مغزل
محفلین
سید انور جاوید ہاشمی کی ایک غزل جو انہوں نے ایک حادثے میں مفلوج ہونے بعد کہی ۔۔۔ (اب الحمد للہ روبہ صحت ہیں بغیر بیساکھیوں کے بھی چل لیتے ہیں ) واضح رہے کہ ہاشمی صاحب اس بزم کے رکن بھی ہیں ۔۔ مگر حاضری ۔۔ نہ ہونے کے برابر ہے۔۔ یہ غزل اسی کیفیت کی آئنہ دار ہے ۔۔۔ باقی آپ ملاحظہ کیجئے۔
دکھ جو میں نے سمیٹا وہ سمٹا کہاں
کیا س۔میٹے کوئی پھی۔ل۔تا آس۔۔م۔اں
حادثہ بے سب۔۔ب تھ۔ا کہ یہ ناگ۔ہاں
آگئیں ہاتھ میں میرے بی۔ساکھیاں
ایک پل میں یہ کایا پ۔لٹ ہوگئی
کتنی مشکل سے بنتی رہی ساکھ یاں
کیسا دنیا کمانے میں مشغول تھا
دیکھتی ہی رہی مجھ کو کروبیاں
زندگی اپنے ڈھب سے گزرتی رہی
زندگی ایک ہی ڈھب پہ رہتی کہاں
خواب دیکھا تو جیسے گنوائیں سبھی
چاہتیں، خواہشیں، رنج ، مجبوریاں
کتنے آنسو کہ نکلے نہیں قلب سے
آبسیں آنکھ میں کتنی تنہائیاں
وقت کٹتا نہیں قیدِ تنہائی میں
ہوگئیں جیسے یکساں بہار و خزاں
ماحصل عشق کا میں نے جانا اسے
دل کو بخشی گئیں جتنی رسوائیاں
رزق کے باب میں یہ سہارا بنے
کام آتے رہے میرے حرف و بیاں
اک شکایت کا دفتر کھلا رہ گیا
اک ندامت نے کھلنے نہیں دی زباں
سید انور جاوید ہاشمی
اردو لغت بورڈ کراچی
دکھ جو میں نے سمیٹا وہ سمٹا کہاں
کیا س۔میٹے کوئی پھی۔ل۔تا آس۔۔م۔اں
حادثہ بے سب۔۔ب تھ۔ا کہ یہ ناگ۔ہاں
آگئیں ہاتھ میں میرے بی۔ساکھیاں
ایک پل میں یہ کایا پ۔لٹ ہوگئی
کتنی مشکل سے بنتی رہی ساکھ یاں
کیسا دنیا کمانے میں مشغول تھا
دیکھتی ہی رہی مجھ کو کروبیاں
زندگی اپنے ڈھب سے گزرتی رہی
زندگی ایک ہی ڈھب پہ رہتی کہاں
خواب دیکھا تو جیسے گنوائیں سبھی
چاہتیں، خواہشیں، رنج ، مجبوریاں
کتنے آنسو کہ نکلے نہیں قلب سے
آبسیں آنکھ میں کتنی تنہائیاں
وقت کٹتا نہیں قیدِ تنہائی میں
ہوگئیں جیسے یکساں بہار و خزاں
ماحصل عشق کا میں نے جانا اسے
دل کو بخشی گئیں جتنی رسوائیاں
رزق کے باب میں یہ سہارا بنے
کام آتے رہے میرے حرف و بیاں
اک شکایت کا دفتر کھلا رہ گیا
اک ندامت نے کھلنے نہیں دی زباں
سید انور جاوید ہاشمی
اردو لغت بورڈ کراچی