محسن وقار علی
محفلین
آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ میں کیوں ایسے موضوعات پر لکھتا ہوں ۔ جن پر کم لوگ کالم لکھا کرتے ہیں۔ کالموں کی اہمیت کا دارومدار آج کے دور میں ان کے سیاسی موضوعات کے باعث ہوتا ہے ویسے بھی الیکشن کا دور دورہ ہے اور لوگ سیاسی موضوعات پر مختلف زاویوں سے حالات حاضرہ کے بارے میں جاننا پسند کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک قدرتی بات ہے کیونکہ ان تمام موضوعات کا تعلق ہم سب لوگوں اور ہمارے بچوں کے مستقبل کے ساتھ ہے۔
اب رہا سوال کہ میں ایسے روزہ مرہ کے واقعات پر قلم کیوں اٹھاتا ہوں جو کسی بھی لحاظ سے خوش کن اور امید افزاء نہیں ہوتے بلکہ مایوس کن اور ناامیدی پھیلانے کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ اس قسم کی معاشرتی ہولناکیوں کو یکسر نظر انداز کردیا جائے اور ساری توجہ صرف سیاسی موضوعات پر ہی مرکوز رکھی جائے۔ یہ اسی نوعیت کے واقعات کے تسلسل کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی ٹاک شوز نے اب باقاعدہ طور پر انٹرٹینمنٹ کا درجہ اختیار کرلیا ہے ۔ باقی ماندہ دنیا میں لوگ سیاست اور انٹرٹینمنٹ کے درمیان ایک واضح فرق روا رکھتے ہیں جو ہمارے ہاں ناپید ہے، ہمارے ہاں بعض اوقات انٹرٹینمنٹ کے پروگرام حقیقتاً سیاسی ہوتے ہیں اور بسا اوقات سیاسی پروگرام باقاعدہ انٹرٹینمنٹ کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔
دونوں قسم کے پروگرام ظاہر ہے ہمارے معاشرتی اُتار چڑھاؤ کی عکاسی کرتے ہیں اور کسی بھی دیکھنے والے کو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہم اکیسیویں صدی میں کس مقام پر کھڑے ہیں۔تہمید ذرا لمبی ہوگئی ہے۔ جس کے لیے میں معافی کا خواستگار ہوں۔ پچھلے ہفتہ میں نے پسند کی شادی کے موضوع پر ایک ایسے دردناک واقعے کی اخباری خبر کو بنیاد بناکر تشریح کی تھی جسے پڑھ کر خود میرا دل پسیج گیا تھا اور اس واقعے کے نتیجہ میں بے یارومدگار رہ جانے والی ایک پندرہ دنوں کی شیرخوار اور معصوم بچی کے مستقبل کے بارے میں دعا کی صورت میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے اپنی ای میل چیک کی تو مجھے پتہ چلا کہ بہت سے نیک دل لوگوں نے ای میل کے ذریعے مجھے بتایا کہ وہ اس بچی کو گود لینا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں مجھ سے اس معصوم بچی کا پتہ ارسال کرنے کے لیے کہا۔
ان باتوں سے ایک طرف تو مجھے ان سب لوگوں کے جذبات اور احساسات جان کر بے حد خوشی اور مسرت ہوئی کیونکہ یہی بات پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے ایک نہایت مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ہمارے لوگوں کا اس طرح کا ردِعمل ظاہر کرتا ہے کہ برائی کے ساتھ ساتھ اچھائی بھی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے اور وہ دن دور نہیں جب اچھائی برائی پر غلبہ پا لے گی۔ اس میں شک نہیں کہ اس وقت برائی پوری طرح غالب ہے اور اچھائی اس کے مکروہ بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
میں نے اپنے گذشتہ کالم ’’ پسند کی شادی‘‘ کے شروع میں بتا دیا تھا کہ سوہاوہ کے نواحی علاقے ڈومیلی کے قصبے چنجلوٹ میں ایک میاں بیوی کے جوڑے کو قتل کردیا گیا ہے۔ میں نے کالم کے آخر میں یہ دعا کی تھی کہ خدا کرے کوئی اس یتیم بچی کو پوری کائنات کو یتیمی سے بچانے والے یتیمؐ کے صدقے میں اپنی گود لے لے۔ اس کے بعد اگر کوئی خدا ترس اور صاحب دل شخصیت بچی کو گود لینا چاہتی ہے تو متعلقہ تھانے سے رابطہ قائم کرکے بچی کے خاندان والوں سے مل سکتی ہے اور بات کو آگے قانونی لوازمات پورا کرنے کے بعد بڑھایا جا سکتا ہے۔ میرا کام کالم لکھنے کے بعد ختم ہوگیا تھا۔
