نیرنگ خیال
لائبریرین
سید عاطف علی بھائی ہمارے بہت محترم اور عزیز احباب میں سے ایک ہیں۔ آپ محفل کے معروف رکن، ادیب اور شاعر ہیں۔ کئی ایک موضوعات پر دسترس رکھتے ہیں اور بلا جھجک اپنا مدعا بیان کرنے کی شناخت بھی آپ ہی سے خاص ہے۔ چونکہ آپ کے اندر ایک شاعر موجود ہے، جو بہار، خزاں ، گرمی، سردی، مجلس اور تنہائی میں دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے موضوعات موسم کی مناسبت سے مغموم و رنگیں ہوجاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کو ایسی باتیں سات پردوں میں کرنے کا ہنر آتا ہے، جو ہم جیسی کج سخن شخصیات کے لیے قابل رشک ہے۔ موجودہ دور میں جب ہر شخص اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود ہوگیا ہے، وجودی طور پر تو حضرت بھی محدود ہوگئے لیکن طائر تخیل کی بلند پروازی اس قدر بڑھی کہ خود فرماتے ہیں،
"ہوگئے گو شکستہ مرے بال و پر ۔۔۔۔ آسماں کو ملی ان سے رفعت مگر"
چند ایک رمز شناسوں نے میرے ذہن میں یہ خیال ڈالنے کی کوشش کی کہ یہاں آسماں بروزن ایک معروف "نام" ہے۔ میں نے ایک بار عاطف بھائی کو دیکھا اور پھر ایسے خیالات سننے سے انکار کر دیا۔ واللہ میری شرافت کے صدقے جائیے۔ لیکن کیا کیجیے صاحب! میں جتنا ان کی شرافت کے گن گاتا ہوں، اتنا یہ حضرت شوخ و چنچل ہوئے جاتے ہیں۔ خود ہی بتائیے کہ اس وقت جب ہر شخص اپنی چار دیواری تک محدود ہوچکا ہے۔ یہ حضرت اس قید میں بھی "کچھ تازہ واردات" کا اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور وجہ کیا بتا رہے ہیں، کہ جی مجھے تنہا رہنے پر مجبور کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں یہ "تازہ واردات" مجھے کرنا پڑی۔ اللہ اللہ۔ میاں اب مجھ سے نہ کچھ بولا جائے گا۔ میں یہی کیوں گا کہ جھٹک دو اپنے ذہن سے سب الٹے سیدھے خیالات۔ اگر تم سورج کو مشرق سے بھی نکال لاؤ گے تو میں وہ بات نہ مانوں گا جو تم سوچ رہے ہو۔
ان کی اس تازہ واردات کے کچھ اشعار مجھے سمجھ میں آئے۔ سو اپنی سمجھ کے مطابق آپ کی خدمت میں مدعا پیش ہے۔
مدت ہوئی اک حشر سا عالم میں بپا ہے
اور سامنے انساں ہے جو لاچار کھڑا ہے
ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ بات کرنا فن ہے۔ کچھ لوگ سخت سے سخت بات بھی ایسے پیار سے کہتے ہیں کہ رشک آتا ہے ۔ حالات کے دھارے میں اپنی حالت زار یوں بیان کرنا کہ کسی کی توجہ آپ کی طرف نہ جائے اور لوگ اس کو عمومی حالات و واقعات کا ہی بیان سمجھیں، میرے خیال میں گفتگو کی معراج ہے۔ یہ شعر بھی اسی معراج کا عکس ہے۔ شاعر جو کئی ہفتوں سے گھر میں مقید ہے۔ وزارت گھریلو امور کی باتوں سے اوازار اور بچوں کے ہاتھوں خوار، جبکہ پاتا نہیں کوئی راہ فرار۔ دلیری کا یارا بھی ہےلیکن ساتھ ہی ساتھ ایک خوف نے بھی گھیر رکھا ہے کہ اگر شکوہ کروں تو بےموت ہی نہ مارا جاؤں، سو اپنی بات دنیا کے کاندھے پر رکھ کر کہہ رہا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ "عالم" کا تعین ہر شخص کے لیے مختلف ہے۔ بظاہر عمومی دکھائی دینے والی یہ رمز اپنے اندر کس قدر خصوصی معنویت رکھتی ہے اس کا اندازہ سبھی صاحب علم رکھتے ہیں۔ شاعر نے بھی یہاں دوہری معنویت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمومی لفظ کو خصوصیت سے استعمال کیا ہے۔ اور اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "اور سامنے انساں ہے جو لاچار کھڑا ہے"۔ سنا ہے وزارت گھریلو امور نے جب شعر سنانے وقت اپنی ہی طرف حسرت سے دیکھتے شاعر کو رنگے ہاتھوں پکڑا تو شاعر نے پتلی گلی پکڑتے ہوئے کہا۔ "اللہ کی بندی! تم مجھے انسان سمجھتی کب ہو"۔
زنجیر نہیں پاؤں میں محبوس ہے پھر بھی
یارب وہ خطا کیا ہے کہ جس کی یہ سزا ہے
کہتے ہیں کہ چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال شعرا کی بھی ہے۔ ایک شعر پر پٹتے پٹتے بچیں گے لیکن کچھ دور جا کر ویسا ہی ملتا جلتا شعر دوبارہ پڑھ دیں گے۔ ایک حسرت سے کھڑکی سے باہر سونی اور ویران سڑک کو دیکھتے ہیں۔ محوپرواز پرندے اس نگاہ حسرت کو باقاعدہ کرب میں بدلتے ہیں۔ اڑتے پرندے، بادل، ہوا ، سنسان سڑک اور کھڑکی سے جھانکتا ہوا شاعر۔ یہ منظر خود میں اتنا مکمل ہے کہ اس پر شعر کہا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کوئی دوسرا شاعر یہ منظر دیکھ نہیں رہا۔ شاعر اپنے ماضی میں کھو گیا ہے۔ لیکن یادوں کی تلاشی لینے پر بھی کوئی ایسا جرم یادوں کی بیاض سے مل نہیں پاتا۔ جو چند ایک یاد آتے ہیں ان کو شاعر یہ کہہ کر ذہن سے جھٹک دیتا ہے نہیں ان کی اتنی بڑی سزا نہیں ہو سکتی۔ آخر جب اپنے ذہنی وسائل کے ممکنہ استعمال کے بعد بھی کوئی وجہ تلاش نہیں کر پاتا تو آسمان کی طرف ایک نگاہ بےبسی سے دیکھتا ہے۔ اور مالک کون و مکان کو پکار اٹھتا ہے کہ مولا! کیایہی وہ دن تھے جس کے لیے "الست بربکم" کا وعدہ لیا تھا۔
گھر گھر جو ہوا صورت زندان ، قرنطین
اندوہِ فراواں کا اک انبار لگا ہے
انہی حسرتوں میں ڈوبے شاعر کا لہجہ بےباک ہوتا چلا گیا ۔ لیکن مصلحت کا دامن نہیں چھوٹا۔ سو جز و کو کُل پر لاگو کرتے ہوئے زمانے کا احاطہ کیا۔" غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار" کو نعمت خداوندی سمجھتے ہوئے سب کی طرف غائبانہ اشارہ کیا۔ بعض اشارات کے مطابق یہ شعر شاعر کی اپنے ایک اور شاعر دوست سے مواصلاتی بات چیت کے بعد شعر کی صورت ڈھلا۔اس لمحے تو شاعر کی آنکھوں میں تقریبا اصلی آنسو آگئے جب ان کے دوست نے کہا کہ تھوڑی بہت مشقت سے گھر میں دو وقت کی روٹی مل رہی ہے۔ شاعر نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کرنے کے بعد بیچارگی سے ان کاموں کی طرف توجہ کی جو پس منظر میں ان کو بتائے گئے تھے۔ گھر میں ہلکی آواز میں نصرت کا گیت چل رہا تھا۔۔۔ اک تم ہی نہیں جسے دیکھو یہاں۔۔۔۔۔
