سید انشاء اللہ خاں انشاء

اوشو

لائبریرین
’’کلہلہ و دمنہ‘‘ ایک بہت مقبول اور مشہور کلاسیکی داستان ہے۔ جس میں دو گیدڑوں کی زبانی نہایت دلچسپ اور سبق آموز قصے بیان کیے گئے ہیں۔ کلہلہ نامی گیدڑ میں ایک بے نیازی اور قناعت تھی، وہ جھوٹ اور فریب سے نفرت کرتا تھا۔ جب کہ دمنہ نہایت چالاک، چاپلوس، خوشامدی اور موقع پرست تھا۔ اور اسی خصوصیت کی بناء پر وہ جنگل کے بادشاہ شیر کے مصاحبوں میں شامل ہوگیا تھا۔ دمنہ کی خواہشوں کو دیکھتے ہوئے کلہلہ اسے نصیحت کرتا ہے کہ بادشاہوں کا مصاحب بننے میں فائدے تو بہت ہیں، لیکن یہ خطرے سے خالی نہیں کیونکہ جب صاحب اقتدار جلال میں آتے ہیں تو ساری چالیں الٹی پڑ جاتی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ’’حاکم کی نہ اگاڑی اچھی نہ پچھاڑی‘‘۔ ’’کلہلہ ودمنہ‘‘ کی کہانیاں پڑھتے ہوئے مجھے نجانے کیوں اردو کے صف اول کے نام ور شاعر سید انشاء اللہ خاں انشاء کا خیال آتا ہے، جن کی دو نثری تصانیف ’’دریائے لطافت‘‘ اور ’’رانی کتہکی کی کہانی‘‘ اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔
بھارت میں کچھ لوگوں نے جن میں سجاد ظہیر بھی شامل تھے ’’سنہرے ورق‘‘ کے نام سے ٹیلی ویژن کے لیے ایک سیریل بنائی تھی جس میں اردو کے کلاسیکی شعراء کی حقیقی زندگی کو ڈرامائی شکل میں پیش کیا گیا تھا۔ یوں تو ہر پروگرام بہت معلوماتی اور منفرد تھا۔ لیکن بطور خاص ولیؔ گجراتی اور انشاء والے دونوں پروگرام اس سلسلے کے بہترین پروگرام کہے جاسکتے ہیں۔ خاص کر انشاء کی حقیقی زندگی بالخصوص آخری عمر کے تکلیف دہ لمحات کو جس سچائی اور خلوص سے فلمایا تھا، اس نے ہر اس آنکھ کو اشکبار کردیا تھا، جو وہ پروگرام دیکھ رہی تھی۔ کتنا بڑا شاعر، محمد حسین آزاد نے ’’آب حیات‘‘ میں اس انسان کا تفصیلی ذکر کیا ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں ’’ایسا طباع اور عالی دماغ انسان ہندوستان میں کم پیدا ہوا ہوگا، وہ اگر علوم میں سے کسی ایک کی طرف متوجہ ہوتے تو صدہا سال تک وحید عصر گنے جاتے، طبیعت ایک ہیولیٰ تھی کہ ہر قسم کی صورت پکڑسکتی تھی‘‘۔
مرشد آباد سے جب دلّی آئے تو دربار سے وابستہ ہوگئے۔ طبیعت میں شوخی اور جولانی دونوں تھیں۔ اس لیے لطائف اور چٹکلے بھی خوب سناتے تھے، غزل، قصیدہ، ہجو سب کے بادشاہ تھے۔ گل افشانی کرکے محفل کو لوٹ پوٹ کردیتے تھے۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ شاہ عالم کو ان کی جدائی گوارا نہ تھی۔ لیکن باوجود، زبان کی طراری، محاوروں اور تراکیب کا بانکپن، طبیعت کی شوخی، زبان پر قدرت اور نئی نئی تراکیب وضع کرنے کے، دلّی والوں نے سید انشاءؔ کو زیادہ منہ نہ لگایا۔ ذہین آدمی تھے بھانپ گئے، آخر دلّی سے جی اچاٹ ہوا، یہ وہ زمانہ تھا جب غلام قادر روہیلہ شاہ عالم کا نقدِ بصارت نکال کر لے گیا تھا۔ سید انشاءؔ لکھنؤ آگئے اور لکھنؤ میں مرزا سلیمان شکوہ کے دربار سے وابستہ ہوکر ان کے کلام پر اصلاح بھی دینے لگے۔ بعد میں نواب سعادت علی خاں نے انشاء کے فضل و کمال کی شہرت سن کر انھیں اپنے دربار سے وابستہ کرلیا اور دونوں ایسے شیروشکر ہوئے کہ نواب کو انشاءؔ کے سوا کسی کی صحبت میں مزہ نہ آتا تھا۔ دربار داری کے ساتھ ہر دم کی مصاحبت تھی اور اسی مصاحبت نے ان کی زندگی ایک عذاب بنا دی اور ہنسی ہنسی میں ایسی مخالفت پیدا ہوگئی کہ دیکھنے والے عبرت پکڑتے تھے۔ ایک چہکتے ہوئے بلبل کو پنجرے میں قید کردیا گیا تھا۔ آزادؔ لکھتے ہیں: ’’ہندوستانی مختلف زبانیں ان کے گھر کی لونڈی ہیں، ابھی پنجاب میں کھڑے ہیں، ابھی پورب میں بیٹھے باتیں کرتے ہیں، ابھی برج بھاشی ہیں، ابھی مرہٹے، ابھی کشمیری، ابھی افغان، سب زبانوں میں کچھ نہ کچھ کہا ہے‘‘۔ لیکن ایسے صاحب کمال کو مصاحبت اور زودگوئی لے ڈوبی۔
اور وہ کہاوت سچ ہوگئی کہ حاکم کی اگاڑی اور پچھاڑی دونوں خطرناک ہوتی ہیں۔ نہال ہوئے تو موتی لٹادیے، خزانے بخش دیے اور ناراض ہوئے تو پھانسی پہ لٹکوا دیا، انشاءؔ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ایک دن نواب سعادت علی خاں کے دربار میں محفل سجی تھی، انشاء بلبل کی طرح چہک رہے تھے اور نواب صاحب کے ساتھ ساتھ اہل محفل بھی خوب لطف اندوز ہو رہے تھے، بعض خاندانی شرفاء کے شرافت ونجابت کے تذکرے ہو رہے تھے۔ سعادت علی خاں نے کہا کیوں بھئی! ہم بھی نجیب الطرفین ہیں؟ اب اسے تقدیر کہا جائے یا زودگوئی کا نتیجہ کہ انشاءؔ بول اٹھے۔ حضور نجیب الطرفین نہیں بلکہ انجب۔۔۔۔! بس غضب ہوگیا، کیونکہ سعادت علی خاں ایک لونڈی کے بطن سے تھے اور ’’انجب‘‘ کے دو معنی ہوتے ہیں۔ ایک لونڈی زادے کے اور دوسرے جو ماں باپ اور خاندان ہر طرف سے اس کا نسب اعلیٰ ہو۔ سعادت علی خاں چونکہ لونڈی کے بطن سے تھے اس لیے انھوں نے سمجھا کہ سید انشاء نے ان پر چوٹ کی ہے۔ جب کہ ان کا یہ مطلب نہ تھا۔ لیکن اسی دن سے سعادت علی خاں نے دل میں کینہ پال لیا۔ اور موقع تلاش کرنے لگے کہ کسی طرح انشاء کو زچ کیا جائے۔ اب نواب کے انداز بدلنے لگے۔ انشاء نے بہتیرا چاہا کہ ان کے دل سے یہ کانٹا نکل جائے ، لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے۔
ایک دن پھر اسی زود گوئی کے سبب انشاء نے خود اپنی بربادی کا سامان مہیا کردیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن انشاءؔ نے نواب کو ایک بہت بھڑکتا ہوا لطیفہ سنایا۔ نواب نے کہا۔ انشاءؔ جب کہتا ہے ایسی ہی بات کہتا ہے کہ نہ دیکھی ہو نہ سنی ہو۔ انشاء جذبات میں آکر بولے۔ حضور کے اقبال سے قیامت تک ایسے ہی کہے جاؤں گا کہ نہ دیکھی ہو نہ سنی ہو۔ نواب تو تاک میں تھے فوراً بولے، بس زیادہ نہیں فقط دو لطیفے روز سنادیا کیجیے۔ مگر شرط یہی ہے کہ نہ دیکھے ہوں نہ سنے ہوں۔ نہیں تو خیر نہ ہوگی۔ انشاء سمجھ گئے کہ یہ انداز کچھ اور ہیں۔ اس دن سے بازاروں میں پاگلوں کی طرح پھرتے تھے اور ایک ایک سے کہتے تھے کہ کوئی نیا لطیفہ سنادو۔ پھر ’’مرے پہ سو درّے‘‘ یہ ہوا کہ ایک دن نواب نے انھیں بلوایا مگر یہ کہیں اور گئے ہوئے تھے۔ نواب کو جب پتہ چلا کہ وہ کسی اور امیر کے ہاں گئے تھے تو فوراً بلوایا اور حکم دیا کہ ہمارے علاوہ کسی اور کے ہاں مت جایا کرو۔ اور ان کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی۔ اسی دوران انشاءؔ کا جوان بیٹا مرگیا۔ اس صدمے سے حواس مختل ہوگئے۔
پھر نواب نے ان کی تنخواہ بھی بند کردی۔ نواب سعادت یار خاں رنگین انشاء کے جگری یار تھے۔ آزاد نے ان کے حوالے سے انشاءؔ کے کئی دلخراش واقعات نقل کیے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ رنگینؔ لکھنؤ میں ایک سرائے میں ٹھہرے تو معلوم ہوا کہ قریب ہی مشاعرہ ہورہا ہے، یہ بھی جاکر شریک ہوگئے۔ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے، مشاعرہ شروع نہیں ہوا تھا کہ دیکھا ایک شخص میلی کچیلی روئی کی مرزئی پہنے آیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا اور پوچھا کہ مشاعرہ شروع کیوں نہیں ہوا؟ تو لوگوں نے کہا ابھی لوگ اور جمع ہوجائیں تو شروع ہوگا۔ وہ بولے صاحب ہم تو اپنی غزل پڑھے دیتے ہیں یہ کہہ کر غزل نکالی اور کاغذ پر دیکھ کر پڑھنی شروع کردی۔
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
یہ مشہور غزل پڑھ کر کاغذ پھینک کر سلام کرکے چلے گئے، مگر زمین و آسمان میں سناٹا ہوگیا کہ مقطع سے پتہ چلا کہ یہ سید انشاء تھے۔
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاءؔ
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
رنگینؔ نے بھی غزل سن کر انھیں پہچانا۔ حال معلوم کیا تو بہت دکھی ہوئے۔ پھر آخری بار جب ان کے گھر گئے تو دیکھا جس دروازے پر ہاتھ جھولتے وہاں خاک اڑ رہی ہے اور کتّے لوٹ رہے ہیں۔ رنگینؔ اندر گئے تو ان کی بیوی نے بتایا کہ ان کی عجب حالت ہے۔ دیکھا تو ایک کونے میں بیٹھے ہیں۔ سرزانو پر رکھا ہے، آگے راکھ کا ڈھیر تھا۔ ایک ٹوٹا ہوا حقہ پاس رکھا تھا۔ کہاں وہ شان و شوکت، کہاں یہ حالت جو دیکھی نہ جاتی تھی۔ رنگینؔ دیر تک دوست کی حالت دیکھ کر روتے رہے اور پوچھا: ’’انشاءؔ! کیا حال ہے؟ ‘‘ انھوں نے زانو پر سے سر اٹھایا اور بولے ’’ٹھیک ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر دوبارہ سرزانو پر رکھ لیا اور پھر کبھی نہ اٹھایا۔
اتنا قادر الکلام شاعر جس نے ہر صنف سخن میں لاتعداد شعر کہے، دوغزلہ اور سہ غزلہ کیا۔ نواب سعادت علی خاں کی مصاحبت اسے برباد کرگئی۔ انشاء اللہ خاں انشاءؔ کی شاعری اور قابلیت کو نواب کی مصاحبت لے ڈوبی۔ شاید داناؤں کا کہنا صحیح ہے کہ زیادہ بولنا مصیبت کو دعوت دیتا ہے۔ اور بے سوچے سمجھے بولنا زندگی عذاب بنا دیتا ہے۔ کہتے ہیں پانی ہمیشہ نشیب میں مرتا ہے۔ اسی لیے نواب نے ’’انجب‘‘ کے معنی وہ لیے جن کا خیال بھی انشاء کو نہ تھا، لیکن چونکہ وہ حرم کے پیٹ سے تھے اس لیے انھوں نے ’’انجب‘‘ کے وہی معنی لیے جو ان کی اصل تھے۔ تاریخ میں اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جب لیاقت و قابلیت کو اہل اقتدار کی صحبت و قربت لے ڈوبی، لیکن آج بھی بڑے بڑے دانشور، اہل اقتدار کے لیے قصیدے لکھتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔ ایوب خاں سے لے کر زرداری تک سب کو ہی ان کے حصے کے قصیدہ خواں ملے۔ مگر خدا نہ کرے کہ کسی کا حشر انشاء اللہ خاں انشاءؔ جیسا عبرتناک ہو۔

بشکریہ : رئیس فاطمہ۔ دریچے (روزنامہ ایکسپریس)
 
Top