محمداحمد
لائبریرین
اگر آپ کسی کام یا شئے کا وقتی، تھوڑا فائدہ چھوڑ کر مستقبل کے زیادہ فائدے کو ترجیح دیتے ہیں، تو آپ کا شمار دنیا کے ان خوش نصیب اور دوراندیش افراد میں ہوتا ہے جن کی ذات کے بینک میں سیلف کنٹرول (ضبط نفس) جیسا قیمتی وصف موجود ہے۔
سیلف کنٹرول کو سمجھنے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ سیلف (خود) ہے کیا؟ فوٹو : فائل
اکثر لوگوں کا مزاج کچھ یوں ہوتا ہے کہ وہ فوری فائدے کے حصول کو ہی زندگی سمجھتے ہیں، زیادہ کی چاہت تو ہر کسی کی ہوتی ہے لیکن طویل انتظار کے بارے میں ان کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ “نہ جانے کتنا انتظار کرنا پڑے”ابھی جو ہے بس اسی سے کام چلا لیا جائے، یہ وہ سوچ ہوتی ہے جسے انسٹینٹ گراٹیفیکیشن کہتے ہیں، جب کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دیر تک انتظار کرلیتے ہیں، مگر بعد میں ملنے والے زیادہ بڑے فائدے کی خاطر کم فائدہ بھلے فوری ہو، چھوڑ دیتے ہیں جسے ڈیلیڈ گراٹیفیکیشن کہا جاتا ہے۔
ساٹھ کے عشرے میں Stanford University نے اسکول کے بچوں پر اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے مارشمیلو ٹیسٹ کے ذریعے تحقیق کی، تمام بچوں کو ایک ایک مارشمیلو دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ جو بچہ ریسرچر کے آنے تک مارشمیلو نہیں کھائے گا اسے انعام کے طور پر ایک ایک مزید مارشمیلو دی جائے گی، اور تحقیق کے آخر میں دیکھا گیا کہ ریسرچر کے دوبارہ آنے تک صرف چند بچے مارشمیلو کھانے کی خواہش روک پائے جب کہ باقی بچے مارشمیلو نہ کھانے کی پابندی کو قابو نہیں کرپائے۔ انھوں نے اپنی مارشمیلو ریسرچر کے آنے سے پہلے ہی کھا ڈالی، جب کہ کچھ بچوں نے مارشمیلو کا ایک کونا بہت احتیاط سے کھایا کہ فوری مزہ بھی مل جائے اور ریسرچر کے آنے کے بعد انعام بھی مل جائے۔
یہ تحقیق بس یہاں تک ختم نہیں ہوئی بلکہ کئی سال بعد یہ بچے بڑے ہوئے اور پریکٹیکل لائف میں داخل ہوئے تو ریسرچر، ان کے پاس دوبارہ گئے اور ان کی زندگی کا جائزہ لیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جن لوگوں میں انسٹینٹ گراٹیفیکیشن کا لیول زیادہ یعنی بے صبری کا عنصر پایا گیا تھا اور وہ مارشمیلو نہ کھانے کی خواہش پر قابو نہیں کرپائے تھے، ان میں سے زیادہ تر اپنی ذاتی اور پروفیشنل زندگی میں ناکام رہ گئے، اور کچھ جو اپنی اپنی مارشمیلو کا صرف مزہ لیتے رہے تھے وہ بس اوسط رہے، جب کہ جنہوں نے مارشمیلو کھانے کے لیے صبر کیا تھا، وہ خود پر زیادہ قابو پانے کے قابل غیرمعمولی تھے اور بلند ترین عُہدوں پر فائز تھے۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کچھ لوگوں پر ان کی لالچ یا بے صبرے پن کی وجہ سے زیادہ دیر تک رکنا گراں گزرتا ہے۔ اس لیے وہ کم فائدے پر ہی سمجھوتا کرلیتے ہیں، اور اپنے اسی مزاج کی وجہ سے معاشرے میں کوئی خاطرخواں مقام حاصل نہیں کر پاتے، جب کہ کام یابی کا راز طویل محنت اور دیرپا نتائج میں پنہاں ہے۔ استقامت کے ساتھ صبر کا دامن تھامے رہنے سے ہی مقاصد حاصل ہوا کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جو لوگ صبر اختیار کرتے ہیں، ان کے ارادے و عزم پختہ ہوتے، بڑے مقصد بناتے اور اپنی محنت اور کوشش تادیر جاری رکھتے ہوئے، بڑے فوائد حاصل کرتے اور اپنی منزل پا لیا کرتے ہیں، ایسے لوگ اپنے رشتوں میں مضبوط ہوتے اور خوش حال زندگی بسر کرتے ہیں۔
