سیدۃ النساء

طالوت

محفلین
سیدۃ النساء کون ؟
مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت (حصہ اول) از حبیب الرحمن کاندھلوی سے اقتباسات​

متقدمین علمائے سنت میں یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے کہ اس امت کی عورتوں میں سب سے زیادہ افضلیت کسے حاصل ہے۔ بعض حضرات اس پر قائل ہیں کہ سبقت اسلام اور حضورؐ کے ساتھ مصائب برداشت کرنے کے سبب ام المومنین سیدہ خدیجہ کو سب پر فضیلت حاصل ہے، بعض حضرات ام المومنین سیدہ عائشہ کو فضیلت دیتے ہیں۔ اور بعض حضرات اس میں تطبیق دیتے کہ سبقت اسلام کے باعث ام المومنین سیدہ خدیجہ کو اور بلحاظ علم ام المومنین سیدہ عائشہ کو فضیلت حاصل ہے۔ تمام ائمہ محدثین اور فقہا ان تین مسلکوں میں سے ایک نہ ایک مسلک کے قائل ہیں۔ متقدمین میں سے اس کا کوئی قائل نہ تھا کہ حضرت فاطمہ کو امہات المومنین میں سے کسی پر فضیلت حاصل ہے۔
بعض کا مسلک اس سلسلہ میں ہمیشہ جداگانہ رہا ہے۔ ان کے نزدیک پنجتن اس دنیا کی مٹی سے پیدا ہی نہیں ہوئے بلکہ ان پانچوں کا مادہ نور الٰہی ہے۔ اور حضرت فاطمہ جنت کے اس سیب کھانے کے باعث پیدا ہوئیں تھیں جو حضور نے معراج میں کھایا تھا اور پھر آ کر ام المومنین سیدہ خدیجہؓ سے ہم بستر ہوئے جس سے حضرت فاطمہؓ عالم وجود میں آئیں۔ ان کا دعوٰی ہے کہ انھیں خاتون جنت اسی لئے کہا جاتا ہے حالانکہ ام المومنین سیدہ خدیجہ معراج سے قبل انتقال فرما چکی تھیں۔ اب یہ ان ہی سے کوئی پوچھے کہ حضرت فاطمہ کس کی اولاد ہیں ؟
نیز معراج ہجرت سے ایک سال قبل واقع ہوئی اس مقصد یہ ہوا کہ حضرت فاطمہ ہجرت سے کچھ روز پیشتر پیدا ہوئیں اور شادی کے وقت ان کی عمر تین ساڑھے تین سال تھی۔
ایک جانب تو ہم اس کے دعویدار ہیں کہ تمام جہاں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ اور سیدہ عائشہ ہیں دوسری جانب وہ حضرت فاطمہ کو سیدہ نساء العالمین اور سیدہ نساء اہل الجنتہ کے خطابات سے نوازتے ہیں۔ حتٰی کہ ہمارا کوئی خطبہ اس سے خالی نہیں ہوتا۔ہم میں روایت پرستی کا مادہ اتنی گہری جڑ پکڑ چکا ہے کہ ہم کسی روایت پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اور پھر بخاری و مسلم کی ایک روایت نے اس تخیل کو مزید گہرائی عطا کی ہے اور ان حضرات نے یہ تصور کر لیا ہے کہ بخاری و مسلم کی کسی روایت میں کسی غلطی کا امکان نہیں۔ اور یہ تک نہیں سوچتے کہ یہ حضرات انسان تھے۔ خواہ وہ اپنی جانب سے صحت کی کتنی بھی سعی کریں۔ لیکن انسان ہونے کے سبب غلطی اور بھول سب کچھ ممکن ہے۔
پھر ان دونوں حضرات یہ روایات بہر صورت انسانوں سے نقل کی ہیں اور ان میں سے ہر راوی کے ساتھ غلطی اور بھول کا امکان ہے۔ اور عام طور پر بخاری و مسلم اور نبی کریم ؐ کے درمیان چار پانچ راوی ہوتے ہیں گویا کہ پانچ احتمالات تو بھول کے پیدا ہوئے اور پانچ احتمالات خطا کے پیدا ہوئے۔ اس طرح کوئی روایت دس احتمالات سے خالی نہیں ہوتی۔ یہ احتمالات تو اس وقت ہیں جب کہ تمام راوی ثقہ ہوں اور کسی راوی کی ثقاہت میں اختلاف پیدا ہو جائے تو مزید احتمالات پیدا ہو جائیں گے۔
کاش ہمارے علماء یہ بھی سوچیں کہ ہم جب کسی شخص کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں شخص معتبر ہے ، زبردست عالم ہے، سچا ہے ، قابل اعتماد ہے ، یا فلاں شخص کذاب ہے اور ناقابل اعتبار ہے ۔ یہ بھی ہمارا فیصلہ ظنی ہوتا ہے جو کبھی سنی سنائی باتوں پر مبنی ہوتا ہے کبھی تجربات پر لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ جس کے بارے میں ہم یہ فیصلہ دے رہے ہیں کہ وہ نہایت سچا اور دین دار انسان ہے اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب ڈھونگ ہو۔ اسی طرح جب کسی کو کذاب کہا جاتا ہے تو یہ کوئی ضروری نہیں کہ اس نے زندگی میں ہر موقعہ اور ہر مقام پر جھوٹ ہی بولا ہو۔ کبھی نہ کبھی تو اس نے سچ بات بھی کہی ہو گی۔ یہ امور اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جب کسی کتاب یا حدیث کے بارے میں یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ یہ صحیح ہے تو ہمارا یہ فیصلہ بھی ظنی ہوتا ہے۔ قطعی علم تو صرف اللہ رب العزت کو حاصل ہے۔ اسی لئے تمام فقہا و محدثین اس کے قائل رہے ہیں کہ قطعی شئے تو صرف کتاب اللہ ہے اور احادیث جتنی بھی ہیں ظنی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ کسی حدیث میں ظن زیادہ پایا جاتا ہے اور کسی میں کم۔ جس حدیث میں ظن کم پایا جائے گا اس کے بارے میں اغلب گمان صحت کا ہو گا۔ اور جس میں زیادہ پائے جائے گا اس میں اغلب گمان ضعف کا ہوگا۔ دنیاوی امور میں بھی اسی طرح ہوتا ہے بلکہ یہ کاروبار عالم ظنیات پر چل رہا ہے۔
اس امر پر ایک اور طرح غور کیجئے کہ ایک راوی ایسا ہے جس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض محدثین اسے ثقہ اور معتبر قرار دیتے ہیں اور بعض نامعتبر ، بعض حضرات کو اس کا تجربہ ہے اور بعض حضرات دوسروں کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے ایک فیصلہ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں طبقوں میں سے کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتے۔ لیکن بہر صورت دوسروں کو بھی فیصلے کا حق باقی رہے گا۔
لیکن آج کے دور میں ہمارے علماء اپنی کم علمی کے باعث ، حدیث ، فقہ ، تفسیر اور دیگر مضامین کی تمام روایات پر آنکھیں بند کر کے ایمان کے آتے ہیں۔ اور جو شخص بھی کسی پر فن جرح و تعدیل ، اسما الرجال ، علم الراویہ اور علم الداریہ کے ذریعے بحث کرتا ہے وہ یا تو منکر حدیث قرار دے دیا جاتا ہے یا خارجی۔ حالانکہ یہ تمام فنون محدثین کرام نے اسی لئے وضع کئے تھے کہ روایات کو تنقیدی کسوٹی پر پرکھتے رہو اور صدیوں اس پر عمل ہوتا رہا ہے۔ اور دیگر ممالک اسلامیہ میں آج بھی اس پر عمل ہو رہا ہے لیکن ہند و پاکستان میں یہ ایک زبردست جرم بن چکا ہے کیونکہ ہمارے علماء ان فنون سے خود ناواقف ہیں اور وہ ہرگز یہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ان کی ذات پر لا علمی کا الزام قائم ہو۔ اس لئے ان حضرات کی لابی نے یہ متفقہ طور پر فیصلہ کر رکھا ہے کہ جہاں بھی کوئی ناک والا نظر آئے ، اسے دنیا میں نکو بنا دو۔ جس کے نتیجے میں وہ ہماری جانب انگلی نہ اٹھا سکے۔ اور ہماری دکانداری علی حالہ قائم رہے۔

اب آئیے اس اصل حدیث کی جانب جس کے باعث ہمارے علماء کو مغالطہ واقع ہوا اور جس کی وجہ سے حضرت فاطمہ کو سیدہ النسا ء اہل الجنتہ قرار دیا گیا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں پائی جاتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ؐ کی جب علالت شروع ہوئی تو ازواج مطہرات ہر وقت آپ کے پاس رہتیں۔ اور ایک لمحہ کے لئے بھی آپ سے جدا نہ ہوتیں۔ایک دن آپ کو دیکھنے کے لئے فاطمہؓ آئیں۔ فاطمہ کی چال ڈھال بالکل نبی کریم کے مشابہ تھی۔ آپ نے جب انھیں دیکھا تو مرحبا کہہ کر ان کا استقبال کیا اور ان کو دائیں یابائیں جانب بٹھا لیا۔ پھر ان سے سرگوشی فرماتے رہے جس پر فاطمہؓ رونے لگیں۔ آپ نے پھر دوبارہ سرگوشی فرمائی تو فاطمہ ہنسنے لگیں۔میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ آج آپ نے اپنی ازواج کو چھوڑ کر بیٹی سے ایسی کیا خاص بات کی ہے۔ جب نبی کریمﷺ کھڑے ہو گئے تو میں نے فاطمہ سے سوال کیا۔ تمھاری حضور سے کیا راز و نیاز کی باتیں ہوئیں۔انھوں نے جواب دیا کہ میں حضور کا راز افشا نہیں کر سکتی۔
جب نبی کریمؐ کی وفات ہو گئی تو میں نے فاطمہ سے کہا کہ میرا تم پر حق ہے(یعنی ماں ہونے کا) لہذا تم سے حضور نے جو گفتگو کی تھی وہ بیان کرو۔ انھوں نے فرمایا اب کوئی حرج کی بات نہیں۔ حضور نے پہلے بار مجھ سے فرمایا تھا کہ جبریل مجھے ہر سال ایک مرتبہ قران کا ورد کرواتے اور اس سال مجھ سے دو بار قران کا ورد کروایا۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ میری موت قریب آ گئی ہے۔ تو تو اب اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ میں اس پر رونے لگی۔ جب آپ نے میری یہ حالت دیکھی تو آپ نے مجھ سے دوبارہ سرگوشی فرمائی اور فرمایا

اما ترضی ان تکون سیدۃ نساء المومنین او سیدۃ نساء ھذہ الامتہ۔
کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تم مومنین کی عورتوں کی سردار ہو یا اس مت کی عورتوں کی سردار ہو۔

میں اس بات پر ہنسنے لگی۔ مسلم ج 2 صفحہ 290 ۔ بخاری میں آخری الفاظ یہ ہیں۔

اما ترضین ان تکونی سیدۃ نساء اھل الجنتہ او نساء المومنین۔
کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تو جنتی عورتوں کی سردار ہو یا مومنین عورتوں کی۔
بخاری جلد 1 صفحہ 512​

یہ ہے وہ اصل حدیث جسے پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارے علماء نے حضرت فاطمہ کو سیدۃ النساء اہل الجنہ کے خطاب سے نوازا۔ حالانکہ راوی اول تو خود شبہ میں مبتلا ہے کہ آپ کے الفاظ کیا تھے پھر بخاری کے الفاظ جداگانہ ہیں۔ اور مسلم کے جداگانہ۔ بہر صورت ان تین خطابات میں سے یعنی سیدۃ نساء اہل الجنہ ، سیدۃ نساء المومنین اور سیدۃ نساء ہذہ الا مہ ، صرف ایک خطاب تھا جو راویوں کو یاد نہیں رہا اور جب راویوں کو خود ہی شک ہورہا ہے تو کسی ایک خطاب کو صحیح ماننے کی کیا دلیل ہے ؟
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل ہر سال جتنا قران نازل ہو چکا ہوتا اس کا رمضان میں حضور سے ایک بار ورد کرواتے لیکن سال آخر میں جس میں آپ کی وفات ہوئی دو بار ورد فرمایا۔ بخاری جلد 2 صفحہ 748۔گویا یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جو کسی سے مخفی ہو بلکہ اسے ہر کوئی جانتا تھا۔ اور حضور متعدد مواقع پر اس کا اظہار فرما چکے تھے کہ اب میں اللہ سے ملاقی ہونے والا ہوں۔
حجتہ الوداع کے موقع پر بھی آپ نے اس کا اظہار فرمایا۔ لہذا یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی تھی۔ اور آخری رمضان میں جہاں آپ نے دو بار ورد فرمایا تھا وہاں آپ نے بیس دن کا اعتکاف بھی فرمایا تھا اور تراویح کی بھی ابتداء کی تھی۔ لہذا ایسی بات نہ تھی جو حضرت فاطمہ سے مخفی ہو۔
رہ گیا خطابات کا مسئلہ، تو نبی کریمؐ نے متعدد صحابہ کے مناقب بیان فرمائے اور ان کی دنیوی یا اخروی فضیلت کا اظہار فرمایا۔ انھیں رضائے الٰہی اور جنت کی بشارت دی۔ لیکن ان حضرات کے سلسلہ میں کسی موقعہ پر بھی آپ نے اخفا سے کام نہیں لیا۔ آخر حضرت فاطمہ ؓ کی فضیلت بیان کرنے میں ایسی کون سی رکاوٹ پیش آ رہی تھی جو آپ نے خلاف معمول اخفاء سے کام لیا ؟ اور اس میں ایسی کیا خاص بات تھی جو وفات رسول تک ظاہر نہیں کی جا سکتی تھی ؟ یہ کوئی علم باطن کا مسئلہ نہ تھا، جسے ظاہر نہیں کیا جا سکتا تھا اور حضرت فاطمہ بھی جھوٹ نہ بول سکتی تھیں، جس کے کُھل جانے کا احتمال ہو۔


---------------------------------جاری ہے---------------------------------​
 

علی فاروقی

محفلین
شکریہ طالوت بھای، کو شش جاری رکھیے، یہاں تو روایات نے وہ گرد اڑائ ہے کہ اب حقیقت تک رسائ ناممکن کی حد تک مشکل لگنے لگی ہے۔بالآخر ہمیں قرآن کی طرف لوٹنا پڑے گا،
 

نایاب

لائبریرین
سیدۃ النساء کون ؟
مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت (حصہ اول) از حبیب الرحمن کاندھلوی سے اقتباسات​

متقدمین علمائے سنت میں یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے کہ اس امت کی عورتوں میں سب سے زیادہ افضلیت کسے حاصل ہے۔ بعض حضرات اس پر قائل ہیں کہ سبقت اسلام اور حضورؐ کے ساتھ مصائب برداشت کرنے کے سبب ام المومنین سیدہ خدیجہ کو سب پر فضیلت حاصل ہے، بعض حضرات ام المومنین سیدہ عائشہ کو فضیلت دیتے ہیں۔ اور بعض حضرات اس میں تطبیق دیتے کہ سبقت اسلام کے باعث ام المومنین سیدہ خدیجہ کو اور بلحاظ علم ام المومنین سیدہ عائشہ کو فضیلت حاصل ہے۔ تمام ائمہ محدثین اور فقہا ان تین مسلکوں میں سے ایک نہ ایک مسلک کے قائل ہیں۔ متقدمین میں سے اس کا کوئی قائل نہ تھا کہ حضرت فاطمہ کو امہات المومنین میں سے کسی پر فضیلت حاصل ہے۔
بعض کا مسلک اس سلسلہ میں ہمیشہ جداگانہ رہا ہے۔ ان کے نزدیک پنجتن اس دنیا کی مٹی سے پیدا ہی نہیں ہوئے بلکہ ان پانچوں کا مادہ نور الٰہی ہے۔ اور حضرت فاطمہ جنت کے اس سیب کھانے کے باعث پیدا ہوئیں تھیں جو حضور نے معراج میں کھایا تھا اور پھر آ کر ام المومنین سیدہ خدیجہؓ سے ہم بستر ہوئے جس سے حضرت فاطمہؓ عالم وجود میں آئیں۔ ان کا دعوٰی ہے کہ انھیں خاتون جنت اسی لئے کہا جاتا ہے حالانکہ ام المومنین سیدہ خدیجہ معراج سے قبل انتقال فرما چکی تھیں۔ اب یہ ان ہی سے کوئی پوچھے کہ حضرت فاطمہ کس کی اولاد ہیں ؟
نیز معراج ہجرت سے ایک سال قبل واقع ہوئی اس مقصد یہ ہوا کہ حضرت فاطمہ ہجرت سے کچھ روز پیشتر پیدا ہوئیں اور شادی کے وقت ان کی عمر تین ساڑھے تین سال تھی۔
ایک جانب تو ہم اس کے دعویدار ہیں کہ تمام جہاں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ اور سیدہ عائشہ ہیں دوسری جانب وہ حضرت فاطمہ کو سیدہ نساء العالمین اور سیدہ نساء اہل الجنتہ کے خطابات سے نوازتے ہیں۔ حتٰی کہ ہمارا کوئی خطبہ اس سے خالی نہیں ہوتا۔ہم میں روایت پرستی کا مادہ اتنی گہری جڑ پکڑ چکا ہے کہ ہم کسی روایت پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اور پھر بخاری و مسلم کی ایک روایت نے اس تخیل کو مزید گہرائی عطا کی ہے اور ان حضرات نے یہ تصور کر لیا ہے کہ بخاری و مسلم کی کسی روایت میں کسی غلطی کا امکان نہیں۔ اور یہ تک نہیں سوچتے کہ یہ حضرات انسان تھے۔ خواہ وہ اپنی جانب سے صحت کی کتنی بھی سعی کریں۔ لیکن انسان ہونے کے سبب غلطی اور بھول سب کچھ ممکن ہے۔
پھر ان دونوں حضرات یہ روایات بہر صورت انسانوں سے نقل کی ہیں اور ان میں سے ہر راوی کے ساتھ غلطی اور بھول کا امکان ہے۔
اور عام طور پر بخاری و مسلم اور نبی کریم ؐ کے درمیان چار پانچ راوی ہوتے ہیں گویا کہ پانچ احتمالات تو بھول کے پیدا ہوئے اور پانچ احتمالات خطا کے پیدا ہوئے۔ اس طرح کوئی روایت دس احتمالات سے خالی نہیں ہوتی۔ یہ احتمالات تو اس وقت ہیں جب کہ تمام راوی ثقہ ہوں اور کسی راوی کی ثقاہت میں اختلاف پیدا ہو جائے تو مزید احتمالات پیدا ہو جائیں گے۔
کاش ہمارے علماء یہ بھی سوچیں کہ ہم جب کسی شخص کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں شخص معتبر ہے ، زبردست عالم ہے، سچا ہے ، قابل اعتماد ہے ، یا فلاں شخص کذاب ہے اور ناقابل اعتبار ہے ۔ یہ بھی ہمارا فیصلہ ظنی ہوتا ہے جو کبھی سنی سنائی باتوں پر مبنی ہوتا ہے کبھی تجربات پر لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ جس کے بارے میں ہم یہ فیصلہ دے رہے ہیں کہ وہ نہایت سچا اور دین دار انسان ہے اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب ڈھونگ ہو۔ اسی طرح جب کسی کو کذاب کہا جاتا ہے تو یہ کوئی ضروری نہیں کہ اس نے زندگی میں ہر موقعہ اور ہر مقام پر جھوٹ ہی بولا ہو۔ کبھی نہ کبھی تو اس نے سچ بات بھی کہی ہو گی۔ یہ امور اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جب کسی کتاب یا حدیث کے بارے میں یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ یہ صحیح ہے تو ہمارا یہ فیصلہ بھی ظنی ہوتا ہے۔ قطعی علم تو صرف اللہ رب العزت کو حاصل ہے۔ اسی لئے تمام فقہا و محدثین اس کے قائل رہے ہیں کہ قطعی شئے تو صرف کتاب اللہ ہے اور احادیث جتنی بھی ہیں ظنی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ کسی حدیث میں ظن زیادہ پایا جاتا ہے اور کسی میں کم۔ جس حدیث میں ظن کم پایا جائے گا اس کے بارے میں اغلب گمان صحت کا ہو گا۔ اور جس میں زیادہ پائے جائے گا اس میں اغلب گمان ضعف کا ہوگا۔ دنیاوی امور میں بھی اسی طرح ہوتا ہے بلکہ یہ کاروبار عالم ظنیات پر چل رہا ہے۔
اس امر پر ایک اور طرح غور کیجئے کہ ایک راوی ایسا ہے جس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض محدثین اسے ثقہ اور معتبر قرار دیتے ہیں اور بعض نامعتبر ، بعض حضرات کو اس کا تجربہ ہے اور بعض حضرات دوسروں کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے ایک فیصلہ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں طبقوں میں سے کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتے۔ لیکن بہر صورت دوسروں کو بھی فیصلے کا حق باقی رہے گا۔
لیکن آج کے دور میں ہمارے علماء اپنی کم علمی کے باعث ، حدیث ، فقہ ، تفسیر اور دیگر مضامین کی تمام روایات پر آنکھیں بند کر کے ایمان کے آتے ہیں۔ اور جو شخص بھی کسی پر فن جرح و تعدیل ، اسما الرجال ، علم الراویہ اور علم الداریہ کے ذریعے بحث کرتا ہے وہ یا تو منکر حدیث قرار دے دیا جاتا ہے یا خارجی۔ حالانکہ یہ تمام فنون محدثین کرام نے اسی لئے وضع کئے تھے کہ روایات کو تنقیدی کسوٹی پر پرکھتے رہو اور صدیوں اس پر عمل ہوتا رہا ہے۔ اور دیگر ممالک اسلامیہ میں آج بھی اس پر عمل ہو رہا ہے لیکن ہند و پاکستان میں یہ ایک زبردست جرم بن چکا ہے کیونکہ ہمارے علماء ان فنون سے خود ناواقف ہیں اور وہ ہرگز یہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ان کی ذات پر لا علمی کا الزام قائم ہو۔ اس لئے ان حضرات کی لابی نے یہ متفقہ طور پر فیصلہ کر رکھا ہے کہ جہاں بھی کوئی ناک والا نظر آئے ، اسے دنیا میں نکو بنا دو۔ جس کے نتیجے میں وہ ہماری جانب انگلی نہ اٹھا سکے۔ اور ہماری دکانداری علی حالہ قائم رہے۔

اب آئیے اس اصل حدیث کی جانب جس کے باعث ہمارے علماء کو مغالطہ واقع ہوا اور جس کی وجہ سے حضرت فاطمہ کو سیدہ النسا ء اہل الجنتہ قرار دیا گیا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں پائی جاتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ؐ کی جب علالت شروع ہوئی تو ازواج مطہرات ہر وقت آپ کے پاس رہتیں۔ اور ایک لمحہ کے لئے بھی آپ سے جدا نہ ہوتیں۔ایک دن آپ کو دیکھنے کے لئے فاطمہؓ آئیں۔ فاطمہ کی چال ڈھال بالکل نبی کریم کے مشابہ تھی۔ آپ نے جب انھیں دیکھا تو مرحبا کہہ کر ان کا استقبال کیا اور ان کو دائیں یابائیں جانب بٹھا لیا۔ پھر ان سے سرگوشی فرماتے رہے جس پر فاطمہؓ رونے لگیں۔ آپ نے پھر دوبارہ سرگوشی فرمائی تو فاطمہ ہنسنے لگیں۔میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ آج آپ نے اپنی ازواج کو چھوڑ کر بیٹی سے ایسی کیا خاص بات کی ہے۔ جب نبی کریمﷺ کھڑے ہو گئے تو میں نے فاطمہ سے سوال کیا۔ تمھاری حضور سے کیا راز و نیاز کی باتیں ہوئیں۔انھوں نے جواب دیا کہ میں حضور کا راز افشا نہیں کر سکتی۔
جب نبی کریمؐ کی وفات ہو گئی تو میں نے فاطمہ سے کہا کہ میرا تم پر حق ہے(یعنی ماں ہونے کا) لہذا تم سے حضور نے جو گفتگو کی تھی وہ بیان کرو۔ انھوں نے فرمایا اب کوئی حرج کی بات نہیں۔ حضور نے پہلے بار مجھ سے فرمایا تھا کہ جبریل مجھے ہر سال ایک مرتبہ قران کا ورد کرواتے اور اس سال مجھ سے دو بار قران کا ورد کروایا۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ میری موت قریب آ گئی ہے۔ تو تو اب اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ میں اس پر رونے لگی۔ جب آپ نے میری یہ حالت دیکھی تو آپ نے مجھ سے دوبارہ سرگوشی فرمائی اور فرمایا