اے کاشفِ غم کھول دے یہ بند وگرنہ
اٹھے گا نہیں سر جو یہ سجدے میں پڑا ہے
بحثیت مسلمان میں اپنی جس عادت پر فدا ہوں وہ رحمت خداوندی پر یقین ہے۔ مجھے یاد ہے کہ چھوٹے ہوتے رمضان میں پانچ وقت کے نمازی ہوجایا کرتے تھے تو اماں فرماتی تھیں کہ آج کل فصلی بٹیروں کا موسم ہے۔ نیکیوں کے دفتر بھرے جا رہے ہیں۔ یہ فصلی بٹیروں کا موسم مجھ پر عموما کسی مشکل میں اور خصوصا امتحانات کے دنوں میں طاری رہتا تھا۔ اللہ سے دعائیں چل رہی ہیں۔ وعدوں پر وعدے کیے جا رہےہیں، ایک بار اللہ! ایک بار۔۔۔ بس پھر دیکھیو لوگ ایک دعا کے لیے قطار بنوایا کریں گے۔ ایسا نیک ہوجاؤں گا، ایسا نیک ہو جاؤں گا! کہ تاریخ انسانی سے مثال نہ ملے گی۔ اور ابھی تک تاریخ انسانی کو مثال نہیں ملی کیوں کہ میں نے موقع ہی نہیں دیا۔ باوجود اس کے کہ میں اس کیفیت سے بخوبی آشنا ہوں، ایسے خوبصورت انداز میں اس بات کو شعر میں کہنے سے یکسر قاصر تھا اور ہوں۔ واللہ شاعر یہاں سبھی کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ فصلی بٹیروں پاس تو پھر دو سجدے رہتے تھے کہ اللہ میاں دیکھ بندہ گناہگار یہاں کھڑا ہے۔ لیکن شاعر کو کیا کہیے کہ ادھر بھی غزل کروا گئے۔ اللہ اللہ۔۔۔۔
آشفتہ ؤ پژمردہ ؤ آزردہ ہے عاطف
یہ بیکس و بیچارے کی مجبور صدا ہے
جو لوگ قیدیوں سے واقف ہوں یا قیدیوں کے حالات پڑھتے رہے ہوں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ قید زنداں اگرچہ مشکل ہے لیکن عموما قیدی اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں، یا پھر وہ نئے دوست بنا لیتے ہیں۔ مشکلات آتی ہیں لیکن وقت گزر ہی جاتا ہے۔ لیکن ہائے اس مجبوری کو کیا کہیے کہ انسان گھر میں ہی قید ہے اور جیلر ہی سے دوستی کرنی ہے۔ جائیے تو کہاں جائیے۔ ہمارے ہاں ایک رواج ہے کہ اگر اپنی بات میں وزن پیدا کرنا ہو تو ہم کہتے ہیں کہ میری شکل دیکھو! کیا میں ایسا کر سکتا ہوں؟ کیا میں ایسا ہو سکتا ہوں؟ یا پھر میں فلاں و فلاں معاملے یا مفاہمت کی وجہ سے مجبور تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ مقصد اس انداز کا یہ ہوتا ہے کہ مدعی کے شبے کو استفہام میں بدل کر اسی کے کاندھے پر دوبارہ لٹکا دیا جائے کہ تم بتاؤ کہ ایسا ممکن ہے؟ اور وہ اپنی مروت و رواداری کے ہاتھوں مجبور ہو کر آپ کی بات ماننے یا سمجھنے کے لیے تیار ہوجائے۔شاعر نے مقطع میں اسی وطیرے کو اپنایا ہے۔ تمام تر غزل میں اپنے مسائل انجانے گناہوں کے سر لگا کر اپنی حالت زار بیان کر کے رحم کی درخواست دائر کی ہے۔منظر ایسا کھینچا ہے کہ تمام قصہ غم سننے کے بعد شاعر پوچھے کہ اگر دنیا میں کوئی مجبور، بیکس ، آزردہ اور حالات کا مارا آپ ہی بتائیے کہ کون ہے؟ تو ماسوائے شاعر کا نام لینے کے اور کوئی راہ نہ بچے۔ بھلا اس کی بھی بات اب خدا نہ سنے گا۔ کیا کہنے۔ اس بےدھڑک انداز پر فدا ہوجانے کو جی چاہتا ہے۔
از قلم نیرنگ خیال
۸ اپریل ۲۰۲۱
"ہوگئے گو شکستہ مرے بال و پر ۔۔۔۔ آسماں کو ملی ان سے رفعت مگر"
چند ایک رمز شناسوں نے میرے ذہن میں یہ خیال ڈالنے کی کوشش کی کہ یہاں آسماں بروزن ایک معروف "نام" ہے۔ میں نے ایک بار عاطف بھائی کو دیکھا اور پھر ایسے خیالات سننے سے انکار کر دیا۔ واللہ میری شرافت کے صدقے جائیے۔ لیکن کیا کیجیے صاحب! میں جتنا ان کی شرافت کے گن گاتا ہوں، اتنا یہ حضرت شوخ و چنچل ہوئے جاتے ہیں۔ خود ہی بتائیے کہ اس وقت جب ہر شخص اپنی چار دیواری تک محدود ہوچکا ہے۔ یہ حضرت اس قید میں بھی "کچھ تازہ واردات" کا اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور وجہ کیا بتا رہے ہیں، کہ جی مجھے تنہا رہنے پر مجبور کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں یہ "تازہ واردات" مجھے کرنا پڑی۔ اللہ اللہ۔ میاں اب مجھ سے نہ کچھ بولا جائے گا۔ میں یہی کیوں گا کہ جھٹک دو اپنے ذہن سے سب الٹے سیدھے خیالات۔ اگر تم سورج کو مشرق سے بھی نکال لاؤ گے تو میں وہ بات نہ مانوں گا جو تم سوچ رہے ہو۔
ان کی اس تازہ واردات کے کچھ اشعار مجھے سمجھ میں آئے۔ سو اپنی سمجھ کے مطابق آپ کی خدمت میں مدعا پیش ہے۔
مدت ہوئی اک حشر سا عالم میں بپا ہے
اور سامنے انساں ہے جو لاچار کھڑا ہے
ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ بات کرنا فن ہے۔ کچھ لوگ سخت سے سخت بات بھی ایسے پیار سے کہتے ہیں کہ رشک آتا ہے ۔ حالات کے دھارے میں اپنی حالت زار یوں بیان کرنا کہ کسی کی توجہ آپ کی طرف نہ جائے اور لوگ اس کو عمومی حالات و واقعات کا ہی بیان سمجھیں، میرے خیال میں گفتگو کی معراج ہے۔ یہ شعر بھی اسی معراج کا عکس ہے۔ شاعر جو کئی ہفتوں سے گھر میں مقید ہے۔ وزارت گھریلو امور کی باتوں سے اوازار اور بچوں کے ہاتھوں خوار، جبکہ پاتا نہیں کوئی راہ فرار۔ دلیری کا یارا بھی ہےلیکن ساتھ ہی ساتھ ایک خوف نے بھی گھیر رکھا ہے کہ اگر شکوہ کروں تو بےموت ہی نہ مارا جاؤں، سو اپنی بات دنیا کے کاندھے پر رکھ کر کہہ رہا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ "عالم" کا تعین ہر شخص کے لیے مختلف ہے۔ بظاہر عمومی دکھائی دینے والی یہ رمز اپنے اندر کس قدر خصوصی معنویت رکھتی ہے اس کا اندازہ سبھی صاحب علم رکھتے ہیں۔ شاعر نے بھی یہاں دوہری معنویت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمومی لفظ کو خصوصیت سے استعمال کیا ہے۔ اور اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "اور سامنے انساں ہے جو لاچار کھڑا ہے"۔ سنا ہے وزارت گھریلو امور نے جب شعر سنانے وقت اپنی ہی طرف حسرت سے دیکھتے شاعر کو رنگے ہاتھوں پکڑا تو شاعر نے پتلی گلی پکڑتے ہوئے کہا۔ "اللہ کی بندی! تم مجھے انسان سمجھتی کب ہو"۔
زنجیر نہیں پاؤں میں محبوس ہے پھر بھی
یارب وہ خطا کیا ہے کہ جس کی یہ سزا ہے
کہتے ہیں کہ چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال شعرا کی بھی ہے۔ ایک شعر پر پٹتے پٹتے بچیں گے لیکن کچھ دور جا کر ویسا ہی ملتا جلتا شعر دوبارہ پڑھ دیں گے۔ ایک حسرت سے کھڑکی سے باہر سونی اور ویران سڑک کو دیکھتے ہیں۔ محوپرواز پرندے اس نگاہ حسرت کو باقاعدہ کرب میں بدلتے ہیں۔ اڑتے پرندے، بادل، ہوا ، سنسان سڑک اور کھڑکی سے جھانکتا ہوا شاعر۔ یہ منظر خود میں اتنا مکمل ہے کہ اس پر شعر کہا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کوئی دوسرا شاعر یہ منظر دیکھ نہیں رہا۔ شاعر اپنے ماضی میں کھو گیا ہے۔ لیکن یادوں کی تلاشی لینے پر بھی کوئی ایسا جرم یادوں کی بیاض سے مل نہیں پاتا۔ جو چند ایک یاد آتے ہیں ان کو شاعر یہ کہہ کر ذہن سے جھٹک دیتا ہے نہیں ان کی اتنی بڑی سزا نہیں ہو سکتی۔ آخر جب اپنے ذہنی وسائل کے ممکنہ استعمال کے بعد بھی کوئی وجہ تلاش نہیں کر پاتا تو آسمان کی طرف ایک نگاہ بےبسی سے دیکھتا ہے۔ اور مالک کون و مکان کو پکار اٹھتا ہے کہ مولا! کیایہی وہ دن تھے جس کے لیے "الست بربکم" کا وعدہ لیا تھا۔
گھر گھر جو ہوا صورت زندان ، قرنطین
اندوہِ فراواں کا اک انبار لگا ہے
انہی حسرتوں میں ڈوبے شاعر کا لہجہ بےباک ہوتا چلا گیا ۔ لیکن مصلحت کا دامن نہیں چھوٹا۔ سو جز و کو کُل پر لاگو کرتے ہوئے زمانے کا احاطہ کیا۔" غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار" کو نعمت خداوندی سمجھتے ہوئے سب کی طرف غائبانہ اشارہ کیا۔ بعض اشارات کے مطابق یہ شعر شاعر کی اپنے ایک اور شاعر دوست سے مواصلاتی بات چیت کے بعد شعر کی صورت ڈھلا۔اس لمحے تو شاعر کی آنکھوں میں تقریبا اصلی آنسو آگئے جب ان کے دوست نے کہا کہ تھوڑی بہت مشقت سے گھر میں دو وقت کی روٹی مل رہی ہے۔ شاعر نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کرنے کے بعد بیچارگی سے ان کاموں کی طرف توجہ کی جو پس منظر میں ان کو بتائے گئے تھے۔ گھر میں ہلکی آواز میں نصرت کا گیت چل رہا تھا۔۔۔ اک تم ہی نہیں جسے دیکھو یہاں۔۔۔۔۔
اے کاشفِ غم کھول دے یہ بند وگرنہ
اٹھے گا نہیں سر جو یہ سجدے میں پڑا ہے