٭ سیلف کنٹرول کیا ہے؟
سیلف کنٹرول (خود پر قابو) وہ خوبی ہے جس میں انسان کا ریموٹ خود اپنے ہاتھ میں ہو اور وہ خودشناس، پُراعتماد اور مضبوط قوت ارادی جیسی خصوصیات کا مالک ہو، اپنی جذباتی کیفیت پر پورا کنٹرول رکھنے اور صبر کے ساتھ جذبات کو منظم کرنے کی صلاحیت کے گُر سے پوری طرح آشنا ہو۔ یہ خاصیت انسان کو پروڈکٹیو بناتی ہے۔ اس کے ذریعے کوئی بھی شخص اپنے اہداف یامطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بہ آسانی کام یاب ہوجاتا ہے۔
سیلف کنٹرول کو سمجھنے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ سیلف (خود) ہے کیا؟ اس میں صرف دماغ شامل نہیں ہوتا، بلکہ مزاج، خیالات، جذبات، عادات، خواہشات سب کا کنٹرول شامل ہے جس پر قابو پائے بغیر سیف کنٹرول کا حصول ممکن نہیں۔
غرض یہ کہ یہ وہ مقام ہوتا ہے، جب انسان کو خود پر اتنا ضبط حاصل ہوجائے کہ وہ ایسی تمام عادات، خواہشات و مطالبات پر قابو پالے، جن سے اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، لہٰذا خیالات، جذبات اور خواہشات کو بہتر طریقے سے چلانے، ناپسندیدہ حرکات پر قابو پانے اور فائدے مند کاموں پر مستقل مزاجی سے قائم رہنے کا نام سیلف کنٹرول ہے۔ وہ جو اپنے نفس کو محکوم بنالے اور خود حاکم بن جائے، وہی اصل میں عقل مند ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول ہے:”جو شخص اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے وہ اس شخص سے زیادہ طاقت ور ہے جو تنہا کسی شہر کو فتح کرلیتا ہے۔”
نپولین ہل کہتا ہے: “اگر آپ خود کو فتح نہیں کرتے ہیں تو آپ خود ہی فتح ہوجائیں گے۔”
بیرونی قوتوں سے زیادہ انسان کو روکنے والی اندرونی قوت ہے، کیوںکہ اصل دشمن نفس ہے اور جس سے گھائل ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے وہ اپنا آپ ہوتا ہے۔ اصل فتح خود کو فتح کرنا اور نفس پر فتح پانا ہے، حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے “سب سے افضل جہاد نفس کے ساتھ ہے” یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب جہاد سے واپس لوٹتے تو فرمایا کرتے “ہم جہاداصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ آئے ہیں۔” کیوںکہ جہادبالنفس میں سامنا ایسے دشمن سے ہوتا ہے جو کہ دکھائی نہیں دیتا اور چھپا ہوا دشمن نظر آنے والے دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:” دوسروں کو چیرنے پھاڑنے والا شیربننا آسان ہے مگر اصل شیر وہی ہے جو خود (نفس) کو شکست دے سکے، تاکہ اللہ عزوجل کی مدد سے اللہ کا شیر بن جائے اور نفس اور اس کے متکبرانہ عزائم سے نجات پاجائے۔”
ارشاد باری تعالیٰ ہے” اور (جس نے) نفس کو خواہشات سے روکا تو بے شک (اس کا) جنت میں ٹھکانا ہے۔”
اسلام ہمیں نفس پر کنٹرول کرنے اسے لگام ڈالنے کا حکم دیتا ہے اور اس کے شر سے بچنے کی تاکید کرتا ہے، اگرچہ اپنے آپ پر قابو رکھنا ایک بڑا چیلینج ہے لیکن جو اسے سر کرنے کا ہنر سیکھ لیتا ہے، کام یابی اس کے قدم چومتی ہے۔ ہر کام یا عادت کی تبدیلی ابتدا میں مشکل لگتی ہے مگر معمول دہراتے رہنے سے طرزحیات بن کر آسان تر ہوجاتی ہے۔
یہ دھیان ہر آن رہے کہ نفس وجذبات کے بہاؤ میں انسان اتنا نہ بہنے لگ جائے کہ نفع اور نقصان میں پہچان بھی نہ کرسکے، قبل اس کے کہ آپ کا نفس آپ کو فتح کرلے، آپ اسے شکست سے دوچار کردیجیے۔ ایسی تمام خواہشات کو کچل ڈالیے جو آپ اور آپ کے خالق کی اطاعت میں آڑ بنتی ہوں، یہی صبر کا مفہوم ہے۔
صبر ہی واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان خود پر قابو کرکے اپنے اندر ہمت، حوصلہ، برداشت، خیر، بھلائی، سکون اور اطمینان پیدا کر سکتا ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے” کسی شخص کو صبر سے زیادہ وسیع نعمت کوئی نہیں دی گئی۔”
یہ ہی وہ خزانہ ہے جو فتح یابی کا ضامن ہے۔ قرآن کریم میں 70سے زائد مقامات پر (صبر) کا ذکر فرمایا گیا اور مومنین کا وہ وصف جو خاص طور پر نمایاں کیا گیا وہ صبر، سیلف کنٹرول ہے کہ وہ صابر، صبر کرنے والے ہیں، اللہ صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے، اللہ تعالی نے صابرین کے لیے خوش خبری اور آخرت میں عظیم اجر کا وعدہ فرمایا، یقیناً اس کا بڑا انعام اجر وہ پانے والے ہے۔
دین اسلام کا ایک اہم رکن روزہ (صوم) اسی سیلف کنٹرول کی مشق ہے۔ روزہ انسان کو خود پر قابو پانے کی مشق کراتا ہے تاکہ انسان کا جسم اور اس کی روح غیرضروری خواہشات، مطالبات اور گناہوں سے پاک صاف ہو کر قوی ہوجائے، حد کی پابند بن جائے، اس کی گرفت مضبوط ہوجائے، کیوں کہ سیلف کنٹرول کا مقصد ہی اپنی خودی کو گرفت میں لینا ہے۔
اسی خودی کی اہمیت کو شاعر مشرق علامہ محمداقبال یوں بیان کرتے ہیں:
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
خود پر کنٹرول اس لیے بھی ضروری ہے کیوںکہ یہ مسائل سمیٹنے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ ہر کسی کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہی ہے، خطرات سے مبرا زندگی کسی کی نہیں ہے، لیکن جن کا سیلف کنٹرول زیادہ ہوتا ہے وہ اپنے اسٹریس کو کنٹرول کرنا جانتے ہیں۔ اور پریشان کن صورت حال سے فوری باہر نکل آتے ہیں۔ یہ خوبی زندگی کے ہر شعبے پر اثرانداز ہوتی ہے، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی ذاتی یا پروفیشنل اس کے بغیر نامکمل ہے۔
اس کی کمی کی وجہ سے لوگ اپنی حد سے باہر نکل جاتے، حقیقی خوشیوں و لطف سے محروم رہ جاتے، پریشانی و مایوسی میں ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ سیلف کنٹرول کی کمی عموماً بچپن ہی سے نمو پاتے پاتے اگر بروقت کنٹرول نہ کی جائے تو بسا اوقات ساری زندگی موجود رہتی ہے اور اس کے اثرات تربیت اور صحبت کی شکل میں آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس کمی کا دل سے اگر احساس ہوجائے تو اس خامی پر قابو کرکے سیلف کنٹرول بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔
٭ سیلف کنٹرول کی طاقت
سائنسی تحقیقات کے مطابق انسانی دماغ جسمانی مسل کی طرح ہے۔ جیسے کسی مسل کو کام میں نہ لایا جائے گا تو کم زور ہو جاتا ہے زیادہ استعمال کیا جائے تو مضبوط اور طاقت ور ہوتا ہے، بالکل اسی طرح اگر انسان خود کو برے کاموں اور عادتوں سے مسلسل روکتا رہے تو اس کا نفس کم زور ہوجاتا اور ایک وقت آتا ہے اور برائی سے بچنا اس کے لیے مشکل نہیں رہتا۔
