ناعمہ عزیز
لائبریرین
میں نے بہت کم لوگ ایسے دیکھے ہیں جو اعلیٰ ظرف ہو ں او ر اس قدر اعلی ٰطرف ہوں کہ وہ دوسروں کو کسی بھی معاملے میں شاباش دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ، بڑا مشکل ہو تا ہے شاید کسی کے لئے بھی کہ وہ کسی کو اپنے سے اوپر کا مقام دے ، اپنے سے اونچا بیٹھا دے ، اپنے سے زیادہ کامیاب ہونے دے ،
لیکن مسئلے کا حل صرف اسی بات میں چھپا ہے کہ جب تک آپ کسی کو کسی چھوٹے سے کام پر شاباشے نہیں دیتے ، اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اس میں کسی بھی بڑے کام کو کرنے کو حوصلہ پیدا نہیں ہوتا، اگر اک ٹیچر کسی سٹوڈنٹ کی پریزنٹیشن پر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا تو پھر اسے یہ امید رکھنے کا اختیار بھی حاصل نہیں کہ وہ ہی سٹوڈنٹ اپنے ٹیچر کا نام روشن کرے ، اچھے نمبر لے ، ریکارڈ قائم کرے ،
آپ خود ہی سوچیں کہ اگر ایک ٹیچر آٹھ ٖصفحوں کی اسائنمنٹ میں 4 غلطیوں کو لے کر سٹوڈنٹ کا اپنےپاس بلا کر اس کی نشاندہی کرتا ہے، اور باقی جو ٹھیک ہے اس کے لئے کوئی حوصلہ افزائی نا کرے تو سٹوڈنٹ کو دل بھی نہیں کرے گا کہ اسائنمنٹ کو کھول کر دوبارہ سے دیکھے ، لیکن اس کے برعکس اگر وہ پاس اسے پاس بلا کر اسے شاباشے دیتا ہے ، اور یہ کہتا ہے کہ بہت اچھا کیا ، اورسٹودنٹ اگلی بار اس سے بھی زیادہ اچھا کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ جو کامیابی کا نشہ ہوتا ہے کہ حوصلہ افزائی سے ملتا ہے ، اور ایک بار جب یہ نشہ کسی کو ہو جائے اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ کامیابی کی سیڑھی پر اوپر تک کی سیر کر کے آئے ۔
کچھ ایسا ہی معاملہ والدین کا اپنے بچوں سے ہوتا ہے اگر وہ ایک بار اچھے نمبر نہیں لے سکے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ ان کو لعن طعن شروع کر دی جائے یا پھر ایموشنل بلیک میل کیا کہ تم نے میری امیدوں پر پانی پھیر دیا وغیرہ وغیر ہ، بچوں کے ذہن پر بھی دباؤ ہوتا ہے کہ فلاں فسٹ آیا ، فلاں سیکنڈ آیا میں صرف پاس ہوا ہوں آپ بچے کی حوصلہ افزائی کریں اس کو شاباشے دیں اور کہیں کہ کوئی بات نہیں اگلی بار تم اس سے اچھے نمبر لو گے ۔
ساس کا بہو کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتاہے ، ساس بہو کو طعنے کوسنے دیتی ہے لیکن ایک بار شاباشے نہیں دیتی ، اسے یہ نہیں کہتی کہ تم نے میرے بیٹے کے سب کام کرتی ہو، تم نے میرا گھر سنبھالا ، تم نے میری خدمت کی شاباش ، ایسا کرنے سے ساس کی عزت میں کوئی فرق نہیں آتا ، پر بہو کی خدمت کا جذبہ ریفریش ضرور ہوتا ہے ،
آپ کسی ملازم کو شاباشے دیے کر دیکھیں ، یہ ٹھیک ہے کہ آپ اسے اس کے کام کی تنخواہ دیتے ہیں ، لیکن پھر وہ بھی کام تنخواہ کے مطابق ہی کرتا ہے، آپ اسے شاباش دیتے رہیں وہ آپ کا کھانا نمک حرام نہیں کرے گا ۔
آپ نے شاید خودی بھی کبھی آزمایا ہو کہ شاباش اور حوصلہ افزائی سے جو کرنٹ انسا ن کے اندر دوڑتا ہے وہ ہی دراصل کو اتنی طاقت دیتا ہے کہ اگلا کام اس سے بھی اچھا ہو۔
تو انسان کو چاہئے کہ وہ خود کو اتنا اعلیٰ ظرف ضرور بنائے کہ دوسروں کو کھلے دل سے شاباش دے سکے ، تاکہ اس سے وابسطہ لوگ کو کامیابی تک پہنچنے کے لئے زیادہ وقت نا لگے ۔
لیکن مسئلے کا حل صرف اسی بات میں چھپا ہے کہ جب تک آپ کسی کو کسی چھوٹے سے کام پر شاباشے نہیں دیتے ، اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اس میں کسی بھی بڑے کام کو کرنے کو حوصلہ پیدا نہیں ہوتا، اگر اک ٹیچر کسی سٹوڈنٹ کی پریزنٹیشن پر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا تو پھر اسے یہ امید رکھنے کا اختیار بھی حاصل نہیں کہ وہ ہی سٹوڈنٹ اپنے ٹیچر کا نام روشن کرے ، اچھے نمبر لے ، ریکارڈ قائم کرے ،
آپ خود ہی سوچیں کہ اگر ایک ٹیچر آٹھ ٖصفحوں کی اسائنمنٹ میں 4 غلطیوں کو لے کر سٹوڈنٹ کا اپنےپاس بلا کر اس کی نشاندہی کرتا ہے، اور باقی جو ٹھیک ہے اس کے لئے کوئی حوصلہ افزائی نا کرے تو سٹوڈنٹ کو دل بھی نہیں کرے گا کہ اسائنمنٹ کو کھول کر دوبارہ سے دیکھے ، لیکن اس کے برعکس اگر وہ پاس اسے پاس بلا کر اسے شاباشے دیتا ہے ، اور یہ کہتا ہے کہ بہت اچھا کیا ، اورسٹودنٹ اگلی بار اس سے بھی زیادہ اچھا کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ جو کامیابی کا نشہ ہوتا ہے کہ حوصلہ افزائی سے ملتا ہے ، اور ایک بار جب یہ نشہ کسی کو ہو جائے اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ کامیابی کی سیڑھی پر اوپر تک کی سیر کر کے آئے ۔
کچھ ایسا ہی معاملہ والدین کا اپنے بچوں سے ہوتا ہے اگر وہ ایک بار اچھے نمبر نہیں لے سکے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ ان کو لعن طعن شروع کر دی جائے یا پھر ایموشنل بلیک میل کیا کہ تم نے میری امیدوں پر پانی پھیر دیا وغیرہ وغیر ہ، بچوں کے ذہن پر بھی دباؤ ہوتا ہے کہ فلاں فسٹ آیا ، فلاں سیکنڈ آیا میں صرف پاس ہوا ہوں آپ بچے کی حوصلہ افزائی کریں اس کو شاباشے دیں اور کہیں کہ کوئی بات نہیں اگلی بار تم اس سے اچھے نمبر لو گے ۔
ساس کا بہو کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتاہے ، ساس بہو کو طعنے کوسنے دیتی ہے لیکن ایک بار شاباشے نہیں دیتی ، اسے یہ نہیں کہتی کہ تم نے میرے بیٹے کے سب کام کرتی ہو، تم نے میرا گھر سنبھالا ، تم نے میری خدمت کی شاباش ، ایسا کرنے سے ساس کی عزت میں کوئی فرق نہیں آتا ، پر بہو کی خدمت کا جذبہ ریفریش ضرور ہوتا ہے ،
آپ کسی ملازم کو شاباشے دیے کر دیکھیں ، یہ ٹھیک ہے کہ آپ اسے اس کے کام کی تنخواہ دیتے ہیں ، لیکن پھر وہ بھی کام تنخواہ کے مطابق ہی کرتا ہے، آپ اسے شاباش دیتے رہیں وہ آپ کا کھانا نمک حرام نہیں کرے گا ۔
آپ نے شاید خودی بھی کبھی آزمایا ہو کہ شاباش اور حوصلہ افزائی سے جو کرنٹ انسا ن کے اندر دوڑتا ہے وہ ہی دراصل کو اتنی طاقت دیتا ہے کہ اگلا کام اس سے بھی اچھا ہو۔
تو انسان کو چاہئے کہ وہ خود کو اتنا اعلیٰ ظرف ضرور بنائے کہ دوسروں کو کھلے دل سے شاباش دے سکے ، تاکہ اس سے وابسطہ لوگ کو کامیابی تک پہنچنے کے لئے زیادہ وقت نا لگے ۔