سیری نالہ بان

گل زیب انجم

محفلین
یوں تو کشمیر خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے لیکن سیری کو اس میں وہی اہمیت حاصل ہے جو جھومر کو دوسرے زیورات پر ہے۔سیری ضلع کوٹلی کی اس حسین و جمیل وادی کا نام ہے جو قدرتی طور شرقاٗ غرباٗ پہاڑوں کے دامن میں ہے جبکہ جنوب میں مقبوضہ کشمیر اور شمال میں ضلع کوٹلی قلعہ کرجائی اور فتح پور تھکیالہ ہیں۔یہ وادی خوبصورتی میں لاثانی ہے ۔ کوٹلی سے لیکر دھرمسالہ تک کا سلسلہ ایک جسیا ہے ۔آب و ہوا بھی متوسط سی ہے نہ ہی پنجاب جیسی گرم اور نہ ہی بالائی کشمیر کی طرح ٹھنڈی اگر اسے برد'وسلام" کہا جاے تو غلط نہ ہو گا ۔ پانی میں قدرتی شیرنیی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں بھی کافی مٹھاس ملتی ہے، شاید اسی لیے کسی شاعر نے کہا تھا "م ملک چنگا سیری بناہ والا چنگے لوک تے مٹھیاں بولیاں نی" جیسی خوبصورت سیری ہے ایسی ہی اس میں بسنے والی مخلوق بھی ہے اچھے تگڑے لوگ زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس وادی میں کیپٹن فیض پہلوان اور لطیف پہلوان جیسے نامور لوگ بھی ہیں تو وکلا۶ کی نصف برادری بھی اسی سیری کی جم پل ہے، حکمت اور ڈاکٹری کے علوم سے اچھی شہرت رکھنے والے اور درس و تدریس جیسے مقدس پیشے سے وابستہ لوگ بھی اسی سیری سے ملتے ہیں۔ ادب کی دنیا کے آزاد خیال لوگ چودھری میاں محمد، زوالفقارعارش،مسعود ساگر اور پروفیسر انوار چشتی جیسی عالیٰ شخصیت کے مالک اسی وادی کا سرمایہ ہیں۔گویا سیاسی سماجی پہلو کی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ اس وادی کے انمول خیزنوں میں سے ہیں ۔ گویا شعبہ ہاے زندگی سے وابستہ لوگوں سے بھری اس وادی کو سیری کہا جاتا ہے۔

اب سیری کی وجہ تسمیہ کیا ہے اس کو سیری کیوں کہا جاتا ہے یہ جاننے کے لیے مصنف کو کافی چھان بین کے بعد بھی کچھ خاص بات پلے نہ پڑی البتہ پرانے لوگ اس کی ایک وجہ یہ ضرور بتاتے ہیں کہ جب ڈھائی سیرا کال پڑا تو اس وقت جو سرکاری راشن ڈپو تھا وہ اسی جگہ پر تھا اور سب کو یہاں سے ایک سیر راشن ملتا تھا آنے جانے والے لوگ سے جب یہ پوچھا جاتا کہ آپ کہاں سے آرہے ہیں تو وہ سیر کے آگے "ی" کا صغیہ لگا کر سیری کہہ دیتا اور پوچھنے والا سمجھ جاتا کے راشن ڈپو سے آرہا ہے۔ لیکن مصنف اس سے متفق نہیں۔ وہ اس لیے کے جہاں راشن ڈپو تھا آخر اس جگہ کا کوئی نام تو سیری سے پہلے کا ہونا چاہیے تھا جیسا کہ سیر یا ڈھائی سیر کا کال تو بعد میں ہوا کیا یہ جگہ اسی انتظار میں تھی کہ کال کے بعد میرا کوئی نام رکھا جائے گا-

