فاتح
لائبریرین
سی کے لب ایک قیامت سی اٹھا دی جائے
رہ کے خاموش ذرا دھوم مچا دی جائے
اب تو صیاد کو بھی کوئی سزا دی جائے
اس قفس ہی میں ذرا آگ لگا دی جائے
جس کو دیکھو وہی صحرا میں چلا آتا ہے
راستے میں کوئی دیوار اُٹھا دی جائے
دل میں کب تک رہے امید کا ویران محل
اب تو یہ کہنہ عمارت بھی گرا دی جائے
تیرا دیوانہ تو ویرانہ نہیں چھوڑے گا
کوئی بستی اسی جنگل میں بسا دی جائے
حسن اکبر کمال
ٹینا ثانی کی خوبصورت آواز میں یہی غزل۔۔۔