اگر میں اس سے زیادہ بھی کچھ کر سکتا تو ضرور کرتا لیکن نہ تو یہ میرے بس میں ہے اور نہ ہی میں اس بات کا مجاز ہوں کہ کسی خاندان کی لاوارث رہ جانے والی پندرہ یوم کی ایک بچی کو اپنی مرضی کے مطابق کسی خواہشمند جوڑے کی گود میں ڈال دوں۔ میری صرف اتنی گذارش ہے کہ آیندہ بھی میں اگر اس نوعیت کے کسی واقعے پر کالم لکھوں اور دعائیہ انداز میں کوئی درخواست کروں تو برائے کرم ایسے ستم رسیدہ خاندانوں کے افراد سے رابطہ ان کے متعلقہ تھانے کے ذریعے تمام قانونی کارروائیاں پوری کرنے کے بعد کیا جائے تاکہ فریقین کو آیندہ کسی بھی قسم کی پیچیدگیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اب میں اسی طرح کی ایک اور تازہ لیکن دلخراش خبر کے بارے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ تربیلا غازی میں رشتے کے تنازع پر شادی سے دو روز قبل ایک دوشیزہ کو قتل کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ بدھ کی شام پانچ بجے غازی کے نواحی گاؤں عیسیٰ میں اٹھارہ سالہ عشرت بی بی جس کی دو دن بعد شادی ہونا تھی، کو اس کے چچا زاد بھائی زاہد علی سکنہ مردان نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ مقتولہ عشرت بی بی کے بھائی رحمان داد نے پولیس کو بتایا کہ اس کا چچا زاد بھائی زاہد علی اس کی ہمشیرہ کا رشتہ مانگ رہاتھا۔ ہمارے انکار پر اس نے قتل کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔ اب شام کو اس نے ہمارے گھر میں گھس کر عشرت بی بی پر پستول سے فائرنگ کردی جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی۔
عشرت بی بی کی دو دن بعد قیصر خان سکنہ صوبڑا سے شادی ہونا قرار پائی تھی۔ حسب دستور غازی پولیس نے بفضل خدا تفتیش شروع کردی ہے۔خبر واضح ہے اور خبر کی تفصیلات واضح ہیں۔ بات بڑی سادھی سی ہے یعنی اب ہم اپنی خواہش کو دوسرے لوگوں کی ترجیحات اور خواہشات پر اس قدر بھاری سمجھنے لگے ہیں کہ اس برتری کو ثابت کرنے کے لیے قتل کرنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں ایک عام مسئلہ ہے کہ خاندانوں میں رشتے مانگنے اور انکار کرنے کی صورت میں ناچاقیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ یہ ناچاقیاں بعض اوقات بول چال بند ہوجانے سے لے کر میل جول سے پرہیز تک بڑھ جاتی ہیں اور کبھی کبھی ایک دوسرے کو جان سے ماردینے کی حد تک پہنچ جاتی ہیں جو ہماری درندگی کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ نسبتاً تعلیم یافتہ لوگوں میں جو شہروں کے اندر اور گرد و نواح میں رہتے ہیں۔ اس قسم کے انکار ایک دوسرے کو معاشرتی طور پر دور تو ضرور کرتے ہیں لیکن بات گلے شکوؤں اور معمول کی ناراضگیوں سے زیادہ آگے نہیں بڑھتی لیکن دیہاتوں میں تعلیم کی کمی ماحول کا جبر معاشرتی کھچاؤ اور ذہنی پسماندگی اس قسم کے انکار کو عزت بے عزتی کا مسئلہ بنا دیتی ہیں اور بات قتل و غارت گری تک جا پہنچتی ہے۔اب ہم ایک دوسرے کے لیے بات بات پر ناقابل برداشت ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اکیسویں صدی کے لوازمات سے بھرپور ہونے کے باوجود جنگلی ہوتا جا رہا ہے ہم اس قدر لاتعداد حصوں میں بٹ چکے ہیں کہ ہمارا جڑنا بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔
مشکل اس لیے کہ جو جگہیں یا جو باتیں ہمیں جوڑ سکتی ہیں انھی جگہوں اور باتوں کو ہم نے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کے لیے مخصوص کردیا ہے۔ مثلاً مسجد ہمیں جوڑنے کی جگہ ہے لیکن ہم نے اسے توڑنے کی جگہ بنادیا ہے ہمارا دین ہمیں یکجائی کا سبق دیتا ہے اور ہم نے اسے جدائی کی بنیاد بنا دیا ہے، لوگ اپنے غموں کو اپنی قوت میں بدل دیتے ہیں اور ہم وہ ظالم اور بد نصیب مخلوق بنتے جا رہے ہیں جو اپنی قوت کو بے شمار غموں میں تبدیل کرنے میں خود ہی مگن ہیں۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین۔
