گل زیب انجم
محفلین
سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس
محرابی دروازہ
تحریر :- گل زیب انجم
محرابی دروازوں کی ریت صدیوں پرانی چلی آ رہی ہے یوں تو محراب مسجد میں بنی ایک تکون نما جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں امام کھڑا ہوتا لیکن اس کے علاوہ بھی کہی اور محرابیں ہوتی ہیں جیسے بادشاہوں کے محلوں، بارہدریوں میں یا قلعہ نما جگہوں میں ہوتیں ہیں لیکن ان کی ساخت ہر جگہ کی مناسبت سے ہوتی ہے. اگر شاہدراہ کی بارہدری دیکھی جائے تو وہاں مورپنکھ یا سرو کے پیڑوں سے یہ محرابیں بنی دیکھتی ہیں. ہمارے ہاں بارہدریاں تو نہیں لیکن لوگ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے اپنے مکانوں کے دروازے اس طرح سے بنواتے ہیں کہ دیکھتے ہی محراب کی محبت تازہ ہو جائے کیونکہ ہم محراب صرف انہیں کہتے ہیں جہاں امام مسجد کھڑا ہوتا ہے.
پڑاٹی سے تھوڑی آگے بالکل راجہ ڈهول والے کے سامنے بان کے اس پار ایک نئی نویلی عمارت ہے جس پر بڑے سے حروف میں زبیر ہاوس لکھا ہوا ہے دراصل اس کے سربراہ اعلیٰ چوہدری عنایت اللہ المشہور حاجی نیامت ہیں لیکن نہ جانے فصیل بلند و بالا کے محرابی دروازے پر کیوں اپنا اسم کندہ نہ کر پائے خیر نام جو بھی لکها ہو پہچان انہی کے نام سے ہی ہوتی ہے کیونکہ راہگذر اکثر پوچھ ہی لیتے ہیں زبیر کون ہے تو جوابًا سننا پڑتا ہے حاجی نیامتے ہوراں ناں پوترا. جنہوں نے نام کمائے ہوں کب ان کے نام ختم ہوتے ہیں یا مٹانے سے مٹائے جا سکتے . یہ موصوف چوہدری شیر محمد کے منجلے بهائی ہیں لیکن پہچان ان کی اپنی ہی ہے یہ نہ تو چودھری صاحب کی طرح سر پر ٹوپی رکهتے اور نہ ہی اپنے چهوٹے بهائی کی طرح پرنہ (رومال کی طرح کا کپڑا جو حقیقتاً عربی لوگ غترہ کے نام سے استعمال کرتے ہیں) بلکہ مانجھے کے جاٹوں کی طرح پگڑی باندهتے ہیں اگر گھر میں ہوں تو پھر یہ بھی پرنہ سر یا کاندھے پر رکھ لیتے ہیں. سرخ سفید رنگت پر اکثر گلابی تہمند اور سفید قمیض پہنتے تھے گویا جیسا اپنا رنگ و روپ ویسے ہی لباس، اب دو تین سالوں سے شلوار کا شوق بھی فرما لیتے ہیں لیکن شلوار پہننے سے کنڑاس جاتی رہی کیونکہ گلابی شلوار ........ نہیں پہن سکتے. بیل دوڑائی میں کبھی دیدنی دلچسپی تهی لیکن جب سے سیاسی ہوئے تب سے یہ شوق جاتا رہا . ملنساری فطری یا خاندانی طور پر رگ رگ میں شامل ہے اور کچھ کچھ مجبوراً بهی شامل ہے کیونکہ بڑا بیٹا نہ صرف وکیل اور جج بلکہ مستقبل قریب میں اعلیٰ پائے کا سیاستدان بھی، اس لیے رہی سہی کسر کچھ اس وجہ سے بھی پوری ہو جاتی ہے. ویسے گفتار دلنشیں کے مالک ہیں لیکن فرط جذبات سے جب گلے میں کپکپی سی آتی ہے تو آواز میں کچھ اور ارتعاش سا آ جاتا ہے خاص کر جب کسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں " او آخن لغے" تو آخن پر آواز بہت دیر تک گونجتی رہتی ہے جیسے پیتل کی پرات کسی سے ٹکرا جائے تو اس کی ردهم کافی دیر تک سنائی دیتی رہتی ہے. اچهے نپے تلے قد کے آدمی ہیں اکثر محفلیں