ساقی۔

محفلین
سیلف ہپناسس (عمل تنویم، یا آٹو سجیشن) کے بارے میں اگر کسی نے تجربہ کیا ہو تو شیئر کریں۔نیز اس کا طریقہ کار فوائد ، نقصانات،اور عرصہ مدت کے بارے میں بھی بتائیں۔


روحانی بابا
نایاب بھائی
فیصل عظیم فیصل
اور دوسرے قابل احترام اراکین جو اس علم سے واقفیت رکھے ہوں
 

نایاب

لائبریرین
محترم ساقی بھائی
میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ " یقین کامل پر قائم انسان کی زبان سے نکلا ہر لفظ اپنی مکمل خصوصیات کے ساتھ مجسم ہوتے حقیقت میں بدل جاتا ہے "
میں کوئی عالم و فاضل نہیں ہوں دینی و روحانی علوم میں ۔ میں تو طفل مکتب بھی نہیں ان مکاتب میں ۔
خود پر بیتے وقت نے جو حقائق دکھائے ۔ اسی پر یقین ہے اپنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدیم مذاہب کے یہ اصول کہ ۔۔۔۔۔۔ جب کوئی انسان خلوص نیت کے ساتھ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیئے دیوانہ وار کوشش کرتا ہے تو اس کائنات میں مصروف عمل تمام قوتیں اس کی مددگار ٹھہرتی ہیں ۔
دین اسلام میں "فَاذْکُرُوْنِيْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِo" بھی اسی اصول کو قائم کرتا ہے ۔ اور جو اس اصول کی پیروی کرتے ہیں وہی کامیاب و کامران قرار پاتے ہیں ۔۔
جو اللہ کا ذکر کرتا ہے ۔ اور اللہ اس کے ذکر کو بلند فرما دیتا ہے ۔
جب کوئی انسان ذکر اللہ کو رہنما رکھتے فلاح انسانیت کی سوچ کو ہمراہ لیئے عبادات بدنی (انسان کی خدمت )میں مصروف رہتے اس کے بھلائی کے لیئے کسی طور کوشاں ہوتا ہے تو اللہ سبحان و تعالی اس کے پورے وجود کو اپنی خاص قوت و برکت سے نواز دیتا ہے ۔۔۔ اور پھر ایسی ہستی کے ہاتھ سے پھینکے جانا والا پتھر بھی اپنی نسبت اللہ سے قائم کر لیتا ہے ۔۔
ہپناٹزم ۔ عمل تنویم ۔ ایسے عمل ہیں جو کہ براہ راست انسان کی سوچ پر قائم ہوتے ہیں ۔اور انسان کی شخصیت کی تعمیر میں ترغیب کا درجہ رکھتے ہیں ۔ یہ شخصیت انسانی ذاتی بھی ہو سکتی ہے اور غیر بھی ۔
اس فن تنویم کا عامل ہونا ہر اس انسان کے لیئے بہت آسان ہے جو کہ خود اپنی شخصیت پر بے لاگ ناقد ہوتے اپنی شخصیت کی تعمیر کر چکا ہو ۔ نظم و ضبط اور خواہش نفسانی پر مکمل قابو رکھتا ہو ۔ وعدہ خلافی خیانت اور مفاد پرستی سے کوسوں دور رہتا ہو ۔ اس عمل کے عامل بننے کے لیئے اک ڈھونڈو تو ہزار طریقے ملتے ہیں ۔ ہر طریقے میں ہزار مشقیں دماغ کھاتی ہیں ۔اک مشق میں بھی ذرا سی کمی رہ جائے تو مکمل عمل فاسد ۔۔۔۔۔۔
آسان تر طریقہ جس سے انسان کی ذاتی شخصیت اس قدر اثر انگیز ہو جاتی ہے کہ اس کے مخاطب اس کی بات دل سے سنتے اور بنا ترغیب اس پر عمل کرتے اپنی زندگی سنوار لیتے ہیں ۔ اپنی شخصیت میں موجود کجی و کمزوری سے چھٹکارہ پا لیتے ہیں ۔ وہ یہ ہے کہ " اس ہستی پر جو کہ مجسم کہیں نظر نہیں آتی مگر اس کا نور اسکائنات کے ہر ذرے میں دمکتے اس ہستی کی موجودگی کا محکم ثبوت دیتا ہے " پر کامل ایمان رکھتے اس ہستی کی جانب سے نافذ کردہ فرائض و واجبات کو مکمل دیانت داری سے ادا کرتے زکواۃ دی جائے اور جھکنے والوں کے ساتھ جھکا جائے ۔ نماز فجر کی سنت و فرض کے درمیانی وقت اپنے دروں بروں کے مظاہر کا مطالعہ کرتے " ایاک نعبدو و ایاک نستعین " کے دعوےپر عمل اور یقین کامل کرتے اپنے دن کا آغاز کیا جائے ۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں پوری دل جمعی سے مصروف ہوتے اپنے دنیاوی فرائض کو جو کہ ہمارے اور ہم سے منسلک لوگوں کے رزق کا ہم تک پٌہنچنے کا واسطہ ہوتے ہیں پوری دیانت داری سے ادا کیئے جائیں ۔
جب کوئی انسان ان معمولات کو اپنی پوری دل چسپی کے ساتھ اپنانے کے جنوں کی حد تک پہنچتا ہے ۔ تو اس پر ظہر عصر مغرب عشاء کی سنتوں اور فرض کے درمیان بیتنے والا وقت اپنی حقیقت کھولنا شروع کرتا ہے ۔ اور وہ چہرہ جو کہ انسانوں کے پاؤں رکھنے کی جگہ میں صرف اللہ کی بڑائی تسلیم کرتے سجدہ کرتا ہے ۔ پرنور و با رعب ہوجاتا ہے ۔ اور پھر ایسا انسان عامل کامل ہونے کے شکر میں تہجد اشراق چاشت اوابین کی ادائیگی کے اوقات کو اپنے غوروفکر کےلیئے لازم کر لیتا ہے ۔
اور اس قدر قوت اس کی آنکھ اور زبان میں پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کی زبان سے نکلی حکمت و نصیحت والی بات بنا کسی لمبے لیکچر کے مخاطب کے ذہن و دل کو مسخر کرتے اس کی اصلاح کا سبب بن جاتی ہے ۔
اسلام میں " انسان " دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے اپنی تخلیق کو اپنے افعال و اعمال کے بل پر " احسن الخلق " کے درجے پر پہنچا کر خالق کائنات کا نائب ہونے کا اعزاز حاصل کر لیتا ہے ۔
اور دوسرے انسان اس کے پاس آکر اپنی پریشانیوں اپنی کجیوں کمیوں کو پورے اعتماد و یقین کے ساتھ اس سے بیان کرتے سکون محسوس کرتے ہیں ۔ اور اس کی کہی بات کو پورے یقین کے ساتھ قبول کرتے فائدہ پاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
ان علوم کے سیکھنے کے لیئے دیگر بہت سے طریقے مروج ہیں ۔ شمع بینی ۔ دائروں کو تکنا ۔ مراقبہ کرنا ۔ سورج پر نگاہ باندھنی ۔اپنے جسم کو مخصوص اذیتیں دینا ۔
علم کوئی بھی ہو سچے سمیع العلیم کی جانب سے ہی اس کا نزول ہوتا ہے ۔ اور اس علم کا استعمال ہی اس کو جائز یا ناجائز بناتا ہے ۔ اسی طرح سیکھنے میں بہت سے جائز و ناجائز طریقے بھی استعمال کیئے جاتے ہیں ۔
محترم قاری یہ میرے ذاتی خیالات ہیں جن کی سند بارے سوال نہ کیا جائے ۔ یہ اختلاف کی روشنی میں علم سیکھنے کی خواہش ہے سو کھلے طور اختلاف کیا جائے تاکہ میری علم کی پیاس بجھے ۔
بہت دعائیں
 

ساقی۔

محفلین
بہت شکریہ نایاب بھائی۔ جہاں تک آپ کے نقطہ نظر کو میں سمجھا ہوں ۔۔یوں ہے کہ ۔۔۔ اپنے فرائض کو احسن طریقے سے ادا کرنا۔۔۔۔ خالق اور اس کی بنائی ہوئی کائنات پر غور فکر کر کے اپنی زندگی کے مْقصد کو سمجھنا۔۔۔۔اس کی مخلوق کی بغیر کسی لالچ کے جہاں تک ممکن ہو مدد کرنا۔۔۔ کسی کے خلاف اپنے دل میں کینہ ، بغض، نفرت، اور حقارت نہ رکھنا۔۔۔خود کو غرور اور تکبر سے پاک رکھنا۔۔
اگر ایسی خوبیاں انسان میں پیدا ہو جائیں تو اسے کسی جنتر منتر اور چلے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ رب کائنات خود ہی اس پر ہر چیز کو منکشف کر دیتا ہے۔اور اس کے لیے ہر چیز مسخر کر دی جاتی ہے۔
(کیا میں ٹھیک سمجھا)

محترم ساقی بھائی
میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ " یقین کامل پر قائم انسان کی زبان سے نکلا ہر لفظ اپنی مکمل خصوصیات کے ساتھ مجسم ہوتے حقیقت میں بدل جاتا ہے "
میں کوئی عالم و فاضل نہیں ہوں دینی و روحانی علوم میں ۔ میں تو طفل مکتب بھی نہیں ان مکاتب میں ۔
خود پر بیتے وقت نے جو حقائق دکھائے ۔ اسی پر یقین ہے اپنا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
قدیم مذاہب کے یہ اصول کہ ۔۔۔ ۔۔۔ جب کوئی انسان خلوص نیت کے ساتھ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیئے دیوانہ وار کوشش کرتا ہے تو اس کائنات میں مصروف عمل تمام قوتیں اس کی مددگار ٹھہرتی ہیں ۔
دین اسلام میں "فَاذْکُرُوْنِيْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِo" بھی اسی اصول کو قائم کرتا ہے ۔ اور جو اس اصول کی پیروی کرتے ہیں وہی کامیاب و کامران قرار پاتے ہیں ۔۔
جو اللہ کا ذکر کرتا ہے ۔ اور اللہ اس کے ذکر کو بلند فرما دیتا ہے ۔
جب کوئی انسان ذکر اللہ کو رہنما رکھتے فلاح انسانیت کی سوچ کو ہمراہ لیئے عبادات بدنی (انسان کی خدمت )میں مصروف رہتے اس کے بھلائی کے لیئے کسی طور کوشاں ہوتا ہے تو اللہ سبحان و تعالی اس کے پورے وجود کو اپنی خاص قوت و برکت سے نواز دیتا ہے ۔۔۔ اور پھر ایسی ہستی کے ہاتھ سے پھینکے جانا والا پتھر بھی اپنی نسبت اللہ سے قائم کر لیتا ہے ۔۔
ہپناٹزم ۔ عمل تنویم ۔ ایسے عمل ہیں جو کہ براہ راست انسان کی سوچ پر قائم ہوتے ہیں ۔اور انسان کی شخصیت کی تعمیر میں ترغیب کا درجہ رکھتے ہیں ۔ یہ شخصیت انسانی ذاتی بھی ہو سکتی ہے اور غیر بھی ۔
اس فن تنویم کا عامل ہونا ہر اس انسان کے لیئے بہت آسان ہے جو کہ خود اپنی شخصیت پر بے لاگ ناقد ہوتے اپنی شخصیت کی تعمیر کر چکا ہو ۔ نظم و ضبط اور خواہش نفسانی پر مکمل قابو رکھتا ہو ۔ وعدہ خلافی خیانت اور مفاد پرستی سے کوسوں دور رہتا ہو ۔ اس عمل کے عامل بننے کے لیئے اک ڈھونڈو تو ہزار طریقے ملتے ہیں ۔ ہر طریقے میں ہزار مشقیں دماغ کھاتی ہیں ۔اک مشق میں بھی ذرا سی کمی رہ جائے تو مکمل عمل فاسد ۔۔۔ ۔۔۔
آسان تر طریقہ جس سے انسان کی ذاتی شخصیت اس قدر اثر انگیز ہو جاتی ہے کہ اس کے مخاطب اس کی بات دل سے سنتے اور بنا ترغیب اس پر عمل کرتے اپنی زندگی سنوار لیتے ہیں ۔ اپنی شخصیت میں موجود کجی و کمزوری سے چھٹکارہ پا لیتے ہیں ۔ وہ یہ ہے کہ " اس ہستی پر جو کہ مجسم کہیں نظر نہیں آتی مگر اس کا نور اسکائنات کے ہر ذرے میں دمکتے اس ہستی کی موجودگی کا محکم ثبوت دیتا ہے " پر کامل ایمان رکھتے اس ہستی کی جانب سے نافذ کردہ فرائض و واجبات کو مکمل دیانت داری سے ادا کرتے زکواۃ دی جائے اور جھکنے والوں کے ساتھ جھکا جائے ۔ نماز فجر کی سنت و فرض کے درمیانی وقت اپنے دروں بروں کے مظاہر کا مطالعہ کرتے " ایاک نعبدو و ایاک نستعین " کے دعوےپر عمل اور یقین کامل کرتے اپنے دن کا آغاز کیا جائے ۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں پوری دل جمعی سے مصروف ہوتے اپنے دنیاوی فرائض کو جو کہ ہمارے اور ہم سے منسلک لوگوں کے رزق کا ہم تک پٌہنچنے کا واسطہ ہوتے ہیں پوری دیانت داری سے ادا کیئے جائیں ۔