مصنف چونکہ باتوں کا اور وجہ تسمیہ جانے کا شروع سے ہی چسکورہ رہا ہے اس لیے اس نے اپنے ایک درینہ دوست سے بھی رابطہ کیا وہاں سے یہ بات ملی کہ یہ جگہ ریشم کا مرکز تھی اور یہاں ریشم لینے یا کاتنے کےلیے لوگ آتے لیکن کسی مجبوری کے تحت صرف ایک سیر ریشم کاتا جاتا جس کی وجہ سے اس کا نام ہی سیری پڑھ گیا ، لیکن عادتاٗ مصنف کی تشنگی اس جواب کو پا کر بھی نہ بُجھ سکی، پھر دوسرے دوست زوالفقار عارش سے یہ پتہ چلا کے اس کا مطلب ہے خوب پھیلا پولا یا پیٹ کا بھرا ہوا جب کہ ایک تیسرے دوست چودھری وقار نے ریشم کا کہا لیکن مزید معلومات بعد میں دوں گا کہہ کر دو دن کی مہلت لے لی ۔مصنف مزید سے مزید تر کی جستجو میں کوشاں رہا۔آخرکار مصنف نے اپنے تہی تیر چلاتے ہوئے ایک نئی وجہ تلاش کی اس سوچ کہ پیش نظر کہ شاید اس پر پہلے کسی نے غور نہیں کیا اور وہ وجہ یہ اخذ ہوئی کہ اس جگہ بسنے والی چار بڑی قومیں تھی جن کا اثر رُسوخ دوسری قوموں سے زیادہ تھا ،اس لیے مصنف نے اَن چاروں کو ایک ایک پاؤ سے منسلک کیا اور پھر چاروں کو اکھٹا کر کہ ایک کلو(سیر) بنایا اور ساتھ (ی) کا صغیہ لگا کر سیری کر دیا۔ لیکن بات یہ بھی کوئی پکی نہیں کیونکہ ابھی ایک دماغ کی بات ہے جب دو چار سر جوڑیں گئے تب اس بات پر مکمل اتفاق ہو گا ۔سیری سے گذرنے والے اجنبی لوگ اور خاص کر فوج سے وابستہ لوگ آج بھی سیری کو سحری کہتے ہیں ،وہ یوں کیوں کہتے ہیں کسی کو یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں۔

مصنف نے اپنے تہی س ی ری کے چاروں حروف سے بھی کچھ نہ کچھ کریدنے کی کوشش کی لیکن سعی لاحاصل رہی پڑھے لکھے احباب سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیا لیکن تین دوستوں صابر حسین وقار احمد اور ذولفقار عارش کے علاوہ کسی نے جواب دینے کی یا اس مفت کے کام میں شمولیت کی زحمت نہ کی۔ آخر کار مصنف نے انگریزی کے حروف تہجی(English alphabet)پر غور وفکر کرتے ہوئے کچھ نتائج حاصل کیے جن میں سے خود ہی ایک کی سلیکشن کی جو قارئین کی پیش نظر ہے ( society of equally relations inn)جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی سرائے یا ایسا معاشرہ جو لوگوں کے باہمی تعلق سے قائم ہوا ۔اب یہ بھی مصنف کی اپنی سر کھپائی ہے شاید احباب کی نظر میں آئے تو اتفاق رائے سے قبولیت مل جائے۔یوں یہ ایس ای آر آئی کا مجموعہ سیری بن گیا ۔لیکن ابھی تک اس پر باعث جاری ہے ۔
نالہ تو تقریباٗ سب کی سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن بان کا ترجمہ ذرا مشکل ہے کیونکہ بان کے جو معانی کہیں سے ملتے ہیں وہ بالکل اس بان سے مختلف ہیں البتہ یہاں اس نالے کو بان کہا جاتا ہے جو سیری کے کنارے کنارے بہتا ہے یعنی سیری اور دوسرے آس پاس کے قصبات کے درمیان حد فاضل کا کام کرتا ہے۔بان مقامی زبان کا لفظ ہے جو نالے کے طور پر استعمال ہورہا ہے ۔یہ بان مقبوضہ کشمیر سے نکل کر چتر کے مقام سے سیری میں داخل ہوتی ہے اور پھر دریا پونچھ سے ملنے تک بان ہی رہتی ہے ۔اس بان کو چناب یا راوی جیسی مقبولیت تو حاصل نہیں لیکن پھر بھی بہت ساری کہانیاں اس کے دامن میں پوشیدہ ہیں۔اس کے دونوں کناروں پر بسنے والے آمنے سامنے ہونے کے باوجود بھی الگ الگ بولیاں بولتے ہیں الگ رنگ روپ اور الگ رسم و رواج رکھتے ہیں۔ بان کے دونوں کنارے جدا جدا رہ کر ایک جیسی مشابہت رکھتے ہیں جبکہ ان کے باسیوں میں کم کم مماثلت پائی جاتی ہے۔تیرہ چودہ گز کی بان کے کنارے ایسے جدا ہوئے کہ پھر مل نہ پائے۔اس بان سے وابستہ کہانیوں میں سے ایک کہانی منیر حسین اور وزیر حسین کی بھی ہے جو اس کے پانیوں میں ایسے گم ہوئے کہ پھر لوٹ کے نہ آئے۔ستاسیس رمضان کی سحری تھی جب بان کے بھنور میں آئے ، گھر والوں سے اور اس بستی میں بسنے والوں سے یوں ناطہ توڑا کے منانے سے بھی مان نہ پائے، ۔