انہی سے سجتی ہیں خاص کر جب یہ وسط سیری والے گھر میں ہوتے تهے صبح ہو یا شام رونق لگی ہی رہتی تهی پهر حلقہ احباب بھی بہت وسیع تها صحن کے آگے دو کمرے تهے جن کی چهت اونچائی میں صحن سے کچھ ہی اونچی تهی اور اس چهت کو منڈا کہتے تھے اس منڈے پر مربع طرز پر لگی چارپائیاں درمیان میں لگی ایک پرانی سی میز جس کا ایک کونے سے اکهڑا ہوا فارمیگا اور چار ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ فالج زدہ تھی جسے ایک کنکر لگا کر دوسری ٹانگوں کے برابر کیا جاتا میز پر رکها پرانے سلور کا جگ جس پر پتہ چلتا لیپ اسٹک یا کسی کچے رنگ سے پهول بنایا گیا ہو ساتھ دو گلاس اور ایک چهنا ( چوڑائی والا گلاس) ہمیشہ ہی میز پر پڑے رہتے ان چیزوں کی ترتیب تب خراب ہوتی جب محفل میں مستری غلام حسین جنھیں اعزازی طور پر چیرمین بھی کہا جاتا تھا، آتے کیونکہ وہ باتیں کرتے اکثر عملی طور پر کر جاتے جیسا کے کسی کو روکنے کے لیے کہتے توں کهل او یرا اور ساتھ ہی کالی سی لوئ جھاڑتے ہوئے خود کهڑے ہو جاتے فالج زدہ میز ان کی یہ جهلک نہ سہتے ہوئے ایک طرف کو لڑکھڑا جاتی اور جگ گلاس کے علاوہ وہ پانی یا لسی بهی اوپر آ گرتے جو جگ کی ہتهی سے ٹپک ٹپک کر اکهڑے ہوئے فارمیگے والی جگہ حوض بنائے ہوئے تهے. مستری غلام حسین کی اس حرکت پر شیر مجاہد دانتوں اور ہونٹوں پر مشترکہ زبان پهرتے ہوئے کہتے تک یرا اپنے کرتوت .اُن کی بات سن کر چودھری نیامت کہتے یرا او چیرمین اے اسطرح تے نہ آخ، شیر مجاہد گری ہوئی لسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے اے تکو فیر چیرمینے نہے چالے. اس محفل میں سب سے زیادہ سامع کی حیثیت سے بیهٹنے والے چودھری جمروز ہوتے جن کا کام صرف اتنا ہوتا کہ ہنس کر کسی کی تائید کر دی یا خاموش رہ کر غیر جانبداری کا حق ادا کر دیا. اکثر حقے کی نال انہی کے ہاتھ میں رہتی جس سے وہ ہمیشہ ایک آنکھ بند کر کے کش لیتے سر پر اکثر ڈهیلی ڈهالی سی پگڑی نہ صرف چودهراہٹ کا ثبوت دیتی بلکہ چڑهتے اور اترتے سورج کے چٹکے سے بهی محفوظ رکهتی بہت دهیمی سی ہنسی ہنستے اگر اپنی سرگذشت سنانا مطلوب ہوتی تو لفظ اے خاں سے شروع کرتے جسے حلقہ احباب بڑی دلچسپی اور تحمل مزاجی سے سنتے. چودھری نیامت جہاں اپنی سیاسی و سماجی معلومات بہم پہنچاتے وہاں مہمان نوازی میں بھی کوئی کسر نہ اٹھائے رکهتے مستری غلام حسین کے لیے چهنے میں لسی اور دیگر شرکاء محفل کے لیے چائے اور کهانے پینے کا مکمل اہتمام کرتے ایک خوبی یہ بهی دیکهی کے ان کی اس مہمان نوازی سے کبھی خاتون خانہ کے ماتھے پر ناگواری کی شکن نہیں آئی جبکہ گرہستی کے لیے صرف دو ہی خواتین تهیں ایک زوجہ اور ایک چھوٹی بہو .امور خانہ داری کے ساتھ ڈورڈنگر اور زرعی امور بھی انہی دو کو دیکهنے ہوتے تهے جن پر مکمل دسترس حاصل تھی تاہم ان کی معاونت کے لیے ایک بارہ تیرا سال کا ملازم پیھڈی( نام اس کا نام شفیق تھا لیکن وہ بانڈی عباس پور کے گاؤں پیھڈی کا رہنے والا تھا جس کی بنا پر اس کے ہم عمر لڑکوں نے اس کا نام ہی پیھڈی رکھا دیا تھا ) بهی ہوتا جسے چودھری نیامت اپنا بیٹا کہتے تقریباً آدھے محلے کے شواہد ماجود ہیں کہ یہ نہ صرف اسے زبانی کلامی بیٹا کہتے بلکہ اپنے ساتھ بٹها کر کهانا بهی کهلاتے. بیشک اعلیٰ ظرفی کا یہ اعلیٰ ثبوت تھا. چودھری نیامت اکثر لفظ ہمارے کی جگہ آساں استعمال کرتے ہیں جب کہ باقی محلے دار ہمارے کی جگہ آساں نا کرتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا اساں نہے داند ہونے سے اس جگہ وہ صرف اساں داند ہونے سے کہیں گے. یا پھر کہیں گے اساں رزاق آخن لغا. جب کہ ہمارے کے لیے دیگر محلے دار اساں نا کہیں گے. ان کے یہ ترمیم شدہ الفاظ بڑی کشش رکھتے ہیں. ان کی محفل میں رنگ رنگ کی باتیں ہوتی کبهی تو سن پینسٹھ کے مجاہدین کی بہادری کے قصے کبهی لوڑوکے اور پنڈارها کی فصلوں کی باتیں اور کبهی سکهوں کے گردوارے میں ہونے والی بانی کی باتیں بهینسوں کے پنج کلیان ہونے سے بیلوں کی دوڑ تک کی باتیں ہوتی. اور آخر کار طیفے کے مندر کے باہر پڑے بت پر آکر روکتی. اتنے میں بابی عبداللہ وہاں سے مسکراتے ہوئے گذرتے او نماز دا ویلا ہو گیا نیامتا کہتے ہوئے مسجد چلے جاتے. بابی کا یہ کہنا ہوتا تو محفل برخاست ہو جاتی، خاتون خانہ بهی سکون کا سانس لیتیں. وسط سیری کیا چهوٹی وہ محفلیں ہی چهوٹ گئی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ محفلوں والے ہی نہیں رہے. گھر کے کام کاج زمیندارہ کرنے کے بعد بھی لوگ ایک جگہ مل بیٹھا کرتے تھے یہی میل جول ہی جب تک رہا لوگوں میں محبت بھائی چارہ قائم رہا. ایک دن مسجد سے ملحقہ قبرستان میں بیٹھے ہوئے تھے کافی باتیں چل رہی تھی میں نے ایسے ہی پوچھ لیا کہ آپ کو کبھی کوئی کام مشکل بھی لگا ہے. کہنے لگے میں نے کبھی اذان نہیں دی تھی ایک دن ایسا ہوا کہ ہماری مسجد (نئے گھر کے قریب والی مسجد) میں صبح کوئی بھی نہیں آیا. ادھر اذان کا ٹائم بھی ختم ہونے کو تھا، سوچا چلو کوشش کرتے ہیں اذان دینے کی. دو بار اسپیکر کا سوئچ آن کیا اور پھر اتنے ہی آرام سے ہاف کر دوں کہ چھوٹی سی ٹک بھی نہ ہو. جب اسپیکر میں اذان دینے کی ہمت نہ ہوئی تو پھر بغیر اسپیکر کے دینے کی سوچی پھر خود کو تسلی دینے کے لیے مسجد سے نکل کر دو تین بار دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی اس پاس ہے تو نہیں جب نہ ہونے کی تسلی ہو گئی تب اذان شروع کی (یہاں پہنچ کر انہوں نے آگے پیچھے دیکھا) کچھ توقف کرنے کے بعد پھر آہستہ سے کہنے لگے اس دن پتہ چلا اذان کتنی لمبی ہوتی ہے. آپ یہ بات کر رہے تھے اور قبرستان میں بیٹھے ہوئے کے باوجود ہم اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکے. کچھ تو ہمیں آپ کے لفظوں کی سچائی اور سادگی پر ہنسی آ رہی اس سے بھی زیادہ جب ہمارا دھیان حی علی الفلاح کی طرف گیا کہ وہاں پہنچ کر تو آپ کے حلق کی تھرتھراہٹ تو اور تیز ہوئی ہو گی. ہنستے ہوئے ہی پوچھا اس کے بعد نہیں اتفاق ہوا کہنے لگے نہیں پھر حاجی ( مِستری نذیر) ہور ویلے نال لغے ہشنے ہن.
وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح دھیرے دھیرے سرک گیا آج بہت سے محلے دار زیر زمین چلے گئے ہیں لیکن جب بھی چودھری نیامت پرنہ سر سے اتار کر گود میں رکھ کر سر کھجلاتے ہوں گے وہ منڈا ضرور یاد آتا ہو گا جس پر صبح و شام محفلیں سجا کرتی تھیں .
گپیں تھی قہقہے تھے کیا عظیم لوگ تھے یہ سب کہاں چلے گے یہ باتیں چودھری نیامت کے علاوہ کون سوچتا ہو گا یا کسے یہ سوچنے کی فرصت ہو گی. اب تو نہ وسط سیری جیسا محلہ رہا نہ ویسے پڑوسی. اب محرابی دروازے میں کھڑے ہو کر چودھری نیامت کئی بہت دور جانے والی سڑک کو دیکھتے ہیں جو پاس سے گزرتے ہوئے یہ بتائے جاتی ہے کہ ضروری نہیں ہر جانے والا لوٹ بھی آئے. _________️️
محرابی دروازہ
تحریر :- گل زیب انجم
محرابی دروازوں کی ریت صدیوں پرانی چلی آ رہی ہے یوں تو محراب مسجد میں بنی ایک تکون نما جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں امام کھڑا ہوتا لیکن اس کے علاوہ بھی کہی اور محرابیں ہوتی ہیں جیسے بادشاہوں کے محلوں، بارہدریوں میں یا قلعہ نما جگہوں میں ہوتیں ہیں لیکن ان کی ساخت ہر جگہ کی مناسبت سے ہوتی ہے. اگر شاہدراہ کی بارہدری دیکھی جائے تو وہاں مورپنکھ یا سرو کے پیڑوں سے یہ محرابیں بنی دیکھتی ہیں. ہمارے ہاں بارہدریاں تو نہیں لیکن لوگ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے اپنے مکانوں کے دروازے اس طرح سے بنواتے ہیں کہ دیکھتے ہی محراب کی محبت تازہ ہو جائے کیونکہ ہم محراب صرف انہیں کہتے ہیں جہاں امام مسجد کھڑا ہوتا ہے.
