عبدالقیوم چوہدری
محفلین
باسم صاحب کی تحریر تھیلی کو پڑھ کر یہ واقعہ یاد آیا سوچا لکھ ہی ڈالوں۔ کیونکہ اس میں بھی تھیلی کا ہی ذکر ہے۔
۔۔۔۔۔
کچھ سال پہلے ایک صبح اسلام آباد دفتر جانے کے لیے واہ سے جی ٹی روڈ 26 نمبر چونگی تک پہنچا۔ سی این جی کا ناغہ چل رہا تھا اور سفر کرنا مشکل ہوا پڑا تھا۔ اور وہاں سے آگےسالم ٹیکسی کر کے جانے کےبارے میں سوچنے کے لیے بھی اچھی خاصی ہمت چاہیے ہوتی تھی جو مہینے کی آخری تاریخوں میں تو بلکل بھی پاس نہیں بھٹکتی۔ بھلا ہو ٹیکسی والوں اور مسافروں کا جو شئیرنگ کر کے ٹیکسی لے لیتے اور کچھ زیادہ مالی نقصان کیے بنا اپنی منزلوں تک جا پہنچتے۔
میں بھی کسی ایسی ہی ٹیکسی کی تلاش میں لگ گیا جو ٍایف-11مرکز جاتی ہو۔ آخر ایک ٹیکسی مل گئی جو جی-11 کی طرف جا رہی تھی، ٹیکسی والے انکل غالباً اہل زبان تھے اور کوئی 60 کے پیٹے میں ہوں گے، کہنے لگے بیٹھیے، لے جاؤں گا میں بھی کرایہ طے کر کے بیٹھ گیا۔ اس ٹیکسی میں پہلے سے ایک سردار صاحب براجمان تھے۔ کچھ دیر کے انتظار کے بعد جب کوئی اور مسافر نا آیا تو سردار صاحب نہایت شستہ اردو میں گویا ہوئے ۔
سردار صاحب : قبلہ۔۔۔۔ چلیے اب
ٹیکسی والے انکل : حضور کچھ لمحے ہمیں دیکھ لینے دی جیے، سی این جی کی بندش کے دن چل رہے، شاید کسی اور کی مدد بھی ہو جائے۔
سردار صاحب چپ کر گئے
لیکن یہ چپ زیادہ دیر برقرار نا رہی۔۔۔ بمشکل ایک منٹ ہی گزرا ہو گا کہ پھر بول پڑے ۔۔۔ اجی ہم نے کہا چلیے، ہمارے مریض منتظر ہوں گے (سردار صاحب حکمت کرتے تھے اور ان کا مطب جی-12 کی کچی آبادی میں تھا)
ٹیکسی والے انکل نے بات سنی ان سنی کی اور بدستور بیک وی مررز پر نظریں جمائے سٹاپ پر اترتے مسافروں کو دیکھنے میں لگے رہے کہ شاید کوئی مسافر اس طرف کا بھی ہو۔
سردار صاحب : بھائی صاحب ۔۔۔ بھائی صاحب، ہم کہہ رہے ہیں کہ اب چلیے ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔
ٹیکسی والے انکل : ارے بس چند لمحے اور، وہ دیکھیے پشاور والی بس آ کر رکی ہے اور مسافر اتر رہے ہیں، شاید ایک آدھ سواری اور مل جائے۔
سردار صاحب پھر چپ کر گئے لیکن جھنجھلاہٹ ان کے چہرے سے عیاں ہونا شروع ہو گئی۔
اس بس سے بھی کوئی مسافر اس طرف نا آیا اور دوسرے روٹس پر جانے والی ٹیکسیوں پر سوار ہوتے رہے۔ کچھ دیر اور انتظار کے بعد سردار صاحب نے دروازہ کھولنے والے لیور پر ہاتھ رکھا اور تھوڑا غصے میں بولے "ہم اترنے لگے ہیں کسی اور ٹیکسی میں بیٹھتے ہیں آپ ہمیں بہت انتظار کروا چکے"
ٹیکسی والے انکل کو روزانہ اس طرح کی صورتحال سے گزرنا پڑتا تھا انھوں نے فوراً گئیر لگایا اور گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھاتے ہوئے اسلام آباد موڑ کے پاس پھر کھڑی کر دی۔۔ اب پچھلی ٹیکسیاں کوئی دو تین سو میٹر پیچھے رہ گئی۔
سردار صاحب کے چہرے پر آیا اطمینان ایک بار پھر غائب ہو گیا۔ تلخ لہجے میں بولے"اب یہاں رکنا ہے کیا ؟"