اللہ نے انسان کو سیلف کنٹرول کی طاقت دے رکھی ہے۔ اپنی سوچ، عمل، عادات پر یہ پورا اختیار رکھتا ہے، اور اسی اختیار کا اس سے حساب لیے جانا ہے۔ لوگوں کی اکثریت دھوکے میں زندگی گزار دیتی ہے جن چیزوں پر اختیار نہیں انہیں ٹھیک کرنے کے لیے مچلتی رہتی ہے اور جس پر پورا حق یعنی “خود” پر حاصل ہوتا ہے اس پر کوئی دھیان نہیں دیتی۔
انسان اپنے ناپسندیدہ حالات کا زیادہ تر ذمہ دار خود ہوتا ہے، اور روزِ قیامت وہ اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہوگا، کیوںکہ انسان اپنے خیالات نظریات، جذبات، عادات، معاملات اور مزاج کو اس طاقت کے ذریعے، سیلف کنٹرول کے تحت تبدیل کرسکتا نکھار سکتا ہے، نتیجاً اپنی مرضی کے حالات خود بنا سکتا ہے اور اس کا پورا اختیار رکھتا ہے مگر آمادہ نہیں ہوتا۔
معاشرے میں زیادہ تر سر اٹھانے والی برائیوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں کی اصل وجہ لوگوں میں سیلف کنٹرول کا نہ پایا جانا ہے، جس نے انہیں جذباتی، خودغرض، حاسد، بے صبرا، حریص، ظالم، بے ایمان، ڈاکو یہاں تک کہ قاتل بنا ڈالا ہے، لوگ انتقامی کارروائی کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے ہیں، لہٰذا انہیں خود پر اتنا بھی کنٹرول نہیں رہ پاتا جو معمولی معمولی باتوں کو درگزر کرکے انھیں حد سے بڑھ جانے یا کسی کی جان لینے سے روک سکتا ہے۔
سیلف کنٹرول پیدا کرنے کے طریقے
اب آخر ایسا کیا کیا جائے کہ ہم خود میں سیلف کنٹرول پیدا کرلیں اور اس کے فوائد سے بھرپور افادہ حاصل کرسکیں۔ یقیناً باطن کی جانب متوجہ ہوکر ہی اپنے نفس پر قابو پانا ممکن ہے۔
اس کے لیے سب سے پہلے آپ کا اختیار جتنا بھی ہے اسے ضائع ہونے سے پہلے خود پر استعمال کیجیے، خود کو جانیے، اپنی خواہشات، جذبات، عادات، رویوں اور حواس پر قابو کیجیے، کیوںکہ جذباتی کیفیت اور مزاج سے آشنائی کے بغیر سیف کنٹرول کی کمی کو پورا کرنا مشکل ہے۔
سیلف کنٹرول جیسی نایاب خوبی کو اپنانے کا عزم کر ڈالیے، بڑے مقصد بنائیے اور چھوٹے سے آغاز کر کے خود پر آہستہ آہستہ اپنا کنٹرول بڑھائیے۔
جہاں آپ کو خود پر قابو پانا محال لگ رہا ہو، وہاں بس پانچ یا دس منٹ کے لیے خاموشی اختیار کر لیجیے یہ سیلف کنٹرول کا موثر ذریعہ ہے۔
بڑے کام کو فوری اچھا کرنے کی چاہ میں ہمت ہار بیٹھنے کے بجائے، کاموں کو تقسیم کرکے انھیں بہتر انداز میں کرنے کی کوشش کیجیے، مگر روزعمل کی عادت اپنائیے۔
اپنے نفس کو محکوم بنائے اور خود اس کے حکم راں بن جائیے، نجات اور فلاح کا راستہ یہی ہے کہ محاسبے کے ذریعے مسلسل اپنے نفس پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف رہا جائے۔
ایسا کرکے آپ کچھ ہی دنوں میں خود میں نمایاں تبدیلی محسوس کریں گے، راحت، اعتماد اور توانائی پائیں گے۔
یاد رکھیں اصل سیلف کنٹرول یہ ہے کہ ہماری نفسانی خواہشات خالق کی مرضی کے تابع ہوجائیں، اس کی ناراضی کا خدشہ جس میں ہو فوراً اسے روک دیا جائے، اور ہماری اس طلب وکوشش کی بدولت ہمیں رب کی رضامندی اور قرب الہی حاصل ہوجائے۔ اس طرح ہماری زندگی کا مقصد اور ہمیں اصل کام یابی مل جائے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