پڑاٹی سے تھوڑی آگے بالکل راجہ ڈهول والے کے سامنے بان کے اس پار ایک نئی نویلی عمارت ہے جس پر بڑے سے حروف میں زبیر ہاوس لکھا ہوا ہے دراصل اس کے سربراہ اعلیٰ چوہدری عنایت اللہ المشہور حاجی نیامت ہیں لیکن نہ جانے فصیل بلند و بالا کے محرابی دروازے پر کیوں اپنا اسم کندہ نہ کر پائے خیر نام جو بھی لکها ہو پہچان انہی کے نام سے ہی ہوتی ہے کیونکہ راہگذر اکثر پوچھ ہی لیتے ہیں زبیر کون ہے تو جوابًا سننا پڑتا ہے حاجی نیامتے ہوراں ناں پوترا. جنہوں نے نام کمائے ہوں کب ان کے نام ختم ہوتے ہیں یا مٹانے سے مٹائے جا سکتے . یہ موصوف چوہدری شیر محمد کے منجلے بهائی ہیں لیکن پہچان ان کی اپنی ہی ہے یہ نہ تو چودھری صاحب کی طرح سر پر ٹوپی رکهتے اور نہ ہی اپنے چهوٹے بهائی کی طرح پرنہ (رومال کی طرح کا کپڑا جو حقیقتاً عربی لوگ غترہ کے نام سے استعمال کرتے ہیں) بلکہ مانجھے کے جاٹوں کی طرح پگڑی باندهتے ہیں اگر گھر میں ہوں تو پھر یہ بھی پرنہ سر یا کاندھے پر رکھ لیتے ہیں. سرخ سفید رنگت پر اکثر گلابی تہمند اور سفید قمیض پہنتے تھے گویا جیسا اپنا رنگ و روپ ویسے ہی لباس، اب دو تین سالوں سے شلوار کا شوق بھی فرما لیتے ہیں لیکن شلوار پہننے سے کنڑاس جاتی رہی کیونکہ گلابی شلوار ........ نہیں پہن سکتے. بیل دوڑائی میں کبھی دیدنی دلچسپی تهی لیکن جب سے سیاسی ہوئے تب سے یہ شوق جاتا رہا . ملنساری فطری یا خاندانی طور پر رگ رگ میں شامل ہے اور کچھ کچھ مجبوراً بهی شامل ہے کیونکہ بڑا بیٹا نہ صرف وکیل اور جج بلکہ مستقبل قریب میں اعلیٰ پائے کا سیاستدان بھی، اس لیے رہی سہی کسر کچھ اس وجہ سے بھی پوری ہو جاتی ہے. ویسے گفتار دلنشیں کے مالک ہیں لیکن فرط جذبات سے جب گلے میں کپکپی سی آتی ہے تو آواز میں کچھ اور ارتعاش سا آ جاتا ہے خاص کر جب کسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں " او آخن لغے" تو آخن پر آواز بہت دیر تک گونجتی رہتی ہے جیسے پیتل کی پرات کسی سے ٹکرا جائے تو اس کی ردهم کافی دیر تک سنائی دیتی رہتی ہے. اچهے نپے تلے قد کے آدمی ہیں اکثر محفلیں انہی سے سجتی ہیں خاص کر جب یہ وسط سیری والے گھر میں ہوتے تهے صبح ہو یا شام رونق لگی ہی رہتی تهی پهر حلقہ احباب بھی بہت وسیع تها صحن کے آگے دو کمرے تهے جن کی چهت اونچائی میں صحن سے کچھ ہی اونچی تهی اور اس چهت کو منڈا کہتے تھے اس منڈے پر مربع طرز پر لگی چارپائیاں درمیان میں لگی ایک پرانی سی میز جس کا ایک کونے سے اکهڑا ہوا فارمیگا اور چار ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ فالج زدہ تھی جسے ایک کنکر لگا کر دوسری ٹانگوں کے برابر کیا جاتا میز پر رکها پرانے سلور کا جگ جس پر پتہ چلتا لیپ اسٹک یا کسی کچے رنگ سے پهول بنایا گیا ہو ساتھ دو گلاس اور ایک چهنا ( چوڑائی والا گلاس) ہمیشہ ہی میز پر پڑے رہتے ان چیزوں کی ترتیب تب خراب ہوتی جب محفل میں مستری غلام حسین جنھیں اعزازی طور پر چیرمین بھی کہا جاتا تھا، آتے کیونکہ وہ باتیں کرتے اکثر عملی طور پر کر جاتے جیسا کے کسی کو روکنے کے لیے کہتے توں کهل او یرا اور ساتھ ہی کالی سی لوئ جھاڑتے ہوئے خود کهڑے ہو جاتے فالج زدہ میز ان کی یہ جهلک نہ سہتے ہوئے ایک طرف کو لڑکھڑا جاتی اور جگ گلاس کے علاوہ وہ پانی یا لسی بهی اوپر آ گرتے جو جگ کی ہتهی سے ٹپک ٹپک کر اکهڑے ہوئے فارمیگے والی جگہ حوض بنائے ہوئے تهے. مستری غلام حسین کی اس حرکت پر شیر مجاہد دانتوں اور ہونٹوں پر مشترکہ زبان پهرتے ہوئے کہتے تک یرا اپنے کرتوت .اُن کی بات سن کر چودھری نیامت کہتے یرا او چیرمین اے اسطرح تے نہ آخ، شیر مجاہد گری ہوئی لسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے اے تکو فیر چیرمینے نہے چالے. اس محفل میں سب سے زیادہ سامع کی حیثیت سے بیهٹنے والے چودھری جمروز ہوتے جن کا کام صرف اتنا ہوتا کہ ہنس کر کسی کی تائید کر دی یا خاموش رہ کر غیر جانبداری کا حق ادا کر دیا. اکثر حقے کی نال انہی کے ہاتھ میں رہتی جس سے وہ ہمیشہ ایک آنکھ بند کر کے کش لیتے سر پر اکثر ڈهیلی ڈهالی سی پگڑی نہ صرف چودهراہٹ کا ثبوت دیتی بلکہ چڑهتے اور اترتے سورج کے چٹکے سے بهی محفوظ رکهتی بہت دهیمی سی ہنسی ہنستے اگر اپنی سرگذشت سنانا مطلوب ہوتی تو لفظ اے خاں سے شروع کرتے جسے حلقہ احباب بڑی دلچسپی اور تحمل مزاجی سے سنتے. چودھری نیامت جہاں اپنی سیاسی و سماجی معلومات بہم پہنچاتے وہاں مہمان نوازی میں بھی کوئی کسر نہ اٹھائے رکهتے مستری غلام حسین کے لیے چهنے میں لسی اور دیگر شرکاء محفل کے لیے چائے اور کهانے پینے کا مکمل اہتمام کرتے ایک خوبی یہ بهی دیکهی کے ان کی اس مہمان نوازی سے کبھی خاتون خانہ کے ماتھے پر ناگواری کی شکن نہیں آئی جبکہ گرہستی کے لیے صرف دو ہی خواتین تهیں ایک زوجہ اور ایک چھوٹی بہو .امور خانہ داری کے ساتھ ڈورڈنگر اور زرعی امور بھی انہی دو کو دیکهنے ہوتے تهے جن پر مکمل دسترس حاصل تھی تاہم ان کی معاونت کے لیے ایک بارہ تیرا سال کا ملازم پیھڈی( نام اس کا نام شفیق تھا لیکن وہ بانڈی عباس پور کے گاؤں پیھڈی کا رہنے والا تھا جس کی بنا پر اس کے ہم عمر لڑکوں نے اس کا نام ہی پیھڈی رکھا دیا تھا ) بهی ہوتا جسے چودھری نیامت اپنا بیٹا کہتے تقریباً آدھے محلے کے شواہد ماجود ہیں کہ یہ نہ صرف اسے زبانی کلامی بیٹا کہتے بلکہ اپنے ساتھ بٹها کر کهانا بهی کهلاتے. بیشک اعلیٰ ظرفی کا یہ اعلیٰ ثبوت تھا. چودھری نیامت اکثر لفظ ہمارے کی جگہ آساں استعمال کرتے ہیں جب کہ باقی محلے دار ہمارے کی جگہ آساں نا کرتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا اساں نہے داند ہونے سے اس جگہ وہ صرف اساں داند ہونے سے کہیں گے. یا پھر کہیں گے اساں رزاق آخن لغا. جب کہ ہمارے کے لیے دیگر محلے دار اساں نا کہیں گے. ان کے یہ ترمیم شدہ الفاظ بڑی کشش رکھتے ہیں. ان کی محفل میں رنگ رنگ کی باتیں ہوتی کبهی تو سن پینسٹھ کے مجاہدین کی بہادری کے قصے کبهی لوڑوکے اور پنڈارها کی فصلوں کی باتیں اور کبهی سکهوں کے گردوارے میں ہونے والی بانی کی باتیں بهینسوں کے پنج کلیان ہونے سے بیلوں کی دوڑ تک کی باتیں ہوتی. اور آخر کار طیفے کے مندر کے باہر پڑے بت پر آکر روکتی. اتنے میں بابی عبداللہ وہاں سے مسکراتے ہوئے گذرتے او نماز دا ویلا ہو گیا نیامتا کہتے ہوئے مسجد چلے جاتے. بابی کا یہ کہنا ہوتا تو محفل برخاست ہو جاتی، خاتون خانہ بهی سکون کا سانس لیتیں. وسط سیری کیا چهوٹی وہ محفلیں ہی چهوٹ گئی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ محفلوں والے ہی نہیں رہے. گھر کے کام کاج زمیندارہ کرنے کے بعد بھی لوگ ایک جگہ مل بیٹھا کرتے تھے یہی میل جول ہی جب تک رہا لوگوں میں محبت بھائی چارہ قائم رہا. ایک دن مسجد سے ملحقہ قبرستان میں بیٹھے ہوئے تھے کافی باتیں چل رہی تھی میں نے ایسے ہی پوچھ لیا کہ آپ کو کبھی کوئی کام مشکل بھی لگا ہے. کہنے لگے میں نے کبھی اذان نہیں دی تھی ایک دن ایسا ہوا کہ ہماری مسجد (نئے گھر کے قریب والی مسجد) میں صبح کوئی بھی نہیں آیا. ادھر اذان کا ٹائم بھی ختم ہونے کو تھا، سوچا چلو کوشش کرتے ہیں اذان دینے کی. دو بار اسپیکر کا سوئچ آن کیا اور پھر اتنے ہی آرام سے ہاف کر دوں کہ چھوٹی سی ٹک بھی نہ ہو. جب اسپیکر میں اذان دینے کی ہمت نہ ہوئی تو پھر بغیر اسپیکر کے دینے کی سوچی پھر خود کو تسلی دینے کے لیے مسجد سے نکل کر دو تین بار دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی اس پاس ہے تو نہیں جب نہ ہونے کی تسلی ہو گئی تب اذان شروع کی (یہاں پہنچ کر انہوں نے آگے پیچھے دیکھا) کچھ توقف کرنے کے بعد پھر آہستہ سے کہنے لگے اس دن پتہ چلا اذان کتنی لمبی ہوتی ہے. آپ یہ بات کر رہے تھے اور قبرستان میں بیٹھے ہوئے کے باوجود ہم اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکے. کچھ تو ہمیں آپ کے لفظوں کی سچائی اور سادگی پر ہنسی آ رہی اس سے بھی زیادہ جب ہمارا دھیان حی علی الفلاح کی طرف گیا کہ وہاں پہنچ کر تو آپ کے حلق کی تھرتھراہٹ تو اور تیز ہوئی ہو گی. ہنستے ہوئے ہی پوچھا اس کے بعد نہیں اتفاق ہوا کہنے لگے نہیں پھر حاجی ( مِستری نذیر) ہور ویلے نال لغے ہشنے ہن.
وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح دھیرے دھیرے سرک گیا آج بہت سے محلے دار زیر زمین چلے گئے ہیں لیکن جب بھی چودھری نیامت پرنہ سر سے اتار کر گود میں رکھ کر سر کھجلاتے ہوں گے وہ منڈا ضرور یاد آتا ہو گا جس پر صبح و شام محفلیں سجا کرتی تھیں .
گپیں تھی قہقہے تھے کیا عظیم لوگ تھے یہ سب کہاں چلے گے یہ باتیں چودھری نیامت کے علاوہ کون سوچتا ہو گا یا کسے یہ سوچنے کی فرصت ہو گی. اب تو نہ وسط سیری جیسا محلہ رہا نہ ویسے پڑوسی. اب محرابی دروازے میں کھڑے ہو کر چودھری نیامت کئی بہت دور جانے والی سڑک کو دیکھتے ہیں جو پاس سے گزرتے ہوئے یہ بتائے جاتی ہے کہ ضروری نہیں ہر جانے والا لوٹ بھی آئے. _________️️