طالوت
محفلین
سیدۃ النساء کون ؟
متقدمین علمائے سنت میں یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے کہ اس امت کی عورتوں میں سب سے زیادہ افضلیت کسے حاصل ہے۔ بعض حضرات اس پر قائل ہیں کہ سبقت اسلام اور حضورؐ کے ساتھ مصائب برداشت کرنے کے سبب ام المومنین سیدہ خدیجہ کو سب پر فضیلت حاصل ہے، بعض حضرات ام المومنین سیدہ عائشہ کو فضیلت دیتے ہیں۔ اور بعض حضرات اس میں تطبیق دیتے کہ سبقت اسلام کے باعث ام المومنین سیدہ خدیجہ کو اور بلحاظ علم ام المومنین سیدہ عائشہ کو فضیلت حاصل ہے۔ تمام ائمہ محدثین اور فقہا ان تین مسلکوں میں سے ایک نہ ایک مسلک کے قائل ہیں۔ متقدمین میں سے اس کا کوئی قائل نہ تھا کہ حضرت فاطمہ کو امہات المومنین میں سے کسی پر فضیلت حاصل ہے۔
بعض کا مسلک اس سلسلہ میں ہمیشہ جداگانہ رہا ہے۔ ان کے نزدیک پنجتن اس دنیا کی مٹی سے پیدا ہی نہیں ہوئے بلکہ ان پانچوں کا مادہ نور الٰہی ہے۔ اور حضرت فاطمہ جنت کے اس سیب کھانے کے باعث پیدا ہوئیں تھیں جو حضور نے معراج میں کھایا تھا اور پھر آ کر ام المومنین سیدہ خدیجہؓ سے ہم بستر ہوئے جس سے حضرت فاطمہؓ عالم وجود میں آئیں۔ ان کا دعوٰی ہے کہ انھیں خاتون جنت اسی لئے کہا جاتا ہے حالانکہ ام المومنین سیدہ خدیجہ معراج سے قبل انتقال فرما چکی تھیں۔ اب یہ ان ہی سے کوئی پوچھے کہ حضرت فاطمہ کس کی اولاد ہیں ؟
نیز معراج ہجرت سے ایک سال قبل واقع ہوئی اس مقصد یہ ہوا کہ حضرت فاطمہ ہجرت سے کچھ روز پیشتر پیدا ہوئیں اور شادی کے وقت ان کی عمر تین ساڑھے تین سال تھی۔
ایک جانب تو ہم اس کے دعویدار ہیں کہ تمام جہاں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ اور سیدہ عائشہ ہیں دوسری جانب وہ حضرت فاطمہ کو سیدہ نساء العالمین اور سیدہ نساء اہل الجنتہ کے خطابات سے نوازتے ہیں۔ حتٰی کہ ہمارا کوئی خطبہ اس سے خالی نہیں ہوتا۔ہم میں روایت پرستی کا مادہ اتنی گہری جڑ پکڑ چکا ہے کہ ہم کسی روایت پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اور پھر بخاری و مسلم کی ایک روایت نے اس تخیل کو مزید گہرائی عطا کی ہے اور ان حضرات نے یہ تصور کر لیا ہے کہ بخاری و مسلم کی کسی روایت میں کسی غلطی کا امکان نہیں۔ اور یہ تک نہیں سوچتے کہ یہ حضرات انسان تھے۔ خواہ وہ اپنی جانب سے صحت کی کتنی بھی سعی کریں۔ لیکن انسان ہونے کے سبب غلطی اور بھول سب کچھ ممکن ہے۔
پھر ان دونوں حضرات یہ روایات بہر صورت انسانوں سے نقل کی ہیں اور ان میں سے ہر راوی کے ساتھ غلطی اور بھول کا امکان ہے۔ اور عام طور پر بخاری و مسلم اور نبی کریم ؐ کے درمیان چار پانچ راوی ہوتے ہیں گویا کہ پانچ احتمالات تو بھول کے پیدا ہوئے اور پانچ احتمالات خطا کے پیدا ہوئے۔ اس طرح کوئی روایت دس احتمالات سے خالی نہیں ہوتی۔ یہ احتمالات تو اس وقت ہیں جب کہ تمام راوی ثقہ ہوں اور کسی راوی کی ثقاہت میں اختلاف پیدا ہو جائے تو مزید احتمالات پیدا ہو جائیں گے۔
کاش ہمارے علماء یہ بھی سوچیں کہ ہم جب کسی شخص کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں شخص معتبر ہے ، زبردست عالم ہے، سچا ہے ، قابل اعتماد ہے ، یا فلاں شخص کذاب ہے اور ناقابل اعتبار ہے ۔ یہ بھی ہمارا فیصلہ ظنی ہوتا ہے جو کبھی سنی سنائی باتوں پر مبنی ہوتا ہے کبھی تجربات پر لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ جس کے بارے میں ہم یہ فیصلہ دے رہے ہیں کہ وہ نہایت سچا اور دین دار انسان ہے اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب ڈھونگ ہو۔ اسی طرح جب کسی کو کذاب کہا جاتا ہے تو یہ کوئی ضروری نہیں کہ اس نے زندگی میں ہر موقعہ اور ہر مقام پر جھوٹ ہی بولا ہو۔ کبھی نہ کبھی تو اس نے سچ بات بھی کہی ہو گی۔ یہ امور اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جب کسی کتاب یا حدیث کے بارے میں یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ یہ صحیح ہے تو ہمارا یہ فیصلہ بھی ظنی ہوتا ہے۔ قطعی علم تو صرف اللہ رب العزت کو حاصل ہے۔ اسی لئے تمام فقہا و محدثین اس کے قائل رہے ہیں کہ قطعی شئے تو صرف کتاب اللہ ہے اور احادیث جتنی بھی ہیں ظنی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ کسی حدیث میں ظن زیادہ پایا جاتا ہے اور کسی میں کم۔ جس حدیث میں ظن کم پایا جائے گا اس کے بارے میں اغلب گمان صحت کا ہو گا۔ اور جس میں زیادہ پائے جائے گا اس میں اغلب گمان ضعف کا ہوگا۔ دنیاوی امور میں بھی اسی طرح ہوتا ہے بلکہ یہ کاروبار عالم ظنیات پر چل رہا ہے۔
اس امر پر ایک اور طرح غور کیجئے کہ ایک راوی ایسا ہے جس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض محدثین اسے ثقہ اور معتبر قرار دیتے ہیں اور بعض نامعتبر ، بعض حضرات کو اس کا تجربہ ہے اور بعض حضرات دوسروں کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے ایک فیصلہ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں طبقوں میں سے کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتے۔ لیکن بہر صورت دوسروں کو بھی فیصلے کا حق باقی رہے گا۔
لیکن آج کے دور میں ہمارے علماء اپنی کم علمی کے باعث ، حدیث ، فقہ ، تفسیر اور دیگر مضامین کی تمام روایات پر آنکھیں بند کر کے ایمان کے آتے ہیں۔ اور جو شخص بھی کسی پر فن جرح و تعدیل ، اسما الرجال ، علم الراویہ اور علم الداریہ کے ذریعے بحث کرتا ہے وہ یا تو منکر حدیث قرار دے دیا جاتا ہے یا خارجی۔ حالانکہ یہ تمام فنون محدثین کرام نے اسی لئے وضع کئے تھے کہ روایات کو تنقیدی کسوٹی پر پرکھتے رہو اور صدیوں اس پر عمل ہوتا رہا ہے۔ اور دیگر ممالک اسلامیہ میں آج بھی اس پر عمل ہو رہا ہے لیکن ہند و پاکستان میں یہ ایک زبردست جرم بن چکا ہے کیونکہ ہمارے علماء ان فنون سے خود ناواقف ہیں اور وہ ہرگز یہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ان کی ذات پر لا علمی کا الزام قائم ہو۔ اس لئے ان حضرات کی لابی نے یہ متفقہ طور پر فیصلہ کر رکھا ہے کہ جہاں بھی کوئی ناک والا نظر آئے ، اسے دنیا میں نکو بنا دو۔ جس کے نتیجے میں وہ ہماری جانب انگلی نہ اٹھا سکے۔ اور ہماری دکانداری علی حالہ قائم رہے۔
اب آئیے اس اصل حدیث کی جانب جس کے باعث ہمارے علماء کو مغالطہ واقع ہوا اور جس کی وجہ سے حضرت فاطمہ کو سیدہ النسا ء اہل الجنتہ قرار دیا گیا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں پائی جاتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ؐ کی جب علالت شروع ہوئی تو ازواج مطہرات ہر وقت آپ کے پاس رہتیں۔ اور ایک لمحہ کے لئے بھی آپ سے جدا نہ ہوتیں۔ایک دن آپ کو دیکھنے کے لئے فاطمہؓ آئیں۔ فاطمہ کی چال ڈھال بالکل نبی کریم کے مشابہ تھی۔ آپ نے جب انھیں دیکھا تو مرحبا کہہ کر ان کا استقبال کیا اور ان کو دائیں یابائیں جانب بٹھا لیا۔ پھر ان سے سرگوشی فرماتے رہے جس پر فاطمہؓ رونے لگیں۔ آپ نے پھر دوبارہ سرگوشی فرمائی تو فاطمہ ہنسنے لگیں۔میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ آج آپ نے اپنی ازواج کو چھوڑ کر بیٹی سے ایسی کیا خاص بات کی ہے۔ جب نبی کریمﷺ کھڑے ہو گئے تو میں نے فاطمہ سے سوال کیا۔ تمھاری حضور سے کیا راز و نیاز کی باتیں ہوئیں۔انھوں نے جواب دیا کہ میں حضور کا راز افشا نہیں کر سکتی۔
جب نبی کریمؐ کی وفات ہو گئی تو میں نے فاطمہ سے کہا کہ میرا تم پر حق ہے(یعنی ماں ہونے کا) لہذا تم سے حضور نے جو گفتگو کی تھی وہ بیان کرو۔ انھوں نے فرمایا اب کوئی حرج کی بات نہیں۔ حضور نے پہلے بار مجھ سے فرمایا تھا کہ جبریل مجھے ہر سال ایک مرتبہ قران کا ورد کرواتے اور اس سال مجھ سے دو بار قران کا ورد کروایا۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ میری موت قریب آ گئی ہے۔ تو تو اب اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ میں اس پر رونے لگی۔ جب آپ نے میری یہ حالت دیکھی تو آپ نے مجھ سے دوبارہ سرگوشی فرمائی اور فرمایا
میں اس بات پر ہنسنے لگی۔ مسلم ج 2 صفحہ 290 ۔ بخاری میں آخری الفاظ یہ ہیں۔
یہ ہے وہ اصل حدیث جسے پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارے علماء نے حضرت فاطمہ کو سیدۃ النساء اہل الجنہ کے خطاب سے نوازا۔ حالانکہ راوی اول تو خود شبہ میں مبتلا ہے کہ آپ کے الفاظ کیا تھے پھر بخاری کے الفاظ جداگانہ ہیں۔ اور مسلم کے جداگانہ۔ بہر صورت ان تین خطابات میں سے یعنی سیدۃ نساء اہل الجنہ ، سیدۃ نساء المومنین اور سیدۃ نساء ہذہ الا مہ ، صرف ایک خطاب تھا جو راویوں کو یاد نہیں رہا اور جب راویوں کو خود ہی شک ہورہا ہے تو کسی ایک خطاب کو صحیح ماننے کی کیا دلیل ہے ؟
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل ہر سال جتنا قران نازل ہو چکا ہوتا اس کا رمضان میں حضور سے ایک بار ورد کرواتے لیکن سال آخر میں جس میں آپ کی وفات ہوئی دو بار ورد فرمایا۔ بخاری جلد 2 صفحہ 748۔گویا یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جو کسی سے مخفی ہو بلکہ اسے ہر کوئی جانتا تھا۔ اور حضور متعدد مواقع پر اس کا اظہار فرما چکے تھے کہ اب میں اللہ سے ملاقی ہونے والا ہوں۔
حجتہ الوداع کے موقع پر بھی آپ نے اس کا اظہار فرمایا۔ لہذا یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی تھی۔ اور آخری رمضان میں جہاں آپ نے دو بار ورد فرمایا تھا وہاں آپ نے بیس دن کا اعتکاف بھی فرمایا تھا اور تراویح کی بھی ابتداء کی تھی۔ لہذا ایسی بات نہ تھی جو حضرت فاطمہ سے مخفی ہو۔
رہ گیا خطابات کا مسئلہ، تو نبی کریمؐ نے متعدد صحابہ کے مناقب بیان فرمائے اور ان کی دنیوی یا اخروی فضیلت کا اظہار فرمایا۔ انھیں رضائے الٰہی اور جنت کی بشارت دی۔ لیکن ان حضرات کے سلسلہ میں کسی موقعہ پر بھی آپ نے اخفا سے کام نہیں لیا۔ آخر حضرت فاطمہ ؓ کی فضیلت بیان کرنے میں ایسی کون سی رکاوٹ پیش آ رہی تھی جو آپ نے خلاف معمول اخفاء سے کام لیا ؟ اور اس میں ایسی کیا خاص بات تھی جو وفات رسول تک ظاہر نہیں کی جا سکتی تھی ؟ یہ کوئی علم باطن کا مسئلہ نہ تھا، جسے ظاہر نہیں کیا جا سکتا تھا اور حضرت فاطمہ بھی جھوٹ نہ بول سکتی تھیں، جس کے کُھل جانے کا احتمال ہو۔
مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت (حصہ اول) از حبیب الرحمن کاندھلوی سے اقتباسات
متقدمین علمائے سنت میں یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے کہ اس امت کی عورتوں میں سب سے زیادہ افضلیت کسے حاصل ہے۔ بعض حضرات اس پر قائل ہیں کہ سبقت اسلام اور حضورؐ کے ساتھ مصائب برداشت کرنے کے سبب ام المومنین سیدہ خدیجہ کو سب پر فضیلت حاصل ہے، بعض حضرات ام المومنین سیدہ عائشہ کو فضیلت دیتے ہیں۔ اور بعض حضرات اس میں تطبیق دیتے کہ سبقت اسلام کے باعث ام المومنین سیدہ خدیجہ کو اور بلحاظ علم ام المومنین سیدہ عائشہ کو فضیلت حاصل ہے۔ تمام ائمہ محدثین اور فقہا ان تین مسلکوں میں سے ایک نہ ایک مسلک کے قائل ہیں۔ متقدمین میں سے اس کا کوئی قائل نہ تھا کہ حضرت فاطمہ کو امہات المومنین میں سے کسی پر فضیلت حاصل ہے۔
بعض کا مسلک اس سلسلہ میں ہمیشہ جداگانہ رہا ہے۔ ان کے نزدیک پنجتن اس دنیا کی مٹی سے پیدا ہی نہیں ہوئے بلکہ ان پانچوں کا مادہ نور الٰہی ہے۔ اور حضرت فاطمہ جنت کے اس سیب کھانے کے باعث پیدا ہوئیں تھیں جو حضور نے معراج میں کھایا تھا اور پھر آ کر ام المومنین سیدہ خدیجہؓ سے ہم بستر ہوئے جس سے حضرت فاطمہؓ عالم وجود میں آئیں۔ ان کا دعوٰی ہے کہ انھیں خاتون جنت اسی لئے کہا جاتا ہے حالانکہ ام المومنین سیدہ خدیجہ معراج سے قبل انتقال فرما چکی تھیں۔ اب یہ ان ہی سے کوئی پوچھے کہ حضرت فاطمہ کس کی اولاد ہیں ؟
نیز معراج ہجرت سے ایک سال قبل واقع ہوئی اس مقصد یہ ہوا کہ حضرت فاطمہ ہجرت سے کچھ روز پیشتر پیدا ہوئیں اور شادی کے وقت ان کی عمر تین ساڑھے تین سال تھی۔
ایک جانب تو ہم اس کے دعویدار ہیں کہ تمام جہاں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ اور سیدہ عائشہ ہیں دوسری جانب وہ حضرت فاطمہ کو سیدہ نساء العالمین اور سیدہ نساء اہل الجنتہ کے خطابات سے نوازتے ہیں۔ حتٰی کہ ہمارا کوئی خطبہ اس سے خالی نہیں ہوتا۔ہم میں روایت پرستی کا مادہ اتنی گہری جڑ پکڑ چکا ہے کہ ہم کسی روایت پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اور پھر بخاری و مسلم کی ایک روایت نے اس تخیل کو مزید گہرائی عطا کی ہے اور ان حضرات نے یہ تصور کر لیا ہے کہ بخاری و مسلم کی کسی روایت میں کسی غلطی کا امکان نہیں۔ اور یہ تک نہیں سوچتے کہ یہ حضرات انسان تھے۔ خواہ وہ اپنی جانب سے صحت کی کتنی بھی سعی کریں۔ لیکن انسان ہونے کے سبب غلطی اور بھول سب کچھ ممکن ہے۔
پھر ان دونوں حضرات یہ روایات بہر صورت انسانوں سے نقل کی ہیں اور ان میں سے ہر راوی کے ساتھ غلطی اور بھول کا امکان ہے۔ اور عام طور پر بخاری و مسلم اور نبی کریم ؐ کے درمیان چار پانچ راوی ہوتے ہیں گویا کہ پانچ احتمالات تو بھول کے پیدا ہوئے اور پانچ احتمالات خطا کے پیدا ہوئے۔ اس طرح کوئی روایت دس احتمالات سے خالی نہیں ہوتی۔ یہ احتمالات تو اس وقت ہیں جب کہ تمام راوی ثقہ ہوں اور کسی راوی کی ثقاہت میں اختلاف پیدا ہو جائے تو مزید احتمالات پیدا ہو جائیں گے۔
کاش ہمارے علماء یہ بھی سوچیں کہ ہم جب کسی شخص کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں شخص معتبر ہے ، زبردست عالم ہے، سچا ہے ، قابل اعتماد ہے ، یا فلاں شخص کذاب ہے اور ناقابل اعتبار ہے ۔ یہ بھی ہمارا فیصلہ ظنی ہوتا ہے جو کبھی سنی سنائی باتوں پر مبنی ہوتا ہے کبھی تجربات پر لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ جس کے بارے میں ہم یہ فیصلہ دے رہے ہیں کہ وہ نہایت سچا اور دین دار انسان ہے اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب ڈھونگ ہو۔ اسی طرح جب کسی کو کذاب کہا جاتا ہے تو یہ کوئی ضروری نہیں کہ اس نے زندگی میں ہر موقعہ اور ہر مقام پر جھوٹ ہی بولا ہو۔ کبھی نہ کبھی تو اس نے سچ بات بھی کہی ہو گی۔ یہ امور اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جب کسی کتاب یا حدیث کے بارے میں یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ یہ صحیح ہے تو ہمارا یہ فیصلہ بھی ظنی ہوتا ہے۔ قطعی علم تو صرف اللہ رب العزت کو حاصل ہے۔ اسی لئے تمام فقہا و محدثین اس کے قائل رہے ہیں کہ قطعی شئے تو صرف کتاب اللہ ہے اور احادیث جتنی بھی ہیں ظنی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ کسی حدیث میں ظن زیادہ پایا جاتا ہے اور کسی میں کم۔ جس حدیث میں ظن کم پایا جائے گا اس کے بارے میں اغلب گمان صحت کا ہو گا۔ اور جس میں زیادہ پائے جائے گا اس میں اغلب گمان ضعف کا ہوگا۔ دنیاوی امور میں بھی اسی طرح ہوتا ہے بلکہ یہ کاروبار عالم ظنیات پر چل رہا ہے۔
اس امر پر ایک اور طرح غور کیجئے کہ ایک راوی ایسا ہے جس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض محدثین اسے ثقہ اور معتبر قرار دیتے ہیں اور بعض نامعتبر ، بعض حضرات کو اس کا تجربہ ہے اور بعض حضرات دوسروں کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے ایک فیصلہ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں طبقوں میں سے کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتے۔ لیکن بہر صورت دوسروں کو بھی فیصلے کا حق باقی رہے گا۔
لیکن آج کے دور میں ہمارے علماء اپنی کم علمی کے باعث ، حدیث ، فقہ ، تفسیر اور دیگر مضامین کی تمام روایات پر آنکھیں بند کر کے ایمان کے آتے ہیں۔ اور جو شخص بھی کسی پر فن جرح و تعدیل ، اسما الرجال ، علم الراویہ اور علم الداریہ کے ذریعے بحث کرتا ہے وہ یا تو منکر حدیث قرار دے دیا جاتا ہے یا خارجی۔ حالانکہ یہ تمام فنون محدثین کرام نے اسی لئے وضع کئے تھے کہ روایات کو تنقیدی کسوٹی پر پرکھتے رہو اور صدیوں اس پر عمل ہوتا رہا ہے۔ اور دیگر ممالک اسلامیہ میں آج بھی اس پر عمل ہو رہا ہے لیکن ہند و پاکستان میں یہ ایک زبردست جرم بن چکا ہے کیونکہ ہمارے علماء ان فنون سے خود ناواقف ہیں اور وہ ہرگز یہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ان کی ذات پر لا علمی کا الزام قائم ہو۔ اس لئے ان حضرات کی لابی نے یہ متفقہ طور پر فیصلہ کر رکھا ہے کہ جہاں بھی کوئی ناک والا نظر آئے ، اسے دنیا میں نکو بنا دو۔ جس کے نتیجے میں وہ ہماری جانب انگلی نہ اٹھا سکے۔ اور ہماری دکانداری علی حالہ قائم رہے۔
اب آئیے اس اصل حدیث کی جانب جس کے باعث ہمارے علماء کو مغالطہ واقع ہوا اور جس کی وجہ سے حضرت فاطمہ کو سیدہ النسا ء اہل الجنتہ قرار دیا گیا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں پائی جاتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ؐ کی جب علالت شروع ہوئی تو ازواج مطہرات ہر وقت آپ کے پاس رہتیں۔ اور ایک لمحہ کے لئے بھی آپ سے جدا نہ ہوتیں۔ایک دن آپ کو دیکھنے کے لئے فاطمہؓ آئیں۔ فاطمہ کی چال ڈھال بالکل نبی کریم کے مشابہ تھی۔ آپ نے جب انھیں دیکھا تو مرحبا کہہ کر ان کا استقبال کیا اور ان کو دائیں یابائیں جانب بٹھا لیا۔ پھر ان سے سرگوشی فرماتے رہے جس پر فاطمہؓ رونے لگیں۔ آپ نے پھر دوبارہ سرگوشی فرمائی تو فاطمہ ہنسنے لگیں۔میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ آج آپ نے اپنی ازواج کو چھوڑ کر بیٹی سے ایسی کیا خاص بات کی ہے۔ جب نبی کریمﷺ کھڑے ہو گئے تو میں نے فاطمہ سے سوال کیا۔ تمھاری حضور سے کیا راز و نیاز کی باتیں ہوئیں۔انھوں نے جواب دیا کہ میں حضور کا راز افشا نہیں کر سکتی۔
جب نبی کریمؐ کی وفات ہو گئی تو میں نے فاطمہ سے کہا کہ میرا تم پر حق ہے(یعنی ماں ہونے کا) لہذا تم سے حضور نے جو گفتگو کی تھی وہ بیان کرو۔ انھوں نے فرمایا اب کوئی حرج کی بات نہیں۔ حضور نے پہلے بار مجھ سے فرمایا تھا کہ جبریل مجھے ہر سال ایک مرتبہ قران کا ورد کرواتے اور اس سال مجھ سے دو بار قران کا ورد کروایا۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ میری موت قریب آ گئی ہے۔ تو تو اب اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ میں اس پر رونے لگی۔ جب آپ نے میری یہ حالت دیکھی تو آپ نے مجھ سے دوبارہ سرگوشی فرمائی اور فرمایا
اما ترضی ان تکون سیدۃ نساء المومنین او سیدۃ نساء ھذہ الامتہ۔
کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تم مومنین کی عورتوں کی سردار ہو یا اس مت کی عورتوں کی سردار ہو۔
کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تم مومنین کی عورتوں کی سردار ہو یا اس مت کی عورتوں کی سردار ہو۔
میں اس بات پر ہنسنے لگی۔ مسلم ج 2 صفحہ 290 ۔ بخاری میں آخری الفاظ یہ ہیں۔
اما ترضین ان تکونی سیدۃ نساء اھل الجنتہ او نساء المومنین۔
کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تو جنتی عورتوں کی سردار ہو یا مومنین عورتوں کی۔
بخاری جلد 1 صفحہ 512
کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تو جنتی عورتوں کی سردار ہو یا مومنین عورتوں کی۔
بخاری جلد 1 صفحہ 512
یہ ہے وہ اصل حدیث جسے پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارے علماء نے حضرت فاطمہ کو سیدۃ النساء اہل الجنہ کے خطاب سے نوازا۔ حالانکہ راوی اول تو خود شبہ میں مبتلا ہے کہ آپ کے الفاظ کیا تھے پھر بخاری کے الفاظ جداگانہ ہیں۔ اور مسلم کے جداگانہ۔ بہر صورت ان تین خطابات میں سے یعنی سیدۃ نساء اہل الجنہ ، سیدۃ نساء المومنین اور سیدۃ نساء ہذہ الا مہ ، صرف ایک خطاب تھا جو راویوں کو یاد نہیں رہا اور جب راویوں کو خود ہی شک ہورہا ہے تو کسی ایک خطاب کو صحیح ماننے کی کیا دلیل ہے ؟
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل ہر سال جتنا قران نازل ہو چکا ہوتا اس کا رمضان میں حضور سے ایک بار ورد کرواتے لیکن سال آخر میں جس میں آپ کی وفات ہوئی دو بار ورد فرمایا۔ بخاری جلد 2 صفحہ 748۔گویا یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جو کسی سے مخفی ہو بلکہ اسے ہر کوئی جانتا تھا۔ اور حضور متعدد مواقع پر اس کا اظہار فرما چکے تھے کہ اب میں اللہ سے ملاقی ہونے والا ہوں۔
حجتہ الوداع کے موقع پر بھی آپ نے اس کا اظہار فرمایا۔ لہذا یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی تھی۔ اور آخری رمضان میں جہاں آپ نے دو بار ورد فرمایا تھا وہاں آپ نے بیس دن کا اعتکاف بھی فرمایا تھا اور تراویح کی بھی ابتداء کی تھی۔ لہذا ایسی بات نہ تھی جو حضرت فاطمہ سے مخفی ہو۔
رہ گیا خطابات کا مسئلہ، تو نبی کریمؐ نے متعدد صحابہ کے مناقب بیان فرمائے اور ان کی دنیوی یا اخروی فضیلت کا اظہار فرمایا۔ انھیں رضائے الٰہی اور جنت کی بشارت دی۔ لیکن ان حضرات کے سلسلہ میں کسی موقعہ پر بھی آپ نے اخفا سے کام نہیں لیا۔ آخر حضرت فاطمہ ؓ کی فضیلت بیان کرنے میں ایسی کون سی رکاوٹ پیش آ رہی تھی جو آپ نے خلاف معمول اخفاء سے کام لیا ؟ اور اس میں ایسی کیا خاص بات تھی جو وفات رسول تک ظاہر نہیں کی جا سکتی تھی ؟ یہ کوئی علم باطن کا مسئلہ نہ تھا، جسے ظاہر نہیں کیا جا سکتا تھا اور حضرت فاطمہ بھی جھوٹ نہ بول سکتی تھیں، جس کے کُھل جانے کا احتمال ہو۔
---------------------------------جاری ہے---------------------------------