سیلف کنٹرول کو سمجھنے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ سیلف (خود) ہے کیا؟ فوٹو : فائل
اکثر لوگوں کا مزاج کچھ یوں ہوتا ہے کہ وہ فوری فائدے کے حصول کو ہی زندگی سمجھتے ہیں، زیادہ کی چاہت تو ہر کسی کی ہوتی ہے لیکن طویل انتظار کے بارے میں ان کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ “نہ جانے کتنا انتظار کرنا پڑے”ابھی جو ہے بس اسی سے کام چلا لیا جائے، یہ وہ سوچ ہوتی ہے جسے انسٹینٹ گراٹیفیکیشن کہتے ہیں، جب کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دیر تک انتظار کرلیتے ہیں، مگر بعد میں ملنے والے زیادہ بڑے فائدے کی خاطر کم فائدہ بھلے فوری ہو، چھوڑ دیتے ہیں جسے ڈیلیڈ گراٹیفیکیشن کہا جاتا ہے۔
ساٹھ کے عشرے میں Stanford University نے اسکول کے بچوں پر اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے مارشمیلو ٹیسٹ کے ذریعے تحقیق کی، تمام بچوں کو ایک ایک مارشمیلو دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ جو بچہ ریسرچر کے آنے تک مارشمیلو نہیں کھائے گا اسے انعام کے طور پر ایک ایک مزید مارشمیلو دی جائے گی، اور تحقیق کے آخر میں دیکھا گیا کہ ریسرچر کے دوبارہ آنے تک صرف چند بچے مارشمیلو کھانے کی خواہش روک پائے جب کہ باقی بچے مارشمیلو نہ کھانے کی پابندی کو قابو نہیں کرپائے۔ انھوں نے اپنی مارشمیلو ریسرچر کے آنے سے پہلے ہی کھا ڈالی، جب کہ کچھ بچوں نے مارشمیلو کا ایک کونا بہت احتیاط سے کھایا کہ فوری مزہ بھی مل جائے اور ریسرچر کے آنے کے بعد انعام بھی مل جائے۔
یہ تحقیق بس یہاں تک ختم نہیں ہوئی بلکہ کئی سال بعد یہ بچے بڑے ہوئے اور پریکٹیکل لائف میں داخل ہوئے تو ریسرچر، ان کے پاس دوبارہ گئے اور ان کی زندگی کا جائزہ لیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جن لوگوں میں انسٹینٹ گراٹیفیکیشن کا لیول زیادہ یعنی بے صبری کا عنصر پایا گیا تھا اور وہ مارشمیلو نہ کھانے کی خواہش پر قابو نہیں کرپائے تھے، ان میں سے زیادہ تر اپنی ذاتی اور پروفیشنل زندگی میں ناکام رہ گئے، اور کچھ جو اپنی اپنی مارشمیلو کا صرف مزہ لیتے رہے تھے وہ بس اوسط رہے، جب کہ جنہوں نے مارشمیلو کھانے کے لیے صبر کیا تھا، وہ خود پر زیادہ قابو پانے کے قابل غیرمعمولی تھے اور بلند ترین عُہدوں پر فائز تھے۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کچھ لوگوں پر ان کی لالچ یا بے صبرے پن کی وجہ سے زیادہ دیر تک رکنا گراں گزرتا ہے۔ اس لیے وہ کم فائدے پر ہی سمجھوتا کرلیتے ہیں، اور اپنے اسی مزاج کی وجہ سے معاشرے میں کوئی خاطرخواں مقام حاصل نہیں کر پاتے، جب کہ کام یابی کا راز طویل محنت اور دیرپا نتائج میں پنہاں ہے۔ استقامت کے ساتھ صبر کا دامن تھامے رہنے سے ہی مقاصد حاصل ہوا کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جو لوگ صبر اختیار کرتے ہیں، ان کے ارادے و عزم پختہ ہوتے، بڑے مقصد بناتے اور اپنی محنت اور کوشش تادیر جاری رکھتے ہوئے، بڑے فوائد حاصل کرتے اور اپنی منزل پا لیا کرتے ہیں، ایسے لوگ اپنے رشتوں میں مضبوط ہوتے اور خوش حال زندگی بسر کرتے ہیں۔
٭ سیلف کنٹرول کیا ہے؟
سیلف کنٹرول (خود پر قابو) وہ خوبی ہے جس میں انسان کا ریموٹ خود اپنے ہاتھ میں ہو اور وہ خودشناس، پُراعتماد اور مضبوط قوت ارادی جیسی خصوصیات کا مالک ہو، اپنی جذباتی کیفیت پر پورا کنٹرول رکھنے اور صبر کے ساتھ جذبات کو منظم کرنے کی صلاحیت کے گُر سے پوری طرح آشنا ہو۔ یہ خاصیت انسان کو پروڈکٹیو بناتی ہے۔ اس کے ذریعے کوئی بھی شخص اپنے اہداف یامطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بہ آسانی کام یاب ہوجاتا ہے۔
سیلف کنٹرول کو سمجھنے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ سیلف (خود) ہے کیا؟ اس میں صرف دماغ شامل نہیں ہوتا، بلکہ مزاج، خیالات، جذبات، عادات، خواہشات سب کا کنٹرول شامل ہے جس پر قابو پائے بغیر سیف کنٹرول کا حصول ممکن نہیں۔
غرض یہ کہ یہ وہ مقام ہوتا ہے، جب انسان کو خود پر اتنا ضبط حاصل ہوجائے کہ وہ ایسی تمام عادات، خواہشات و مطالبات پر قابو پالے، جن سے اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، لہٰذا خیالات، جذبات اور خواہشات کو بہتر طریقے سے چلانے، ناپسندیدہ حرکات پر قابو پانے اور فائدے مند کاموں پر مستقل مزاجی سے قائم رہنے کا نام سیلف کنٹرول ہے۔ وہ جو اپنے نفس کو محکوم بنالے اور خود حاکم بن جائے، وہی اصل میں عقل مند ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول ہے:”جو شخص اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے وہ اس شخص سے زیادہ طاقت ور ہے جو تنہا کسی شہر کو فتح کرلیتا ہے۔”
نپولین ہل کہتا ہے: “اگر آپ خود کو فتح نہیں کرتے ہیں تو آپ خود ہی فتح ہوجائیں گے۔”
بیرونی قوتوں سے زیادہ انسان کو روکنے والی اندرونی قوت ہے، کیوںکہ اصل دشمن نفس ہے اور جس سے گھائل ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے وہ اپنا آپ ہوتا ہے۔ اصل فتح خود کو فتح کرنا اور نفس پر فتح پانا ہے، حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے “سب سے افضل جہاد نفس کے ساتھ ہے” یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب جہاد سے واپس لوٹتے تو فرمایا کرتے “ہم جہاداصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ آئے ہیں۔” کیوںکہ جہادبالنفس میں سامنا ایسے دشمن سے ہوتا ہے جو کہ دکھائی نہیں دیتا اور چھپا ہوا دشمن نظر آنے والے دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:” دوسروں کو چیرنے پھاڑنے والا شیربننا آسان ہے مگر اصل شیر وہی ہے جو خود (نفس) کو شکست دے سکے، تاکہ اللہ عزوجل کی مدد سے اللہ کا شیر بن جائے اور نفس اور اس کے متکبرانہ عزائم سے نجات پاجائے۔”
ارشاد باری تعالیٰ ہے” اور (جس نے) نفس کو خواہشات سے روکا تو بے شک (اس کا) جنت میں ٹھکانا ہے۔”
اسلام ہمیں نفس پر کنٹرول کرنے اسے لگام ڈالنے کا حکم دیتا ہے اور اس کے شر سے بچنے کی تاکید کرتا ہے، اگرچہ اپنے آپ پر قابو رکھنا ایک بڑا چیلینج ہے لیکن جو اسے سر کرنے کا ہنر سیکھ لیتا ہے، کام یابی اس کے قدم چومتی ہے۔ ہر کام یا عادت کی تبدیلی ابتدا میں مشکل لگتی ہے مگر معمول دہراتے رہنے سے طرزحیات بن کر آسان تر ہوجاتی ہے۔
