سیرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ

از قلم : مقصود الحسن فيضي

نام و نسب

آپ کا نام عبد القادر بن ابی صالح جنگی دوست بن عبد اللہ ہے۔[سیر اعلام النبلاء ۴۳۹/۲۰]
کہا جاتا ہے کہ آپ کا نسب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ [ذیل طبقات الحنابلہ ۲۹۰/۱]
آپ کا مشہور لقب محی الدین اور کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ اور دوسرے مورخین نے آپ کو مزید متعدد القاب سے یاد کیا ہے۔ مثلا امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الشیخ الامام العالم الزاھد العارف القدوہ شیخ الاسلام علم الاولیاء محی الدین ابو محمد عبد القادر۔ [سیر : ۴۳۹/۲۰]۔
حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
شیخ العصر و قدوۃ العارفین و سلطان المشائخ، صاحب المقامات والکرامات والعلوم والمعارف والاحوال المشہورۃ۔ [ذیل الطبقات ۲۹۰/۱]۔
البتہ آج کل آپ کو پیران پیر، غوث أعظم، غوث پاک، قطب الاقطاب جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ یہ القاب غیر شرعی بلکہ بعض تو قطعا جائز نہیں ہیں۔ جیسے غوث یاغوث اعظم وغیرہ۔
پیدائش:
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ ۴۷۰ھ یا ۴۷۱ ھ میں صوبہ گیلان کے بشتیر نامی شہر میں پیدا ہوئے۔ [دائرۃ المعارف للبستانی ۶۲۱/۱۱]۔
آپ کا خاندان ایک علمی گھرانہ تھا، آپ کے نانا ابو عبد اللہ الصومعی مشہور صوفی بزرگ تھے حتی کہ آپ سبط ابی عبد اللہ الصومعی الزاھد کے نام سے جانے جاتے تھے۔ [السیر ۴۴۴/۲۰]۔یعنی ابو عبد اللہ الصومعی زاہد کے نواسے۔
آپ کا حلیہ
کتابوں میں آپ کا حلیہ کچھ اس طرح بیان ہوا ہے کہ میانہ قد، گندمی رنگ، چوڑا سینہ دبلا پتلا بدن، بھری داڑھی، بھنویں ایک دوسرے سے ملی ہوئی اور بارعب چہرہ۔ [دائرۃ المعارف للبستانی ۶۲۱/۱۱]۔
تعلیم و تربیت
آپ کی ابتدائی تعلیم سے متعلق مستند کتب تاریخ خاموش ہیں، بعض کتب سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ آپ کا خاندان ایک علمی خاندان تھا، آپ کے شہر کے لوگ مذہب حنبلی پر قائم تھے اور آپ نے بغداد کے سفر سے پہلے قرآن مجید وغیرہ کی تعلیم حاصل کرلی تھی۔
بغداد کا سفر
اس وقت بغداد جہاں مسلمانوں کا سیاسی مرکز تھا وہیں ایک علمی و ثقافتی مرکز بھی تھا، اس لئے شیخ نے ابتدائے عمر ہی میں بغداد کا قصد کیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ۴۸۸ھ ایام جوانی میں آپ بغداد وارد ہوئے اس وقت آپ کی عمر ۱۷ یا ۱۸ سال تھی۔ [تاریخ دعوت و عزیمت ۱۹۷/۱]۔
بغداد میں آپ نے وہاں کے نامور اہل علم سے اپنی علمی پیاسی بجھائی، اساتذہ میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
اساتذئے حدیث
آپ نے علم حدیث ابو غالب محمد بن الحسن الباقلانی متوفی ۵۰۰ھ، جعفر بن احمد السراج متوفی ۵۰۰ھ، ابو سعد محمد بن عبد الکریم بن حشیش بغدادی متوفی ۵۰۲ھ اور احمد بن المظفربن حسن بن سوسن التمار متوفی ۵۰۳ھ جیسے ائمہ فن سے لیا۔ [السیر ۴۲۰/۲۰]۔
اساتذئے فقہ و اصول
علم فقہ و اصول میں آپ کے بعض مشہور اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں:
ابوسعد المخرمی حنبلی متوفی ۵۱۳ھ، ابوالخطاب الکلوباذی حنبلی متوفی ۵۱۰ھ، اور ابو الوفا ابن عقیل حنبلی ۵۱۳ھ۔ اس وقت بغداد میں یہ تینوں حضرات فقہِ حنبلی کے اساطین فن سمجھے جاتے تھے۔ حتی کہ مذہب حنبلی کے اصول و فروع اور علم خلافیات میں پوری دست رس حاصل کی بلکہ اپنے تمام ہم عصروں پر سبقت لے گئے۔ اور اپنے اساتذہ کے بعد آپ ہی بغداد میں فقہ حنبلی کے مرجع ٹھہرے۔ [ذیل الطبقات ۲۹۰/۱]۔
ادب وقواعد کے اساتذہ
