سیرت صحابہ رضی اللہ عنہم

x boy

محفلین
خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت ، اہم کارنامے

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے ۔ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے دیرینہ دوست اور سفر و حضر کے ساتھی تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان کیا ۔ تو سب سے پہلے آپ کو یہ شرف حاصل ہوا ۔ کہ آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی ۔ آپ کے بارے میں علمائے اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے ۔

افضل البشر بعد الانبیاءبالتحقیق
سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

اور1428 سال سے علمائے اسلام اس کا اعلان کر رہے ہیں ۔ اور یہ اعلان ابدالاباد تک ہوتا رہے گا ۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف مالی تعاون کیا ۔ بلکہ ہر مشکل وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاون و مددگار رہے ۔ ہجرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے ۔ تمام غزوات میں آپ شریک ہوئے ، اور یہ حقیقت ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیر اول تھے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بہت سے فضائل و مناقب بیان فرمائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ابوبکر فی الجنۃ ( ترمذی )
” ابوبکر جنت میں ہیں ۔ “

اور یہ بھی فرمان نبوی ہے :
” میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہے ۔ “ ( ترمذی

قرآن مجید میں ہے :
ثاني اثنين اذ ھما في الغار اذ يقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا فانزل اللہ سکينتہ عليہہ ( التوبہ : 40 )
” دو میں سے دوسرا جب غار میں اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا ، کہ غمگین مت ہو بے شک خدا ہمارے ساتھ ہے ۔ پھر اللہ نے اس پر سکینہ نازل فرمایا ۔ “
جمہور ائمہ کرام اور مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ صاحب سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی قول ہے ۔

ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ان من امن الناس صحبتہ ومالہ ابوبکر رضی اللہ عنہ
” حقوق صحبت کی ادائیگی اور مال خرچ کرنے میں تمام لوگوں سے بڑھ کر احسان مجھ پر بلاشبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ “

پھر ارشاد فرمایا :
ولو کنت متخذا اخلیلا غیر ربی لا تخذت ابابکر خلیلا (بخاری و مسلم )
” اگر میں اپنے رب کے سوا کسی اور کو خلیل بناتا ، تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بناتا ۔ “

ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
انت صاحبی فی الغار وصاحبی علی الحوض ( بخاری )
” تم غار میں میرے رفیق تھے اور حوض کوثر پر میرے رفیق ہوگے ۔ “
جامع ترمذی میں امام ترمذی نے اور تاریخ الخلفاءمیں امام سیوطی رحمہ اللہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے ۔ کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہم سب کے سردار اور ہم سب سے بہتر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ پیارے تھے ۔ غزوہ تبوک رجب9 ہجری میں پیش آیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ کے لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے چندہ کی اپیل کی ۔ ہر صحابی نے اپنی طاقت کے مطابق اس غزوہ کے لئے مالی تعاون کیا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

جس وقت غزوہ تبوک کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی تعاون کی اپیل کی ۔ اس وقت میرے پاس بہت مال تھا ۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ سکتا ہوں تو وہ یہی موقع ہے ۔ چنانچہ میں گھر گیا ۔ اور اپنا نصف مال لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا ۔
عمر رضی اللہ عنہ ! اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نصف مال آپ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا ہے ۔ اور نصف مال اپنے اہل و عیال کے لئے چھوڑ آیا ہوں ۔
اس کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تشریف لائے ۔ ان کے پاس جو کچھ تھا ۔ وہ سب لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یقین ہو گیا کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کبھی بھی بازی نہیں لے جا سکتا ۔ علامہ اقبال نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو اس شعر میں نظم کیا ہے ۔
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے ہے خدا کا رسول بس

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 12 ربیع الاول 11 ھجری کو وصال فرمایا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور میں جھوٹے نبی پیدا ہو چکے تھے ۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال فرمایا تو کئی اور فرقے اسلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔

ایک تو جھوٹے مدعیان نبوت تھے ۔ ان کے علاوہ ایک گروہ ایسا پیدا ہوا ۔ جس نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ۔ اور ساتھ ایک اور گروہ سامنے آیا ۔ جنہوں نے دین اسلام سے انحراف کیا ۔ یعنی مرتدین اسلام ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے یہ بڑا سخت وقت تھا ۔ آپ نے ان سب فتنوں کا بڑی بہادری ، شجاعت اور فہم و بصیرت سے مقابلہ کیا ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔
لقد قمنا بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقاما کنا نھلک فیہ لولا ان اللہ من علینا بابی بکر
” ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے حالات میں گھر گئے تھے ۔ کہ اگر اللہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہم ہلاک ہو جاتے ۔ “
عرف عام میں اگرچہ خلفائے راشدین میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو زیادہ شہرت حاصل ہے ۔ لیکن حق یہ ہے کہ اگر خلیفہ اول نے پورے عرب کو ایک اسلام کے عَلَم کے نیچے لا کر نہ جمع کر دیا ہوتا ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو عظیم کارنامے انجام دئیے ۔ ان کے لئے راہ ہموار نہیں ہو سکتی تھی ۔ ( صدیق اکبر از مولانا سعید احمد اکبر آبادی ص 11 ۔ مطبوعہ دہلی 1957ء )