ارے بس ایک منٹ اور، پھر رواں ہوتے ہیں، اب اس سے آگے بھلا کہاں رکنا ہے ! ٹیکسی والے انکل بھی تھوڑے غصے میں آ گئے۔ مذید بولے "دیکھیے صاحب یہاں سے ہم چار مسافر لے کر چلتے ہیں تو ہمیں کچھ بچت ہوتی ہے اب دو مسافروں کو لیکر جاؤں گا تو کیا خاک بچت ہونی ہے"
سردار صاحب صبر کے گھونٹ پینے پر آمادہ نہیں تھے۔ بولے ۔۔۔۔"اگر اب آپ نے گاڑی نا چلائی تو ہم موٹر وے پولیس والوں کو شکایت لگائیں گے اور آپ کو جرمانہ ہو جائے گا"
"اچھا اچھا چلتا ہوں" اور ٹیکسی والے انکل نےسر کو جھٹکتے ٹیکسی شاہراہ پر ڈال دی۔ سردار صاحب کی دھمکی کام آگئی
باقی سفر بغیر کسی گفتگو کے گزرا
جی-11 میں مرزا چوک نامی سٹاپ پر ٹیکسی والےانکل نے گاڑی روک دی اور سردار صاحب سے کہا : "اُتریے جناب"
سردار صاحب : ہم نے تھوڑا آگے اترنا ہے۔
ٹیکسی والےانکل : محترم ہمارا آپ کا یہاں تک طے تھا۔
سردار صاحب : نہیں بھئی ہم نے مرزا چوک ضرور کہا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہمیں چوک میں اتار دیں، یہ سارا علاقہ (اشارے سے گول دائرہ بناتے ہوئے) مرزا چوک ہی کہلاتا ہے۔ تھوڑا توقف کر کے پھر بولے ۔۔۔ چلیے ہم نے تھوڑا آگے اترنا ہے۔
ٹیکسی والےانکل : نہیں جناب آپ یہیں اتریے اور کسی سے بھی پوچھ لی جیے کہ مرزا چوک کونسا ہے ؟ کسی ایک بھی شخص نے مرزا چوک اس جگہ سے آگے بتایا تو ہم آپ کو لے چلیں گے، اور دام بھی نا لیں گے۔
سردار صاحب : ہم روزانہ آتے ہیں سب ٹیکسی والے ہمیں تھوڑا آگے اتارتے ہیں آپ یہاں اتارنے پر کیوں بضد ہیں ؟
ٹیکسی والےانکل : جو کرایہ طے تھا وہ یہاں ختم ہو گیا، اور آگے جانا ہے تو نئے دام طے ہوں گے۔
سردار صاحب نے بمشکل 400 میٹر آگے جانا تھا لیکن ٹیکسی والے انکل بھی 26 نمبر سٹاپ پر ہوئی گفتگو کا حساب چکا رہے تھے
سردار صاحب : اور کتنے لیں گے
ٹیکسی والےانکل : پچاس روپے
سردار صاحب : ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اجی 8 کلومیٹر کے 100 روپے اور 4 سو میٹر کا 50، آپ زیادتی کر رہے ہیں
ٹیکسی والےانکل : زیادتی کیسی، 100 روپے والی بات یہاں ختم ہو گئی۔ اب نئے دام طے ہو رہے ہیں اور ہمارا مطالبہ پچاس روپے ہے۔ منظور ہے تو چلتے ہیں ورنہ اتریے، اپنا اور ہمارا وقت ضائع نا کیجیے۔
سردار صاحب زچ ہو کر بولے، قبلہ اگر دکان کھولیں اور کوئی سودا لینےآ جائے تو تھیلی تو دینی ہی پڑتی ہے۔ بغیر تھیلی کے سودا تو کوئی نا لے جائے گا۔
چلیے ہمیں تھوڑا آگے اتاریے۔
سردار صاحب نے شاندار قسم کا ڈائیلاگ مارا تھا۔ میں بھی اس جملے سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا اور سوچا کہ اب ٹیکسی والے انکل کو آگے جانا ہی پڑے گا۔ اور وہی ہوا۔ ٹیکسی والےانکل نے یہ بات سن کر کوئی جواب نا دیا اور ٹیکسی آگے بڑھا دی۔ سردار صاحب کا چہرہ ایک دم سے کھل اٹھا اور ایک فاتحانہ سی مسکراہٹ چہرے پر نمایاں ہونا شروع ہو گئی سردار صاحب اپنے جملے کی کاٹ کا اثر دیکھ کر سیٹ پر تھوڑا اور پھیل گئے اور دونوں بازوؤں کو یوں پھیلا لیا جیسے پرواز کرنے کو تیار ہوں اسی دوران انھوں نے پیچھے مڑ کر ایک لمحے کو مجھے دیکھا اور مسکرانے لگے جیسے کہہ رہے ہوں
