طارق شاہ
محفلین
غزل
زادِ سفر کو چھوڑ کے تنہا نِکل گیا
مَین کیا وطن سے نِکلا کہ کانٹا نِکل گیا
بہتر یہی تھا اپنی ہی چَوکھٹ پہ رَوکتے
اب کیا پُکارتے ہو، کہ جو نِکلا نِکل گیا
ہم چل پڑے کہ منزلِ جاناں قرِیب ہے
سستائے ایک لمحہ کو، رستہ نِکل گیا
کُچھ لوگ تھے جو دشت کو آباد کرگئے
اِک ہم ہیں، جن کے ہاتھ سے صحرا نِکل گیا
آنسو نِکل نہ پائے، نہ کُچھ منہ سے کہہ سکے !
وہ کیا گیا ، کہ شاؔذ کلیجہ نِکل گیا
شاؔذ تمکنت
1985- 1933
حیدرآباد دکن، انڈیا