مصنف کا تعارف
نام ۔ گل زیب انجم
تاریخ پیدائش۔ ۱مئ ۱۹۶۷
تعلیمی قابلیت۔ ایم اے پولیٹکل سائنس (سال اول)
جائے پیدائش۔ کوٹلی سوہلناں ضلع کوٹلی
حال مقام ۔ سیری ضلع کوٹلی آزاد کشمیر

حالات زندگی

گل زیب انجم ضلع کوٹلی کے ایک گاؤں کوٹلی سوہلناں میں پیدا ہوئے۔لیکن پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد اپنے گھر والوں کے ساتھ ننھالی گاؤں سیری ضلع کوٹلی آ گے۔یہاں سے ہی انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ نہم جماعت سے سکول کو خیرآباد کہہ کر محنت مزدوری کی غرض سے لاہور چلے گے۔دو تین سال گزارنے کے بعد ایک دوست کے کہنے پر کراچی چلے گے۔وہاں جاکر کچھ عرصہ ایک شادی دفتر سے وابستہ رہے بعد ازیں ایک مشفق انسان کے کہنے پر فوج میں بھرتی ہو گے۔ریکروٹی کا زمانہ بڑا صبر آزما گزارا۔مانسرکیمپ سے پاسنگ اُوٹ ہوئے اور پہلی تقرری اکاڑہ چھاونی میں ہوئی۔

گل زیب انجم کو نصابی کتب سے نہ سہی لیکن غیر نصابی کتب پڑھنے کا بےحد شوق تھا اور یہی شوق وہ دوران ڈیوٹی فرما رہے تھے کہ ڈیوٹی این،سی،او حوالدار شمس دین چکنگ کے لیے آگیا۔چکنگ کے دوران جب نائیٹ گارڈ کے ہاتھ میں آداب عرض دیکھا تو بہت بھرم ہوا لیکن سزا دینے کے بجائے ایک مشورے سے نوازا کہ تم لائبریری سے دسویں کی کتابیں لے لو جن کے پڑھنے سے کچھ فائدہ بھی ہو گا رات بھی گزر جائے گی اور دیکھنے والا یعنی چکنگ والا بھی کچھ نہیں کہے گا۔ دوسرے دن جب کتابوں کے لیے لائبریری گے تو شومئ قسمت پتہ چلا کے دسویں کے کچھ ہی سیٹ تھے جو کے ایشو ہو چکے ہیں۔اب گل زیب انجم نے اسی سلسلے میں دوبارہ حوالدار شمس دین سے رابطہ کیا تو انہوں نے یوں کہا کہ اب ان لوگوں کے ساتھ ڈیوٹی لگوایا کرو جن کے پاس کتابیں ہیں۔ تاکہ ایک ساتھ ڈیوٹی کرنے سے تمہیں بھی پڑھنے کا موقع مل جائے گا۔حوالدا شمس دین کی اس بات سے کتابوں کا مسلۂ تو حل ہو گیا لیکن دو تین دن تک کتاب والے ساتھیوں کی کج ادائیاں خندہ پیشانی سے برداش کرنی پڑی۔

آرمڈ سروسز بورڈ میں امتحان ہو رہا تھا ابھی دو پرچے باقی تھے کے ان کو اپنڈکس کا درد ہوگیا جس کا علاج اپریشن کی صورت میں ہوا۔ یوں اپریشن کی وجہ سے ان کے دو پرچے رہ گے جن کے لیے سپلی میں شامل ہونا پڑا۔سپلی کے داخلے جاری تھے ان کو بھی داخلہ بھیجنے کا خیال آیا لیکن داخلے کے لیے مبلخ ۱۰۱ روپیہ درکار تھا جو اُن کے پاس نہ تھا ۔آخر سوچ بچار کے بعد کنٹین ٹھکیدار سے ۱۰۱ روپے مانگنے گے اُس نے وجہ پوچھنے کے بعد ۱۲۰ روپے ان کو دیے ۔جب انہوں نے ۱۰۱ کا کہا تو اس نیک دل شخص نے کہا بابا منی ارڈر پر بھی کچھ پیسہ لگے گا کے نہیں؟ داکلا پھارم(داخلہ فارم)بھی پیسے کا ملے گا۔تم لے جاؤ بعد میں دے دینا۔ ان ادھار کے روپوں سے انہوں نے داخلہ بیجھا آخر کار دسویں جماعت کا امتحان صرف پاس مارکس سے ہی پاس کر لیا۔

میٹرک کر لینے کے بعد تعلیم کا ایک چسکا سا لگ گیا اور اسی چسکے کی بنا پر انہوں نے ایف اے کا امتحان سکینڈ ڈویژن میں اور بی۔اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔اسی عرصے میں وہ فوج سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے دوران دکانداری ان کو ماسٹر کی سوجی اور انہوں نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے فرسٹ پارٹ کا امتحان پاس کیا لیکن سکینڈ پارٹ ۲۰۰۵کے زلزلے کی وجہ سے نہ کر سکے ۔

گل زیب انجم کو شاعری سے کافی شغف رہا ہے اسی بنا پر انہوں نے اردو اور پنجابی میں ہر رنگ میں شاعری کی ان کی شاعری سے جہاں قہقے پھوٹتے ہیں وہی آنکھوں سے جھرنے بھی بہہ جاتے ہیں حالات حاضرہ کو کہیں شعرونغمہ میں پیش کرتے ہیں تو کہیں حا لات کی ستم ظریفی کو نوحے کی صورت میں لکھ دیتے ہیں۔ان کی شاعری میں بھی ان کی زندگی کی طرح کی سادگی ملتی ہے لیکن سادگی سچائی پر کبھی غالب نہیں آ سکی۔

وہ دوسروں کی خوبیوں کو بیان کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے دوسروں کے غم کو یوں بیاں کرتے ہیں کے سننے والا یہ امتیاز کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے کہ یہ داستان غم ان کی اپنی ہے یا کسی دوسرے کی بیان کر رہے ہیں۔ اُن کی غم زدہ شاعری میں "تجھ جیسا پروفیسر انوار نہیں آتا اور وہ نینوں کا تارا تھا" نمایاں ہیں جب کہ "اب کاکے نہیں ہوتے" تھوڑی مزاحیہ اور منصوبہ بندی والوں سے وابستہ ہے۔" توں لوکاندا پھردا ایں بالاں نوں" ملک کے اندر دہشت گردی سے منسوب ہے ۔ شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نگاری اور مضمون نگاری میں بھی ایک مقام رکھتے ہیں۔دھرتی ماں یہ عہد ہے میرا،شاہ ایران سے شاہ پاکسان اور وہ بادشاہ تھا یا ولی مثالی مضمون ہیں۔


بان کی اوپر نیچے کی جگہیں کچھ ناموں سے مشہور ہیں جیسا کہ بٹوے کی ڈاؤو،اب اس کی وجہ تسمیہ کچھ یوں ہے کہ یہاں مغلائی(مغل،مستری) خاندان کے کچھ گھر ہیں اور یہ جگہ بھی بڑےبڑے پتھروں میں گری ہوئی ہے اب نام دینے والے نے پتھر توڑنے والوں سے منسوب کیا یا پتھروں کی ؔڈاؤو(ڈھکی ہوئی جگہ)کی وجہ سے اسے یہ نام نوازا ہے ،کافی عرصہ یہاں تیراکی کا شوق پورا کیا گیا لیکن اصل نام کی وجہ نہ جان پائے۔تھوڑا اور نیچے کی طرف جاہیں تو یہ جگہ چیراں نی پڑاٹی کے نام سے مشہور ہے ۔یہاں بڑے بڑے پڑاٹ یعنی پتھروںکی سیلیں ہیں اس وجہ سے پڑاٹوں کو پڑاٹی کہا اور یہاں بسنے والے ایک خاندان سے منسوب کرتے ہوئے چیراں نی پڑاٹی کہنا شروع کر دیا ،چیروں کا ذریعہ معاش ماہی گیری تھا اور بان کا یہ حصہ دوسری جگہوں سے ذرا زیادہ گہرا تھا اور گہرائی کی وجہ سے مچھلی بھی یہاں زیادہ تھی اس وجہ سے اس خاندان نے یہا ں بستی بنا لی اور مقامی زبان میں چیر مشہور ہوئے ،اب یہ جگہ تو وایسی ہی ہے لیکن چیر وائی فائی کی اور روپے پیسے کی وجہ سے سدھن بن گے ۔پراٹی سے تھوڑی آگے چودھریاں نی مسیت (چودھریوں کی مسجد) ہے جو سیاسی لحاظ سے بھی بڑی اہم ہے وہ اس طرح کے اس مسجد کے بننے سے شاملاٹ کے سارے تقاضے آت جاتے رہے اور یوں یہ جگہ برلب بان اور سڑک اپنا ایک مقام بنا گئی۔اس سے آگے باؤے فتح شیر کا ڈبہورا ہے ڈبہورا ڈب سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معانی وہ جگہ جہاں پانی گولائی اور گہرائی کی شکل میں کھڑا رہتا ہے یا دوسری جگہ کی بانسبت کچھ گہرا ہوتا ہے ،یہ ڈبہورا اتنا گہرا تو نہ تھا لیکن جب سے اس کی شناسائی باؤے سے ہوئی تب سے یہ گہرائی پکڑتا گیا کیوں کے باؤا اس سے پتھر نکال نکال کر اس کو گہرا اور اپنی فصیل اونچی کرتے رہے اور یہ بےنام جگہ اُن سے منسوب ہوگئی۔اس سے تھوڑی آگے محکمہ امور حیوانات والوں کی ڈسپنسری ہے جہاں دو چار کمروں پر سرکاری عمارت قائم ہے لیکن سٹاف وہاں بیٹھنے کی زحمت کم ہی کرتا ہے ۔

یہاں سے ایک پیلی(میدانی جگہ) شروع ہوتی ہے پہلے تو باناں کی پیلی ہوتی تھی لیکن چند عرصے سے اس کو قادری ہوراں نی پیلی کہا جانے لگا وہ اس لیے کے اس سے جو کاشت کار زمین کی حد یا باونڈری شروع ہوتی ہے وہ زمین قادری نامی شخص کی متروکہ اراضی ہے اس وجہ سے یہ پیلی اپنا نام ان سے یا وہ اپنا نام اس سے منسوب کر بیٹھے۔ جب تک یہ بان کی پیلی تھی ڈورڈنگر کی چہل قدمی بھی ہوتی تھی اور بچے کوئی کھیل وغیرہ بھی کھیل لیتے تھے لیکن جب سے اس کا نیا نام پڑا تب سے ارٹیکل ۵۸بی لاگو ہو گیا اب چڑی پَر نہیں مار سکتی کے مصداق ہے ۔

اس سے آگے محمد خان ہوراں نے توت ہیں،کھبی کھبی یہاں بڑے گھنے توتوں کے درخت ہوتے تھے جو لوگ مال مویشی کہ پانی پلانے لے جاتے تھے وہ خود ان توتوں کی چھاں میں آرام فرماتے تھے وقت بدلا حالات بدلے نہ وہ لوگ رہے نہ وہ توت رہے نہ وہ مزاج رہے آج وہ جگہ تو ہے لیکن وہ ساری باتیں آئی گئی ہوئی۔یہاں سے آگے بان کا کنارہ مندو ہوراں نا دندا بن جاتا ہے محمد شریف نام کے آدمی سے منسوب جگہ (rock)دندا ، اب یہ محرحوم شریف سے مندو کیسے بنے اس کی اج تک سمجھ نہ آ سکی، یہ شارٹ کٹ کی ستم ظریفی نہ صرف ان کا مقدر ٹھہری بلکہ اس کی زد میں ان کی زوجہ متحرمہ بھی پوری پوری رہی، اُن کا نام ماں باپ نے بڑے مان گمان سے امرت بی بی رکھا تھا لیکن ساری زندگی وہ بھی ترس گئی کہ اُ ن کو کوئی امرت کہے حروف کے کفایت شعاروں نے اُن کو ابرو کے علاوہ کبھی کچھ نہ کہا ، اور تو اور اُ ن کے گھر والے بھی اُ ن کا اصل نام بھُول گے ، ابھی حال ہی میں مصنف کا گذر ان کی تُربت کے پاس سے ہوا تو کتبے پر بھی اِبرو لکھا پایا ،یوں امرت مٹی کا ڈھیر بن گئی۔ وقت بڑا بے نیاز ہے اس نے جہاں علی قلی کو شیرافگن مہروانسا۶ کو نور جہاں اور نوردین کو شہنشاہ جہانگیر بنا دیا وہی محمد شریف کو مندو اور امرت بی بی بنا کر سرک گیا ،گویا بان کا یہ حصہ مندو کا دندا بن گیا اور اسی نام سے مشہور ہوا-

اس سے آگے عنایت اللہ کینٹاں والے کا دندا ہے کینٹ ایک کھردرا قسم کا پتھر ہے اور وہ پتھر ان کی الاٹ منٹ اراضی میں آتا ہے کافی عرصہ تک ان کا ذریعہ معاش سنگ فروشی رہا اس لیے پتھر ان سے اور وہ پتھر سے یوُں وابستہ ہوئے کے لوگ یہی سمجھنے لگے کے کینٹ ان کی قوم یا کنیت ہے ۔ بان یہاں سے ایک موڑ لے کر ھلہ اور پیلاں کے درمیان سے گزرتی ہوئی توتاں والے گراٹ کو اللہ حافظ کہتی ہوئی دُور نکل جاتی ہے اور مصنف واپس سیری کی طرف پلٹتا ہے کیونکہ سیری نالہ بان ہی ہے مطلوب و مقصود مصنف۔۔۔۔

جمعہ اور اتوار کو یہ بان مکمل وقف انساء ہو جاتی ہے ، ان دنوں میں بان کی رونق قابل دید ہوتی ہے، خواتین جب رنگ برنگے کپڑے سوکنے کی خاطر آس پاس کی پیلیوں میں ڈالتی ہیں تو دُور سے یہی گمان ہوتا ہے کہ قوسِ قزح کے سارے رنگ دھرتی پر اُتر آئے ہیں۔عورتوں کے سروں پر ہلتے جُلتے آنچل ایسے ہی دیکھائی دیتے ہیں جیسے تتلیاں اُڑ اُڑ کر بیٹھ رہی ہیں، راہ چلتے رہگیروں کے دل میں کبھی یہ منظر دیکھنے کو جی چاہتا بھی ہے لیکن حیا کے تقاضے اڑے آ جاتے ہیں اور نگاہیں جُھکی کی جُھکی ہی رہتی ہیں کے ساحل ختم ہو جاتا ہے ۔

جمعہ اور اتوار کے علاوہ بان سوتنوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے، بان کی بےبسی اُس وقت دیکھی نہیں جاتی جب گدھا بان ریت بجری نکالنے کی خاطر اپنے گدھوں اور کدال بیلچوں سے اس پر حملہ آوار ہو جاتے ہیں، صاف ستھرے پانی کا ستاناس ہو جاتا ہے ہتھلی جیسی ہموار سطح کو پل بھر میں بڑے بڑے گڑھوں میں بدل دیتے ہیں، لیکن یہ بے زبان، گدھا بانوں کا یہ ناروا سلوک خندہ پیشانی سے سہہ جاتی ہے کہ اس ریت بجری سے کئی پیٹ پلتے ہیں۔ جو حصہ گدھا بانوں کی نظر سے اُجھل رہا وہاں ٹریکٹر ٹرالی والے وارد ہو جاتے ہیں ، پُرسکون بان میں ٹرالی کے ہچکولوں کا شور ٹریکٹر کے منہ کھلے سلنسر کا دھواں ٹاہروں کی چڑچڑاہٹ ابرارالحق کے گانے ( وہی سن سکتا ہے جو دو میل دور ہو ) ایک ہنگامہ سا برپا کر دیتے ہیں ،پورے دن کا جودوستم سہہ کر بھی شام کو پھر اپنی روانی پر آجاتی ہے کیونکہ سائیں چیر کا گھراٹ بھی تو اسے ہی چلانا ہوتا ہے ۔

بان کے اُس پار کبھی بڑی رونقیں ہوا کرتی تھیں جب بیل دوڑائی گھڑسواری نیزہ بازی ہوا کرتی ، کبھی کشتی کبڈی کے مقابلے ہوا کرتے کبھی فٹبال کا میچ ہوتا لیکن اب وہ ساری باتیں قصے کہانیاں بن گئی، اب لوگوں کے شوق بدل گے نہ تو دوڑنے والے بیل رہے نہ گھڑسواری کے شوقین رہے کشتی کبڈی جوانوں کا کھیل تھا اللہ بھلا کرے انٹرنیٹ بنانے والے کا کے سارے کام ہی اُس نے چھڑا دیے، اب جوان ماؤس کو پکڑنا ہی اپنا فن سمجھتے ہیں آج کے لونڈے کیا جانیں وینی پھڑنا کیا ہوتا ہے ۔اب اُس پار کا ساحل بھی ویسا نہ رہا اُس سارے میدان میں کاشت کاری شروع کردی کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔

اب جو جگہ قادری ہوراں نی پیلی ہے کبھی یہ چیانیاں ہوا کرتی تھی ،چیانیاں کی تعریف پرانے لوگ یُوں کرتے ہیں کے یہاں کافروں(ہندوؤں) کو جلایا جاتا تھا اس لیے اس کو چیانیاں کہتے ہیں یعنی شمشاں گھاٹ ہوا کرتا تھا ،جو کافر(ہندو) مر جاتا اُس کو وہاں لے جاکر جلایا کرتے تھے (دیکھا جائے تو طریقہ الگ ہے جب کے جلاتے تو مسلمان بھی ہیں لیکن ان کے جلانے کے لیے نہ تو جگہ کا تعین ہوتا ہے نہ زندہ اور میرے ہوئے کی شرط ہوتی ہے اور نہ ہی ہندوؤں کی طرح لکڑیوں کی ضروت ہوتی ہے بلکہ باتوں سے جلا کر رکھ کر دیتے ہیں )اب چونکہ ظاہری کافروں کا خاتمہ ہو گیا ہے اس لیے چیانیاں کو بھی وہ حثیت حاصل نہ رہی اور اب سیدھی سادی پیلی رہ گئی۔چیانیاں سے اوپر سڑک ہے جو سیری بازار کو جاتی ہے اس کے دونوں اطراف لوگ کا رین بسیرا ہے ،چیانیاں سے اُوپر برلب سڑک اسی قادری نامی آدمی کا گھر ہے جس کے نام سے پیلی منسوب ہے یہ گھر پرانے بادشاہوں کے قلعہ نما محلات کی طرح کا ہے جس میں مکھی مچھر تو دور کی بات گرمی سردی بھی پوچھ کر داخل ہوتی ہیں بنوانے والے نے نہ جانے کس آرٹیکیٹ سے نقشہ لے کر اس محل کو بنوایا کہ آپ کہیں سے بھی آئیں اپ کو اس کا در و دروازہ نہیں ملے گا اس میں کھڑکی تو کھڑکی روشندان نام کی بھی کوئی چیز آپکی باریک بین نظروں میں نہ آ سکے گی، شاید ہندوؤں کی بلند پوسٹ کے تحت ایسا کیا گیا ہے جو ان کے جنوب مغرب میں واقع ہے ،البتہ یہ مکان کسی خفیہ کاریگر کی صلاحیوتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اس سے تقریباً دس پندرہ میٹر آگے بی بی عظمت کا گھر ہے جو اتنا خاص تو نہیں ہے لیکن بی بی عظمت کے حسنُ اخلاق کی وجہ سے کافی مشہور ہے عفیفہ کواللہ صحت دے اچھی عورت ہیں رنگ و شکل کی کمی قدرت نے اعلٰی اوصاف سے پوری کر دی۔ اُن کے سامنے سڑک کے دوسرے کنارے بابے معمے(بابا امام دین)کا گھر ہے اس کی وجہ تسمیہ کیا ہو سکتی ہے بس کسی حرف کنجوس نے یہاں بھی اپنا کام دکھا دیا کہ اچھے بھلے امام دین کو معمہ بنا دیا۔

اس سے آگے حنیفے ملک کی کوٹھی ہے جسے قدرت نے حاجی حنیف بنا دیا اس کوٹھی سے دائیں بائیں دو راستے نکلتے ہیں بائیں والا سیدپور کو اور دائیں والا پارلے موڑے کو جاتا ہے،پارلہ موڑہ وہ جگہ ہے جو سیری شہر کے بلکل سامنے ہے شاید اسی لیے سیری والوں نے اُسے پارلہ موڑہ کہا ہو گا لیکن حیران کن بات یہ ہے کے اُس موڑے والے بھی اس کو پارلہ موڑہ ہی کہتے ہیں اور جو اس سے آگے کے گاؤں ہیں وہ بھی اس کو پارلہ موڑہ ہی کہتے ہیں۔ حالانکہ اس موڑے میں اکثریت مستریوں کی ہے اس کو مستریوں کا موڑہ بھی کہہ سکتے تھے لکین ایسا ہوا نہیں اور یہ موڑہ پارلہ موڑہ ہی رہا۔

حنیفے ملک کی کوٹھی سے سیدھے آگے جاتے ہوئے سیری بازار کا آغاز ڈاکخانے سے ہوتا ہے یہ ڈاک خانہ یوُں تو بہت قدیم وقتوں کا ہے لیکن جہاں اب یہ واقع ہے یہاں اسے اتنا عرصہ نہیں ہوا یہ ڈاکخانہ پہلے صوفی بیرو(صوفی بیرولی) جو کہ ڈاکخانے کے بابو (پوسٹ ماسٹر)بھی تھے اُن کے گھر میں ہوا کرتا تھا اس کی نشانی یہ تھی کہ لکڑی کی ایک پٹ والی الماری تھی جس کے اوپر اُن کے فرزند نے بڑی خوش خطی سے ڈاک خانہ لکھا ہوا تھا یہ الماری اُن کے گھر کے برآمدے میں ایک طرف پڑی ہوئی تھی جس کے قریب ہی مرغیوں کا بڑا سا ڈربہ بھی تھا اور کچھ شریر طرز کی مرغیاں اپنے ڈربے سے بیزار ہو کر اسی کے اوپر بیٹھی رہتی تھیں۔ اب ایک پٹ والی الماری میں کچھ بے رنگ(بیرنگ اُن خطوں کو کہا جاتا تھا جو بغیر ٹکٹ کے ہوتے تھے)اور کچھ بنا لفافے (پوسٹل کارڈ)کے ہوتے تھے لکین بیرنگ خطوں کو دیکھ کر ڈاک والوں کے چہرے پر کچھ رنگ آجاتا تھا جب کے خط لینے والے کے چہرے کا رنگ اُڑ جاتا تھا وہ اس لیے کے بیرنگ خط کے خط لینے والے کو کچھ اضافی رقم دے کر خط وصول کرنا پڑتا تھا ،دوسری وجہ اس کی یہ سمجھی جاتی تھی کہ کوئی ایمرجنسی ہے ۔ اس لیے لینے اور دینے والوں کے چہرے رنگ بدلتے تھے لیکن اُن کی کفیت الگ ہوتی تھی ۔ اب جو خط بیرنگ ہوتا تھا وہ جلد پونچتا تھا اور جو کچھ رنگ (ٹکٹ)لے کر آتا تھا وہ اُس وقت تک الماری میں ہی رہتا تھا جب تک مرغیاں اس کا رنگ بگاڑ نہ دیتیں، سیری کے گردونواح کے لوگوں کو سیری کسی نہ کسی کام سے لازمی آنا ہوتا تھا کیونکہ سیری ہی اُن کا مرکز تھا اور ضروریات زندگی یہاں سے ہی وابستہ تھیں میاں عبدالحکیم جو راج گیری کے ساتھ ساتھ حکمت اور نکاح کے کام بھی سر انجام دیتے تھے وہ اور حکیم پیراں دتہ بھی صوفی بیرولی صاحب کے پڑوسی تھے سو بازار آنے والا پورے شیڈول اور مینو کے ساتھ آتا کہ میاں جی کو ختم شریف کا کہنا ہے حکیم صاحب سے فولادی شربت لینا ہے ڈاک خانے سے خط کا پتہ کرنا ہے اور بشیر سے بال کٹوا کر صوفی صفدر سے گُڑ اور کھل باڑے بھی لانے ہیں اور پھر اپنے محلے کی قاصدی کا انجام بھی اسی نیکوکار کو دینے پڑتے یوُں رنگدار(ٹکٹ والا) خط اپنی منزل تک پہنچ جاتا۔ ورنہ کبھی ایسا بھی ہوتا کے خط لکھنے والا خط سے پہلے گھر پہنچ جاتا اور پھر وہی ایک پٹ والی الماری سے مرغیوں کے سنڈاس سے بھرا خط لے جاتا۔ وقت بدلہ لوگ بدلے جگہیں بدل گئی اب حکیم پیراں دتہ جی کا مکان حکیم ہوراں ناں کہنھار(کھنڈر) بن گیا اور اُن کے سپوتوں نے وہ جگہ فروخت کر کے پرانی یادوں سے چھٹکارا پالیا اور گھر بان کے اس پار بنا لیا۔ ڈاکخانہ الماری سے نکل کر دو منزلہ عمارت میں آگیا جس کی وجہ سے اس جگہ کا نام سیری ڈاکخانہ ہوگیا آج اس ڈاک خانے میں وہی خوش خط لکھاری(خالد ولد صوفی بیرولی) بابو(پوسٹ ماسٹر) ہے، آپ یُوں کہہ سکتے ہیں کے ڈاک خانہ ابھی تک گھر میں ہی ہے۔
 

گل زیب انجم

محفلین
گل زیب انجم
اچھی معلوماتی تحریر ہے۔
آپ املاء کو مذید بہتر بنانے کی کوشش کریں
آپ کی راے سر آنکھوں پر لیکن میری چند مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے املاء بہتر نہیں ہو پاتی ۔ان میں سے دو بتا دیتا ہوں۔ایک موبائل کا استعمال اور دوسرا ان ڈیوٹی کچھ لکھنا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ کی راے سر آنکھوں پر لیکن میری چند مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے املاء بہتر نہیں ہو پاتی ۔ان میں سے دو بتا دیتا ہوں۔ایک موبائل کا استعمال اور دوسرا ان ڈیوٹی کچھ لکھنا۔
یہ دونوں کچھ ایسے بڑے مسائل نہیں۔ آپ پہلی بار ڈرافٹ میں محفوظ کر کے بار بار پڑھ کر املا بہتر کر سکتے ہیں۔ :)
 

گل زیب انجم

محفلین
TE="نیرنگ خیال, post: 1616384, member: 6044"]یہ دونوں کچھ ایسے بڑے مسائل نہیں۔ آپ پہلی بار ڈرافٹ میں محفوظ کر کے بار بار پڑھ کر املا بہتر کر سکتے ہیں۔ :)[/QUOTE]
انشا اللہ بہتری کی کوشش کروں گا۔
 
Top