سیری کیا ہے

گل زیب انجم

محفلین
سیری نالا بان
سے لیا گیا اقتباس
سیری کیا ہے ؟
تحریر :- گل زیب انجم

اسے اگر بردوسلاما کہا جائے تو .
کچھ بے جا نہ ہو گا.

دھرمسالہ سے لیکر کوٹلی تک سلسلہ ایک سا ہے.

یوں تو کشمیر کس تعارف کا محتاج نہیں ہے اور نہ ہی کوئی کمی باقی ہے جس کے لیے میری مداح سرائی کام آ سکے کیونکہ خوبصورتی میں وہ اپنی مثال آپ ہے تاہم سیری کے آعزاز میں کچھ کہنا میرا اولین فریضہ ہے. میں سیری کا تعارف اپنی عقلی و علمی استطاعت کے مطابق کچھ یوں کرانے کا عزم کیے ہوئے ہوں کہ نہ صرف عرض و طول سے آپ کو شناسا کرایا جائے بلکہ اس میں بسنے والے ان لوگوں سے بھی متعارف کرایا جائے جو کسی نہ کسی حوالے سے سیری سے انمٹ یادوں کی وجہ سے وابستہ ہیں. سیری کی کچھ ایسی جگہیں بھی شامل تحریر رکهی جائیں گی جو اپنی کچھ منفرد شناخت رکهتی ہوں ...... تو بتاتے ہیں "سیری" کیا ہے.
سیری کو کشمیر کے دیہات اور قصبات میں وہی اہمیت حاصل ہے جو جھومر کو دیگر زیورات پر ہے۔سیری ضلع کوٹلی کی اس حسین و جمیل وادی کا نام ہے جو قدرتی طور شرقاٗ غرباٗ پہاڑوں کے دامن میں ہے جبکہ جنوب میں مقبوضہ کشمیر اور شمال میں ضلع کوٹلی قلعہ کرجائی اور فتح پور تھکیالہ ہیں۔یہ وادی خوبصورتی میں لاثانی ہے ۔ دھرمسالہ سے لیکر کوٹلی تک کا سلسلہ ایک جسیا ہے ۔آب و ہوا بھی متوسط سی ہے نہ ہی پنجاب جیسی گرم اور نہ ہی بالائی کشمیر کی طرح ٹھنڈی اگر اسے برد'وسلام" کہا جاے تو غلط نہ ہو گا ۔ پانی میں قدرتی شیرنیی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں بھی کافی مٹھاس ملتی ہے، شاید اسی لیے کسی شاعر نے کہا تھا "م ملک چنگا سیری بناہ والا چنگے لوک تے مٹھیاں بولیاں نی" جیسی خوبصورت سیری ہے ایسی ہی اس میں بسنے والی مخلوق بھی ہے اچھے تگڑے لوگ زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس وادی میں اکھاڑوں کے بادشاہ کیپٹن فیض پہلوان اور لطیف پہلوان جیسے نامور لوگ بھی ہیں تو عبدالرزاق چودھری محمود چودھری سلمان راجہ اور فیاض خالد جیسے وکلا۶ بھی اسی سیری کی جم پل ہیں، حکمت اور ڈاکٹری کے علوم سے اچھی شہرت رکھنے والے حکیم میاں عبدالحکیم حکیم پیراں دتہ حاجی لطیف، اور درس و تدریس جیسے مقدس پیشے سے وابستہ لوگ بھی اسی سیری سے ملتے ہیں۔ ادب کی دنیا کے آزاد خیال لوگ چودھری میاں محمد، زوالفقار عارش ،مسعود ساگر چودهری نیاز احمد نیازی اور پروفیسر انوار چشتی جیسی عالیٰ شخصیت کے مالک اسی وادی کا سرمایہ افتخار ہیں۔چیرمین عزیز کرامت بٹ شفیع بٹ سدا حسین صوفی بیرولی شیر محمد چودھری جیسی اشکال میں سیاسی سماجی پہلو کی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ اس وادی کے انمول خیزنوں میں سے ہیں ۔ اگر کہا جائے شعبہ ہاے زندگی سے وابستہ لوگوں سے بھری اس وادی کو سیری کہا جاتا ہے تو بے جا نہ ہو گا.
اب سیری کی وجہ تسمیہ کیا ہے اس کو سیری کیوں کہا جاتا ہے یہ جاننے کے لیے مصنف کو کافی چھان بین کے بعد بھی کچھ خاص بات پلے نہ پڑی البتہ پرانے لوگ اس کی ایک وجہ یہ ضرور بتاتے ہیں کہ جب ڈھائی سیرا آکال پڑا تو اس وقت جو سرکاری راشن ڈپو تھا وہ اسی جگہ پر تھا اور سب کو یہاں سے ایک سیر راشن ملتا تھا آنے جانے والے لوگوں سے جب یہ پوچھا جاتا کہ آپ کہاں سے آرہے ہیں تو وہ سیر کے آگے "ی" کا صغیہ لگا کر سیری کہہ دیتا اور پوچھنے والا سمجھ جاتا کے راشن ڈپو سے آرہا ہے۔ ایک روایت کچھ یوں بھی ہے کہ سیر کا ایک ہی باٹ نہ ہونے کے باعث پاو پاو کے چار باٹوں سے تولنے پر چار پاو کی سیری کہنے لگے. لیکن مصنف اس سے متفق نہیں۔ وہ اس لیے کے جہاں راشن ڈپو تھا آخر اس جگہ کا کوئی نام تو سیری سے پہلے کا ہونا چاہیے تھا جیسا کہ سیر یا ڈھائی سیر کا آکال تو بعد میں ہوا کیا یہ جگہ اسی انتظار میں تھی کہ آکال کے بعد میرا کوئی نام رکھا جائے گا-

مصنف چونکہ باتوں کا اور وجہ تسمیہ جانے کا شروع سے ہی چسکورہ رہا ہے اس لیے اس نے اپنے ایک درینہ دوست صابر حسین سے بھی رابطہ کیا کیونکہ مصنف کی سوچ تھی کہ صابر کے آڑوس پڑوس میں مستری سترو مستری نذر محمد مستری غلام حسین باوا خادم چوہدری ساگر بٹ نذیر عالم جیسے پرانے اور سوجھ بوجھ رکھنے والے باوے موجود ہیں ہو سکتا ہے کسی سے سیر حاصل جواب مل جائے لیکن وہاں سے صرف یہ بات ملی کہ یہ جگہ ریشم کا مرکز تھی اور یہاں ریشم لینے یا کاتنے کےلیے لوگ آتے تھے لیکن کسی مجبوری کے تحت صرف ایک سیر ریشم کاتا جاتا جس کی وجہ سے اس کا نام ہی سیری پڑھ گیا ، لیکن عادتاٗ مصنف کی تشنگی اس جواب کو پا کر بھی نہ بُجھ سکی، پھر دوسرے دوست زوالفقار عارش سے یہ پتہ چلا کے اس کا مطلب ہے خوب پھیلا پهولا یا پیٹ کا بھرا ہوا جب کہ ایک تیسرے دوست چودھری وقار نے بھی ریشم کا کہا لیکن مزید معلومات بعد میں دوں گا کہہ کر دو دن کی مہلت لے لی جو صدیوں پر محیط ہو گئی ۔مصنف مزید سے مزید تر کی جستجو میں کوشاں رہا۔آخرکار مصنف نے اپنے تہی تیر چلاتے ہوئے ایک نئی وجہ تلاش کی اس سوچ کہ پیش نظر کہ شاید اس پر پہلے کسی نے غور نہیں کیا اور وہ وجہ یہ اخذ ہوئی کہ اس جگہ بسنے والی چار بڑی قومیں تھی جن کا اثر رُسوخ دوسری قوموں سے زیادہ تھا ،اس لیے مصنف نے اَن چاروں کو ایک ایک پاؤ سے منسلک کیا اور پھر چاروں کو اکھٹا کر کہ ایک کلو(سیر) بنایا اور ساتھ (ی) کا صغیہ لگا کر سیری کر دیا۔ لیکن بات یہ بھی کوئی پکی نہیں کیونکہ ابھی ایک دماغ کی بات ہے جب دو چار سر جوڑیں گئے تب اس بات پر مکمل اتفاق ہو گا ۔سیری سے گذرنے والے اجنبی لوگ اور خاص کر فوج سے وابستہ لوگ آج بھی سیری کو سحری کہتے ہیں ،وہ یوں کیوں کہتے ہیں کسی کو یہ سوچنے کی یا پوچهنے کی مہلت ہی نہیں.

مصنف نے اپنے تہی س ی ری کے چاروں حروف سے بھی کچھ نہ کچھ کریدنے کی کوشش کی لیکن سعی لاحاصل رہی پڑھے لکھے احباب سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیا لیکن تین دوستوں صابر حسین وقار احمد اور ذولفقار عارش کے علاوہ کسی نے جواب دینے کی یا اس مفت کے کام میں شمولیت کی زحمت نہ کی۔ آخر کار مصنف نے انگریزی کے S E R I حروف تہجی(English alphabet) . پر غور وفکر کرتے ہوئے کچھ نتائج حاصل کیے جن میں سے خود ہی ایک کی سلیکشن کی جو قارئین کی پیش نظر ہے ( Society
of Equally Relations Inn)جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی سرائے یا ایسا معاشرہ جو لوگوں کے باہمی تعلق سے قائم ہوا اس کو "سیری" کہا جاتا ہے ۔اب یہ بھی مصنف کی اپنی سر کھپائی ہے شاید احباب کی نظر میں آئے تو اتفاق رائے سے قبولیت مل جائے۔یوں یہ ایس ای آر آئی کا مجموعہ سیری بن گیا ۔لیکن ابھی تک اس پر باعث جاری ہے ۔
نالہ تو تقریباٗ سب کی سمجھ میں آ تا ہو گا لیکن اطلاعا" عرض ہے کہ یہ وہ بهی نہیں جو زبان پر آتا ہے، لیکن بان کا ترجمہ ذرا مشکل ہے کیونکہ بان کے جو معانی کہیں سے ملتے ہیں ماسوائے ترکش کے وہ بالکل اس بان سے مختلف ہیں البتہ یہاں اس نالے کو بان کہا جاتا ہے جو سیری کے کنارے کنارے بہتا ہے یعنی سیری اور دوسرے آس پاس کے قصبات کے درمیان حد فاضل کا کام کرتا ہے۔بان مقامی زبان کا لفظ ہے جو نالہ کے طور پر استعمال ہورہا ہے اور ساتھ ہی صنعف نازک میں بدل جاتی ہے ۔یہ بان مقبوضہ کشمیر سے نکل کر چتر کے مقام سے سیری میں داخل ہوتی ہے اور پھر دریا پونچھ سے ملنے تک بان ہی رہتی ہے ۔اس بان کو چناب راوی یا وولر جهیل جیسی مقبولیت تو حاصل نہیں لیکن پھر بھی بہت ساری کہانیاں اس کے دامن میں پوشیدہ ہیں۔اس کے دونوں کناروں پر بسنے والے آمنے سامنے ہونے کے باوجود بھی الگ الگ بولیاں بولتے ہیں الگ رنگ روپ ، الگ رسم و رواج اور مزاج رکھتے ہیں۔ بان کے دونوں کنارے جدا جدا رہ کر بھی ایک جیسی مشابہت رکھتے ہیں جبکہ ان کے باسیوں میں کم کم ہی مماثلت پائی جاتی ہے۔تیرہ چودہ گز کی بان کے کنارے ایسے جدا ہوئے کہ پھر مل نہ پائے۔اس بان سے وابستہ کہانیوں میں سے ایک کہانی منیر حسین اور وزیر حسین کی بھی ہے جو اس کے پانیوں میں ایسے گم ہوئے کہ پھر لوٹ کے نہ آئے۔ستاسیس رمضان کی سحری تھی جب بان کے بھنور میں آنے والے ، گھر والوں سے اور اس بستی میں بسنے والوں سے یوں ناطہ توڑے کے پهر منانے سے بھی مان نہ پائے، ۔
 

گل زیب انجم

محفلین
پوسٹ امیج پر اپلوڈ کریں۔ اس کے بعد کچھ لنکس آ جائیں گے۔ ان میں سے ڈائریکٹ لنک والا لنک کاپی کریں اور یہاں امیج والے آئکون پر کلک کر کے پیسٹ کر دیں۔
پوسٹ امیج پر اپلوڈ کریں۔ اس کے بعد کچھ لنکس آ جائیں گے۔ ان میں سے ڈائریکٹ لنک والا لنک کاپی کریں اور یہاں امیج والے آئکون پر کلک کر کے پیسٹ کر دیں۔
تابش بھائی (ڈائریکٹ لنک والا لنک) نہیں ملا... یعنی میں فوٹو لگانے میں ناکام رہا. کیا اس کا کوئی نشان بتا سکتے ہیں. یہاں اوپر جتنے بھی سمبل آتے ہیں سب کلک کر کے دیکھے ہیں..
 
IMG_20181217_091744.jpg
پہلے یہاں تصویر اپلوڈ کریں۔
IMG_20181217_092056.jpg
تصویر اپلوڈ ہونے کے بعد یہ لنکس آئیں گے۔ ان میں دوسرے نمبر پر ڈائریکٹ لنک ہے۔ جہاں سرخ نقطہ لگایا ہے، اس آئکون پر کلک کریں تو لنک کاپی ہو جائے گا۔
IMG_20181217_092155.jpg
یہاں محفل میں کمنٹ باکس کے ٹولز میں سے تصویر والے آئکون پر کلک کریں، جس کے نیچے سرخ لائن لگائی ہے۔
IMG_20181217_092227.jpg
جو ونڈو اوپن ہو گی، اس میں لنک پیسٹ کر دیں، اور داخل کریں پر کلک کریں۔
 
Top