خاور بلال
محفلین
جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں۔ جن کے سامنے حدود اللہ پامال ہی نہیں بلکہ کالعدم کردی جائیں، خدا کا قانون عملا ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کردیا جائے، خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے باغیوں کا بول بالا ہورہا ہو، نظام کفر کے تسلط سے نہ صرف عام انسانی سوسائٹی میں اخلاقی و تمدنی فساد برپا ہو بلکہ خود امت مسلمہ بھی نہایت سرعت کے ساتھ اخلاقی و عملی گمراہیوں میں مبتلا ہورہی ہو، اور یہ سب دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بے چینی پیدا ہو، نہ اس حالت کو بدلنے کے لیے کوئی جذبہ بھڑکے، بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبے پر اصولا و عملا مطمئین کردیں ان کا شمار آخر محسنین میں کس طرح ہوسکتا ہے؟ اس جرم عظیم کے ساتھ محض یہ بات انہیں احسان کے مقام عالی پر کیسے سرفراز کرسکتی ہے کہ وہ چاشت اور اشراق اور تہجد کے نوافل پڑھتے رہے۔ ذکر و شغل اور مراقبے کرتے رہے، حدیث و قرآن کے درس دیتے رہے۔ جزئیاتِ فقہ کی پابندی اور چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اتباع کا سخت اہتمام فرماتے رہے اور تزکیہ نفس کی خانقاہوں میں دینداری کا وہ فن سکھاتے رہے جس میں حدیث و فقہ اور تصوف کی باریکیاں تو ساری موجود تھیں مگر ایک نہ تھی تو وہ حقیقی دینداری جو “سرداد نداد دست در دست یزید“ کی کیفیت پیدا کرلے اور “بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھوسکا“ کے مقامِ وفاداری پر پہنچادے۔
(سید ابوالاعلیٰ مودودی)
(سید ابوالاعلیٰ مودودی)