شائِد یہ رنگِ خونِ جگر کی نمود ہے

شائِد یہ رنگِ خونِ جگر کی نمود ہے
بنجر زمیں پہ پھولوں کے آثار ہوگئے
پھیلی ہوئی ہےچارسُو زردی سی دھوپ کی
جانے کہاں اس راہ کے اشجار کھو گئے
کس سے ملے گا منزلِ مقصود کا نشاں
رہزن جو تھے وہ قافلہ سالار ہوگئے
اب سنگباری ہوگی ہماری ہی ذات پر
عاصی سبھی تو صاحبِ کردار ہوگئے
ہم بھی خیالِ یار کی رعنائیوں کے سنگ
زندانِ آرزو میں گرفتار ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اک زلزلہ بپا ہے دلِ ناصبور میں
پیمانِ ضبط ریت کی دیوار ہوگئے
دل کے افق پہ ڈوب رہا تھا اک آفتاب
آنکھوں میں کچھ ستارے نمودار ہوگئے
محمود جاوداں ہے وہ چھوٹا سا قافلہ
راہِ عدم میں لشکرِ جرّار کھو گئے​
 

الف عین

لائبریرین
یہ تو میں نے دیکھی ہی نہیں تھی اب تک!!! بہتر اچھی غزل ہے، عروض کی اغلاط بھی نہیں کے برابر ہیں۔ صرف اس مصرع میں
جانے کہاں اس راہ کے اشجار کھو گئے
’اس‘ مکمل نہیں آتا، ’جانے کہاں پہ‘ آتا ہے، یا ایک صورت یہ کہ اسی خیال کو یوں کہیں
اس راستے کے کس طرف اشجار کھو گئے
اور سوچو، میں بھی سوچوں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، دو اشعار میں ’کھو‘ ہے اور باقی میں ’ہو‘ ، ردیف میں واقعی گڑبڑ ہے۔ پہلے میرا دھیان اس طرف نہیں گیا تھا۔
 
Top