جب کوئی انسان ان معمولات کو اپنی پوری دل چسپی کے ساتھ اپنانے کے جنوں کی حد تک پہنچتا ہے ۔ تو اس پر ظہر عصر مغرب عشاء کی سنتوں اور فرض کے درمیان بیتنے والا وقت اپنی حقیقت کھولنا شروع کرتا ہے ۔ اور وہ چہرہ جو کہ انسانوں کے پاؤں رکھنے کی جگہ میں صرف اللہ کی بڑائی تسلیم کرتے سجدہ کرتا ہے ۔ پرنور و با رعب ہوجاتا ہے ۔ اور پھر ایسا انسان عامل کامل ہونے کے شکر میں تہجد اشراق چاشت اوابین کی ادائیگی کے اوقات کو اپنے غوروفکر کےلیئے لازم کر لیتا ہے ۔
اور اس قدر قوت اس کی آنکھ اور زبان میں پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کی زبان سے نکلی حکمت و نصیحت والی بات بنا کسی لمبے لیکچر کے مخاطب کے ذہن و دل کو مسخر کرتے اس کی اصلاح کا سبب بن جاتی ہے ۔
اسلام میں " انسان " دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے اپنی تخلیق کو اپنے افعال و اعمال کے بل پر " احسن الخلق " کے درجے پر پہنچا کر خالق کائنات کا نائب ہونے کا اعزاز حاصل کر لیتا ہے ۔
اور دوسرے انسان اس کے پاس آکر اپنی پریشانیوں اپنی کجیوں کمیوں کو پورے اعتماد و یقین کے ساتھ اس سے بیان کرتے سکون محسوس کرتے ہیں ۔ اور اس کی کہی بات کو پورے یقین کے ساتھ قبول کرتے فائدہ پاتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔
ان علوم کے سیکھنے کے لیئے دیگر بہت سے طریقے مروج ہیں ۔ شمع بینی ۔ دائروں کو تکنا ۔ مراقبہ کرنا ۔ سورج پر نگاہ باندھنی ۔اپنے جسم کو مخصوص اذیتیں دینا ۔
علم کوئی بھی ہو سچے سمیع العلیم کی جانب سے ہی اس کا نزول ہوتا ہے ۔ اور اس علم کا استعمال ہی اس کو جائز یا ناجائز بناتا ہے ۔ اسی طرح سیکھنے میں بہت سے جائز و ناجائز طریقے بھی استعمال کیئے جاتے ہیں ۔
محترم قاری یہ میرے ذاتی خیالات ہیں جن کی سند بارے سوال نہ کیا جائے ۔ یہ اختلاف کی روشنی میں علم سیکھنے کی خواہش ہے سو کھلے طور اختلاف کیا جائے تاکہ میری علم کی پیاس بجھے ۔
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
بہت شکریہ نایاب بھائی۔ جہاں تک آپ کے نقطہ نظر کو میں سمجھا ہوں ۔۔یوں ہے کہ ۔۔۔ اپنے فرائض کو احسن طریقے سے ادا کرنا۔۔۔ ۔ خالق اور اس کی بنائی ہوئی کائنات پر غور فکر کر کے اپنی زندگی کے مْقصد کو سمجھنا۔۔۔ ۔اس کی مخلوق کی بغیر کسی لالچ کے جہاں تک ممکن ہو مدد کرنا۔۔۔ کسی کے خلاف اپنے دل میں کینہ ، بغض، نفرت، اور حقارت نہ رکھنا۔۔۔ خود کو غرور اور تکبر سے پاک رکھنا۔۔
اگر ایسی خوبیاں انسان میں پیدا ہو جائیں تو اسے کسی جنتر منتر اور چلے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ رب کائنات خود ہی اس پر ہر چیز کو منکشف کر دیتا ہے۔اور اس کے لیے ہر چیز مسخر کر دی جاتی ہے۔
(کیا میں ٹھیک سمجھا)
محترم بھائی بلاشک آپ نے میرے بے ترتیب افکار پریشاں پر مبنی نقطہ نظر کو اک مربوط صورت عطا کی ۔
میں اسی نقطہ نظر پر کامل یقین رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں ۔ اللہ آپ کے نیک مقاصد کو آپ کے لیئے آسان فرمائے آمین
 
Top