عمر سیف
محفلین
بیدل حیدری کی زمین پہ کہی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔ اُمید کرتا ہوں کہ آپ احباب کو پسند آئے گی۔
سیدھا پہن لیا کبھی اُلٹا پہن لیا
اُترا جو اک نقاب تو دُوجا پہن لیا
پِھرتا رہا ہُجوم کی رعنائیوں سے دور
تَن پر اُداسیوں کا لبادہ پہن لیا
صحرا بنا تو پیاس کی چادر لپیٹ لی
گرمی لگی تو اَبر کا سایہ پہن لیا
جینے کی راہ چھوڑ کر آگے نکل گیا
مرنے لگا تو موت کا رستہ پہن لیا
مجھ کو پکارتی رہیں رستے کی گردشیں
پیروں میں گردباد کا جوتا پہن لیا
بیٹھا تمام شب میں یہی سوچتا رہا
کیوں اس لباس زیست کو الٹا پہن لیا
اپنی بیاضِ زندگی پڑھ کر سُنا عُمر
لفظوں نے اضطراب کا چولا پہن لیا
________________عُمر سیف
سیدھا پہن لیا کبھی اُلٹا پہن لیا
اُترا جو اک نقاب تو دُوجا پہن لیا
پِھرتا رہا ہُجوم کی رعنائیوں سے دور
تَن پر اُداسیوں کا لبادہ پہن لیا
صحرا بنا تو پیاس کی چادر لپیٹ لی
گرمی لگی تو اَبر کا سایہ پہن لیا
جینے کی راہ چھوڑ کر آگے نکل گیا
مرنے لگا تو موت کا رستہ پہن لیا
مجھ کو پکارتی رہیں رستے کی گردشیں
پیروں میں گردباد کا جوتا پہن لیا
بیٹھا تمام شب میں یہی سوچتا رہا
کیوں اس لباس زیست کو الٹا پہن لیا
اپنی بیاضِ زندگی پڑھ کر سُنا عُمر
لفظوں نے اضطراب کا چولا پہن لیا
________________عُمر سیف