علم ادب و لغت میں آپ کے خاص اساتذہ میں خطیب تبریزی حامد اللہ متوفی ۵۰۲ھ، جیسے اساتذہ فن کا نام ملتا ہے۔
علم سلوک و تصوف
علوم ظاہریہ کے ساتھ ساتھ آپ کی توجہ علم باطن کی طرف بھی تھی جس کی ابتدائی تعلیم اپنے فقہ کے استاذ ابو سعد المخرمی سے لی، نیز اس وقت بغداد میں مشہور صوفی حماد بن مسلم الدباس متوفی ۵۲۵ھ، کا خوب چرچا تھا اس لئے شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے علم و سلوک و تصوف کے لئے ان کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا اور سالوں سال ان کی مجلس میں شریک ہوتے رہے خاص کر جمعہ کے دن ان کی مجلس میں ضرور حاضر ہوا کرتے تھے۔ [السیر ۵۹۶/۱۹، ذیل الطبقات ۵۹۱/۱]۔
عہد طالبِ علمی کی مشکلات اور اللہ کی خصوصی مدد
اللہ تبارک و تعالی جب اپنے کسی بندے سے کوئی خاص اور اہم کام لینا چاہتا ہے تو جہاں ایک طرف اس کام کے لحاظ سے اس کی تربیت و تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے وہیں دوسری طرف اس راہ میں پیش آنے والی دشواریوں کو بھی آسان کرتا اور اس بندے کو ہر آزمائش میں کامیاب بھی بناتا ہے، یہی کچھ حضرت شیخ الامام عبد القادر رحمہ اللہ کے ساتھ بھی ہوا کہ طلب علم کی راہ میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جیسے وطن سے دوری، بھوک و پیاس اور تنگ دستی ۔ لیکن اللہ تبارک و تعالی نے متعدد مقامات پر ان کی ایسی دستگیری فرمائی کہ ان کے پائے ثبات متزلزل نہ ہونے پائے، شیخ عبد القادر رحمہ اللہ خود بیان کرتے ہیں کہ طالب علمی کے زمانہ میں بسا اوقات خرنوب نامی کانٹے دار درخت ،سبزیوں کے گرے پڑے ٹکڑے اور خس کے پتے کھاکر گزارہ کرتا تھا۔ [السیر ۴۴۴/۲۰، ذیل الطبقات ۲۹۸/۱]۔
ایام طالب علمی کا اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں بیابان میں فقہ کے درس کا مراجعہ کر رہا تھا اس وقت مجھے سخت بھوک پیاس کا احساس ہوا جب میں بہت تنگ آگیا تو غیب سے ایک آواز آتی ہے لیکن کوئی آواز دینے والا دکھائی نہیں دے رہا تھا، آواز دینے والا کہہ رہا تھا کہ قرض لے کر علم فقہ حاصل کرنے پر مدد حاصل کرو، میں نے جواب دیا کہ قرض کی ادائیگی کا میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے، میں فقیر ہوں اگر قرض لیتا ہوں تو اس کی ادائیگی کیسے کر پاؤں گا۔ آواز دینے والے نے کہا: قرض لے لو ادائیگی میں کردونگا۔ چنانچہ میں ایک کرانہ کی دوکان پر آیا اور دکاندارسے کہا کہ تم مجھے روزانہ ایک روٹی اور کچھ حب رشاد اس شرط پر دے دیا کرو کہ جب میرے پاس ادائیگی کی طاقت ہوگی تو میں ادا کرودنگا اور اگر میں مرگیا تو مجھے معاف کردینا، میری یہ بات سن کر وہ رونے لگا اور کہا کہ آپ جس طرح چاہیں میں تیار ہوں، خلاصہ یہ کہ میں ایک مدت تک اس سے روٹی اور حب رشاد لیتا رہا اس طرح کافی دن گزر گئے تو مجھے بڑی الجھن محسوس ہوئی کہ میں کب تک اس سے اس طرح لے کر کھاتا رہوں گا، اس پر ابھی تھوڑی ہی مدت گزری ہوگی کہ مجھےمحسوس ہوا کہ کوئی شخص مجھ سے کہہ رہا ہے فلاں جگہ چلے جاؤ اور اس جگہ جو چیز بھی ملے تم اسے اٹھا لو اور دکاندار کا قرض ادا کردو، چنانچہ میں وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں سونے کا ایک ٹکڑا پڑا ہے اسے میں نے لے لیا اور دکاندار کا قرض ادا کردیا۔ [السیر ۴۴۵/۲۰، ذیل الطبقات ۲۹۹/۱]۔
اسی طرح شیخ رحمہ اللہ اپنا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار سخت مہنگائی کے ایام میں مجھے بہت ہی تنگی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ کئی دن تک مجھے کچھ کھانے کو نہ ملا صورت حال یہ تھی کہ میں گری پڑی چیزیں اٹھاکر کھاتا رہا یہاں تک کہ ایک دن سخت بھوک کی وجہ سے میں گھر سے نکلا اور دریا کی طرف چلا کہ شاید وہاں کوئی سبزی کا پتہ یا اور کوئی چیز مل جائے جس سے میں اپنے بھوک کی آگ بجھاؤں، اس تلاش میں جس جگہ بھی پہنچتا دیکھتا کہ فقیر و مسکین لوگ ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے ہیں چنانچہ میں شرما کر واپس ہوجاتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہاں سے واپس ہوا کہ شاید شہر میں کوئی گری پڑی چیز بھوک مٹانے کے لئے مل جائے لیکن کوئی چیز کھانے کے لئے نہ مل سکی اب میں بہت تھک چکا تھا اور مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہ گئی تھی اس لئے ایک مسجد میں جاکر بیٹھ گیا اور موت کا انتظار کرنے لگا ، اتنے میں دیکھتا ہوں کہ ایک اجنبی نوجوان مسجد میں داخل ہوتا ہے اس کے پاس روٹی اور بھونا ہوا گوشت تھا وہ بیٹھ کر کھانے لگا، میں اس کی طرف للچلائی نظروں سے دیکھ رہا تھا، وہ جب بھی کوئی لقمہ اٹھا تھا تو لالچ سے میرا منہ کھل جاتا کچھ دیر میں وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ بسم اللہ کرو، میں نے انکار کیا لیکن اس نے قسم دلائی کہ تمہیں ضرور کھانا ہے چنانچہ میں بھی اس کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کھانے لگا اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو، کیا کرتے ہو اور تمہارا گھر کہاں ہے؟ میں نے اسے بتلایا کہ میں گیلان کا رہنے والا ایک متفقہ [طالب فقہ] ہوں، اس نے کہا کہ میں بھی گیلان کا رہنے والا ہوں، کیا تم مجھے ایک گیلانی نوجوان کے بارے میں کچھ بتلا سکتے ہو جس کا نام عبد القادر ہے اسے لوگ سبط ابو عبد اللہ الصومعی الزاہد کے نام سے جانتے ہیں، میں نے جواب دیا کہ وہ تو میں ہی ہوں، یہ سن کر وہ پریشان ہوگیا ، اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم اے بھائی میں جب بغداد پہنچا تو میرے پاس کچھ زاد سفر باقی تھا، میں تمہارے بارے میں پوچھتا رہا لیکن تمہارے بارے میں کسی نے کوئی خبر نہ دی، یہاں تک کہ میرا زاد راہ ختم ہوگیا، حتی کہ تین دن ایسے گزر گئے کہ میرے پاس تمہاری امانت کے علاوہ کوئی اور چیز باقی نہ رہ گئی، اس لئے جب آج چوتھا دن ہوا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ بھوک پر تین دن گزر گئے اب تو میرے لئے مردار بھی حلال ہے اس لئے تمہاری امانت میں ایک روٹی اور بھونے ہوئے گوشت کے اس ٹکڑے کی قیمت لے لی، یہ لو کھاؤ یہ تمہارا مال ہے اور میں اب تمہارا مہمان ہوں ہم نے اس سے پوچھا کہ اصل قصہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ تمہاری ماں نے مجھے آٹھ دینار دے کر بھیجا تھا واللہ اس میں سے ہم نے کوئی خیانت نہیں کی ہے، شیخ کہتے ہیں کہ میں نے اسے تسلی دی، اس کے دل کو اطمینان دلایا اور جو امانت لے کر آیا تھا اس میں سے کچھ اسے بھی دے دیا۔ [السیر ۴۴۴، ۴۴۵/ ۲۰، ذیل الطبقات ۲۹۸/۱]۔
راہ سلوک میں مشقت
اس طرح اللہ تبارک و تعالی طلب علم کی راہ میں ہر جگہ حضرت شیخ رحمہ کی اللہ مدد کرتا رہا حتی کہ انہوں نے صوفیوں کی بد خلقی اور بد تمیزی کو بھی علم سلوک و طریقت حاصل کرنے کی راہ میں برداشت کیا۔ چنانچہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں طلب علم میں مشغول رہ کر شیخ حماد الدباس کے پاس حاضر نہ ہو پاتا تھا اور جب بعد میں آتا تووہ مجھ سے کہتے، تو یہاں کیاکرنے آیا ہے تو تو فقیہ اور فقہ کا طالب ہے انہیں فقیہوں کے پاس جا، میں ان کی یہ تمام باتیں سنتا اور خاموش رہتا ۔ ایک بار سخت سردی کے موسم میں جمعہ کے دن میں کچھ لوگوں کے ساتھ ان کے پاس آیا انہوں نے مجھے دھکادیا جس سے میں پانی کے ایک حوض میں گر پڑا ہم نے صبر سے کام لیا اور کہا کہ بسم اللہ چلو یہ جمعہ کا غسل ہوگیا۔ اس وقت میرے اوپر ایک اونی جبہ تھا، میری آستین میں کچھ اوراق تھے اس لئے ہم نے آستین کو بلند کرلیا تاکہ وہ اوراق بھیگنے نہ پائیں۔ وہ لوگ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے جبے کو نچوڑ کر پہنا اور ان کے پیچھے ہو لیا اس وقت مجھے سخت سردی محسوس ہوئی۔ اس طرح شیخ دباس مجھے مارتے اور اذیتیں پہنچاتے رہے، کبھی جب میں ان کے پاس آتا تو کہتے آج بہت زیادہ روٹی اور فالودہ آیا تھا ہم لوگوں نے کھا لیا اور تمہارے لئے کچھ نہ چھوڑا اس سے ان کا مقصد مجھے زچ کرنا ہوتا حتی کہ ان کے شاگرد میرے بارے میں دلیر ہوگئے ، مجھ سے کہتے کہ تم میرے ساتھ کیا کرنے آتے ہو، تم فقیہ ہو جاؤ فقیہوں کے پاس، جب شیخ نے دیکھا کہ ان کے شاگرد مجھے اذیتیں دے رہے اور تنگ کر رہے ہیں تو میرے بارے میں انہیں غیرت آئی اور کہنے لگے: اے کتو!اسے کیوں تنگ کرتے ہو، اللہ کی قسم تم میں کوئی بھی اس جیسا نہیں ہے، میں اسے اس لئے تنگ کرتا ہوں تاکہ آزماؤں ، یہ تو عزم و ہمت کا ایسا پہاڑ نکلا جو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا۔ [السیر ۴۴۶/۲۰]۔
واضح رہے کہ صوفیوں کا یہ طریقہ تعامل اور بد کلامی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے یکسر خلاف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلب علم کے لئے آنے والوں سے بہت ہی نرمی سے پیش آتے اور صحابہ کرام کو وصیت فرماتے کہ طالب علموں کے ساتھ حسن خلقی سے پیش آنا چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ جب کسی طالب علم کو دیکھتے تو فرماتے: "مرحبا بوصیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یوصینا بکم" الحدیث۔ اے اللہ کے رسول کی وصیت تمہیں خوش آمدید ہو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کے بارے میں ہمیں خصوصی وصیت کی ہے۔
بعض روایتوں میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:
"سیاتیکم اناس یفقھون فقھوھم و احسنوا الیھم"
کچھ لوگ تمہارے پاس دین سیکھنے کے لئے آئیں گے تو تم لوگ انہیں دین سکھانا اور انکو اچھی تعلیم دینا۔ [سنن ابن ماجہ: 250،247 المقدمہ ، مستدرک حاکم: 1/88، مسند عبد اللہ بن وھب وغیرہ۔ دیکھئیے الصحیحہ ۲۸۰]۔
خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ
لَمْ يَكُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا صَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ۔ [سنن الترمذی 2017، مسند احمد 6/176، دیکھئیے مختصر الشمائل ۱۸۲]
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ فحش گو تھے نہ فحش گوئی آپ کا شیوہ تھا اور نہ ہی بازاروں میں شور و شرابا کرنے والے تھے اور برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے تھے بلکہ معاف اور درگزر کردیتے تھے۔
خلاصہ یہ کہ صوفی حضرات میں اپنے شاگردوں اور ماننے والوں کے ساتھ اس طرح کا برا سلوک جو عام ہے وہ سنت رسول کے خلاف اور اسلامی آداب کے منافی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان حضرات کی علم دین سے دوری اور شاید کبر ہے چنانچہ انہیں حماد الدباس کے بارے میں تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ کم علم اور ان پڑھ تھے۔[السیر ۵۹۳/۱۹]۔
خلاصہ یہ کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کو طلب علم کے لئے بہت سے مصائب اور دشواریوں سے دوچار ہونا پڑا لیکن اللہ تعالی کی خصوصی مدد شامل حال رہی اس لئے ان تمام مصائب کو برداشت کیا اور طلب علم کے مراحل کو بحسن و خوبی طے کرلیا۔ تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ آپ تقریبا تیس سے پینتیس سال تک طلب علم میں لگے رہے۔ واللہ اعلم
 
Top