فرخ منظور
لائبریرین
غزل بشکریہ محمد وارث صاحب۔
غزل از میر حسن
سیر ہے تجھ سے مری جان، جدھر کو چلئے
تو ہی گر ساتھ نہ ہووے تو کدھر کو چلئے
خواہ کعبہ ہو کہ بت خانہ غرض ہم سے سن
جس طرف دل کی طبیعت ہو، ادھر کو چلئے
زلف تک رخ سے نگہ جاوے نہ اک دن کے سوا
شام کو پہنچئے منزل جو سحر کو چلئے
جب میں چلتا ہوں ترے کوچہ سے کترا کے کبھی
دل مجھے پھیر کے کہتا ہے، ادھر کو چلئے
ان دنوں رات اسی فکر میں کٹتی ہے حسن
صبح کب ہووے کہ پھر یار کے گھر کو چلئے
غزل از میر حسن
سیر ہے تجھ سے مری جان، جدھر کو چلئے
تو ہی گر ساتھ نہ ہووے تو کدھر کو چلئے
خواہ کعبہ ہو کہ بت خانہ غرض ہم سے سن
جس طرف دل کی طبیعت ہو، ادھر کو چلئے
زلف تک رخ سے نگہ جاوے نہ اک دن کے سوا
شام کو پہنچئے منزل جو سحر کو چلئے
جب میں چلتا ہوں ترے کوچہ سے کترا کے کبھی
دل مجھے پھیر کے کہتا ہے، ادھر کو چلئے
ان دنوں رات اسی فکر میں کٹتی ہے حسن
صبح کب ہووے کہ پھر یار کے گھر کو چلئے