میری عمر آٹھ برس ہو گی۔
امی نے سب بہن بھائیوں کے پیسے میرے ہاتھ میں تھما دیے۔ بڑا بھائی ہونے کے ناتے میری ذمہ داری تھی کہ میں سب کو شاپنگ کراؤں۔
جھومتے جھامتے باہر نکلے۔ تھوڑی دیر بجٹ پر بالغانہ بحث ہوئی۔ پھر سب آئسکریم کھانے پر متفق ہو گئے۔ تین کونز خریدی گئیں۔ میں نے سب سے پہلے اپنی کون چاٹ کر اس کے ملکیتی حقوق محفوظ کیے اور باقی دو دونوں بہنوں کے حوالے کر دیں۔
ہمارا چھوٹا بھائی عدیل، جسے ہم دیلی بلاتے ہیں، یہ تمام غیر اخلاقی حرکات تمام تر جزئیات کے ساتھ اپنی شارٹ ٹرم میموری میں محفوظ کر رہا تھا۔ اس نے طبلِ جنگ بجا دیا۔ ایک دل دوز چیخ کے ساتھ اس نے چھینا چھپٹی کی کوشش کی مگر لسے دا کی زور محمد، نس جانا یا رونا۔ اس نے دھائیں دھائیں رونا شروع کر دیا۔ میں نے اسے بہتیرا سمجھایا کہ میاں اگر تمھیں دے دیتے تو ہم کیا کھاتے؟ مگر سفارتی تعلقات منقطع ہو چکے تھے۔
بہنوں نے ہمارے برادرانہ معاملات میں دخل دینا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ اپنی اپنی آئسکریم کے ساتھ محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئیں۔ کوئی اور چارہ نہ دیکھا تو میں نے بھائی کو کون کا نچلا دھڑ پیش کیا۔ اس پر صدمے کا ایک اور دورہ پڑ گیا۔
میں نے بھی جھگڑے پر لعنت بھیجی اور آرام سے آئسکریم کھانے لگا۔ بس اتنا ہی ہوتا ہے۔ اور کیا کر سکتا تھا میں؟ دیلی گلی میں بیٹھا روتا رہا۔
میری آئسکریم ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ ابو جان دیلی پر جھکے ہوئے نظر آئے۔ پھر وہ میری طرف بڑھے۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ ایک آدھ تھپڑ پڑا۔ ڈھیر ساری ڈانٹ۔ اور پھر ان گناہگار آنکھوں نے دیلی کو دو کونز اکٹھی کھاتے بھی دیکھا۔
اس کہانی کا دوسرا رخ ماں جی سے روایت ہے۔ امی بتاتی ہیں کہ جب نیچے گلی میں (ہم چھت پر رہتے تھے) ہمارا جھگڑا ہو رہا تھا تو ابو نماز پڑھ رہے تھے۔ دیلی کی چیخ سنائی دی تو ابو کو نجانے کیا ہو گیا۔ امی کو تب احساس ہوا جب انھوں نے ابو کو بار بار کھانستے ہوئے سنا۔ دوڑ کر پہنچیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، گلے میں جیسے کچھ پھنسا ہوا تھا اور چہرہ متغیر تھا۔ پتا نہیں کیسے انھوں نے نماز مکمل کی اور دیوانہ وار دوڑ پڑے۔ امی کہتی رہ گئیں کہ آرام سے سیڑھیاں اتریں مگر ان کا دل زخمی تھا۔ کہاں رکتے تھے!
مجھے یاد ہے دیلی کا ایک دفعہ ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اس کی عمر اس وقت کوئی چودہ پندرہ سال ہو گی۔ لیکن تب تک تگڑا جوان ہو گیا تھا۔ موٹر سائیکل رکشا سے ٹکرا گئی تھی۔ دیلی کے پاؤں پر چوٹ آئی۔ ابو ایک نہایت قابل ہومیوپیتھ تھے مگر ایمرجنسی کی صورت میں ایلوپیتھس کو ترجیح دیتے تھے۔ اسے لے کر ہسپتال گئے۔ ڈاکٹر صاحب مرہم پٹی کر رہے تھے کہ ابو کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ بیٹے کا خون نہ دیکھا گیا۔ ڈاکٹر صاحب ابو کے دوست تھے۔ لیکن یہ رنگ شاید انھوں نے پہلی بار دیکھا تھا۔
صاحبو، دیلی ہم سب میں بھولا تھا۔ اور شاید اب تک ہے۔ ابو اسے لوٹا کہ کر بلاتے تھے۔ طرح طرح کے نام رکھتے تھے۔ گالیاں دیتے تھے۔ چھیڑتے تھے۔ بات بات پہ پٹائی کرتے تھے۔ یہ سب ہمارے ساتھ نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ ہم مذاق سمجھ سکتے تھے۔ کب ابو غصے میں ہیں اور کب مذاق کر رہے ہیں ہمیں زیادہ تر پتا ہوتا تھا۔ لیکن دیلی؟
وہ اتنا سادہ تھا کہ ایک دفعہ ابو مجھے کسی بات پر برا بھلا کہ رہے تھے۔ دیلی نے ابو کی غضب ناک آواز سنی تو ہانپتا کانپتا آیا اور بولا:
"ابو، میں؟"
ابو قربان نہ ہو گئے ہوں گے اس پر؟
میرے سسر بڑے آدمی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ خدا کے سامنے معصوم ہو جاؤ۔ اس سے چالاکی نہ کرو۔ اسے بھولے بھالے اسی طرح پسند ہیں جس طرح والدین کو ہوتے ہیں۔ اور چالاکوں کو وہ ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
بات بھی سچ ہے۔ ماں باپ ذہین بچوں کی قدر کرتے ہیں۔ ان کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ زمانے کے سامنے ان پر فخر کرتے ہیں۔ ان سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔ لیکن ایک طرح کی بے فکری بھی ہوتی ہے۔ کہ یہ سمجھدار ہیں۔ اپنا رستہ خود بنا لیں گے۔ جان جن میں اٹکی ہوتی ہے وہ تو معصوم ہوتے ہیں۔ انھیں تو بات کرنی نہیں آتی۔ وہ تو صرف حماقتیں کرتے ہیں۔
سمجھ دار بچے کچھ کرتے پھریں، ماں باپ مطمئن ہوتے ہیں کہ انھیں کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کر لیں گے۔ گر گئے تو کھڑے بھی ہو جائیں گے۔ لیکن کسی بھولے بھالے کے قدم ذرا لڑکھڑائیں تو دنیا اندھیر ہو جاتی ہے۔ پاگلوں کی طرح دوڑ پڑتے ہیں۔ کیا ہوا میرے بیٹے کو؟ کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟ کیا چاہیے؟ ہائے میری جان۔ میں واری۔ ماں صدقے!
صاحبو، پتا ہوتا ہے کہ یہ خود نہیں سنبھل سکتے۔ سنبھلنا چاہیں بھی تو نہیں سنبھل سکتے۔ انھوں نے سب کچھ ہم پر چھوڑ رکھا ہے۔ ہم نہ آئیں گے تو یہ نہ اٹھ سکیں گے۔ پڑے رہیں گے روتے۔
رسولِ پاکﷺ فرماتے ہیں کہ جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو خدا سے مانگو۔ اب ظاہر ہے یہ سمجھ دار بندوں کا تو کام نہیں۔ وہ تو خود بندوبست کر سکتے ہیں۔ اپنے پہ بھروسا رکھتے ہیں۔ خدا انھیں چھوڑتا بھی ان کے حال پہ ہے۔ جاؤ، لے لو۔ میں کہاں سے دوں؟ لیکن ایسے بھی تو ہیں جو واقعی تسمے تک کے لیے اس کے محتاج ہیں۔ روتے رہتے ہیں۔ گڑگڑاتے رہتے ہیں۔ وہ دے دے تو بچوں کی طرح خوش ہو جاتے ہیں۔ ورنہ لگے رہتے ہیں۔

ماخذ: دل دریا
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
بہت خوبصورت تحریر۔ ایک پیارا سا نکتہ بتانے کے لئے۔۔۔جزاک اللہ!
لیکن کچھ تشنگی سی ہے۔۔۔یا پھر مجھے محسوس ہو رہی ہے۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
تحریر تو بُلاشبہ انمول ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے تخییل کی انتقالی کا ڈھنگ بہت اچھا اپنایا ہے ۔ ماشاءاللہ آپ کی شاعری تو لاجواب ہوتی ہے ۔ مگر نثر بھی کمال ہے ۔
 
لکھنا وکھنا تو کیا، پیارے لوگو۔ لیکن اللہ جانتا ہے آپ لوگوں کی طرف سے یہ پیار بھرے جملے پڑھ کر غالبؔ والا رشک آتا ہے خود پر!
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی :)
عقل کی خوش قسمتی ہے۔ ہمیں تو منڈیر سے کوئی کوا تک نہیں اڑانے دیتا۔ تانک جھانک تو ایک طرف رہی!
بہت نفیس پیرائے میں انمول نصیحت کے لیے شکریہ
ہائیں؟ تو ہم ناصح ہو گئے کیا؟ روز آ جاتا ہے، سمجھاتا ہے، یوں ہے، یوں ہے والا ناصح؟ خدا نکردہ!
آپ کی محبت کا ممنون ہوں۔
بہت شکریہ۔
لاجواب ، راحیل بھائی ، بہت ہی خوب
بہت ہی خوبصورت موضوع ، اور اس سے بھی خوبصورت اندازِ تحریر
شکرگزار ہوں، بھائی۔
بہت خوب
اسے کہتے ہیں کوزے میں دریا بند کرنا
نوازش۔ یعنی اب ہماری تحریر کی بدولت مچھیرے روزی روٹی کے لیے سقوں کے پیچھے پیچھے ہوا کریں گے؟
یہ دیکھ لیں ٹائپو ہے ، کہہ
یہ اس زمانے کی تحریر ہے، بھائی، جب فقیر اردو املا کے سلسلے میں کچھ انتہا پسند اکابر کے ہاتھ پر بیعت تھا۔ اب تو کہہ ہی لکھتا ہوں عوام کی طرح۔
دل دریا سمندروں ڈونگے کون دلاں دیا جانے ھو۔۔۔
بہت خوبصورت تحریر
جزاک اللہ!
بہت خوبصورت تحریر۔ ایک پیارا سا نکتہ بتانے کے لئے۔۔۔جزاک اللہ!
لیکن کچھ تشنگی سی ہے۔۔۔یا پھر مجھے محسوس ہو رہی ہے۔۔۔
بہت شکریہ، آپی۔ تشنگی ہو سکتی ہے۔ ہم کون سے بحر الفصاحت ہیں۔ اگر واضح کر دیں تو شاید کوئی راہ نکالوں۔
ویسے میں آپ کو آپی کہہ کے پکارتا ہوں۔ اگر آپ کی عمر مجھ سے کم ہے تو برداشت کر کے ثوابِ دارین حاصل کریں۔ اگر زیادہ ہے تو ہر نماز کے بعد میرے لیے بھی دعا کیا کریں!
بہت ہی خوبصورت تحریر! :) :) :)
ویسے لگے ہاتھوں تین سو مراسلوں کی مبارکباد بھی قبول فرما لیں۔ :) :) :)
شکریہ، محبی!
لگے ہاتھوں کی بجائے رنگے ہاتھوں کہنا چاہیے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ اس سے موگیمبو خوش ہوتا ہے۔
زبردست اور معلوماتی تحریر راحیل فاروق بھائی!
عنایت، برادرم۔
اف۔۔۔۔۔
3 سال 8 ماہ اور 23 دن میں صرف 300 مراسلے۔ :)
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں۔۔۔
تحریر تو بُلاشبہ انمول ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے تخییل کی انتقالی کا ڈھنگ بہت اچھا اپنایا ہے ۔ ماشاءاللہ آپ کی شاعری تو لاجواب ہوتی ہے ۔ مگر نثر بھی کمال ہے ۔
میرا گمان ہے کہ آپ نے میری ستائش فرمائی ہے۔ اس حسنِ ظن کو بنیاد بنا کر میں آپ کا بےطرح شکرگزار ہوں۔
تخییل کی انتقالی کا جہاں تک تعلق ہے تو یقین جانیے کہ یہ اتفاقاً ہی سرزد ہو گئی یا ہو گیا۔ فقیر کا ایسا قصد حاشا و کلا نہ تھا، نہ ہے، نہ ہو گا۔
راحیل فاروق بھائی بہت خوبصورت تحریر اور سبق آموز بھی ۔
پیارے بھائی کا بہت شکریہ!
 

جاسمن

لائبریرین
خدا انھیں چھوڑتا بھی ان کے حال پہ ہے۔ جاؤ، لے لو۔ میں کہاں سے دوں؟ لیکن ایسے بھی تو ہیں جو واقعی تسمے تک کے لیے اس کے محتاج ہیں۔ روتے رہتے ہیں۔ گڑگڑاتے رہتے ہیں۔ وہ دے دے تو بچوں کی طرح خوش ہو جاتے ہیں۔ ورنہ لگے رہتے ہیں۔
"میں کہاں سے دوں؟"
اللہ کے حوالے سے یہ کچھ صحیح نہیں لگ رہا۔
واقعی عقلمند اللہ کی بجائے خود پہ بھروسہ کیے کام کرتے ہیں اور جب ناکام ہونے لگتے ہیں تو پھر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اور سادہ لوگوں سے متعلق۔۔۔۔۔اشفاق صاحب کا ایک واقعہ۔۔۔۔قبرستان میں ایک تروتازہ قبر دیکھ کے گورکن سے دریافت۔۔۔۔۔کتنے سال پہلے کی قبر اور اس خوبصورت حالت میں۔۔۔۔۔گاؤں میں مرحوم بابے کی بوڑھی بیوہ سے پوچھا کہ ایسا کیا کام کرتے تھے کہ یہ مقام ملا؟؟؟؟؟ پتہ چلا کہ سادہ تھے۔ کم ذہن۔قرآن پاک پڑھنے کے بے حد شوقین۔۔۔۔مولوی نے کئی سال سر کھپا کے جواب دے دیا تو خود ہی گھر پہ قرآنِ پاک کے صفحوں پہ انگلی پھیرتے"اللہ سائیں تُوں کِنّاں چنگاں ایں""اللہ سائیں تُوں کِنّاں سوہنڑاں ایں""اے تُوں جولکھیا اے اے وی بالکل ٹھیک اے۔۔۔اے تُو جو آکھیا اے ایہہ وی بالکل ٹھیک آکھیا اے۔۔۔۔۔۔۔"
بہت شکریہ، آپی۔ تشنگی ہو سکتی ہے۔ ہم کون سے بحر الفصاحت ہیں۔ اگر واضح کر دیں تو شاید کوئی راہ نکالوں۔
شاید تحریر نے اثر اتنا کیا ہے کی ایک اداسی سی ،تشنگی سی محسوس ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔
ویسے میں آپ کو آپی کہہ کے پکارتا ہوں۔ اگر آپ کی عمر مجھ سے کم ہے تو برداشت کر کے ثوابِ دارین حاصل کریں۔ اگر زیادہ ہے تو ہر نماز کے بعد میرے لیے بھی دعا کیا کریں!
اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔آپ ضرور آپی کہیں،خالہ کہیں،بہنا کہیں۔۔۔۔۔۔:)اور دعا۔۔۔۔چھوٹے بھائی!کیوں نہیں۔۔۔ضرور۔اللہ آپ کو بے حد و حساب آسانیاں، دنیا و آخرت کی خوشیاں اور کامیابیاں عطا کرے۔ آپ کا دِل آپ کے گھر والوں سے ٹھنڈا رکھے۔ایمان کی دولت دے۔ صراطِ مستقیم پہ ہمیشہ قائم رکھے۔ آمین!
 
"میں کہاں سے دوں؟"
اللہ کے حوالے سے یہ کچھ صحیح نہیں لگ رہا۔
واقعی عقلمند اللہ کی بجائے خود پہ بھروسہ کیے کام کرتے ہیں اور جب ناکام ہونے لگتے ہیں تو پھر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اور سادہ لوگوں سے متعلق۔۔۔۔۔اشفاق صاحب کا ایک واقعہ۔۔۔۔قبرستان میں ایک تروتازہ قبر دیکھ کے گورکن سے دریافت۔۔۔۔۔کتنے سال پہلے کی قبر اور اس خوبصورت حالت میں۔۔۔۔۔گاؤں میں مرحوم بابے کی بوڑھی بیوہ سے پوچھا کہ ایسا کیا کام کرتے تھے کہ یہ مقام ملا؟؟؟؟؟ پتہ چلا کہ سادہ تھے۔ کم ذہن۔قرآن پاک پڑھنے کے بے حد شوقین۔۔۔۔مولوی نے کئی سال سر کھپا کے جواب دے دیا تو خود ہی گھر پہ قرآنِ پاک کے صفحوں پہ انگلی پھیرتے"اللہ سائیں تُوں کِنّاں چنگاں ایں""اللہ سائیں تُوں کِنّاں سوہنڑاں ایں""اے تُوں جولکھیا اے اے وی بالکل ٹھیک اے۔۔۔اے تُو جو آکھیا اے ایہہ وی بالکل ٹھیک آکھیا اے۔۔۔۔۔۔۔"

شاید تحریر نے اثر اتنا کیا ہے کی ایک اداسی سی ،تشنگی سی محسوس ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔

اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔آپ ضرور آپی کہیں،خالہ کہیں،بہنا کہیں۔۔۔۔۔۔:)اور دعا۔۔۔۔چھوٹے بھائی!کیوں نہیں۔۔۔ضرور۔اللہ آپ کو بے حد و حساب آسانیاں، دنیا و آخرت کی خوشیاں اور کامیابیاں عطا کرے۔ آپ کا دِل آپ کے گھر والوں سے ٹھنڈا رکھے۔ایمان کی دولت دے۔ صراطِ مستقیم پہ ہمیشہ قائم رکھے۔ آمین!

ویسے تو میں عمر کے اُس حصے میں ہوں کہ کسی کو آپا خالہ کہتے ہوئے ضمیر ملامت کرتا ہے
مگر ان دعاوں نے وہ اثر کیا کہ
میں جھک کے دیکھتا ہوں جوانی کیدھر گئی
 
ویسے تو میں عمر کے اُس حصے میں ہوں کہ کسی کو آپا خالہ کہتے ہوئے ضمیر ملامت کرتا ہے
اب میرا ضمیر ملامت کر رہا ہے کہ میں آپ کو بھائی بھائی کہتا رہا۔ اس کا کیا علاج ہے؟
مگر ان دعاوں نے وہ اثر کیا کہ
میں جھک کے دیکھتا ہوں جوانی کیدھر گئی
یہی دعائیں لینے کے لیے تو لوگ جاسمن آپا کا پاؤچ چھین کے بھاگ جاتے ہیں۔
 
اب میرا ضمیر ملامت کر رہا ہے کہ میں آپ کو بھائی بھائی کہتا رہا۔ اس کا کیا علاج ہے؟

یہی دعائیں لینے کے لیے تو لوگ جاسمن آپا کا پاؤچ چھین کے بھاگ جاتے ہیں۔

آپ کی تصویر کا تاثر ایسا ہے کہ اگر آپ مجھے انکل بھی کہہ دیں تو یقین کیجیئے برا نہیں لگے گا
 

arifkarim

معطل
اچھی تحریر ہے۔ ہمارا چھوٹا بھائی بھی بچپن میں ایسا ہی تھا، سیدھا سادھا معصوم۔ اب تو ماشاءاللہ سے افواج میں بھرتی ہے۔
 
Top