سیماب اکبر آبادی سیمابؔ اکبر آبادی ::::: پہنچے تا بہ منزل کیا، سلسلہ یہاں اپنا ::::: Seemab Akbarabadi

طارق شاہ

محفلین


غزل
پہنچے تا بہ منزل کیا، سِلسِلہ یہاں اپنا
راستے ہیں سب اُن کے اور کارواں اپنا

کیا کریں کہِیں قائم عارضی نِشاں اپنا
ہے وہی مکاں اپنا، جی لگے جہاں اپنا

بزمِ حُسن میں ہُو گا کون ترجُماں اپنا
دِل پہ کُچھ بھروسا تھا، دِل مگر کہاں اپنا

وقت راہِ منزِل میں ہو نہ رائیگاں اپنا
روز رُخ بدلتا ہے مِیرِ کارواں اپنا

فاش کیوں نہیں کرتا رازِ جبر و مجبوری
کیوں خراب کرتا ہے نام آسماں اپنا

درد کو خُدا رکھے ، کروَٹیں بدلوادیں
ورنہ کون شامِ غم ، تھا مزاج داں اپنا

دیکھ لیتی خوابیدہ، کارواں بہاروں کے!
جائزہ اگر لیتی صُبحِ گُلسِتاں اپنا


کیا عجب بدل ڈالے اِک دِن اپنی فِطرت بھی
رنگ تو بدلتا ہے روز آسماں اپنا

موج دائرہ بن کر آشنائے مرکز ہے
بن گیا یقیں آخر پھیل کر گُماں اپنا

دَورِ غم ہے لا محدُود ، حدِّ زیست نامعلوُم
کام کیوں نہیں کرتی مرگِ ناگہاں اپنا

اب کُھلا کہ مَیں اُن کی ذات کا خُلاصہ ہُوں
پُوچھ کر پتہ میرا دے گئے نِشاں اپنا

ناز سے نیائش کو اِنتقام لینا ہے
تُو بھی اے زمِیں رکھ لے نام آسماں اپنا

ہیں یہ سب گِلے شِکوے، بر بنائے لاعلمی
ورنہ بجلیاں اپنی اور نہ آشیاں اپنا

یہ غلط نِشانہ کیا، طوُر ختم، غش مُوسٰیؑ !
تم نے لے لِیا ہوتا پہلے اِمتحاں اپنا

سر اُٹھا کے بھی ہم کو سجدہ کرنا آتا ہے
آپ اپنے گھر رکھّیں سنگِ آستاں اپنا

تھا مُقابلہ سیماؔب! عُمرِ بزمِ فانی سے
ہم بھی چھوڑ آئے ہیں نقشِ جاوِداں اپنا

علامہ سیماؔب اکبرآبادی
1951 - 1882
 
Top