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت سوا دو برس ہے ۔ اور اس قلیل مدت میں آپ نے جو عظیم الشان کارنامے انجام دئیے ۔ ان کی مثال تاریخ اسلام میں مشکل ہی سے ملے گی ۔ مولانا طالب الہاشمی مرحوم لکھتے ہیں کہ : ” حضرت ابوبکر صدیق کی مدت خلافت صرف سوا دو برس ہے لیکن اس قلیل مدت میں انہوں نے جو عظیم الشان کارنامے انجام دئیے ۔ ان کا حال پڑھ کر انسان ورطہ حیرت میں غرق ہو جاتا ہے ۔ انہیں اپنے دور خلافت کا بیشتر حصہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نمٹنے میں صرف کرنا پڑا ۔ لیکن اس کے باوجود وہ ملکی نظم و نسق سے غافل نہیں رہے فی الحقیقت انہوں نے اپنی قوت ایمانی ، تدبر و فراست اور عزم و ہمت کی بدولت نوزائیدہ خلافت اسلامیہ کو اتنی مستحکم بنیادوں پر قائم کر دیا ۔ جس پر ان کے اولوالعزم جانشین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک عظیم الشان تعمیر کر دی ۔ ( سیرت خلیفۃ الرسول : ص 477 )

علم و فضل کے اعتبار سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے جامع الکمالات تھے ۔ تفسیر ، حدیث ، علم تفسیر ، علم الانساب ، شعر و سخن ، حکایت ، تحریر و کتابت میں انہیں مہارت تامہ حاصل تھی ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عظیم الشان کارنامہ ” جمع قرآن مجید “ ہے ۔ موطا امام مالک میں ہے کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ قرآن مجید کے تمام اجزاءکو جمع کر کے ایک کاغذ پر یک جا جمع کرنے کا اہتمام کریں ۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ۔

وفات :
7 جمادی الثانی 13 ہجری کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے غسل کیا ۔ اس دن سردی بہت زیادہ تھی ۔ جس کی وجہ سے بخار ہو گیا ۔ 15 دن مسلسل بخار رہا ۔ 22 جمادی الثانی 13 ہجری بروز دو شنبہ مغرب اور عشاءکے درمیان انتقال کیا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ اور حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کئے گئے ۔ وفات کے وقت عمر 63 سال تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات پر ارشاد فرمایا : ” آج خلافت نبوت کا انقطاع ہو گیا ۔ “

دعا کریں ، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے چچا ابو عامر رضی اللہ عنہ کا پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ نے پہلے پانی منگوایا ، وضو کیا پھر ہاتھ اٹھائے اور دعا کی ۔ ” اے اللہ ! ابو عامر عبید کو معاف کر دے اور قیامت کے دن اسے بے شمار لوگوں پر برتری عطا فرما ۔ “ ( صحیح بخاری ، المغازی : 4323 )

اس روایت میں کوئی تعزیت کا موقع نہیں ہے بلکہ انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی اپیل کرنا ، آپ نے ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ، اس حدیث سے تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا مسئلہ کشید کرنا محل نظر ہے ۔ ( واللہ اعلم )



مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے شہید
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبوت کے چھٹے سال۔ جب کہ آپ کی عمر 33 سال تھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ چھ سال آپ نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں کوئی کسر نہ اٹھا سکی۔ جب آپ نے اسلام قبول کر لیا تو نہ صرف وہ کمی پوری کر دی ، بلکہ اسلام کی اتنی خدمت کی کہ کوئی دوسرا اتنی خدمت نہ کر سکا۔

دور جاہلیت میں آپ سفارت کے عہدہ پر مامور تھے اور کفار کے باہمی جھگڑوں میں ثالث ہوا کرتے تھے اور آپ کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ تجارت میں اتنی ترقی کی تھی کہ شاہان روم و فارس کے درباروں تک بارسوخ ہو گئے تھے۔

آپ کی زندگی اتنی سادہ اور بے تکلف تھی کہ شاید ہی دنیا کا کوئی حکمران اس کی مثال پیش کر سکے۔ لباس کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ دوسرے ممالک کا دورہ کرتے ہوئے قمیص پر 17 , 17 پیوند لگے ہوئے ہیں ، مگر اس کی پرواہ نہیں۔ خوراک بہت سادہ خشک روٹی اور زیتون کا تیل استعمال کرتے تھے اور تکلف کا نام نہیں ، چلتے چلتے کوئی بڑھیا عورت راستہ روک لیتی ہے اور اپنا کیس پیش کر دیتی ہے تو سننے کے لئے مستعد ہو جاتے ہیں۔

مگر بایں رعب کا یہ عالم تھا کہ دشمن آپ کا نام سن کر کانپ جاتا تھا۔ فتوحات کا یہ عالم تھا کہ ملک پر ملک فتح ہوتے جا رہے ہیں ، یہاں تک کہ عیسائی مورخین کو یہ لکھنا پڑا کہ :
” اگر مسلمانوں میں ایک اور عمر پیدا ہو جاتا تو تمام میں اسلام اور اسلامی حکومت پھیل جاتی ، اور کوئی غیر مسلم نظر نہ آتا۔ “

شہادت :
آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ :
” ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر تشریف لے گئے۔ آپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے کہ احد پہاڑ لرزنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کو مخاطب کر کے فرمایا : ٹھہر جا تجھ پر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ “

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول تھا کہ وہ کسی بالغ ذمی (جزیہ ادا کرنے والے غیر مسلم) کو مدینہ منورہ میں آنے کی اجازت نہیں دیا کرتے تھے۔ مگر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جو کوفہ کے گورنر تھے۔ انہوں نے اپنے ایک کاریگر مجوسی غلام (جس کا نام فیروز اور کنیت ابولولو تھی) مدینہ منورہ میں آنے اور رہنے کی اجازت طلب کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی اجازت دے دی۔

ابو لولوفیروز ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی ، کہ میرے آقا مغیرہ بن شعبہ نے میرے اوپر بہت بھاری ٹیکس مقرر کیا ہے۔ آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کتنا ٹیکس ہے۔ اس نے کہا : دو درہم روزانہ (تقریبا 44 پیسے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم کون سا کام جانتے ہو۔ فیروز نے جواب دیا۔ نجاری ، نقاشی اور آہنگری کا۔

آپ نے فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلہ میں یہ رقم کچھ زیادہ نہیں ہے۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا۔
26 ذی الحجہ 23 ھ کی صبح کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز فجر پڑھانے کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ فیروز گھات لگائے کھڑا تھا۔ اور مسجد میں بالکل اندھیرا تھا۔ جب آپ نے تکبیر تحریمہ کہی اور لوگوں نے آپ کی آواز سنی ،
اس کے بعد یہ آواز سنائی دی :
کتے نے مجھے مار دیا۔ فیروز نے چھ وار کئے۔ جس سے آپ رضی اللہ عنہ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے مختصر نماز پڑھائی۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا آخر پکڑ لیا گیا اور اس دوران اس نے خود کشی کر لی اور جہنم واصل ہوا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں گھر لایا گیا۔ آپ نے پوچھا کہ کس نے مجھ پر حملہ کیا ہے۔ لوگوں نے بتایا ابولولوفیروز نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
الحمد للہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے شہید نہیں کیا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا تھا۔ اس کے بعد طبیب کو بلایا گیا۔ اس نے نبیذ اور دودھ پلایا۔ دونوں چیزیں زخم کی راہ باہر نکل آئیں۔ اس وقت لوگوں کو یقین ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس زخم سے جانبر نہیں ہو سکتے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا کہ :
” ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان کی خدمت میں سلام پیش کرو۔ اور میری طرف سے عرض کرو کہ عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ رو رہی تھیں حضرت عبداللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس جگہ کو میں اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہتی تھی لیکن آج میں اپنے اوپر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دوں گی۔

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس آئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا خبر لائے ہو۔ انہوں نے کہا جو آپ چاہتے تھے فرمایا کہ :
یہی سب سے بڑی آرزو تھی اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب میری روح قبض ہو جائے۔ تو میر نعش چارپائی پر لے جانا۔ اور دروازہ پر ٹھہر جانا۔ اور پھر اجازت مانگنا! اگر وہ واپس کر دیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری حاکمانہ حیثیت کے پیش نظر اجازت دے دی ہو۔ بہرحال جب نعش لے جائی گئی۔ تو سب مسلمان اس درجہ متاثر اور غم زدہ تھے کہ جیسے اس سے پہلے کوئی مصیبت نہ پڑی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دوبارہ اجازت دے دی۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی آخر آرام گاہ پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اعزاز بخشا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دائمی آرام گاہ پائی۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ 26 ذی الحجہ 23 ھ کو زخمی ہوئے تین دن بعد یکم محرم 24 ھ کو انتقال کیا۔ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت عبدالرحمان بن عوف ، حضرت عثمان بن عفان ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص y نے قبر میں اتارا۔ اور وہ آفتاب عالمتاب خاک میں چھپ گیا۔ وفات کے وقت عمر 63 سال تھی۔

مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” مسلمانوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت سے جو صدمہ ہوا۔ الفاظ سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر مسلمان نے اپنی عقل کے مطابق انتہا کی غم و اندوہ کا اظہار کیا۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہ نے کہا جس روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اسی روز اسلام کمزور پڑ گیا۔ “

جسٹس سید امیر علی کہتے ہیں کہ :
” حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ایک سخت ترین نقصان اور اسلام کے لئے ایک بہت بڑا حادثہ تھا۔ “

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ :
” عمر رضی اللہ عنہ کی موت اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے جو قیامت تک پر نہیں کیا جا سکے گا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
23 ذوالحجہ کی آخری تاریخوں میں خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر ایک مجوسی ابولولو فیروز نے نماز فجر میں قاتلانہ حملہ کیا ۔ جس میں آپ شدید زخمی ہو گئے ۔ اور یکم محرم 24 ھ کو آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ آپ نے شہادت سے پہلے یہ وصیت فرمائی کہ حضرت عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمان بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین یہ چھ آدمی تین دن کے اندر اندر کسی کو خلیفہ منتخب کر لیں ۔ اور تین دن صہیب رومی قائم مقام خلیفہ ہوں گے ۔ دو دن نئے خلیفہ کے انتخاب کے لئے بحث و مباحثہ جاری رہا لیکن کوئی بات طے نہ ہو سکی ۔ تیسرے دن حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : کہ ہم میں سے تین آدمی ایک ایک شخص کے حق میں دستبردار ہو جائیں ۔ تا کہ چھ کی بحث تین میں محدود ہو جائے ۔ اس پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے ۔

حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : کہ میں امیدواری سے دستبردار ہوتا ہوں اب بحث صرف حضرت عثمان اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میں رہ گئی ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ایثار کیا تھا ۔ اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے اپنا آخری فیصلہ ان کے سپرد کر دیا ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مسجد نبوی میں جمع کیا ۔ اور ایک مختصر تقریر کی ۔ اور اپنا فیصلہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں دے دیا ۔ یہ 4 محرم 24 ھ کا واقعہ ہے ۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جن کا تعلق بنی امیہ سے تھا ۔ تیسرے خلیفہ راشد منتخب ہوئے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا شجرہ نسب پانچویں پشت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔ شجرہ نسب یہ ہے :
عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف/ والدہ کی طرف سے بھی شجرہ نسب پانچویں پشت پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔ شجرہ نسب یہ ہے :
ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی ام حکیم البیضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا سردار عبدالمطلب کی صاجزادی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کی سگی بہن بھی اس لحاظ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی کے نواسے تھے ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی آپ کا یہی رشتہ تھا ۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دعوت اسلام کا آغاز کیا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو جس شخص نے سب سے پہلے قبول کیا ۔ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق اور معاون بن گئے ۔ آپ کو جو شخص ملتا ۔ تو آپ اسے اسلام کی دعوت دیتے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ تو اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عمر 34 سال تھی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دیرینہ دوست تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب آپ کو دعوت اسلام دی ۔ دوران گفتگو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی گفتگو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ۔

اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو وہ شرف حاصل ہوا ۔ جو ان کی کتاب مناقب و فضائل سے درخشاں باب ہے ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاجزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کر دیا ۔ جنگ بدر 2ہجری کے موقعہ پر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی ۔ ( حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کی بیماری کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیسری صاجزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کر دیا ۔ اور یہ وہ شرف ہے ۔ جو پوری انسانی تاریخ میں کسی شخص کو حاصل نہیں ہوا ۔ گویا یہ آپ کی ایک خاص خصوصیت ہے ۔

حافظ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ” علمائے اسلام کا قول ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے علاوہ پوری تاریخ انسانیت میں کوئی شخص ایسا نہیں گزرا ۔ جس نے کسی نبی کی دو صاجزادیوں سے نکاح کیا پھر اس وجہ سے آپ کو ذوالنورین ( دو نوروں والا ) کیا جاتا ہے ۔ “

جب کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر عرصہ حیات بہت زیادہ تنگ کر دیا گیا ۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ قریبی ملک حبشہ ہجرت کر جائیں ۔ وہاں کا عیسائی بادشاہ نجاشی بہت نیک سیرت آدمی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ اس کے ملک میں تمہیں کوئی تکلیف نہ ہو گی ۔ چنانچہ بیشتر مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ۔ ان میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی معہ اپنی زوجہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ حبشہ میں مقیم رہے ۔ جب واپس آئے تو دوسری بار مدینہ طیبہ مع اپنی اہلیہ محترمہ کے ہجرت کی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ابتداءہی سے تجارت کے پیشہ سے منسلک تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں بہت برکت عطا فرمائی تھی ۔ چنانچہ ان کا شمار مکہ کے روسا میں ہوتا تھا ۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے ۔ تو مدینہ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا ۔ جو ایک یہودی کی ملکیت تھا ۔ اور یہودی نے اس کو اپنی معاش کا ذریعہ بنایا ہوا تھا ۔ مسلمانوں کی اس وقت مالی حالت اچھی نہ تھی ۔ اس لئے اس کنویں کے پانی کے حصول کے لئے انہیں بڑی مشکل پیش آ رہی تھی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کوشش کر کے اس یہودی سے نصف کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا ۔ یعنی ایک دن یہودی اس کنویں کا پانی استعمال کرتا تھا ۔ اور ایک دن مسلمان اس کنویں کا پانی استعمال کرتے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد یہودی نے اپنا نصف حصہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو فروخت کر دیا ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کنواں عام مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا ۔
تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کے حقدار ٹھہرے : ” جو شخص بیر رومہ کو خرید کر وقف کر دے ۔ اس کے لئے جنت ہے ۔ “ ( صحیح بخاری )

عہد نبوی میں جو غزوات ہوئے ۔ ان میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے شرکت کی ۔ سوائے غزوہ بدر کے ، کہ اس میں آپ اپنی زوجہ محترمہ حضرت رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تیمارداری اور عیادت کے لئے مدینہ منورہ میں آپ کو چھوڑ دیا ۔ حضرت عثمان کے ساتھ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ ” تم دونوں کو شرکت جہاد کا اجر اور مال غنیمت میں حصہ ملے گا ۔ جیسا ان لوگوں کو ملے گا جو اس جنگ میں شرکت کر رہے ہیں ۔ “