'کہو، کیسی کہی'
میں جو پچھلے آدھے گھنٹے سے اس ساری گفتگو اور صورتحال سے محظوظ ہو رہا تھا، ہنس دیا۔
سردار صاحب کی کیفیت کچھ یوں لگ رہی تھی جیسے ہفت اقلیم کی بادشاہی ان کے ایک جملے سے پیروں میں آ گری ہو۔
ٹیکسی تھوڑا سا ہی آگے بڑھی ہو گی کہ سردار صاحب بولے بس بس یہاں اتار دی جیے اور ٹیکسی مطب والی گلی کے عین سامنے جا رکی ۔
سردار صاحب کرایہ دے کر اترنے لگے تو ٹیکسی والےانکل بولے۔
سردار صاحب سودے کے ساتھ تھیلی ضرور دی جاتی ہے لیکن سیر کے دام لیکر تھیلی میں سوا سیر کوئی نہیں ڈالتا۔ ہمیں بیوقوف نا سمجھیے۔ جائیے ہم نے پچاس معاف کیے۔
یہ جملہ سن کر سردار صاحب کی کیا حالت ہوئی بتانے کی ضرورت نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا ہی سب کچھ اور اس سے ملتا جلتا رویہ اور ڈائیلاگ بازیاں ہم میں سے اکثر ایک دوسرے سے کرتے رہتے ہیں، یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ اس سے جہاں اپنا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے وہاں اوروں کا بھی برباد ہو رہا ہے۔ آج کل اسی قسم کی صورتحال ہم اپنے سیاسی منظر نامےپر روزانہ دیکھ رہے ہیں اور ایک دوسرے کو خوب بیوقوف بنا رہے ہیں۔
اللہ جی سے دعا گو ہوں کہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
۔۔۔۔۔
کچھ سال پہلے ایک صبح اسلام آباد دفتر جانے کے لیے واہ سے جی ٹی روڈ 26 نمبر چونگی تک پہنچا۔ سی این جی کا ناغہ چل رہا تھا اور سفر کرنا مشکل ہوا پڑا تھا۔ اور وہاں سے آگےسالم ٹیکسی کر کے جانے کےبارے میں سوچنے کے لیے بھی اچھی خاصی ہمت چاہیے ہوتی تھی جو مہینے کی آخری تاریخوں میں تو بلکل بھی پاس نہیں بھٹکتی۔ بھلا ہو ٹیکسی والوں اور مسافروں کا جو شئیرنگ کر کے ٹیکسی لے لیتے اور کچھ زیادہ مالی نقصان کیے بنا اپنی منزلوں تک جا پہنچتے۔
میں بھی کسی ایسی ہی ٹیکسی کی تلاش میں لگ گیا جو ٍایف-11مرکز جاتی ہو۔ آخر ایک ٹیکسی مل گئی جو جی-11 کی طرف جا رہی تھی، ٹیکسی والے انکل غالباً اہل زبان تھے اور کوئی 60 کے پیٹے میں ہوں گے، کہنے لگے بیٹھیے، لے جاؤں گا میں بھی کرایہ طے کر کے بیٹھ گیا۔ اس ٹیکسی میں پہلے سے ایک سردار صاحب براجمان تھے۔ کچھ دیر کے انتظار کے بعد جب کوئی اور مسافر نا آیا تو سردار صاحب نہایت شستہ اردو میں گویا ہوئے ۔
سردار صاحب : قبلہ۔۔۔۔ چلیے اب
ٹیکسی والے انکل : حضور کچھ لمحے ہمیں دیکھ لینے دی جیے، سی این جی کی بندش کے دن چل رہے، شاید کسی اور کی مدد بھی ہو جائے۔
سردار صاحب چپ کر گئے
لیکن یہ چپ زیادہ دیر برقرار نا رہی۔۔۔ بمشکل ایک منٹ ہی گزرا ہو گا کہ پھر بول پڑے ۔۔۔ اجی ہم نے کہا چلیے، ہمارے مریض منتظر ہوں گے (سردار صاحب حکمت کرتے تھے اور ان کا مطب جی-12 کی کچی آبادی میں تھا)
ٹیکسی والے انکل نے بات سنی ان سنی کی اور بدستور بیک وی مررز پر نظریں جمائے سٹاپ پر اترتے مسافروں کو دیکھنے میں لگے رہے کہ شاید کوئی مسافر اس طرف کا بھی ہو۔
سردار صاحب : بھائی صاحب ۔۔۔ بھائی صاحب، ہم کہہ رہے ہیں کہ اب چلیے ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔
ٹیکسی والے انکل : ارے بس چند لمحے اور، وہ دیکھیے پشاور والی بس آ کر رکی ہے اور مسافر اتر رہے ہیں، شاید ایک آدھ سواری اور مل جائے۔
سردار صاحب پھر چپ کر گئے لیکن جھنجھلاہٹ ان کے چہرے سے عیاں ہونا شروع ہو گئی۔
اس بس سے بھی کوئی مسافر اس طرف نا آیا اور دوسرے روٹس پر جانے والی ٹیکسیوں پر سوار ہوتے رہے۔ کچھ دیر اور انتظار کے بعد سردار صاحب نے دروازہ کھولنے والے لیور پر ہاتھ رکھا اور تھوڑا غصے میں بولے "ہم اترنے لگے ہیں کسی اور ٹیکسی میں بیٹھتے ہیں آپ ہمیں بہت انتظار کروا چکے"
ٹیکسی والے انکل کو روزانہ اس طرح کی صورتحال سے گزرنا پڑتا تھا انھوں نے فوراً گئیر لگایا اور گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھاتے ہوئے اسلام آباد موڑ کے پاس پھر کھڑی کر دی۔۔ اب پچھلی ٹیکسیاں کوئی دو تین سو میٹر پیچھے رہ گئی۔
سردار صاحب کے چہرے پر آیا اطمینان ایک بار پھر غائب ہو گیا۔ تلخ لہجے میں بولے"اب یہاں رکنا ہے کیا ؟"
ارے بس ایک منٹ اور، پھر رواں ہوتے ہیں، اب اس سے آگے بھلا کہاں رکنا ہے ! ٹیکسی والے انکل بھی تھوڑے غصے میں آ گئے۔ مذید بولے "دیکھیے صاحب یہاں سے ہم چار مسافر لے کر چلتے ہیں تو ہمیں کچھ بچت ہوتی ہے اب دو مسافروں کو لیکر جاؤں گا تو کیا خاک بچت ہونی ہے"
سردار صاحب صبر کے گھونٹ پینے پر آمادہ نہیں تھے۔ بولے ۔۔۔۔"اگر اب آپ نے گاڑی نا چلائی تو ہم موٹر وے پولیس والوں کو شکایت لگائیں گے اور آپ کو جرمانہ ہو جائے گا"
"اچھا اچھا چلتا ہوں" اور ٹیکسی والے انکل نےسر کو جھٹکتے ٹیکسی شاہراہ پر ڈال دی۔ سردار صاحب کی دھمکی کام آگئی
باقی سفر بغیر کسی گفتگو کے گزرا
جی-11 میں مرزا چوک نامی سٹاپ پر ٹیکسی والےانکل نے گاڑی روک دی اور سردار صاحب سے کہا : "اُتریے جناب"
سردار صاحب : ہم نے تھوڑا آگے اترنا ہے۔
ٹیکسی والےانکل : محترم ہمارا آپ کا یہاں تک طے تھا۔
سردار صاحب : نہیں بھئی ہم نے مرزا چوک ضرور کہا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہمیں چوک میں اتار دیں، یہ سارا علاقہ (اشارے سے گول دائرہ بناتے ہوئے) مرزا چوک ہی کہلاتا ہے۔ تھوڑا توقف کر کے پھر بولے ۔۔۔ چلیے ہم نے تھوڑا آگے اترنا ہے۔
ٹیکسی والےانکل : نہیں جناب آپ یہیں اتریے اور کسی سے بھی پوچھ لی جیے کہ مرزا چوک کونسا ہے ؟ کسی ایک بھی شخص نے مرزا چوک اس جگہ سے آگے بتایا تو ہم آپ کو لے چلیں گے، اور دام بھی نا لیں گے۔
سردار صاحب : ہم روزانہ آتے ہیں سب ٹیکسی والے ہمیں تھوڑا آگے اتارتے ہیں آپ یہاں اتارنے پر کیوں بضد ہیں ؟
ٹیکسی والےانکل : جو کرایہ طے تھا وہ یہاں ختم ہو گیا، اور آگے جانا ہے تو نئے دام طے ہوں گے۔
سردار صاحب نے بمشکل 400 میٹر آگے جانا تھا لیکن ٹیکسی والے انکل بھی 26 نمبر سٹاپ پر ہوئی گفتگو کا حساب چکا رہے تھے
سردار صاحب : اور کتنے لیں گے
ٹیکسی والےانکل : پچاس روپے
سردار صاحب : ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اجی 8 کلومیٹر کے 100 روپے اور 4 سو میٹر کا 50، آپ زیادتی کر رہے ہیں
ٹیکسی والےانکل : زیادتی کیسی، 100 روپے والی بات یہاں ختم ہو گئی۔ اب نئے دام طے ہو رہے ہیں اور ہمارا مطالبہ پچاس روپے ہے۔ منظور ہے تو چلتے ہیں ورنہ اتریے، اپنا اور ہمارا وقت ضائع نا کیجیے۔
سردار صاحب زچ ہو کر بولے، قبلہ اگر دکان کھولیں اور کوئی سودا لینےآ جائے تو تھیلی تو دینی ہی پڑتی ہے۔ بغیر تھیلی کے سودا تو کوئی نا لے جائے گا۔
چلیے ہمیں تھوڑا آگے اتاریے۔
سردار صاحب نے شاندار قسم کا ڈائیلاگ مارا تھا۔ میں بھی اس جملے سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا اور سوچا کہ اب ٹیکسی والے انکل کو آگے جانا ہی پڑے گا۔ اور وہی ہوا۔ ٹیکسی والےانکل نے یہ بات سن کر کوئی جواب نا دیا اور ٹیکسی آگے بڑھا دی۔ سردار صاحب کا چہرہ ایک دم سے کھل اٹھا اور ایک فاتحانہ سی مسکراہٹ چہرے پر نمایاں ہونا شروع ہو گئی سردار صاحب اپنے جملے کی کاٹ کا اثر دیکھ کر سیٹ پر تھوڑا اور پھیل گئے اور دونوں بازوؤں کو یوں پھیلا لیا جیسے پرواز کرنے کو تیار ہوں اسی دوران انھوں نے پیچھے مڑ کر ایک لمحے کو مجھے دیکھا اور مسکرانے لگے جیسے کہہ رہے ہوں
'کہو، کیسی کہی'
میں جو پچھلے آدھے گھنٹے سے اس ساری گفتگو اور صورتحال سے محظوظ ہو رہا تھا، ہنس دیا۔
سردار صاحب کی کیفیت کچھ یوں لگ رہی تھی جیسے ہفت اقلیم کی بادشاہی ان کے ایک جملے سے پیروں میں آ گری ہو۔
ٹیکسی تھوڑا سا ہی آگے بڑھی ہو گی کہ سردار صاحب بولے بس بس یہاں اتار دی جیے اور ٹیکسی مطب والی گلی کے عین سامنے جا رکی ۔
سردار صاحب کرایہ دے کر اترنے لگے تو ٹیکسی والےانکل بولے۔
سردار صاحب سودے کے ساتھ تھیلی ضرور دی جاتی ہے لیکن سیر کے دام لیکر تھیلی میں سوا سیر کوئی نہیں ڈالتا۔ ہمیں بیوقوف نا سمجھیے۔ جائیے ہم نے پچاس معاف کیے۔
یہ جملہ سن کر سردار صاحب کی کیا حالت ہوئی بتانے کی ضرورت نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا ہی سب کچھ اور اس سے ملتا جلتا رویہ اور ڈائیلاگ بازیاں ہم میں سے اکثر ایک دوسرے سے کرتے رہتے ہیں، یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ اس سے جہاں اپنا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے وہاں اوروں کا بھی برباد ہو رہا ہے۔ آج کل اسی قسم کی صورتحال ہم اپنے سیاسی منظر نامےپر روزانہ دیکھ رہے ہیں اور ایک دوسرے کو خوب بیوقوف بنا رہے ہیں۔
اللہ جی سے دعا گو ہوں کہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
آخری تدوین: