانا محترم میں چاہتا ہوں کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے اس سلسلے میں آپ میرے ساتھ تعاون فرمائیں تو عنایت ہوگی ۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی : آپ اس ملک میں وعدے کے مطابق انتخابات کرادیں ،یہ اس قوم پر آپ کا بہت بڑا احسان اور آپ کی عنایت ہوگی۔
یہ مکالمہ 1977میں اس وقت کا ہے جب ضیاء صاحب بھٹو صاحب کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آئے تھے اور 90دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا ،اسی دوران کسی وقت انھوں نے مولانا مودودی سے ملاقات کر کے یہ گفتگو کی تھی ۔انتخابات کے حوالے سے مولانا محترم کا ذہن اتنا صاف تھا کہ انھوں نے تنظیمی مصروفیا ت کے باوجود اپنی سرگرمیوں کا بیشتر حصہ جہاں ایک طرف قرارداد مقاصد کی تشکیل میں صرف کیا وہیں مولانا نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد بھی جاری رکھی اور اس کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد بھی کیے جمہوریت اور انتخاب کے حوالے سے مولانا کا موقف اتنا مضبوط تھا کہ اسی اہم اور حساس موضوع پر ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں جماعت کے اندر ایک بھونچال آیا اور چوٹی کے اہم رہنماؤں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی ،اس موضوع پر مولانا نے چار گھنٹے کی ایک طویل تقریر کی جو "تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل"کے عنوان سے ایک کتاب کی شکل میں موجود ہے ۔جب مولانا ملک میں اور باہر کی دنیا کے لیے انتخاب کے حوالے سے اتنے شدید تھے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنی جماعت کو جمہوری روح سے خالی رکھتے ،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے جماعت کے اندر جمہوریت کا اسٹرکچر اور انتخابات کا جو طریقہ کار متعارف کرایا ہے اس کی مثال کسی دوسری جماعت میں نہیں مل سکتی۔جماعت اسلامی میں ہر سطح کی شوراؤں اور امیر جماعت پاکستان کا چناؤ براہ راست انتخاب سے ہوتا ہے جب سے جماعت قائم ہوئی ہے یہ انتخابات اپنے وقت پر باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں اور ہر سطح کے ا نتخاب بھی اپنے وقت پر ہوتے ہیں
سید صاحب کے مطابق اسلام کا تصور جمہوریت مغرب کے طرز جمہوریت سے مختلف ہے ۔
اسلام میں جمہوریت سے مراد اللہ کی حاکمیت ، عوام کی خلافت ، بنیادی قوانین اللہ کے احکامات ہیں ، عوام ان قوانین کی بنیاد پر نیابت اور نمائندگی کا حق استعمال کرتے ہوئے نفاذ کے پابند ہیں ۔
جمہوریت حکومت چلانے کی ایک شکل ہے ۔ جمہوریت جمہور کے ذریعے جمہورکی حکومت ہے اور اگر عملی سطح پر دیکھا جائے تو حکومت عوام کی منتخب کردہ ہو ، لوگوں کو حکومت کی غلطیوں پر تنقید کا حق حاصل ہو ، ریاستی اختیارات فرد واحد میں مرتکز نہ ہوں ، بلکہ اختیارات کی متوازن تقسیم ہو ، شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہوں اور عدلیہ کو مکمل آزادی حاصل ہو ۔ حکومت کی تبدیلی فوجی یا بندوق کی طاقت سے نہیں صرف عوام کی رائے سے ہو ۔ کوئی شخص ، خاندان ، گروہ ، چند مراعات یافتہ طبقات ، ریاست کی ساری آبادی مل کر بھی حاکمیت کی مالک نہیں ہے ۔ حاکم اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ ہیں ، رعایا نےتو صرف انہی اصولوں کے تحت اپنا نظام چلاناہے
 
Top