غزوہ تبوک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں سب سے آخری غزوہ ہے اس غزوہ کا دوسرا نام ” جیش العسر “ بھی ہے کیونکہ اس وقت مسلمانوں پر سخت بے سروسامانی کا عالم تھا ۔ موسم سخت گرم ، قحط اور گرانی اور سفر بہت طویل تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ کے لئے مسلمانوں سے مالی تعاون کی اپیل کی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مستدرک حاکم کی روایت کے مطابق دس ہزار مجاہدین اسلام کے خوردونوش اور دیگر تمام اخراجات کا ذمہ لیا ۔ اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار دینار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کےے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے : اور ارشاد فرمایا :
” آج کے بعد عثمان کو کوئی کام نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔ “

پھر ارشاد فرمایا :
اے اللہ میں عثمان رضی اللہ عنہ سے راضی ہو گیا ۔ تو بھی اس سے راضی ہو جا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ۔ اور اہم امور میں ان سے مشورہ لیتے تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دوسرے خلیفہ راشد ہوئے ۔ خلافت فاروقی میں بھی آپ کی امتیازی حیثیت رہی ۔ حضرت عمر فاروق ہر معاملہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے صلاح و مشورہ لیتے رہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے مجلس شوریٰ قائم کی ۔ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن نامزد کیا ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تیسرے خلیفہ راشد منتخب ہوئے ۔ ان کی خلافت کا زمانہ بارہ سال ہے ۔ پہلے چھ سال بڑے امن سے گزرے ۔ لیکن آخری چھ سال افراتفری میں گزرے ۔ اور دنیا کا رنگ ہی پلٹ گیا ۔ اس انقلاب کی اصل وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی وہ مبارک جماعت جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی روشنی میں زندگی اور اتحاد کے سبق سیکھے تھے ۔ اس دنیا سے رخصت ہو رہی تھی ۔ اور جو نئی نسلیں جو اس جماعت کی وارث ہوئیں ۔ تقویٰ اور اتحاد میں وارث نہ تھیں ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک سازش کے تحت فتنہ کھڑا کیا گیا ۔ اور یہ سازش عبداللہ بن سبا جو کہ نسلا یہودی تھا اور اوپر سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا تھا تیار کی گئی ۔ چنانچہ ایک گروہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر پانچ الزامات لگائے گئے ۔
1 آپ نے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہ کے بجائے اپنے ناتجربہ کار رشتہ داروں کو بڑے بڑے عہدے دے رکھے ہیں ۔
2 آپ اپنے عزیزوں پر بیت المال کا روپیہ بے حد صرف کرتے ہیں ۔
3 آپ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے قرآن مجید کے سوا باقی سب صحائف کو جلا دیا ہے ۔
4 آپ نے بعض صحابہ کرام کی تذلیل کی ہے ۔ اور نئی نئی بدعتیں اختیار کر لی ہیں ۔
5 مصری وفد کے ساتھ صریح بد عہدی کی ہے ۔

یہ سب الزامات قطعی طور پر سازشیوں کی شرارت کا نتیجہ تھے ۔ اس طرح کہ :
1 صحابہ کی معزولی انتظامی اسباب سے متعلق تھی ۔
2 عزیزوں کو آپ نے جو کچھ دیا اپنے ذاتی مال سے دیا تھا ۔
3 آپ نے جس صحیفہ کو باقی رکھا ۔ وہ خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تیار کر لیا تھا ۔
4 جن بدعات کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ ان کا تعلق اجتہادی مسائل سے ہے ۔
5 مصری وفد نے مدینہ میں جو یورش کی اور حضرت عثمان پر الزام لگایا کہ انہوں نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا ہے ۔ اور خط لکھ کر ہم کو قتل کرانا چاہتے تھے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نہ خط لکھا تھا اور نہ ان کو علم تھا ۔ اہل مدینہ کی رائے تھی : کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے ۔ اور یہ خط مروان نے لکھا تھا ۔ مفسدین نے مطالبہ کیا کہ مروان کو ہمارے سپرد کیا جائے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔

مفسدین کو اصلاح منظور نہ تھی ۔ انہوں نے مدینہ میں یورش کر دی ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محل کا محاصرہ کر لیا ۔ اور سامان رسد پہنچانے میں رکاوٹ بن گئے ۔ آخر ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے محل کی چھت پر تشریف لے گئے ۔ اور باغیوں سے مخاطب ہوئے اور آپ نے جو عہد رسالت میں عظیم کارنامے انجام دئیے تھے ۔ وہ ان کو یاد دلائے ۔ باغیوں نے اس کی تصدیق کی ۔ لیکن وہ محاصرہ اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئے ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ آپ خلافت سے دستبردار ہو جائیں ۔ لیکن آپ نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا ۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے آپ کو باغیوں کے خلاف عملی اقدام اٹھانے کا مشورہ دیا ۔
آپ نے فرمایا : میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتا ۔ مجھے یہ منظور نہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہو کر امت کا خون بہاؤں ، میں وہ خلیفہ نہ بنوں گا جو امت محمدیہ میں خونریزی کی ابتداءکرے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی پیش گوئی فرما چکے تھے ۔ چنانچہ18ذوالحجہ35 ھ بروز جمعہ باغی قصر خلافت میں داخل ہو گئے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ روزے سے تھے ۔ اور قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صاجزادے محمد بن ابوبکر پیش پیش تھے ۔ اس نے آگے بڑھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ریش مبارک پکڑ کر زور سے کھینچی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بھتیجے اگر آج تمہارے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے ۔ تو تمہاری اس حرکت کو پسند نہ فرماتے ۔ محمد بن ابی بکر یہ سن کر پشیمان ہوا ۔ اور پیچھے ہٹ گیا ۔ مگر کفانہ بن بشیر نے آپ کی پیشانی پر کاری ضرب لگائی ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ زمین پر گر پڑے اور فرمایا ۔ بسم اللہ توکلت علی اللہ ۔

دوسرا وار سودان بن حمران نے کیا ، جس سے خون کا فوارہ چل نکلا اور اس کے ساتھ ہی امیر المومنین تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی خبر آناً فاناً تمام ملک میں پھیل گئی ۔ اس وقت حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا : کہ بعد کے تمام واقعات صرف اسی ایک جملے کی تفصیل ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ” عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل سے اسلام میں ایک ایسا رخنہ پڑ گیا کہ اب وہ قیامت تک بند نہیں ہو گا ۔ “

مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں :
” اسلامی تاریخ میں نفاق کی ایک لکیر ہے ۔ یہ لکیر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے کھینچی گئی ۔ اور اسی میں اسلام کا پورا جان و جلال دفن ہو گیا ۔



صحابہ رضی اللہ عنہم

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین روئے زمین کا افضل طبقہ
مشاجرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اہل السنۃ والجماعۃ کا موقف
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلافات رونما ہوئے ، جن کا تعلق عقیدے اور نظریہ ، اسلام اور کفر سے ہر گز نہ تھا ، بلکہ سیاسی اور اجتہادی قسم کا تھا ۔

بادی النظر میں انسان ان نفوس قدسیہ کے فضائل و اوصاف اور ان اندوہناک واقعات میں تقابل کرتا ہے تو محو حیرت رہ جاتا ہے کہ افراد انسانی کے اس طبقے نے اسلام کی راہ میں سب سے قیمتی سرماے ، جان و مال اور رشتہ داروں کو تج کیا اور شدید ترین تکالیف برداشت کیں ، وہ اپنے سیاسی اختلافات میں صبر و ثبات کا مظاہرہ کیوں نہ کر سکے ؟

اس کا سادہ سا جواب یہ ہے :
اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی مقدر کر دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہو کر ہی رہتا ہے وکان امر اللہ قدرا مقدورا ( الاحزاب : 38 ) حتیٰ کہ اس قسم کی پیشگوئیاں خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ملتی ہیں ۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا : ” میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے دو بڑے مسلمان گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا ۔ “ ( بخاری ، کتاب الصلح ) صلح تبھی ہو گی جب آپس میں تنازعہ ہو گا ۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خود بھی پریشان تھے ۔ اس لیے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان فتنوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی ۔ اور حصہ لینے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ایک دوسرے کی خوب تعظیم و تکریم کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے اور خیر خواہی سے پیش آتے ۔ ایک دوسرے کی شہادت پر رحم کی دعا کرتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور فرمایا : ( ( واللہ لقد کنت کارھا لھذا ) ) ” اللہ کی قسم! آپ اس ( جنگ ) کو پسند کرنے والے نہیں تھے ۔ “ پھر آپ گھوڑے سے اترے اور اس کے ماتھے سے گردوغبار پونچھتے ہوئے یہی آیت پڑھنے لگے : وکان امر اللہ قدرا مقدورا ( رسالۃ الثقلین ، ایران عدد 35 ص 124 ) اور حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں برسر عام عقیدت و احترام کے جذبات کا اعتراف کیا اور جنگ میں ایک دوسرے سے حاصل کردہ مال کو غنیمت بنایا نہ قیدیوں کو غلام ۔ اور آپ رضی اللہ عنہا کو اپنے بھائی محمد کے ساتھ باعزت مدینہ منورہ بھیج دیا ۔ ( مشجر الاولیاءص 65 )

جناب امیر المومنین علی امرائے امصار کی طرف بھیجے گئے ایک مکتوب گرامی میں جنگ صفین میں مخالف کے ساتھ پیش آنے والے واقعات بیان کرتے ہوئے اپنے موقف کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں : ” وکان بدو امرنا ان التقینا والقوم من اھل الشام والظاھر ان ربنا واحد ونبینا واحد ودعوتنا فی الاسلام واحدة ولا نستزیدھم فی الایمان باللہ والتصدیق برسولہ ولا یستزیدوننا ، الامر واحد الا ما اختلفنا فیہ من دم عثمان ونحن منہ براء “ ہمارے معاملے کا آغاز اس طرح ہوا کہ ہم اور اہل شام آپس میں الجھ گئے ، یہ چیز بالکل عیاں تھی کہ ہم سب کا رب ایک ، نبی ایک اور دعوت ایک تھی ۔ ہم ان سے اللہ پر ایمان لانے اور رسول اللہ کی تصدیق میں اضافے کا مطالبہ نہیں کر رہے تھے ، نہ وہ ہم سے ایسا مطالبہ کر رہے تھے ۔ دونوں کا معاملہ ایک تھا ، سوائے اس کے کہ حضرت عثمان کے خون ناحق کے بارے میں ہم میں اختلاف پیدا ہوا ، جبکہ ہم ان کے خون سے بری الذمہ ہیں ۔ ( نھج البلاغۃ ص : 448 )