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
اب رہا سوال کہ میں ایسے روزہ مرہ کے واقعات پر قلم کیوں اٹھاتا ہوں جو کسی بھی لحاظ سے خوش کن اور امید افزاء نہیں ہوتے بلکہ مایوس کن اور ناامیدی پھیلانے کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ اس قسم کی معاشرتی ہولناکیوں کو یکسر نظر انداز کردیا جائے اور ساری توجہ صرف سیاسی موضوعات پر ہی مرکوز رکھی جائے۔ یہ اسی نوعیت کے واقعات کے تسلسل کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی ٹاک شوز نے اب باقاعدہ طور پر انٹرٹینمنٹ کا درجہ اختیار کرلیا ہے ۔ باقی ماندہ دنیا میں لوگ سیاست اور انٹرٹینمنٹ کے درمیان ایک واضح فرق روا رکھتے ہیں جو ہمارے ہاں ناپید ہے، ہمارے ہاں بعض اوقات انٹرٹینمنٹ کے پروگرام حقیقتاً سیاسی ہوتے ہیں اور بسا اوقات سیاسی پروگرام باقاعدہ انٹرٹینمنٹ کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔
دونوں قسم کے پروگرام ظاہر ہے ہمارے معاشرتی اُتار چڑھاؤ کی عکاسی کرتے ہیں اور کسی بھی دیکھنے والے کو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہم اکیسیویں صدی میں کس مقام پر کھڑے ہیں۔تہمید ذرا لمبی ہوگئی ہے۔ جس کے لیے میں معافی کا خواستگار ہوں۔ پچھلے ہفتہ میں نے پسند کی شادی کے موضوع پر ایک ایسے دردناک واقعے کی اخباری خبر کو بنیاد بناکر تشریح کی تھی جسے پڑھ کر خود میرا دل پسیج گیا تھا اور اس واقعے کے نتیجہ میں بے یارومدگار رہ جانے والی ایک پندرہ دنوں کی شیرخوار اور معصوم بچی کے مستقبل کے بارے میں دعا کی صورت میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے اپنی ای میل چیک کی تو مجھے پتہ چلا کہ بہت سے نیک دل لوگوں نے ای میل کے ذریعے مجھے بتایا کہ وہ اس بچی کو گود لینا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں مجھ سے اس معصوم بچی کا پتہ ارسال کرنے کے لیے کہا۔
ان باتوں سے ایک طرف تو مجھے ان سب لوگوں کے جذبات اور احساسات جان کر بے حد خوشی اور مسرت ہوئی کیونکہ یہی بات پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے ایک نہایت مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ہمارے لوگوں کا اس طرح کا ردِعمل ظاہر کرتا ہے کہ برائی کے ساتھ ساتھ اچھائی بھی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے اور وہ دن دور نہیں جب اچھائی برائی پر غلبہ پا لے گی۔ اس میں شک نہیں کہ اس وقت برائی پوری طرح غالب ہے اور اچھائی اس کے مکروہ بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
میں نے اپنے گذشتہ کالم ’’ پسند کی شادی‘‘ کے شروع میں بتا دیا تھا کہ سوہاوہ کے نواحی علاقے ڈومیلی کے قصبے چنجلوٹ میں ایک میاں بیوی کے جوڑے کو قتل کردیا گیا ہے۔ میں نے کالم کے آخر میں یہ دعا کی تھی کہ خدا کرے کوئی اس یتیم بچی کو پوری کائنات کو یتیمی سے بچانے والے یتیمؐ کے صدقے میں اپنی گود لے لے۔ اس کے بعد اگر کوئی خدا ترس اور صاحب دل شخصیت بچی کو گود لینا چاہتی ہے تو متعلقہ تھانے سے رابطہ قائم کرکے بچی کے خاندان والوں سے مل سکتی ہے اور بات کو آگے قانونی لوازمات پورا کرنے کے بعد بڑھایا جا سکتا ہے۔ میرا کام کالم لکھنے کے بعد ختم ہوگیا تھا۔
اگر میں اس سے زیادہ بھی کچھ کر سکتا تو ضرور کرتا لیکن نہ تو یہ میرے بس میں ہے اور نہ ہی میں اس بات کا مجاز ہوں کہ کسی خاندان کی لاوارث رہ جانے والی پندرہ یوم کی ایک بچی کو اپنی مرضی کے مطابق کسی خواہشمند جوڑے کی گود میں ڈال دوں۔ میری صرف اتنی گذارش ہے کہ آیندہ بھی میں اگر اس نوعیت کے کسی واقعے پر کالم لکھوں اور دعائیہ انداز میں کوئی درخواست کروں تو برائے کرم ایسے ستم رسیدہ خاندانوں کے افراد سے رابطہ ان کے متعلقہ تھانے کے ذریعے تمام قانونی کارروائیاں پوری کرنے کے بعد کیا جائے تاکہ فریقین کو آیندہ کسی بھی قسم کی پیچیدگیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اب میں اسی طرح کی ایک اور تازہ لیکن دلخراش خبر کے بارے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ تربیلا غازی میں رشتے کے تنازع پر شادی سے دو روز قبل ایک دوشیزہ کو قتل کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ بدھ کی شام پانچ بجے غازی کے نواحی گاؤں عیسیٰ میں اٹھارہ سالہ عشرت بی بی جس کی دو دن بعد شادی ہونا تھی، کو اس کے چچا زاد بھائی زاہد علی سکنہ مردان نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ مقتولہ عشرت بی بی کے بھائی رحمان داد نے پولیس کو بتایا کہ اس کا چچا زاد بھائی زاہد علی اس کی ہمشیرہ کا رشتہ مانگ رہاتھا۔ ہمارے انکار پر اس نے قتل کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔ اب شام کو اس نے ہمارے گھر میں گھس کر عشرت بی بی پر پستول سے فائرنگ کردی جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی۔
عشرت بی بی کی دو دن بعد قیصر خان سکنہ صوبڑا سے شادی ہونا قرار پائی تھی۔ حسب دستور غازی پولیس نے بفضل خدا تفتیش شروع کردی ہے۔خبر واضح ہے اور خبر کی تفصیلات واضح ہیں۔ بات بڑی سادھی سی ہے یعنی اب ہم اپنی خواہش کو دوسرے لوگوں کی ترجیحات اور خواہشات پر اس قدر بھاری سمجھنے لگے ہیں کہ اس برتری کو ثابت کرنے کے لیے قتل کرنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں ایک عام مسئلہ ہے کہ خاندانوں میں رشتے مانگنے اور انکار کرنے کی صورت میں ناچاقیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ یہ ناچاقیاں بعض اوقات بول چال بند ہوجانے سے لے کر میل جول سے پرہیز تک بڑھ جاتی ہیں اور کبھی کبھی ایک دوسرے کو جان سے ماردینے کی حد تک پہنچ جاتی ہیں جو ہماری درندگی کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ نسبتاً تعلیم یافتہ لوگوں میں جو شہروں کے اندر اور گرد و نواح میں رہتے ہیں۔ اس قسم کے انکار ایک دوسرے کو معاشرتی طور پر دور تو ضرور کرتے ہیں لیکن بات گلے شکوؤں اور معمول کی ناراضگیوں سے زیادہ آگے نہیں بڑھتی لیکن دیہاتوں میں تعلیم کی کمی ماحول کا جبر معاشرتی کھچاؤ اور ذہنی پسماندگی اس قسم کے انکار کو عزت بے عزتی کا مسئلہ بنا دیتی ہیں اور بات قتل و غارت گری تک جا پہنچتی ہے۔اب ہم ایک دوسرے کے لیے بات بات پر ناقابل برداشت ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اکیسویں صدی کے لوازمات سے بھرپور ہونے کے باوجود جنگلی ہوتا جا رہا ہے ہم اس قدر لاتعداد حصوں میں بٹ چکے ہیں کہ ہمارا جڑنا بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔
مشکل اس لیے کہ جو جگہیں یا جو باتیں ہمیں جوڑ سکتی ہیں انھی جگہوں اور باتوں کو ہم نے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کے لیے مخصوص کردیا ہے۔ مثلاً مسجد ہمیں جوڑنے کی جگہ ہے لیکن ہم نے اسے توڑنے کی جگہ بنادیا ہے ہمارا دین ہمیں یکجائی کا سبق دیتا ہے اور ہم نے اسے جدائی کی بنیاد بنا دیا ہے، لوگ اپنے غموں کو اپنی قوت میں بدل دیتے ہیں اور ہم وہ ظالم اور بد نصیب مخلوق بنتے جا رہے ہیں جو اپنی قوت کو بے شمار غموں میں تبدیل کرنے میں خود ہی مگن ہیں۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین۔
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس