سینہِ افلاک کے جُھومر نجوم غزل نمبر 113 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعلات
سینہِ افلاک کے جُھومر نجوم
کہکشاں بنتے ہیں سب مل کر نجوم

ہیں ہزاروں سال کے یہ فاصلے
ہیں ہماری سوچ سے اوپر نجوم

ہم احاطہ کر نہیں سکتے کبھی
سوچِ انسانی سے ہیں باہر نجوم

کارنامہ کون سر انجام دے؟
کیا کبھی ہو پائیں گے یہ سر نجوم؟

دیکھ کر دنیا ہے سب حیرت زدہ
پیش کرتے ہیں حسیں منظر نجوم

تذکرہ ان کا تو ہے قرآن میں
رب کی قُدرت کا ہیں یہ مظہر نجوم

سنتے آئے ہیں یہ ہم اسلاف سے
ایک دِن بُجھ جائیں گے یکسر نجوم

یار نے پُوچھا بتا کیا چاہئے
میں نے اُس کو دے دیا لکھ کر نجوم

حضرتِ غالب بجا فرماگئے
قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم

رب نے شارؔق ہے کیا روشن انہیں
راہ دِکھلاتے ہیں یہ رہبر نجوم
 

الف عین

لائبریرین
سینہِ افلاک کے جُھومر نجوم
کہکشاں بنتے ہیں سب مل کر نجوم
... مطلع محمد عبدالرؤوف نے درست کر دیا

ہیں ہزاروں سال کے یہ فاصلے
ہیں ہماری سوچ سے اوپر نجوم
.. درست

ہم احاطہ کر نہیں سکتے کبھی
سوچِ انسانی سے ہیں باہر نجوم
... سوچِ یعنی اضافت غلط ہے سوچ ہندی لفظ کے ساتھ۔ یہاں فکرِ انسانی لا سکتے ہو

کارنامہ کون سر انجام دے؟
کیا کبھی ہو پائیں گے یہ سر نجوم؟
... ٹھیک

دیکھ کر دنیا ہے سب حیرت زدہ
پیش کرتے ہیں حسیں منظر نجوم
... " دنیا ہے سب" رواں نہیں ، مصرع بدلو
ساری دنیا عالمِ حیرت میں ہے
مثلاً

تذکرہ ان کا تو ہے قرآن میں
رب کی قُدرت کا ہیں یہ مظہر نجوم
... پہلے مصرع کا "تو" تھیک نہیں، "بھی" کے بغیر ۔ کچھ اور کہو

سنتے آئے ہیں یہ ہم اسلاف سے
ایک دِن بُجھ جائیں گے یکسر نجوم
.. درست

یار نے پُوچھا بتا کیا چاہئے
میں نے اُس کو دے دیا لکھ کر نجوم
.. مفہوم کے اعتبار سے عجیب ہے، ویسے تکنیکی طور پر درست

حضرتِ غالب بجا فرماگئے
قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم
.. یہ تو مجھے بھی لغت میں دیکھنا پڑے گا! غالب کا کیا شعر ہے؟

رب نے شارؔق ہے کیا روشن انہیں
راہ دِکھلاتے ہیں یہ رہبر نجوم
.. ہےکیا روشن.. اچھا بیانیہ نہیں۔اسے بھی بدلو
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر اب دیکھئے گا آپکی اصلاح اور تدوین کے بعد۔۔
محمد عبدالرؤوف آپنے جو مشورہ دیا وہ قبول ہے شکریہ۔

ہیں جبینِ چرخ پر جھومر نجوم
کہکشاں بنتے ہیں سب مل کر نجوم

ہیں ہزاروں سال کے یہ فاصلے
ہیں ہماری سوچ سے اوپر نجوم

ہم احاطہ کر نہیں سکتے کبھی
فکرِ انسانی سے ہیں باہر نجوم

کارنامہ کون سر انجام دے؟
کیا کبھی ہو پائیں گے یہ سر نجوم؟

عالمِ حیرت میں ہے دنیا سبھی
پیش کرتے ہیں حسیں منظر نجوم

تذکرہ ان کا ملا قرآن میں
رب کی قُدرت کا ہیں یہ مظہر نجوم

سنتے آئے ہیں یہ ہم اسلاف سے
ایک دِن بُجھ جائیں گے یکسر نجوم

یار نے پُوچھا بتا کیا چاہئے
میں نے اُس کو دے دیا لکھ کر نجوم

حضرتِ غالب بجا فرماگئے
قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم

استاذ غالب صاحب کا یہ شعر ہے۔
قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم
وہ بلائے آسمانی اور ہے


رب نے ہے شارؔق انہیں روشن کیا
راہ دِکھلاتے ہیں یہ رہبر نجوم
 
Top