بحثیت مسلمان میں اپنی جس عادت پر فدا ہوں وہ رحمت خداوندی پر یقین ہے۔ مجھے یاد ہے کہ چھوٹے ہوتے رمضان میں پانچ وقت کے نمازی ہوجایا کرتے تھے تو اماں فرماتی تھیں کہ آج کل فصلی بٹیروں کا موسم ہے۔ نیکیوں کے دفتر بھرے جا رہے ہیں۔ یہ فصلی بٹیروں کا موسم مجھ پر عموما کسی مشکل میں اور خصوصا امتحانات کے دنوں میں طاری رہتا تھا۔ اللہ سے دعائیں چل رہی ہیں۔ وعدوں پر وعدے کیے جا رہےہیں، ایک بار اللہ! ایک بار۔۔۔ بس پھر دیکھیو لوگ ایک دعا کے لیے قطار بنوایا کریں گے۔ ایسا نیک ہوجاؤں گا، ایسا نیک ہو جاؤں گا! کہ تاریخ انسانی سے مثال نہ ملے گی۔ اور ابھی تک تاریخ انسانی کو مثال نہیں ملی کیوں کہ میں نے موقع ہی نہیں دیا۔ باوجود اس کے کہ میں اس کیفیت سے بخوبی آشنا ہوں، ایسے خوبصورت انداز میں اس بات کو شعر میں کہنے سے یکسر قاصر تھا اور ہوں۔ واللہ شاعر یہاں سبھی کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ فصلی بٹیروں پاس تو پھر دو سجدے رہتے تھے کہ اللہ میاں دیکھ بندہ گناہگار یہاں کھڑا ہے۔ لیکن شاعر کو کیا کہیے کہ ادھر بھی غزل کروا گئے۔ اللہ اللہ۔۔۔۔
آشفتہ ؤ پژمردہ ؤ آزردہ ہے عاطف
یہ بیکس و بیچارے کی مجبور صدا ہے
جو لوگ قیدیوں سے واقف ہوں یا قیدیوں کے حالات پڑھتے رہے ہوں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ قید زنداں اگرچہ مشکل ہے لیکن عموما قیدی اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں، یا پھر وہ نئے دوست بنا لیتے ہیں۔ مشکلات آتی ہیں لیکن وقت گزر ہی جاتا ہے۔ لیکن ہائے اس مجبوری کو کیا کہیے کہ انسان گھر میں ہی قید ہے اور جیلر ہی سے دوستی کرنی ہے۔ جائیے تو کہاں جائیے۔ ہمارے ہاں ایک رواج ہے کہ اگر اپنی بات میں وزن پیدا کرنا ہو تو ہم کہتے ہیں کہ میری شکل دیکھو! کیا میں ایسا کر سکتا ہوں؟ کیا میں ایسا ہو سکتا ہوں؟ یا پھر میں فلاں و فلاں معاملے یا مفاہمت کی وجہ سے مجبور تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ مقصد اس انداز کا یہ ہوتا ہے کہ مدعی کے شبے کو استفہام میں بدل کر اسی کے کاندھے پر دوبارہ لٹکا دیا جائے کہ تم بتاؤ کہ ایسا ممکن ہے؟ اور وہ اپنی مروت و رواداری کے ہاتھوں مجبور ہو کر آپ کی بات ماننے یا سمجھنے کے لیے تیار ہوجائے۔شاعر نے مقطع میں اسی وطیرے کو اپنایا ہے۔ تمام تر غزل میں اپنے مسائل انجانے گناہوں کے سر لگا کر اپنی حالت زار بیان کر کے رحم کی درخواست دائر کی ہے۔منظر ایسا کھینچا ہے کہ تمام قصہ غم سننے کے بعد شاعر پوچھے کہ اگر دنیا میں کوئی مجبور، بیکس ، آزردہ اور حالات کا مارا آپ ہی بتائیے کہ کون ہے؟ تو ماسوائے شاعر کا نام لینے کے اور کوئی راہ نہ بچے۔ بھلا اس کی بھی بات اب خدا نہ سنے گا۔ کیا کہنے۔ اس بےدھڑک انداز پر فدا ہوجانے کو جی چاہتا ہے۔
از قلم نیرنگ خیال
۸ اپریل ۲۰۲۱