ایک ہی ماں باپ کے بیٹوں کے خیالات و سلوک میں بسا اوقات بعد المشرقین ہوتا ہے ۔ فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ ( الروم : 30 ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی آدم زاد ہی تو تھے ، کوئی ماورائی مخلوق نہیں تھے کہ اپنے دور اور معاشرے کے ہیجان انگیز واقعات اور نظریات سے اثر انداز نہ ہوں ۔ دیکھئے خود بنو ہاشم کے نظریات و خیالات ایک جیسے نہ تھے ۔ یہ عباسی ہے تو وہ علوی ، آغاز تحریک میں ساتھ تھے مگر کامیابی کے بعد دونوں کے راستے جدا ہو گئے ۔ عباسی دور حکومت چند کمزوریوں کو چھوڑ کر اسلامی تاریخ کا ایک درخشاں عہد ہے ۔ مگر مسلمانوں کا ایک طبقہ انہیں غیر شرعی اور ظالم قرار دینے میں ادھار کھائے بیٹھا ہے ۔ ( ماھنامہ تدریس القرآن ، کراچی / مئی 2007 )

پھر خود عباسیوں کے اندر اکھاڑ پچھاڑ کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہوا ۔ خود جناب عقیل رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روٹھ کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام چلے گئے‘ جہاں انہیں خوب پذیرائی ملی ۔ جناب حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے والد محترم رضی اللہ عنہ کی روش کے برخلاف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی اور مسلک اثنا عشریہ مکتب فکر کے مطابق امام کا عمل حجت ہوتا ہے ۔ پھر آپ کے بھائی جناب ابو عبداللہ الحسین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بھائی کی مصالحت کو برقرار رکھا ۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اہالیان کوفہ کی بے وفائی کے نتیجے میں خود دعوے داران محبت اہل بیت کے ہاتھوں مظلومانہ شہادت کے اعزاز سے سرفراز ہوئے ۔ اس کے بعد باقی ماندہ ائمہ اہل بیت عظام رضی اللہ عنہ نے اپنی ساری توجہ علوم نبوت کی نشر و اشاعت اور اصلاح نفس میں صرف کی اور حصول سلطنت و جہاں بانی کے تصور کو خیرباد کہہ دیا ۔ یہاں تک کہ امام باقر رحمہ اللہ نے فرمایا : ” جو بھی میرے خاندان کے قائم ( امام مہدی رحمہ اللہ ) سے پہلے خروج کرے گا ، وہ ایسا چوزہ ہو گا جو اڑ گیا ہو اور بچوں کو کھلونا بنا گیا ہو ۔ “ ( بحار الانوار ، ضرب مومن دسمبر 2004 )

امام زید بن علی رضی اللہ عنہ نے 121 ھ میں اموی خلیفہ ہشام کے خلاف خروج کیا تو امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے خروج سے شدید منع کیا ۔ اسی طرح جناب محمد نفس زکیہ رحمہ اللہ نے 145 ھ میں خلیفہ منصور عباسی کے خلاف خروج کیا تو حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ وغیرہ الگ تھلگ رہے ۔ امام حسن عسکری رحمہ اللہ کے ایک بھائی جعفر کو ” الکذاب “ قرار دیا گیا ۔ ابوجعفر محمد بن عثمان بن سعید العمری رحمہ اللہ امام زمان رحمہ اللہ کی غیبت صغریٰ کے دوران آپ اور لوگوں کے درمیان سفیر دوم تھا ، تو ان کے ہی بھائی احمد بن محمد اور منصور صلاح نے اسے جھوٹا سفیر قرار دےے دیا ۔ ( رسالۃ الثقلین عدد 166/37 )

خود مسئلہ امامت جیسے اہم موضوع پر اختلاف آج تک موجود ہے کہ آیا یہ متبرک دروازہ قیامت تک کھلا ہے یا بند ہو چکا ہے ؟ اثنا عشریہ کے نزدیک یہ سلسلہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے بیٹے امام موسیٰ الکاظم رحمہ اللہ کی اولاد میں جا کر امام حسن عسکری رحمہ اللہ کے بیٹے امام مہدی تک پہنچ کر ختم ہو چکا ہے اور وہ آج تک زندہ ہے ۔ ایک خیال کے مطابق سر من رآی کے غار میں چھپا ہوا ہے ، جبکہ ایک اور رائے کے مطابق لوگوں میں گھل مل کے رہتا ہے ۔ باقاعدہ حج کے لیے آتا ہے ، دوسروں کو دیکھتا ہے ، دوسرے اسے نہیں دیکھ پاتے اور روئے زمین پر خدم و ہشم کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے ، مگر کسی کو پہچان نہیں ہوتی ۔ ( ماہنامہ پیام زینب 56 ، ص : 26 ماہ ستمبر 2006 بحوالہ اصول کافی کتاب الحجة باب فی الغیبۃ ، کشف الغمۃ 3/283 )

جبکہ اسماعیلیہ کا خیال ہے کہ امامت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے دوسرے بیٹے اسماعیلؑ کی اولاد میں منتقل ہوئی ہے ۔ اسماعیلی چھ اماموں کے بعد زندہ اور حاضر امام کے قائل ہیں ۔ ( رسالۃ الثقلین عدد 37 ص92 ) جبکہ زید یہ منصب کا حقدار امام زید رحمہ اللہ بن زین العابدین رحمہ اللہ کو قرار دیتے ہیں ۔ اور دونوں کے نزدیک کوئی غیر فاطمی بھی امام بن سکتا ہے ۔ یہی کچھ داستان الم خوارج کے ساتھ بھی بیتی ۔ نور بخشیہ روش ہمدانیہ بھی بارہ ائمہ کے قائل نہیں ، بلکہ سلسلۃ الذھب امام علی رضا رحمہ اللہ کے بعد ان کے شاگرد معروف کرخی رحمہ اللہ کی طرف منتقل ہوتا ہے ، جو ایک پابند سنت ہستی تھے ۔ ( مشجر الاولیاء )

پیالہ و ساغر جیسی فکر رکھنے والی امامیہ پارٹی سے مرور زمانہ کے ساتھ متضاد خیالات کی حامل پارٹیاں منصہ شہود پر آئیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر امام کے دور میں بہت سے فرقے وجود میں آئے ، جو ایک دوسرے کے امام کی امامت سے انکاری تھے ۔ اس کے عشر عشیر بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اختلاف نہیں تھا ۔ ( فرق الشیعۃ بختی ص : 113 ، الملل والنحل للشھر ستانی ، الارشاد للاربلی ص : 285 اعلان الوریٰ ص : 367 المعارف لابن قتیبہ )

جب ہم انسانی معاشرے میں رونما ہونے والے اختلافات کو دیکھتے ہیں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین پیش آمدہ اختلافات کو سمجھنے میں دقت نہیں لگتی ۔ اس وقت حالات ہی ایسے ہو چکے تھے کہ ایک عام فرد کے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون مکمل طور پر حق بجانب ہے اور کون اس سے دور ؟ لہٰذا اس وقت کے معروضی حالات کا جائزہ آج کے تناظر میں لینا کسی طور قرین انصاف نہیں ۔ خصوصا بعض تاریخی حکایات و واقعات باہم متعارض بھی ہیں اور واقعات کے نقل میں ناقلین کے فہم و ذکاوت اور حفظ و صلاحیت سے کہیں بڑھ کر سیاسی وابستگیوں اور ذاتی رجحانات وغیرہ عوامل و محرکات کا دخل رہا ہے ۔

حضرت ابووائل رحمہ اللہ کہتے ہیں : جب حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ جنگ صفین سے لوٹے تو ہم خبر پوچھنے گئے.... انہوں نے کہا : ( وما وضعنا اسیافنا علی عواتقنا لامر یفظعنا الا اسھلن بنا الی امر نعرفہ قبل ھذا الامر مانسد خصما الا تفجر علینا خصم ما ندری کیف ناتی لہ ) ” اس واقعے ( صفین ) سے پہلے ہمیں خوفزدہ کرنے والے معاملے سے نمٹنے کے لیے ہم نے جب بھی تلواریں اٹھائیں تو وہ ہمیں ایسے بہتر نتیجے تک لے گیا جسے ہم اچھی طرح جانتے تھے ۔ اب ( صفین میں ) ہم ایک سمت کو بند کرتے ہیں تو دوسری سمت پھٹ پڑتی ہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ کس طرح پیش آئیں ۔ “ حضرت ابووائل رحمہ اللہ خود کہتے ہیں ” میں بھی صفین میں حاضر ہوا ہوں ، مگر صفین کتنا برا تھا!! “ ( بخاری ، الجزیۃ والموادعۃ ح3181 ، مغازی باب غزوۃ الحدیبیۃ ح 4189 ، الاعتصام باب ما یذکر من دم الرای وتکلف القیاس ح 7318 ) نیک دل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تین مہینے تک حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین صلح و صفائی کی کوشش میں لگے رہے ۔ ( مختصر تاریخ اسلام ص 126 مھر )

اگر آج ایسے حالات پیش آجائیں تو انتہائی نقاد اور مخلص لوگ بھی ایک رائے پر اتفاق نہ کر سکیں گے ، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی زیادہ اختلافات کے شکار ہو جائیں گے ۔

ان تاریخی حقائق کے ادراک کی روشنی میں ہمیں چاہئے کہ ان نفوس قدسیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے متعلق بداعتقادی اور بدکلامی کے ذریعے ان جنگوں کو نظریاتی طور پر ہوا دینے سے بچیں ، اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے متعلق اچھا گمان رکھیں ، ان سب سے درجہ بدرجہ محبت کریں اور ان کے اختلافات کی ریہرسل کر کے ایک دوسرے کی جان ، مال اور آبرو کے لیے خطرہ بننے کے بجائے اپنی تمام تر صلاحیتیں ایمان اور عمل صالح کا توشہ آخرت جمع کرنے میں صرف کریں ۔
 

قمر انس

محفلین
X boy بهائی اپ نے نہجل البلاغہ کا حوالہ دیا مینے بہت ڈهونڈہ مجهے نہں ملا اپ مجهے کتاب کا ص سکین کر کے بهیج دے یا کتاب لنک دیں دے جزاک اللہ
 
Top