محمود احمد غزنوی
محفلین
شائِد یہ رنگِ خونِ جگر کی نمود ہے
بنجر زمیں پہ پھولوں کے آثار ہوگئے
پھیلی ہوئی ہےچارسُو زردی سی دھوپ کی
جانے کہاں اس راہ کے اشجار کھو گئے
کس سے ملے گا منزلِ مقصود کا نشاں
رہزن جو تھے وہ قافلہ سالار ہوگئے
اب سنگباری ہوگی ہماری ہی ذات پر
عاصی سبھی تو صاحبِ کردار ہوگئے
ہم بھی خیالِ یار کی رعنائیوں کے سنگ
زندانِ آرزو میں گرفتار ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اک زلزلہ بپا ہے دلِ ناصبور میں
پیمانِ ضبط ریت کی دیوار ہوگئے
دل کے افق پہ ڈوب رہا تھا اک آفتاب
آنکھوں میں کچھ ستارے نمودار ہوگئے
محمود جاوداں ہے وہ چھوٹا سا قافلہ
راہِ عدم میں لشکرِ جرّار کھو گئے
بنجر زمیں پہ پھولوں کے آثار ہوگئے
پھیلی ہوئی ہےچارسُو زردی سی دھوپ کی
جانے کہاں اس راہ کے اشجار کھو گئے
کس سے ملے گا منزلِ مقصود کا نشاں
رہزن جو تھے وہ قافلہ سالار ہوگئے
اب سنگباری ہوگی ہماری ہی ذات پر
عاصی سبھی تو صاحبِ کردار ہوگئے
ہم بھی خیالِ یار کی رعنائیوں کے سنگ
زندانِ آرزو میں گرفتار ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اک زلزلہ بپا ہے دلِ ناصبور میں
پیمانِ ضبط ریت کی دیوار ہوگئے
دل کے افق پہ ڈوب رہا تھا اک آفتاب
آنکھوں میں کچھ ستارے نمودار ہوگئے
محمود جاوداں ہے وہ چھوٹا سا قافلہ
راہِ عدم میں لشکرِ جرّار کھو گئے