یہ دھیان ہر آن رہے کہ نفس وجذبات کے بہاؤ میں انسان اتنا نہ بہنے لگ جائے کہ نفع اور نقصان میں پہچان بھی نہ کرسکے، قبل اس کے کہ آپ کا نفس آپ کو فتح کرلے، آپ اسے شکست سے دوچار کردیجیے۔ ایسی تمام خواہشات کو کچل ڈالیے جو آپ اور آپ کے خالق کی اطاعت میں آڑ بنتی ہوں، یہی صبر کا مفہوم ہے۔
صبر ہی واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان خود پر قابو کرکے اپنے اندر ہمت، حوصلہ، برداشت، خیر، بھلائی، سکون اور اطمینان پیدا کر سکتا ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے” کسی شخص کو صبر سے زیادہ وسیع نعمت کوئی نہیں دی گئی۔”
یہ ہی وہ خزانہ ہے جو فتح یابی کا ضامن ہے۔ قرآن کریم میں 70سے زائد مقامات پر (صبر) کا ذکر فرمایا گیا اور مومنین کا وہ وصف جو خاص طور پر نمایاں کیا گیا وہ صبر، سیلف کنٹرول ہے کہ وہ صابر، صبر کرنے والے ہیں، اللہ صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے، اللہ تعالی نے صابرین کے لیے خوش خبری اور آخرت میں عظیم اجر کا وعدہ فرمایا، یقیناً اس کا بڑا انعام اجر وہ پانے والے ہے۔
دین اسلام کا ایک اہم رکن روزہ (صوم) اسی سیلف کنٹرول کی مشق ہے۔ روزہ انسان کو خود پر قابو پانے کی مشق کراتا ہے تاکہ انسان کا جسم اور اس کی روح غیرضروری خواہشات، مطالبات اور گناہوں سے پاک صاف ہو کر قوی ہوجائے، حد کی پابند بن جائے، اس کی گرفت مضبوط ہوجائے، کیوں کہ سیلف کنٹرول کا مقصد ہی اپنی خودی کو گرفت میں لینا ہے۔
اسی خودی کی اہمیت کو شاعر مشرق علامہ محمداقبال یوں بیان کرتے ہیں:
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
خود پر کنٹرول اس لیے بھی ضروری ہے کیوںکہ یہ مسائل سمیٹنے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ ہر کسی کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہی ہے، خطرات سے مبرا زندگی کسی کی نہیں ہے، لیکن جن کا سیلف کنٹرول زیادہ ہوتا ہے وہ اپنے اسٹریس کو کنٹرول کرنا جانتے ہیں۔ اور پریشان کن صورت حال سے فوری باہر نکل آتے ہیں۔ یہ خوبی زندگی کے ہر شعبے پر اثرانداز ہوتی ہے، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی ذاتی یا پروفیشنل اس کے بغیر نامکمل ہے۔
اس کی کمی کی وجہ سے لوگ اپنی حد سے باہر نکل جاتے، حقیقی خوشیوں و لطف سے محروم رہ جاتے، پریشانی و مایوسی میں ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ سیلف کنٹرول کی کمی عموماً بچپن ہی سے نمو پاتے پاتے اگر بروقت کنٹرول نہ کی جائے تو بسا اوقات ساری زندگی موجود رہتی ہے اور اس کے اثرات تربیت اور صحبت کی شکل میں آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس کمی کا دل سے اگر احساس ہوجائے تو اس خامی پر قابو کرکے سیلف کنٹرول بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔
٭ سیلف کنٹرول کی طاقت
سائنسی تحقیقات کے مطابق انسانی دماغ جسمانی مسل کی طرح ہے۔ جیسے کسی مسل کو کام میں نہ لایا جائے گا تو کم زور ہو جاتا ہے زیادہ استعمال کیا جائے تو مضبوط اور طاقت ور ہوتا ہے، بالکل اسی طرح اگر انسان خود کو برے کاموں اور عادتوں سے مسلسل روکتا رہے تو اس کا نفس کم زور ہوجاتا اور ایک وقت آتا ہے اور برائی سے بچنا اس کے لیے مشکل نہیں رہتا۔