اما ترضی ان تکون سیدۃ نساء المومنین او سیدۃ نساء ھذہ الامتہ۔
کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تم مومنین کی عورتوں کی سردار ہو یا اس مت کی عورتوں کی سردار ہو۔

میں اس بات پر ہنسنے لگی۔ مسلم ج 2 صفحہ 290 ۔ بخاری میں آخری الفاظ یہ ہیں۔

اما ترضین ان تکونی سیدۃ نساء اھل الجنتہ او نساء المومنین۔
کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تو جنتی عورتوں کی سردار ہو یا مومنین عورتوں کی۔
بخاری جلد 1 صفحہ 512​

یہ ہے وہ اصل حدیث جسے پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارے علماء نے حضرت فاطمہ کو سیدۃ النساء اہل الجنہ کے خطاب سے نوازا۔ حالانکہ راوی اول تو خود شبہ میں مبتلا ہے کہ آپ کے الفاظ کیا تھے پھر بخاری کے الفاظ جداگانہ ہیں۔ اور مسلم کے جداگانہ۔ بہر صورت ان تین خطابات میں سے یعنی سیدۃ نساء اہل الجنہ ، سیدۃ نساء المومنین اور سیدۃ نساء ہذہ الا مہ ، صرف ایک خطاب تھا جو راویوں کو یاد نہیں رہا اور جب راویوں کو خود ہی شک ہورہا ہے تو کسی ایک خطاب کو صحیح ماننے کی کیا دلیل ہے ؟
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل ہر سال جتنا قران نازل ہو چکا ہوتا اس کا رمضان میں حضور سے ایک بار ورد کرواتے لیکن سال آخر میں جس میں آپ کی وفات ہوئی دو بار ورد فرمایا۔ بخاری جلد 2 صفحہ 748۔گویا یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جو کسی سے مخفی ہو بلکہ اسے ہر کوئی جانتا تھا۔ اور حضور متعدد مواقع پر اس کا اظہار فرما چکے تھے کہ اب میں اللہ سے ملاقی ہونے والا ہوں۔
حجتہ الوداع کے موقع پر بھی آپ نے اس کا اظہار فرمایا۔ لہذا یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی تھی۔ اور آخری رمضان میں جہاں آپ نے دو بار ورد فرمایا تھا وہاں آپ نے بیس دن کا اعتکاف بھی فرمایا تھا اور تراویح کی بھی ابتداء کی تھی۔ لہذا ایسی بات نہ تھی جو حضرت فاطمہ سے مخفی ہو۔
رہ گیا خطابات کا مسئلہ، تو نبی کریمؐ نے متعدد صحابہ کے مناقب بیان فرمائے اور ان کی دنیوی یا اخروی فضیلت کا اظہار فرمایا۔ انھیں رضائے الٰہی اور جنت کی بشارت دی۔ لیکن ان حضرات کے سلسلہ میں کسی موقعہ پر بھی آپ نے اخفا سے کام نہیں لیا۔ آخر حضرت فاطمہ ؓ کی فضیلت بیان کرنے میں ایسی کون سی رکاوٹ پیش آ رہی تھی جو آپ نے خلاف معمول اخفاء سے کام لیا ؟ اور اس میں ایسی کیا خاص بات تھی جو وفات رسول تک ظاہر نہیں کی جا سکتی تھی ؟ یہ کوئی علم باطن کا مسئلہ نہ تھا، جسے ظاہر نہیں کیا جا سکتا تھا اور حضرت فاطمہ بھی جھوٹ نہ بول سکتی تھیں، جس کے کُھل جانے کا احتمال ہو۔


---------------------------------جاری ہے---------------------------------​

السلام علیکم
محترم طالوت بھائی
جزاک اللہ
اللہ آپ کو حسن نیت کے اجر سے نوازے آمین
حقیقت سرخ رنگ میں روشن ہے ۔
نہ ہمارے بڑھانے سے کسی کا درجہ بڑھے گا نہ گھٹانے سے گھٹے گا ۔
بے شک اللہ ہی حقیقت سے باخبر ہے ۔
نایاب
 

طالوت

محفلین
جہاں تک اس کے راویوں کا تعلق ہے تو اس واقعہ کو ام المومنین حضرت عائشہ سے مسروق نقل کر رہے ہیں۔ اور مسروق سے اسے شعبی نے نقل کیا ہے۔ یہ دونوں حضرات تابعی ہیں، ان حضرات کی ذات پر کسی نے کلام نہیں کیا اور حقیقت بھی یہ ہے کہ ان حضرات کی ذات شک و شبہ سے بالاہے۔ لیکن شعبی سے اس واقعہ کو نقل کرنے والا فراس بن یحیٰ ہے۔
فراس بن یحیٰ یہ ہمدان کا باشندہ ہے۔ کوفہ میں سنت اختیار کر لی تھی۔ ذہبی لکھتے ہیں کہ اسے متعدد ائمہ حدیث نے ثقہ قرار دیا ہے لیکن امام یحیٰ بن سعید القطان نے اس کی ایک حدیث کو منکر قرار دیا ہے۔ میزان جلد 3 صفحہ343
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں یہ صدوق (سچا) ہے لیکن اسے وہم ہوتا ہے۔تقریب صفحہ 274۔
اصول حدیث جاننے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جب کسی راوی کو معتبر قرار دیا جاتا ہے تو اس کے لئے درجات کے لحاظ سے مختلف الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے مثلاً حافظ، حجۃ، ثبت ، ثقہ ثقہ (دو بار)، ثقہ (ایک بار) اور صدوق وغیرہ۔ ان میں سب سے کم درجہ کا لفظ صدوق ہے۔ ابن حجر نے فراس کے لئے یہی لفظ استعمال کیا ہے یہ ایسے راوی پر بولا جاتا ہے جس کے ناقابل اعتبار ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو لیکن اس پر اطمینان بھی نہ ہو۔ ایسے شخص کی روایت شہادت کے طور پر تو قبول کر لی جاتی ہے لیکن اسے حجت ہرگز تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس فراس کا انتقال 129 ہجری میں ہوا۔
فراس تک اس روایت کا ہر راوی ہر زمانہ میں ایک ایک شخص کر رہا ہے۔ یعنی ام المومنین سے مسروق کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا ۔ مسروق سے شعبی کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا۔ اور شعبی سے فراس کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا۔ اور یہ ایرانی النسل ہے۔ گویا دوسری صدی کی ابتداء تک اس روایت کو ایک ایک شخص کے علاوہ کوئی نہ جانتا تھا ہاں فراس سے اسے دو شخص نقل کر رہے ہیں۔ زکریا بن ابی زائدہ اور ابو عوانہ۔
زکریا بن ابی زائدہ ان کا شمار کوفہ کے اہل سنت علماء میں ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں یہ ثقہ ہیں حافظ الحدیث ہیں۔ لیکن ان میں تدلیس کا مرض ہے۔تقریب صفحہ 107۔
امام ذہبی فرماتے ہیں یہ صدوق ہیں۔ مشہور ہیں اور حافظ ہیں۔ امام شعبہ امام یحیٰ القطان اور ابو نعیم نے ان سے احادیث روایت کی ہیں۔ امام احمد فرماتے ہیں یہ ثقہ ہے۔ اس کی حدیث شیریں ہوتی ہے۔ یحیٰ بن معین کا قول ہے کہ یہ صالح ہے (یہ بھی صدوق کے ہم پلہ ہے) ابو زرعہ کہتے ہیں کچھ کچھ اچھا ہے۔ لیکن شعبی کی روایات میں اکثر تدلیس سے کام لیتا ہے۔میزان جلد 2 صفحہ73۔ 149 ہجری میں انتقال ہوا۔
عبد الرحمن بن ابی حاتم لکھتے ہیں زکریا بن ابی زائدہ ہمدان کا باشندہ ہے۔ ابو یحیٰ اعمٰی کا غلام تھا۔ یہ شعبی اور ابو اسحاق الہمدانی سے روایت کرتا ہے۔ یحیٰ بن سعید القطان فرماتے ہیں اس میں کوئی برائی تو نہیں لیکن یہ اسماعیل بن خالد جیسا نہیں ہے ۔ امام احمد کا قول ہے کہ یہ ابو اسحاق سے جو روایات نقل کرتا ہے وہ کمزور ہوتی ہیں۔ امام ابو حاتم رازی فرماتے تھے اس کی حدیث کمزور ہوتی ہے کیونکہ یہ تدلیس سے کام لیتا ہے۔ ابو زرعہ کہتے ہیں یہ بہت تدلیس کرتا ہے۔ الجرح و تعدیل جلد 3 صفحہ594۔
تدلیس تدلیس کے معنی ہیں عیب چھپانا ۔ یہ محدثین کی اصطلاح ہے۔ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ درمیان سے راوی گرا کر روایت کو اس سے اوپر کے راوی کی جانب منسوب کر دیا جائے۔ اور ایسے الفاظ میں روایت کو بیان کیا جائے کہ دوسرے کو احساس نہ ہو کہ درمیان سے راوی گر گیا ہے۔ اس عیب کا نام تدلیس ہے۔ اور جو شخص یہ حرکت کرتا ہے اسے مدلس کہتے ہیں۔ جو افراد اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں وہ درمیان سے ضعیف راوی کو گرا دیتے ہیں اور اس طرح اس کے ضعف کو چھپاتے ہیں۔ یہ عیب زکریا میں بے پناہ پایا جاتا ہے۔
گویا اس روایت کے دو راوی ایسے ہوئے جن پر کلی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ایک فراس بن یحیٰ جو وہم کا شکار ہے اور دوسرا زکریا جو تدلیس کے مرض میں مبتلا ہے۔ زکریا سے اس روایت کو نقل کرنے والا فضل بن دکین ہے۔
فضل بن دکین اس کی کنیت ابو نعیم ہے۔ اور یہ کنیت ہی سے مشہور ہے۔ ذہبی فرماتے ہیں یہ حافظ الحدیث ہے حجت ہے لیکن شیعہ تھا۔ اگرچہ غالی شیعہ نہ تھا اور صحابہ کو گالیاں نہ دیتا تھا۔ امام یحیٰ بن معین فرماتے ہیں جب یہ ابو نعیم کسی شخص کی تعریف کرے اور کہے کہ وہ ایسا ہے وہ ویسا ہے اور بہت اچھا آدمی ہے تو سمجھ لو کہ ضرور شیعہ ہے۔ اور جب کسی کی برائی کرے کہ فلاں شخص مرجی ہے تو وہ ضرور اہل سنت ہے۔ اس کا انتقال 219 ہجری میں ہوا۔ میزان جلد 3 صفحہ 358
بخاری میں یہ روایت ان ہی راویوں کے ذریعے مروی ہے اور سیدۃ النساء اہل الجنہ کے الفاظ اسی روایت میں پائے جاتے ہیں اور مسلم کی روایت میں نہیں پائے جاتے۔ کیونکہ اس میں کوئی شیعہ راوی نہیں۔ اور بخاری کا استاد فضل بن دکین شیعہ ہے۔ گویا یہ ساری کرم فرمائی اسی ابو نعیم کی ہے۔
اب رہ گیا مسلم کی روایت کا مسئلہ۔ مسلم میں یہ روایت فراس سے ابو عوانہ کے ذریعے مروی ہے۔
ابو عوانہ اس کا نام وضاح بن عبداللہ الواسطی ہے۔ یہ اپنی کنیت سے مشہور ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ثقہ ہے ثبت ہے۔ تقریب صفحہ 369
ذہبی لکھتے ہیں اس کے ثقہ ہونے پر سب کا اتفاق ہے کہ اس کی لکھی ہوئی روایات بہت عمدہ ہوتی تھیں۔ ہاں ابو حاتم رازی فرماتے ہیں جب یہ اپنے حافظے سے روایات بیان کرتا ہے تو غلطیاں کرتا ہے۔ میزان جلد 4 صفحہ 334
گویا ابو عوانہ، زکریا بن ابی زائدہ سے کہیں بہتر و اعلٰی ہے جو بخاری کا راوی ہے۔ اب رہا ابو کامل کا مسئلہ۔
ابو کامل الحجدری اس کا نام فضیل بن حسین ہے۔ ابن حجر کہتے ہیں یہ حافظ الحدیث ہے ۔ ثقہ ہے۔ 237 ہجری میں اس کا انتقال ہوا۔ تقریب صفحہ 276 ۔ عبد الرحمن بن ابی حاتم رازی لکھتے ہیں کہ امام احمد کا قول ہے کہ ابو کامل حدیث پر گہری نظر رکھتا ہے اور نہایت قابل اعتماد ہے۔ زبردست عقل کا مالک ہے جب تک اس سے کوئی سوال نہیں کرتا کلام نہیں کرتا۔ علی بن مدینی فرماتے ہیں ابو کامل ثقہ ہے۔ الجرح و تعدیل جلد 7 صفحہ 107۔
ہم نے قارئین کرام کے روبرو بخاری و مسلم کے تمام راویوں کا حال پیش کر دیا ہے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں محدثین کی جو آراء تھیں وہ بھی قارئین کے روبرو پیش کر دیں۔ اب قارئین کرام خود فیصلہ فرما لیں اس حدیث میں بخاری کے راوی زیادہ معتبر ہیں یا مسلم کے۔محدثین کے اقوال سے تو یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ مسلم کے راوی اس حدیث میں زیادہ معتبر ہیں۔ اور بخاری کی روایت کسی صورت میں اس مقام پر مسلم کی روایت کے مقابلہ صحیح قرار نہیں دی جا سکتی۔ اور مسلم کی روایت میں سیدۃ النساء اہل الجنہ کا خطاب موجود نہیں۔ یہ الفاظ ابو نعیم فضل بن دکین نے روایت کئے ہیں اور وہ شیعہ ہے۔لہذا اس نے یہ الفاظ بڑھا کر اپنے مسلک کا پرچار کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل واقعہ کے آخری حصہ میں فراس بن یحیٰ الہمدانی نے تحریف کر کے واقعہ کی نوعیت کو بدل دیا ہے۔ اور فراس ایسا راوی ہے جو دونوں کتابوں کی سند میں پایا جاتا ہے اور بقول حافظ ابن حجر یہ کام چلاؤ انسان ہے۔ اور وہم کا شکار ہے۔ دراصل محدثین نے اسی وہم کے باعث کہ یہ وہم کا شکار ہے اس پر کوئی خاص جرح نہیں کی لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسے کوئی وہم نہیں تھا بلکہ احادیث میں تحریف کر کے اسے وہم کے پردے میں چھپاتا تھا اور چونکہ نسلاً ایرانی تھا اسلئے یہ بھی بعید نہیں کہ وہ دینی تخریب کاری کے مرض میں مبتلا نہ ہو۔ اور اس کا ثبوت خود بخاری و مسلم میں مموجود ہے ۔
ام المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں۔ نبی کریم ؐ نے حضرت فاطمہ کو بلوایا۔ اور ان سے کچھ رازداری کی گفتگو کی۔ جس پر فاطمہ رونے لگیں۔ پھر آپ نے کچھ گفتگو کی تو فاطمہ ہنسنے لگیں۔ ام المومنین فرماتی ہیں میں نے فاطمہ سے سوال کیا کہ ایسی رازداری کی کیا خاص بات تھی ؟ کہ پہلے تم روئیں ، پھر ہنسیں۔ انھوں نے جواب دیا حضور نے پہلی بار سرگوشی فرمائی تھی ، تو آپ نے مجھے اپنی موت کی خبر دی تھی۔ جس پر میں رونے لگی۔ آپ نے دوبارہ سرگوشی کی اور فرمایا تو میرے گھر والوں میں سب سے پہلے مجھے سے ملے گی ۔ جس پر میں ہنسنے لگی۔ بخاری جلد 1 صفحہ 532 جلد 2 صفحہ 638 اور مسلم جلد 2 صفحہ 290۔
یہ حدیث پہلی حدیث کے قطعا خلاف ہے۔ اس کے آخری جزئیہ میں خوش ہونے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ میرے گھر والوں میں تو سب سے پہلے مجھے ملے گی۔ گویا خوش ہونے اور ہنسنے کی وجہ خطابات نہیں۔ بلکہ وجہ یہ ہے کہ والد سے جو جدائی ہے وہ بہت مختصر ہے اور ملاقات کے لئے طویل عرصہ انتظار کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور روایت کی سند میں کوئی قابل اعتراض راوی بھی نہیں ہے۔
اس صورت میں صرف دو ہی فیصلے ممکن ہیں۔ یا تو پہلی حدیث کو قبول کرتے ہوئے اس کا رد کیا جائے یا قبول کرتے ہوئے پہلی کا رد کیا جائے۔دونوں کو قبول کرنا ہرگز ممکن نہیں۔ اور اس حدیث کے روات پہلی حدیث سے زیادہ معتبر ہیں۔ اور اس کی سند میں نہ کوئی شیعہ ہے نہ کوئی مدلس۔ بلکہ پہلی حدیث کے تین راوی ایرانی النسل ہیں۔ دو اگرچہ عربی النسل ہیں لیکن کوفہ کے باشندے ہیں۔ جب کہ اس حدیث کے اکثر راوی مدنی ہیں۔ اسے ام المومنین سے نقل کرنے والے عروہ ہیں جو حضرت زبیر بن العوامؓ کے صاحبزادے اور ام المومنین کے بھانجے ہیں۔ پہلی حدیث میں مسروق اور شعبی قابل اعتراض نہیں۔ لہذا یہ ساری حرکت فراس بن یحیٰ کی ہے۔
عروہ کے واقعہ کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عائشہ بنت طلحۃ بن عبیداللہ نے ام المومنین سے نقل کی ہے۔ ام المومنین فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ علالت میں مبتلا ہوئے تو فاطمہؓ آئیں اور حضور سے لپٹ گئیں۔ حضور کا پیار لیا اور جب سر اٹھایا تو رو رہی تھیں۔ پھر دوبارہ حضور کو چپٹ گئیں۔ تو دوبارہ سر اٹھایا تو ہنس رہی تھیں۔ جب حضور کی وفات ہو گئی تو میں نے فاطمہ سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے فرمایا۔
اخبرنی انہ میت بوجعہ ھذانیکیت ثم اخبرنی انی اسرع اھلہ لحو قابہ۔ (ترمذی جلد 2 صفحہ 250)
آپ نے بتایا تھا کہ میری اس مرض میں موت واقع ہو گی تو میں رونے لگی دوبارہ آپ نے بتایا کہ تو مجھ سے سب سے پہلے ملے گی۔ میں اس پر خوش ہوئی۔
اتفاق سے یہ واقعہ مورخ بلاذری نے اشراف الانساب میں ابن عباس سے بھی اسی صورت نقل کیا ہے۔ گویا جو واقعہ عروہ نے بیان کیا ہے اس کی دو شہادتیں موجود ہیں۔ اور پہلے واقعے کی کوئی شہادت موجود نہیں۔ اور اس روایت میں کچھ ایسے امور پائے جاتے ہیں جو قطعا خلاف عقل و نقل ہیں۔
(1) باپ کے مرنے کا غم خطابات سے ہرگز دور نہیں ہوتا جس پر انسان خوش ہو۔ ان کا باہمی کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات انسانی فطرت کے قطعا خلاف ہے۔
(2)نبی کریمﷺ کی علالت ام المومنین حضرت میمونہ کے گھر سے شروع ہوئی اور آپ ازواج مطہرات کی باری پوری کرتے رہے۔ لیکن ہر جگہ یہی دریافت کرتے رہے کہ میں کل کہاں گزاروں گا۔ جس سے ازواج مطہرات یہ سمجھیں کہ حضور بقیہ زندگی کے ایام ام المومنین حضرت عائشہ کے یہاں گزارنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے حضور کو اس کی اجازت دی۔ حضور اکرمﷺ حضرت اسامہ بن زید اور حضرت فضل بن عباس کے سہارے ام المومنین کے گھر پہنچے۔ گویا ام المومنین کے یہاں آنے کے بعد حضور کی ایسی حالت نہیں رہی تھی کہ خود سے چل سکیں اور فراس کی روایت یہ ظاہر کر رہی ہے کہ حضور کھڑے ہو گئے۔ یہ واقع قطعا خلاف عقل و نقل ہے۔ جب کہ عائشہ بنت طلحہ کا بیان ہے کہ فاطمہ آتے ہی حضور کو چپٹ گئیں۔ یہ بات عین فطرت انسانی کے مطابق ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ حضور اس وقت کھڑے ہونے کے لائق نہ تھے۔
(3) عائشہ بنت طلحہ، ابن عباس اور عروہ کی روایت میں یہ کہیں موجود نہیں کہ ام المومنین نے حضرت فاطمہ سے اسی وقت وجہ دریافت کی ہو اور موقع و محل کے لحاظ سے اسی وقت یہ سوالات قطعا مناسب بھی نہ تھے جب کہ فراس کی روایت میں یہ سوال بھی ہے اور پھر انکار بھی ہے۔
(4) فراس کی روایت میں ام المومنین کی جانب سے یہ الفاظ منسوب کئے گئے ہیں کہ آج آپ نے اپنی ازواج کو چھوڑ کر بیٹی سے یہ کیسی سرگوشی کی ، یہ الفاظ انتہائی لغو ہیں۔ اسلئے کہ ہر انسان بیوی سے جداگانہ نوعیت کی گفتگو کرتا ہے اور بیٹی سے جداگانہ نوعیت کی۔ یہ کوئی سوکن کا مسئلہ نہ تھا جو یہ الفاظ ام المومنین کی جانب منسوب کے گئے ہیں۔
(5) نبی کریم ﷺ کی چار صاحبزادیاں تھیں۔ حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ۔ لیکن بقیہ صاحبزادیوں کو اس طرح نظر انداز کیا گیا ہے گویا وہ حضور کی اولاد ہی نہ تھیں۔ جب کہ حضرت زینب اور حضرت رقیہ نے اسلام کی خاطر ہزارہا مصائب برداشت کئے حتی کہ حضرت رقیہ نے اسلام کی خاطر ہجرت حبشہ کی ، لیکن انھیں کوئی خطاب نہیں دیا گیا اور نہ انھیں سیدۃ النساء بنایا گیا۔ یہ تمام بحث تو محدثانہ نقطہ نظر سے کی گئی تھی اور اس کا مقصود صرف اتنا تھا کہ حضرت فاطمہ سیدۃ النساء نہیں ہیں۔


لیکن اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ پھر سیدۃ النساء کون ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم سب سے اول قران پر غور کرنا چاہتے ہیں پھر احادیث کی جانب رجوع کریں گے۔ارشاد الٰہی ہے۔

اور تم میں سے جو اللہ اور رسول کی تابعدار رہے گی اور نیک عمل کرتی رہے گی ہم اسے دہرا اجر دیں گے اور ہم نے ان ازواج مطہرات کے لئے عمدہ رزق تیار کر رکھا ہے۔ سورہ احزاب آیت 31
اس آیت کریمہ میں ازواج مطہرات کے لئے ایک خصوصی اعلان تو یہ کیا گیا ہے کہ ہم نے ان کے لئے عمدہ رزق تیار کر رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ رزق کریم تو اسی وقت حاصل ہو گا جب اس سے قبل مغفرت حاصل ہو گی، اور جنت ملے گی۔ لیکن اللہ نے ان ہر دو امور کا تذکرہ اسلئے نہیں فرمایا ۔ اسلئے کہ ہر دو امور رزق کریم کا لازمہ ہیں۔ اور ملزوم بغیر لازم کے حاصل نہیں ہوتا۔ لہذالازم کو ترک کر کے ملزوم کو ذکر کیا ہے۔ کہ "ہم نے ان کے لئے عمدہ رزق تیار کر رکھا ہے" یعنی یہ لوازمات کہ ان کی مغفرت کر دی گئی اور ان کو جنت اور رضائے الٰہی بھی حاصل ہے۔ یہ تو انھیں خود بخود حاصل ہیں۔ اسی لئے صرف آخری جزیہ کا تذکرہ کیا ۔
پھر اس امر کے اعلان کے لئےمضارع کی بجائے ماضی کا صیغہ استعمال کیا۔ یعنی جس چیز کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ اس حد تک یقینی ہے گویا کہ انھیں وہ پہلے ہی حاصل ہو چکی ہے۔ لہذا یہ تصور کہ کسی وقت ان سے یہ مقام چھینا بھی جا سکتا ہے ، جیسا کہ سبائیوں کا عقیدہ ہے ، اس امکان کو بھی ماضی کا صیغہ لا کر نا ممکن بنا دیا۔
جب ہم اس رنگ میں سورہ احزاب کی ان آیات پر غور کرتے ہیں تو اللہ نے متعدد بار ، ازواج مطہرات کو یا نساء النبی کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ لیکن پورے قران میں کہیں بھی یا بنات النبی کہہ کر حضور کی صاحبزادیوں کو نہ کسی مقام پر مخاطب کیا اور نہ کسی جگہ ان کی فضیلت کا ذکر کیا ہے۔
یہ امر خود اس کی دلیل ہے کہ اس امت کی عورتوں میں ذکر کے قابل صرف ازواج مطہرات تھیں۔ اور اگر کوئی اور عورت اس مقام کو پہنچتی تو اس کا ذکر بھی ضرور کیا جاتا۔ حالانکہ سابقہ امتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ امراۃ فرعون کا ذکر کیا گیا ہے۔ ازواج مظہرات کی فضیلت کے لئے صرف یہی ایک دلیل کافی ہے۔
اس طرز تخاطب سے یہ بات خود بخود ثابت ہو گئی کہ ازواج مطہرات کے بارے میں یہ دعویٰ کہ وہ جنتی ہیں یقینی ہو گیا بلکہ اس کا منکر قران کا منکر اور کافر ہو گا۔
قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جب اللہ انسانی معاشرہ میں کسی کو بلند مقام پر سرفراز فرماتا ، اور ایسے اشخاص کو لوگوں کی رہنمائی پر مامور فرماتا ہے تو چونکہ دنیا بھلائی اور برائی میں ان کی اقتداء کرتی ہے ۔ ان کی برائی صرف ان ہی کی ذات تک محدود نہیں رہتی اسی طرح ان کی نیکی صرف ان کی ذات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ ان کا ہر قول و عمل قوم کےبنانے اور بگاڑنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ اسی لئے جب وہ برائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو انھیں اپنی سزا کے علاوہ دوسروں کے بگاڑ کی سزا بھی ملتی ہے۔ اور اچھے اعمال پر دوسروں کی نیکیوں کا بھی اجر ملتا ہے۔ اس طرح ا ن کے عذاب میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اجر میں بھی۔ سورہ بنی اسرائیل آیت 73-75 میں نبی کریمؐ کو مخاطب کر کے فرمایا جاتا ہے۔

اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ بھی کچھ نہ کچھ جھک جاتے۔ تو اس صورت میں ہم آپ کو دنیا میں دوگنا مزا چکھاتے اور مرنے کے بعد بھی۔ پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی مدد گار نہ پاتے۔

جس طرح اس مقام پر نبی کریمؐ کے لئے اس اصول کو بیان کیا گیا ہے اسی طرح ازواج مطہرات کے لئے بھی اسی اصول کی وضاحت کی گئی۔ ارشاد ہوا۔

اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جو بھی کھلی بے حیائی کرے گی اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا ، اور اللہ کے نزدیک یہ بہت ہی آسان بات ہے۔ اور تم میں سے جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی اور بیک کام کرے گی یم اسے اجر بھی دوہرا دیں گے اور اس کے لئے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے (سورہ احزاب آیت 32-33)​

اس آیت نے یہ ثابت کیا کہ جس طرح نبی کریم کو امت کے مقابلے میں ہر عمل پر دوہرا اجر ملتا ہے اسی طرح ازواج مطہرات کو بھی تمام امت کے مقابلے میں دہرا اجر عطا ہو گا۔ جب کہ تمام صحابہ کرام اور تمام صحابیات میں سے کسی کے لئے بھی کسی مقام پر اس اصول کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ اس طرح ازواج مطہرات کو بقیہ تمام امت سے نہ صرف ممتاز کر دیا بلکہ یہ بھی ثابت کر دیا کہ نبی کریم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات تمام امت کی رہنما ہیں اور ان کی اقتداء امت پر لازم ہے۔
اس سے یہ امر بھی ظاہر ہو گیا کہ کوئی امتی خواہ کتنا بھی عمل کرے اور خواہ وہ کتنا ہی بلند مقام کیوں نہ حاصل کر لے وہ ہرگزہرگز بھی ازواج کے مقام کو نہیں پا سکتا۔ اسلئے کہ جو عمل ابو بکر و عمر یا فاطمہ و رقیہ انجام دیں گی تو انھیں اکہرا اجر ملنا ہے اور وہی عمل اگر عائشہ اور ام حبیبہ انجام دیں تو انھیں دہرا اجر ملنا ہے۔ اس لحاظ سے ان دونوں طبقوں کے اجر میں دگنے کا فرق ہو گا۔جس کا نتیجہ یہ خود بخود ظاہر ہو جاتا ہے کہ کوئی ازواج مطہرات کے مقام کو حاصل نہیں کر سکتا۔ خواہ وہ امامت و ولایت کے عہدے پر کیوں نہ سرفراز ہو۔ اسی طرح ایک آیت میں اللہ رب العزت نے ازواج مطہرات کو امت پر دو قسم کی فضیلتیں عطا فر ما دیں۔ یہ بھی ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ اگر ایک شخص کو ایک سال عمل صالح کی توفیق حاصل ہوتی ہے اور دوسرے کو دو سال تو ہر گز یہ دونوں نہ دنیاوی قانون کی نگاہ میں مساوی ہو سکتے ہیں اور نہ اخروی قانون میں۔ اسی وجہ سے جو حضرات فتح مکہ کے بعد ایمان لائے وہ سابقین اولین کے مقام کو حاصل نہیں کر سکتے۔ اب اگر دو شخص ایک ساتھ اسلام لائے اور حضور کی حیات میں ہر کار خیر میں برابر کے شریک رہے۔ لیکن ایک فرد واحد حضور کی وفات کے چھ ماہ بعد انتقال کرتا ہے اور سنتالیس سا ل بعد اس صورت میں ظاہر ہے کہ دوسرے فرد کے سنتالیس سال پہلے فرد سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ دونوں ہم عمر ہیں لیکن حضرت فاطمہ نے حضور کی وفات کے چھ ماہ بعد انتقال فرمایا۔ یعنی 11 ہجری کے آخر میں۔ جب کہ ام المومنین سیدہ عائشہ کی وفات رمضان 58 ہجری ہے۔ تو یہ دونوں مساوی کس طرح ہوں گی۔
جب یہ حقیقت تسلیم کر لی گئی کہ ازواج مطہرات کے لئے ہر عمل پر دگنا اجر ہے تو ان کو راہبری و رہنمائی کا مقام خود بخود حاصل ہو گیا۔ اور رہبر اور رہنما کا مقام پیروکار اور مقتدی سے بلند ہوتا ہے۔ مقتدی اور پیروکار خواہ کتنے ہی بلند مقام پر کیوں نہ فائز ہو جائے وہ اس فضیلت کو حاصل نہیں کر سکتا جو مقتدا کو حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ اسے جہاں اپنے عمل کا اجر ملے گا وہاں اسے مقتدی کے اعمال کا بھی اجر ملے گا۔ اور اس مقام کا کیا کہنا جو پوری امت کا مقتداء ہو۔ جو شخص کسی مقتدی کو کسی مقتدا پر فضیلت دیتا ہے وہ نہ صرف شریعت کا مذاق اڑاتا ہے بلکہ دنیاوی اصولوں کو بھی پامال کرتا ہے۔ قاعدہ ہے "الفضل للمتقدم " فضیلت تو پہل کرنے والے کو حاصل ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت نے یہ اصول بیان کرنے کے بعد اس سے جو نتیجہ برآمد کیا ہے اس کی خود اپنے ہی کلام میں وضاحت فرمائی ہے ۔ ارشاد ہوا۔

اے نبی کی بیویو! تم دنیا کی کسی عورت کی طرح نہیں ہو۔ بشرطیکہ تقوی اختیار کرو۔ (سورۃ احزاب آیت 32)


جب حضور کی کوئی زوجہ محترمہ دنیا کی کسی عورت کی مثل نہیں ہو سکتی تو دنیا کی کوئی عورت بھی ان کے مثل نہیں ہو سکتی۔ خواہ وہ عورت بذات خود کتنے ہی اعلٰی مقام پر کیوں نہ فائز ہو۔
کیونکہ جس طرح کوئی پیروکار مقتدا کے مساوی نہیں ہو سکتا اسی طرح کوئی راہنما پیروکار کے مساوی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ہر دو صورت میں مقتدا کے مقام پر حرف آتا ہے۔ لہذا یہ دونوں ہرگز مساوی نہیں ہو سکتے۔ کجا کہ مقتدی اور پیروکار کو راہبر اور مقتدا پر فضیلت دیدی جائے۔ ایسے شخص کو دنیا پاگل کہے گی۔ اس امر کو ازواج مطہرات کو اقتدا اور راہبری کا مقام حاصل ہے۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ان الفاظ میں واضح فرماتے ہیں۔

ما اشکل علینا اصحاب رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم حدیث قط نسالنا عائشۃ الووجدنا منہ علما۔ ترمذی جلد2 صفحہ 251
جب بھی صحابہ کرام پر کسی مسئلہ میں کوئی دشواری پیش آتی تو ہم حضرت عائشہ سے دریافت کرتے اور ان کے پاس اس مسئلہ کا علم موجود ہوتا۔​
یعنی صحابہ کرام کو جب بھی کسی مسئلہ میں دشواری پیش آتی تو یہ حضرات ام المومنین حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان سے دریافت کرتے۔ اور کوئی مسئلہ ایسا نہ ہوتا جس کا علم انھیں حاصل نہ ہو۔
اب اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سابقہ امتوں میں سے مریم بنت عمران آسیہ امراۃ فرعون اور اس امت میں سے حضرت فاطمہ کو حضرت عائشہ یا امہات المومنین میں سے کسی پر فضیلت حاصل ہے۔ وہ دوسرے الفاظ میں قران کا انکار کر رہا ہے۔ جب کہ قران یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اے نبی کی بیویو تم دنیا کی کسی عورت کے مثل نہیں ہو سکتیں ، تو دنیا کی اب کسی عورت کو ان کے مثل قرار دینا گناہ عظیم ہے کجا کہ ان پر فوقیت دینا۔ اس کا تو تصور بھی محال ہے۔
ہماری اس تحریر سے ہرگز یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ میں حضرت فاطمہ کی فضیلت کا منکر ہوں۔ حاشا و کلا میں تو ہر اس عورت کی فضیلت کا بھی قائل ہوں کہ جسے زندگی میں صرف ایک بار دیدار رسول حاصل ہوا کجا کہ حضور کی صاحبزادیاں، جو حضور کے جسم کا ایک حصہ ہیں ان کی فضیلت کے انکار کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ مسئلہ یہ نہیں کہ حضرت فاطمہ کو کسی قسم کی فضیلت حاصل ہے یا نہیں۔ اگر مسئلہ یہ ہوتا تو ہم سب سے اول حضرت فاطمہ کے دفاع میں قلم اٹھاتے۔ بلکہ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ سب سے افضل عورتیں کون ہیں اور سیدۃ النساء اہل الجنہ یا نساء المومنین بننے کی مستحق کون ہیں ؟ نبی کریم ؐ کا ارشاد ہے

کمل من الرجال کثیر ولم یکمل من النساء غیر مریم بنت عمران و اٰسیۃ امراۃ فرعون وان فضل عائشۃ علی سائر النساء کفضل الثرید علی سائر الطعام بخاری جلد 1 صفحہ 532۔ مسلم جلد 2 صفحہ 284 ۔ نسائی جلد2 صفحہ 77۔​
مردوں میں تو کامل بہت گزرے ہیں لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ امراۃ فرعون کے علاوہ کوئی کامل نہیں گزری۔ اور عائشہ کو تمام عورتوں پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر۔
-----------------------------جاری ہے
-----------------------------​
 

طالوت

محفلین
اس حدیث میں نبی کریم ؐ نے اول ۔۔۔کی نفی فرمائی کہ عورتوں میں دو عورتوں یعنی مریم بنت عمران اور آسیہ امراۃ فرعون کے علاوہ کوئی کامل نہیں ہوئی۔ اس فرمان سے تمام خارج ہو گئیں ۔ لیکن آپؐ نے تمام عورتوں سے حضرت عائشہ کو مستشنٰی کر کے انھیں تمام عورتوں پر فضیلت دی یعنی دو عورتوں کےکمال کا ذکر کر کے پھر حضرت عائشہ کو مستشنٰی قرار دینا۔ اور پھر انھیں جہاں کی عورتوں پر فضیلت دینا خود اس امر کا بین ثبوت ہے کہ اصل مقام فضیلت تو حضرت عائشہ کو حاصل ہے۔ یہ مقام کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ اب بقیہ عورتوں کے لئے دو ہی مقام ہیں۔ یا تو وہ مریم بنت عمران اور آسیہ کے درجے میں ہوں گی یا ان سے کچھ کم ہوں گی۔ کیونکہ کمال کے درجات بھی مختلف ہوتے ہیں لیکن مریم اور آسیہ کوئی قوم کی راہنما اور راہبر نہیں اور نہ ان کے بارے میں قران نے یہ دعویٰ کیا کہ انھیں ان کے اعمال پر دگنا اجر دیاجائے گا۔ نہ انھیں کسی نبی کی زوجیت کا فخر حاصل ہے۔ اور نہ انھیں کوئی علمی فخر حاصل ہے۔ لہذا ان امور میں تمام ازواج مطہرات ان پر فضیلت رکھتی ہیں۔
اسی طرح مریم اور آسیہ کو کسی نبی کی اولاد ہونے کا فخر حاصل نہیں جب کہ حضور کی صاحبزادیوں کو یہ فخر حاصل ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ ایک فضیلت کلی ہوتی ہے۔ وہ تو اول ام المومنین عائشہ اور ان کے بعد ازواج مطہرات کو حاصل ہے ۔ اور ایک فضیلت جزئی ہوتی ہے ۔ اس میں متعدد عورتیں شریک ہیں۔ ایک لحاظ سے کوئی افضل ہے اور ایک لحاظ سے دوسری۔
اللہ رب العزت نے سابقہ آیت میں یہ اصول فرمانے کے بعد کہ تم دنیا کی کسی عورت کی مثل نہیں ہو کیونکہ تمھاری حیثیت ایک مقتداء اور راہبر کی ہے۔ تو ایک راہ نما میں جو خوبیاں ہونی چاہییں ان کی ازواج مطہرات کو تلقین کرتا ہے۔ کہ تقویٰ اختیار کرو کسی سے چاپلوسی سے بات نہ کرو، جب بھی کوئی بات کرو تو بھلی بات کرو ، زمانہ جاہلیت کی طرح بازاروں میں اتراتی اور گھومتی نہ پھرو، اپنے گھروں میں جم کر بیٹھو، نماز قائم کرو ، زکوۃ دو اور اللہ رب العزت اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اسلئے کہ

یقینا اللہ یہ ارادہ رکھتا ہے کہ اے اہل بیت تم سے ہر قسم کی گندگی دور کر دے اور تمھیں پورے طور پر پاک کر دے۔ (سورۃ احزاب آیت 33)

یعنی اے اہل بیت اللہ رب العزت تمھیں پورے طور پر پاک کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی جسمانی و روحانی گندگی دور ہو جائے۔
یہ تمام مضمون ازواج مطہرات کے سلسلے میں چل رہا ہے۔ نہ کہ یہاں اہلبیت سے مراد حضرت علی، حضرت فاطمہ اور ان کی اولاد ہے۔ جس کے نتیجے میں ہمارے علماء بھی اس پراپگینڈے سے متاثر ہوئے۔ اور یہ بھی نہ سوچا کہ اہل بیت کے وہی معنی ہیں جو ہماری زبان میں اہلیہ اور اہل خانہ کے ہیں۔ اور بیٹی داماد اور نواسے اہلیہ نہیں ہوا کرتے۔ اور مرد تو اہلیہ بن ہی نہیں سکتے۔
ہمارے علماء نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ ایک طویل آیت کا ٹکڑا ہے اور اس آیت میں خطاب ازواج مطہرات کو کیا گیا ہے تو اس کا دوسروں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ اور ابھی مضمون پورا بھی نہیں ہوا اسلئے آگے ارشاد فرماتے ہیں

تمھارے گھروں میں جو اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ان کا ذکر کرتی رہا کرو۔ (سورہ احزاب آیت 34)

یعنی ایک مقتدا ہونے کی حیثیت سے تمھارا کام کتاب اللہ کی تلاوت اور خیر کی باتیں ہونی چاہیں۔
یہاں بیت کی جمع بیوت کا لفظ ذکر کیا ہے۔ اس سے قبل کی آیت میں بھی جمع کا لفظ ذکر کیا تھا۔

وقرن فی بیوتکن
اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو

یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ان آیات میں جن عورتوں کا ذکر ہے وہ متعدد گھروں میں رہتی تھیں نہ کہ ایک گھر میں۔ اور حضرت علی اور ان کی زوجہ محترمہ یعنی حضرت فاطمہ کا صرف ایک ہی گھر تھا۔ جب کہ نبی کریم کی ہر زوجہ اپنے اپنے گھروں میں جداگانہ رہتی تھیں۔ اور ان سب کو یا نساء النبی کے الفاظ سے مخاطب کر کے سب کو اہل بیت النبی قرار دیا ہے۔ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ تمام مفسرین اس پر تو متفق ہیں کہ اس آیت کا مصداق ازواج مطہرات ہیں لیکن پھر منبر پر چڑھ کر روایات کے ذریعے سبائی پراپگینڈے میں منہمک رہتے ہیں۔ اس کام کے لئے یہ حضرات ایک حدیث کساء (یعنی چادروں والی روایت) پیش کرتے اور اس کے ذریعے قران کی تاویلات کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں قران ثانوی درجہ رکھتا ہے جو اس تاویل کا محتاج ہے۔ لیکن داستاں اور کہانی خواہ کسی طرح بھی ان تک پہنچے یہ اس پر فوراً ایمان لے آتے، اور اس کا چرچا شروع کر دیتے ہیں۔ غالباً اسی لئے امام مسلم نے اپنی صحیح کو اس حدیث سے شروع کیا۔

آدمی کے جھوٹا ہونے کی دلیل کے طور پر یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کرے​

ان کی صورتحال وہی ہے جو اللہ رب العزت نے یہودیوں کی بیان کی ہے۔ ارشاد ہے۔

ان میں کچھ لوگ ان پڑھ ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کتاب میں کیا ہے۔ یہ لوگ تو صرف خیالات کی پیروی کرتے ہیں۔

حالانکہ وہ حدیث کساء ایک منکر روایت ہے۔ انشاء اللہ ہم پھر کسی موقعہ پر اس پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔
یہاں مسئلہ زیر بحث یہ ہے کہ سیدۃ النساء کون ہیں۔ اس جگہ ہم قارئین کے سامنے ایک اور آیت پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے۔

اور تمھارے لئے یہ مناسب نہیں کہ تم رسول اللہ کو ایذا دو، اور نہ ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی نکاح کرو کیونکہ اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے۔

اس آیت میں نبی کریم ؐ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات سے شادی کرنے کی ممانعت کی گئی۔ اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی کہ نکاح ثانی رسول اللہ کی اذیت کا سبب ہو گا۔ لیکن حضور کی صاحبزادیوں کے لئے اللہ نے ایسا کوئی قانون بیان نہیں فرمایا اور نہ صاحبزادیوں سے نکاح میں اذیت رسول ہے۔ بلکہ اگر ان سے نکاح میں اذیت رسول ہوتی تو حضور ان کا کبھی زندگی میں نکاح نہ فرماتے۔
اب حضور کا خود اپنی صاحبزادیوں کا دوسروں سے نکاح کرنا اور اللہ رب العزت کا لوگوں کو منع کرنا کہ آپ کی ازواج سے نکاح نہ کیا جائے اس امر کا ثبوت ہے کہ ازواج مطہرات، صاحبزادیوں کے مقابلے میں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ یہ نکاح ایذا رسول کا سبب ہے۔ اس سے یہ امر خود بخود ثابت ہو گیا کہ ازواج مطہرات کی شان میں گستاخی، ان کی ہتک عزت اور ان کے مقام کو گرانا ایذا رسول کا سبب ہے۔ اور وہ ہر شے حرام ہے جو ایذا رسول کا سبب ہو۔ کیونکہ ارشاد الٰہی ہے ۔

ی
قینا وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں تو ان پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور ان کے لئے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔

لیکن نبی کریم اور ازواج مطہرات کو چھوڑ کر اگر کوئی شخص کسی اور کو اذیت پہنچائے تو بےشک وہ گناہ گار ضرور ہوتا ہے لیکن اس پر اللہ رب العزت کی لعنت نازل نہیں ہوتی۔اسی لئے آگے ارشاد ہے۔

اور وہ لوگ جو مومن مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی برائی کے ایذا پہنچائیں تو انھوں نے بہت بڑا بہتان اور کھلا جھوٹ اٹھایا۔

مومنین و مومنات کے سلسلے میں اللہ رب العزت نے نہ تو لعنت کا ذکر فرمایا ہے اور نہ اس امر کا اظہار فرمایا کہ ان کے لئے عذاب عظیم ہے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ازواج مطہرات کا مقام تمام تر مومنین و مومنات سے بلند و بالا ہے۔
اب اگر کوئی شخص اس فرق کو ختم کرنا چاہے یا ان پر کسی کو فضیلت دے تو وہ رسول اللہ کو ایذا پہنچا رہا ہے اور وہ اللہ رب العزت کی نظروں میں ملعون ہے۔ اور اس سے بڑھ کر کیا ایذا ہو گی کہ اللہ رب العزت نے انھیں ایک بلند مقام عطا فرمایا تھا اور ان کے لئے آیہ تطہیر نازل فرمائی تھی ۔ اب اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آیہ تطہیر میں ازواج مطہرات داخل نہیں ، یا داخل تو ہیں لیکن اور بھی اس مقام میں ان کے ساتھ شریک ہیں۔ وہ شخص رسول اللہ کو بھی اذیت پہنچاتا ہے اور ازواج مطہرات کو بھی۔ اور اللہ رب العزت کی نظروں میں ایسا شخص ملعون ہے۔
اب ازواج مطہرات کی ایک اور فضیلت بھی ملاحظہ ہو۔ ارشاد الٰہی ہے ۔

نبی مومنین کی جانوں کے ان سے بھی زیادہ حقدار ہیں۔ اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ (آیت نمبر 6 سورۃ احزاب)​


یعنی نبی کریمﷺ کا مسلمانوں سے اور مسلمانوں کا جو حضور سے تعلق ہے وہ تمام دیگر تعلقات سے ایک بالا تر اور جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا کاکوئی تعلق اور کوئی رشتہ اس تعلق سے مناسبت نہیں رکھتا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کے درمیان ہے۔ آپ مسلمانوں کے لئے ان کے والدین سے بڑھ کر شفیق اور رحیم اور ان کی ذات سے بھی بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ ان کے بیوی بچے اور ماں باپ انھیں نقصان پہنچا سکتے ہیں انھیں دین سے بے راہ کر سکتے ہیں اور ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں مگر نبی کریمؐ ان کے حق میں صرف وہی بات کریں گے جس میں ان کی دین و دنیا کی فلاح ہو اور جب صورتحال یہ ہے تو مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ اپنی جان و مال ، والدین، اولاد اور تمام دنیا سے زیادہ آپ کو محبوب رکھیں۔
جب نبی کریم ﷺ کو امت پر یہ مرتبہ حاصل ہوا تو آپ کی ازواج کو بھی یہ مرتبہ دیا گیا کہ انھیں پوری امت کی مائیں بنا دیا۔ اس طرح رسول اللہ امت کے باپ اور ازواج مطہرات امت کی مائیں قرار پائیں۔ اس طرح ازواج مطہرات کی اطاعت ، فرمانبرداری، محبت اور تعظیم و تکریم قیامت تک تمام مسلمانوں پر فرض کر دی گئی اور ان کے ساتھ نکاح ماؤں کی طرح حرام کر دیا گیا۔ مسلمانوں ان کے سلسلے میں وہ تمام حقوق لازم ہو گئے جو اولاد پر ماں کے ہوتے ہیں۔
اس طرح تمام صحابہ اور تمام صحابیات امہات المومنین کی اولاد ہوئے۔ اور اولاد پر ماں کی تعظیم و تکریم ، اطاعت و فرمانبرداری اور ان کے حق میں دعائے خیر لازم ہوتی ہے۔ ماں پر اولاد کے لئے یہ امور فرض نہیں ہوتے۔ لہذا حضرت فاطمہ ، حضرت علی اور تمام صحابہ پر از روئے قران امہات المومنین کی تعظیم و تکریم اور اطاعت فرض ہوئی۔ لیکن امہات المومنین پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا۔ اور ماں کا درجہ اولاد سے بڑح کر ہوتا ہے کیونکہ کوئی بیٹی یا کوئی بیٹا ماں کے برابر نہیں ہو سکتا۔ لہذا امہات المومنین کے مقابلے میں یہ دعویٰ کہ حضرت فاطمہ سیدۃ النساء اہل الجنہ ہیں جہاں قران کا صریح تمسخر ہے وہاں اس دعوے سے وہ تمام اصول بھی ختم ہو جاتے ہیں جو اولاد اور ماں کے سلسلے میں قائم کئے گئے ہیں۔ اسی طرح حدیث کساء کو پیش کرکے اولادکو ماؤں کے برابر درجہ دینا یہ سب ازواج مطہرات کی صریح توہین ہے۔
قربان جائیے اس اصل مولٰی کے۔ جس نے دشمنان اسلام کا جواب بھی قران میں پیش کر دیا۔ اسی سورہ احزاب میں ارشاد ہے۔

ان ازواج کے بعد تیرے لئے کوئی اور عورت حلال نہیں اور نہ آپ ان ازواج میں سے کسی کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ خواہ کسی کا حسن آپ کو تعجب میں ڈال دے۔

نبی کریم ﷺ کو ایک مرد اور خاوند ہونے کے ناطے سے یہ حق حاصل تھا کہ آپ اپنی کسی زوجہ کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری عورت سے نکاح کر لیں۔ لیکن اللہ رب العزت کو ان ازواج مطہرات کی ادا ایسی پسند آئی کہ آپ کو مزید نکاح کی ممانعت کر دی گئی اور آپ سے طلاق کا حق بھی سلب کر لیا گیا۔
---------------------(جاری ہے)---------------------​
 

طالوت

محفلین
(آخری حصہ)​

اس موقع پر اہانت رسول کے لئے ایک اور کہانی بھی وضع کی گئی ہے کہ فتح مکہ کے بعد نبی کریمؐ نے ام ہانی کو پیغام نکاح دیا۔ اور انھوں نے بچوں کی موجودگی کا بہانہ کر کے انکار کر دیا۔اگر واقعتا ایسا ہوا تھا اس سے بڑھ کر ام ہانی کی بدقسمتی کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ یہ داستان صرف اسلئے وضع کی گئی ہے کہ آپِؐ نے عالم شباب میں ام ہانی کے لئے ابو طالب کو نکاح کا پیغام دیا تھا اور اس نے حضور کو محتاجی کا طعنہ دے کر انکار کر دیا تھا۔ اس کی لیپا پوتی کے لئے جہاں معراج کی داستان تیار کی گئی وہاں یہ داستان بھی وضع ہوئی۔ حالانکہ آپ اوپر قران کی آیت کا مطالعہ کر چکے ہیں کہ آپ کو مزید نکاح کی اجازت نہیں رہی تھی۔ اور یہ ممانعت عمرۃ القضاء کے بعد جب آپ نے ام المومنین حضرت میمونہ سے نکاح فرمایا تھا نازل ہوئی تھی اور عمر ۃ القضاء 7 ہجری میں واقع ہوا۔ گویا یہ روایت وضع کر کے یہ ثابت کیا جا رہا ہے نبی کریم ﷺ قران پر عمل نہ فرماتے تھے اور اس سے قبل جب آپ کو مزید نکاح کی اجازت حاصل تھی تو وہ بھی ایک شرط کے ساتھ مشروط تھی اور وہ شرط یہ تھی۔

مگر وہ عورت آپ کے ساتھ ہجرت کرے

کہ اس عورت نے ہجرت کی ہو ، اور فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی نہیں رہی تھی۔ اور ام ہانیؓ فتح مکہ کے بعد اسلام لائیں۔ ایسی صورت میں آپ قران کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھیں پیغام نکاح کیسے دے سکتے تھے ؟
یہ ممکن ہے کہ ایسا ہوا ہو کہ ام ہانی نے آپ سے درخواست کی ہو اور آپؐ نے اس سے انکار فرما دیا ہو۔ ۔ امام ترمذی نے اس کہانی کو نقل کر کے لکھا ہے

یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند نہیں جانتے۔

امام قرطبی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ امام ابن العربی کا قول ہے کہ یہ روایت انتہا سے زیادہ ضعیف ہے۔ تفسیر قرطبی جلد 7 صفحہ 5288 اس کا راوی سدی ہے جو مشہور کذاب اور سبائی ہے۔ تو جب تک آپ کے لئے نکاح حلال تھے اس وقت بھی عورت کا مہاجرہ ہونا شرط تھا۔ اور ام ہانی تو کجا بنو ہاشم خاندان کی کوئی عورت بھی مہاجرہ نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی زوجیت میں کوئی ہاشمیہ عورت نہ آ سکی۔ غور فرمائیے کہ نبی ﷺ کی ذات اقدس پر کن کن لطیف پیرایوں میں تبرا کیا جاتا ہے۔ اور کس طرح ان پر سونے کے ورق چڑھائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے تبراء کو سمجھنا ہمارے علماء کے لئے ممکن بھی نہیں۔ یہ تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ پہلے تو وہ روایت پرستی کے مرض سے نجات حاصل کریں ، قران ، رجال ، اصول حدیث ، جرح و تعدیل کا گہری نظر سے مطالع کریں۔ جب تک وہ ان امور کو نہیں اپنائیں گے اس وقت تک قدم قدم پر سبائیت کے جال میں پھنستے رہیں گے۔
یہ تو وہ آیات کریمہ تھیں جن سے تمام ازواج مطہرات کا مقام ظاہر ہوتا تھا۔ اور جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ تمام ازواج مطہرات سیدات النساء ہوں گی۔ لیکن ان تمام میں بھی آخر کسی نہ کسی کو خصوصی مقام حاصل ہو گا۔ درمیان مضمون میں ہم پہلے یہ بیان کر چکے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ کو تمام جہاں کی عورتوں پر فضیلت حاصل ہے اور اسی سلسلہ میں ایک حدیث بھی پیش کر چکے ہیں۔
لیکن ام المومنین سیدہ عائشہ کا سب سے بڑا مقام یہ ہے کہ جب ان پر تہمت لگائی گئی اور مشورہ دینے والوں نے طلاق کے مشورے دئیے تو ان کی براءت میں سورہ نور کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ جو ان کے رتبہ اور فضیلت کا ذکر ہر مومن کی زباں پر جاری رہے گا۔
یہ ام المومنین کی ہی ذات بابرکت ہے کہ جن کی وجہ سے امت پر تیمم کی آسانی پیدا ہوئی۔زنا کی حد نافذ ہوئی۔ حد قذف کا حکم نازل ہوا۔ جن لوگوں نے آپ پر تہمت لگائی تھی قران نے انھیں جھوٹا قرار دیا۔ اور یہ حکم دیا کہ کبھی ان کی شہادت قبول نہ کی جائے۔ اور یہ لوگ فاسق ہیں۔ اس سے یہ اصول سامنے آیا کہ جو شخص ام المومنین کی ذات اقدس پر حرف گیری کرتا ہو وہ مردود الشہادت ہے اور از روئے قران کاذب اور فاسق ہے۔ سبائی اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ لیں۔ لیکن دیکھ کیسے لیں گے انھیں تو سورہ نور کے نام سے بھی چڑ ہے۔وہ تو اہرمن کے پجاری ہیں۔ ان کا نور سے کیا واسطہ۔ اسی لئے محدثین کسی رافضی کی روایت قبول نہیں کرتے کیونکہ روایت حدیث بھی ایک شہادت ہے اور وہ ازروئے قران مردود الشہادت ہیں۔
اللہ رب العزت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کی براءت ظاہر کرتے ہوئے مضمون کے آخر میں ارشاد فرماتے ہیں۔

پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے۔ یہ لوگ عوام کے اخترا سے بےزار ہیں۔ ان کے لئے مغفرت اور عمدہ رزق ہیں۔
(سورہ نور)​

چونکہ نبی کریمؐ روئے زمین پر سب سے پاکیزہ ہستی ہیں اسی لئے اللہ نے آپ کی زوجیت کے لئے ایک پاکیزہ ہستی کو منتخب فرمایا۔ اور یہ بھی اشارتاً بیان کیا کہ پاکدامن مرد کے لئے پاک دامن عورت ہونی چاہیے ، اسی طرح پاک دامن عورت کے لئے پاک دامن مرد۔ آخر میں ارشاد فرماتے ہیں لوج جو بہتان تراشی کر رہے ہیں اس سے حضورؐ اور ان کی زوجہ کی ذات پاک ہے۔ ان حضرات کے لئے مغفرت اور رزق کریم ہے۔


اگرچہ یہ افترا ام المومنین حضرت عائشہ کے لئے تھا لیکن ظاہر ہے کہ اس سے نبی کریمؐ کی ذات پر حرف آتا تھااور آپ کی ذات پر حرف آنے کا مطلب یہ تھا کہ شان رسالت ہی ختم ہو کر رہ جاتی۔اس آیت میں جہاں افتراپردازی کو روکا گیا ہے وہاں نبی کریم ﷺ کو طیب اور ام المومنین حضرت عائشہ کو طیبہ قرار دیا گیا ہے پھر ان کے لئے مغفرت اور رزق کریم کا اعلان کیا گیا ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ کے علاوہ کوئی صحابیہ ایسی نہیں جس کی وجہ سے قران میں آیات نازل ہوئی ہوں۔ دنیا کی تمام عورتوں میں سے صرف دو عورتیں ایسی ہیں جن کی قران نے برات ظاہر کی۔ ایک سیدہ مریم اور ایک سیدہ عائشہ اور دونوں کو قران نے صدیقہ ثابت کیا ہے۔ دونوں پر یہودیوں نے الزام قائم کئے اور آج تک دونوں کے معاملے میں دو فریق روئے زمین پر موجود ہیں۔
ہمارے علماء اگر قران پر غور کریں تو انھیں واضح طور پر یہ نظر آئے گا کہ متعدد ازواج مطہرات کی موجودگی میں لفظ اہل جو واحد کا صیغہ ہے استعمال کر کے ام المومنین ؓ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ مثلاً ارشاد ہے۔

اور جب آپ اپنی بیوی کے پاس سے صبح صبح نکلے اور مسلمانوں کو مورچوں پر بٹھا رہے تھے۔​

مفسرین متفق ہیں کہ یہاں اہل سے مراد ام المومنین سیدہ عائشہ ہیں۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے۔

اور آپ اپنی بیوی کو نماز کا حکم دیجئے اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہیے۔

یہ طریقہ صرف اس لئے اختیار کیا گیا تاکہ سیدہ عائشہ کی فضیلت فوقیت ظاہر کی جائے۔ جس طرح قران میں جگہ جگہ حضور کو مخاطب کیا جاتا ہے اور مراد امت ہوتی ہے اسی طرح اس آیت میں ذکر حضرت عائشہ کا کیا گیا اور مراد تمام ازواج ہوئیں۔
ہم جب کتب احادیث کو دیکھتے ہیں تو کوئی کتاب ایسی نظر نہیں آتی جو ام المومنین کے فضائل سے خالی ہو۔ ان میں سے چند روایات ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تاکہ جو لوگ روایت پرستی کے مرض میں مبتلا ہیں کچھ ان کی تسکین کا سامان بھی مہیا ہو سکے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری کا بیان ہے کہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا مردوں میں تو بہت کامل گزرے ہیں لیکن عورتوں میں دو ہی کامل گزری ہیں۔ مریم بنت عمران اور آسیہ امراۃ فرعون۔ اور عائشہ کو تمام عورتوں پر اسی طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر۔بخاری جلد 1 صفحہ 532 ۔ مسلم جلد 2 صفحہ 284۔ نسائی جلد 2 صفحہ77۔​

اس حدیث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اصل کامل عورتیں تین ہیں اور ان سب میں بڑا مقام حضرت عائشہ کا ہے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں میں نے خود حضور ؐ کو فرماتے سنا ہے کہ عائشہ کو تمام عورتوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر۔ مسلم جلد 2 صفحہ 287۔بخاری جلد 1 صفحہ 523۔ نسائی جلد 2 صفحہ 77۔ ترمذی جلد 2 صفحہ251​

عروۃ بن الزبیر کا بیان ہے کہ نبی کریم مرض الموت میں بھی مختلف ازواج کے پاس ان کی باری کے لحاظ سے جاتے تھے لیکن ہر جگہ یہی سوال فرماتے کہ کل میں کہاں گزاروں گا۔ کل کہاں گزاروں گا۔ کیونکہ آپ عائشہؓ کے گھر جانا چاہتے تھے ۔ حضرت عائشہ فرماتیں ہیں جب میری باری کا دن آیا تو حضور کو سکون و اطمینان حاصل ہو گیا۔ بخاری جلد 1 صفحہ 533 ۔ جلد 2 صفحہ 640۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ہر زوجہ کے یہاں یہی فرماتے کہ میں کل کہاں گزاروں گا تاکہ میری باری جلدی آئے۔ جب میری باری آئی تو اللہ نے میرے سینے اور میرے گلے کے درمیان آپ کی روح قبض فرمائی۔ مسلم جلد 2 صفحہ 286۔ بخاری جلد 2 صفحہ 640۔
گویا اللہ کی رضا یہ تھی کہ کہ نبی کریمؐ اپنے آخری ایام ام المومنین کے پاس گزاریں۔ اسی لئے آپ کی وفات ام المومنین کی باری کے دن ، ان کے گھر میں ، ان کے سینے سے لگ کر ہوئی۔ اور ان کے حجرہ مبارک میں دفن ہوئے۔ یہ ام المومنین کی ایسی صفت ہے جو قیامت تک قائم رہے گی۔ آج دنیا جسے گنبد خضرا سے تعبیر کرتی ہے وہ دراصل حجرہ عائشہ ہے۔
حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ وفات کے وقت رسول اللہ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور میں آپ کو چپٹائے ہوئے تھی اور آپ فرما رہے تھے۔

اے اللہ ، رفیق اعلٰی ، مجھے بلا لیجئے۔

ام المومنین کا یہ بھی بیان ہے کہ صحابہ کرام حضور کی خدمت میں تحائف بھیجتے، جب حضور میرے یہاں مقیم ہوتے۔ اور اس سے ان کی غرض خوشنودی ہوتی تھی۔ مسلم جلد 2 صفحہ 285۔
حتٰی کہ ایک بار بقیہ ازواج مطہرات کو اس کی شکایت پیدا ہوئی۔ انھوں نے حضرت فاطمہؓ کو اپنا وکیل بنا کر حضور کی خدمت میں روانہ کیا۔ ام المومنین فرماتی ہیں اس وقت حضور کے ساتھ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی۔ فاطمہ آئیں اور اجازت طلب کی۔ آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے آپ کی ازواج نے بھیجا ہے وہ آپ سے ابو قحافہؓ(ام المومنین کے دادا) کی بیٹی کے سلسلے میں آپ سے عدل کی طالب ہیں۔
آپ نے فرمایا۔

کیا تو اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں

انھوں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ تو آپ نے فرمایا

تو تو اس سے محبت کر

انھوں نے واپس جا کر ازواج مطہرات کی خدمت میں تمام کیفیت بیان کی۔ انھوں نے اصرار کر کے حضرت فاطمہ کو دوبارہ بھیجنا چاہا تو انھوں نے جواب دیا

اللہ کی قسم میں تو ان کے سلسلہ میں کبھی آپ سے کلام نہ کروں گی۔ مسلم جلد 2 صفحہ 285 ۔ نسائی جلد 2 صفحہ 76 ۔

ازواج مطہرات نے ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کو آگے کیا اور انھیں حضور کی خدمت میں بھیجا۔ انھوں نے جب حضور کے روبرو یہ دعوی پیش کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا۔

اے ام سلمہ مجھے عائشہ کے بارے میں اذیت نہ پہنچا کیونکہ اللہ کی قسم تم میں سے عائشہ کے علاوہ کسی کے لحاف میں میرے پاس وحی نہیں آتی۔
نسائی جلد 2 ص 77 ۔ ترمذی جلد 2 صفحہ 250۔

اسی لئے ام المومنین حضور کی محبوبہ کہلاتی تھیں اور اسی لحاظ سے انکا لقب حب رسول اللہ ہے ۔ لیکن اس حدیث سے چند نئے امور ثابت ہوئے۔
(1) اگر حضور کسی زوجہ کے پاس لیٹے ہوتے تو وحی نہ آتی تھی۔ لیکن حضرت عائشہ کے پاس لیٹے ہوتے تب بھی جبریل وحی لے کر آتے۔ یعنی وہ صرف رسول اللہ کو ہی محبوب نہ تھیں بلکہ اللہ کو بھی محبوب تھیں۔
(2) ام المومنین کے سلسلہ میں کسی قسم کی گفتگو بھی حضور کی ایذا کا سبب تھی۔
(3) حضور نے حضرت فاطمہ کو ام المومنین سے محبت کا حکم دیا۔ جسے حضور اور حضرت فاطمہ سے محبت ہو گی اسے یقینا حضرت عائشہ سے بھی محبت ہونی چاہیے۔


حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ؐ نے ایک دن مجھ سے فرمایا یہ جبریل موجود ہیں اور تمھیں سلام کہہ رہے ہیں۔ ام المومنین نے جواب دیا "و علیہ السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ" یا رسول اللہ آپ وہ چیزیں دیکھتے ہیں جو میں نہیں دیکھ سکتی۔ بخاری جلد 1 صفحہ 532۔ مسلم جلد 2 صفحہ 285۔ ترمذی جلد 2 صفحہ 250۔

حضرت عمرو بن العاص کا بیان ہے کہ نبی کریم نے مجھے غزوہ ذات السلاسل کا امیر بنا کر بھیجا۔ جب میں اس غزوہ سے فتح پا کر واپس آیا تو میں نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ آپ نے فرمایا عائشہ ۔ میں نے عرض کیا میری مراد مردوں سے ہے۔ آپ نے فرمایا عائشہ کا باپ ۔ترمذی جلد 2 صفحہ 250۔
اس کی تائید میں ترمذی نے حضرت انس کی ایک اور حدیث پیش کی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ حضور سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب ہے ؟ آپ نے فرمایا عائشہ ، لوگوں سوال کیا مردوں میں سے سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا اس کا باپ ۔ ترمذی جلد 2 صفحہ 251۔

جب ہم ام المومنین کی علمیت پر نظر ڈالتے ہیں تو کتب احادیث اور کتب تاریخ سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ام المومنین فقہ ، حدیث ، تفسیر ، ادب ، لغت ، تاریخ زمانہ جاہلیت ، علم الانساب اور فن خطابت کی اتنی زبردست ماہرہ تھیں کہ دنیا کی عورتوں میں ان کی نظیر پیش کرنا محال ہے۔ بلکہ چند ایک صحابہ کو چھوڑ کر وہ تمام صحابہ سے بھی زیادہ علمیت رکھتی تھیں۔ امور خانہ سے متعلق تمام مسائل ان ہی کی ذات پر ختم ہوتے ہیں۔ حدیث و فقہ کے بنیادی اصول انھوں نے ہی وضع کئے۔ اور عربی ادب پر ایسے نکات بیان کرتیں کہ بڑے بڑے عرب انگشت بدنداں رہ جاتے۔

حتی کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے بیٹے موسٰی کا بیان ہے کہ میں نے ام المومنین سے زیادہ فصیح گفتگو کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ترمذی جلد 2 صفحہ 251۔

یہ ان کے فن خطابت کا ہی نتیجہ تھا کہ قصاص عثمان کے سلسلہ میں تمام اہل مکہ ان کے ساتھ ہو گئے اور جب بصرہ پہنچیں تو ایک ہی تقریر پر تمام اہل بصرہ ان کے ساتھ ہو گئے تھے۔ اگر آج کل کے سیاست دانوں کی طرح وہ کوئی سیاسی دورہ کر لیتیں تو شاید ہماری تاریخ کا کچھ اور ہی رخ ہوتا۔
ام المومنین کے فضائل کے سلسلے میں اگر تمام احادیث اور تمام تاریخی واقعات پیش کئے جائیں تو اس کے لئے ایک ضخیم جلد درکار ہو گی۔ لہذا ہم صرف ان چند احادیث پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
--------------------------
منتظمین سے گزارش ہے کہ اگر ممکن ہو تو بقیہ مراسلوں کو ترتیب وار اوپر جگہ دے دیں تاکہ مضمون کا تسلسل برقرار رہے ۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
آپ دونوں حضرات جلدی کر گئے ، یوں مضمون کا تسلسل قائم نہیں رہتا۔
شکریہ طالوت بھای، کو شش جاری رکھیے، یہاں تو روایات نے وہ گرد اڑائ ہے کہ اب حقیقت تک رسائ ناممکن کی حد تک مشکل لگنے لگی ہے۔بالآخر ہمیں قرآن کی طرف لوٹنا پڑے گا،
شکریہ علی ۔ ہمارے لئے کوئی اور جائے پناہ ہے بھی تو نہیں ۔
السلام علیکم
محترم طالوت بھائی
جزاک اللہ
اللہ آپ کو حسن نیت کے اجر سے نوازے آمین
حقیقت سرخ رنگ میں روشن ہے ۔
نہ ہمارے بڑھانے سے کسی کا درجہ بڑھے گا نہ گھٹانے سے گھٹے گا ۔
بے شک اللہ ہی حقیقت سے باخبر ہے ۔
نایاب
شکریہ نایاب ۔ درست کہا آپ نے ۔ کوئی کسی کا درجہ کیسے بڑھا سکتا ہے یا گھٹا سکتا ہے ۔ مکمل تحریر اس کا ثبوت ہے۔ سرخیاں ابھی جمنی تھیں اور لیجئے جم گئیں ۔
وسلام
 

علی فاروقی

محفلین
شکریہ طالوت بھای، ایک بات عرض کرنی تھی،آپ نے قرآن کی جن آیات کے حوالے دیئے،ان میں سے کچھ کے ساتھ نمبر آیت نہیں لکھا،گو کہ یہ جانی پہچانی آیات ہیں،مگرجو لوگ باقاعدگی سے قرآن کامطالعہ نہیں کرتے انہیں خاصی مشکل پیش آے گی ،بات کو سمجھنے میں۔
بہر حال جیسے آپ نے بات آگے بڑہای، بہت خوبصورت انداز ہے،اسی طرح سچ کو جھوٹ سے الگ کیا جا سکتا ہے۔اگر ہمارے علماء روایات کو روایات رہنے دیتے تو شاید اتنا مسلہ نہ بنتا،لیکن جب روایات دین کا درجہ حاصل کر لیں تو نتیجہ جہالت کی صورت میں نکلتا ہے۔
 

طالوت

محفلین
جی آپ نے ٹھیک کہا ، یہ دراصل علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی کی تصنیف سے اقتباسات ہیں اور میں ان دنوں اس کتاب کو برقیا رہا ہوں سو جیسے درج تھیں ویسے ہی پیش کر دیں ۔ علاوہ ازیں کچھ جملے حذف بھی کئے ہیں جو قدرے سخت تھے مگر کوشش رہی کہ اصل مدعا بیان ہو جائے ۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
شاندار۔۔۔۔ یاد رہے کہ اسلام کا استون تو قرآن ہے۔ باقی روایات کے بھونچال نے جو اسلام میں دراڑیں‌ڈال دی ہیں، اسکا اب کیا کر سکتے ہیں: :(
 
Top