اللہ نے انسان کو سیلف کنٹرول کی طاقت دے رکھی ہے۔ اپنی سوچ، عمل، عادات پر یہ پورا اختیار رکھتا ہے، اور اسی اختیار کا اس سے حساب لیے جانا ہے۔ لوگوں کی اکثریت دھوکے میں زندگی گزار دیتی ہے جن چیزوں پر اختیار نہیں انہیں ٹھیک کرنے کے لیے مچلتی رہتی ہے اور جس پر پورا حق یعنی “خود” پر حاصل ہوتا ہے اس پر کوئی دھیان نہیں دیتی۔
انسان اپنے ناپسندیدہ حالات کا زیادہ تر ذمہ دار خود ہوتا ہے، اور روزِ قیامت وہ اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہوگا، کیوںکہ انسان اپنے خیالات نظریات، جذبات، عادات، معاملات اور مزاج کو اس طاقت کے ذریعے، سیلف کنٹرول کے تحت تبدیل کرسکتا نکھار سکتا ہے، نتیجاً اپنی مرضی کے حالات خود بنا سکتا ہے اور اس کا پورا اختیار رکھتا ہے مگر آمادہ نہیں ہوتا۔
معاشرے میں زیادہ تر سر اٹھانے والی برائیوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں کی اصل وجہ لوگوں میں سیلف کنٹرول کا نہ پایا جانا ہے، جس نے انہیں جذباتی، خودغرض، حاسد، بے صبرا، حریص، ظالم، بے ایمان، ڈاکو یہاں تک کہ قاتل بنا ڈالا ہے، لوگ انتقامی کارروائی کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے ہیں، لہٰذا انہیں خود پر اتنا بھی کنٹرول نہیں رہ پاتا جو معمولی معمولی باتوں کو درگزر کرکے انھیں حد سے بڑھ جانے یا کسی کی جان لینے سے روک سکتا ہے۔
سیلف کنٹرول پیدا کرنے کے طریقے
اب آخر ایسا کیا کیا جائے کہ ہم خود میں سیلف کنٹرول پیدا کرلیں اور اس کے فوائد سے بھرپور افادہ حاصل کرسکیں۔ یقیناً باطن کی جانب متوجہ ہوکر ہی اپنے نفس پر قابو پانا ممکن ہے۔
اس کے لیے سب سے پہلے آپ کا اختیار جتنا بھی ہے اسے ضائع ہونے سے پہلے خود پر استعمال کیجیے، خود کو جانیے، اپنی خواہشات، جذبات، عادات، رویوں اور حواس پر قابو کیجیے، کیوںکہ جذباتی کیفیت اور مزاج سے آشنائی کے بغیر سیف کنٹرول کی کمی کو پورا کرنا مشکل ہے۔
سیلف کنٹرول جیسی نایاب خوبی کو اپنانے کا عزم کر ڈالیے، بڑے مقصد بنائیے اور چھوٹے سے آغاز کر کے خود پر آہستہ آہستہ اپنا کنٹرول بڑھائیے۔
جہاں آپ کو خود پر قابو پانا محال لگ رہا ہو، وہاں بس پانچ یا دس منٹ کے لیے خاموشی اختیار کر لیجیے یہ سیلف کنٹرول کا موثر ذریعہ ہے۔
بڑے کام کو فوری اچھا کرنے کی چاہ میں ہمت ہار بیٹھنے کے بجائے، کاموں کو تقسیم کرکے انھیں بہتر انداز میں کرنے کی کوشش کیجیے، مگر روزعمل کی عادت اپنائیے۔
اپنے نفس کو محکوم بنائے اور خود اس کے حکم راں بن جائیے، نجات اور فلاح کا راستہ یہی ہے کہ محاسبے کے ذریعے مسلسل اپنے نفس پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف رہا جائے۔
ایسا کرکے آپ کچھ ہی دنوں میں خود میں نمایاں تبدیلی محسوس کریں گے، راحت، اعتماد اور توانائی پائیں گے۔
یاد رکھیں اصل سیلف کنٹرول یہ ہے کہ ہماری نفسانی خواہشات خالق کی مرضی کے تابع ہوجائیں، اس کی ناراضی کا خدشہ جس میں ہو فوراً اسے روک دیا جائے، اور ہماری اس طلب وکوشش کی بدولت ہمیں رب کی رضامندی اور قرب الہی حاصل ہوجائے۔ اس طرح ہماری زندگی کا مقصد اور ہمیں اصل کام یابی مل جائے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز