شاذ تمکنت شاذ تمکنت ::::: میں تو چُپ تھا مگر اُس نے بھی سُنانے نہ دِیا ::::: Shaz Tamkanat

طارق شاہ

محفلین
غزل


میں تو چُپ تھا مگر اُس نے بھی سُنانے نہ دِیا
غمِ دُنیا کا کوئی ذکر تک آنے نہ دِیا

اُس کا زہرآبۂ پَیکر ہے مِری رگ رگ میں
اُس کی یادوں نے مگر ہاتھ لگانے نہ دِیا

اُس نے دُوری کی بھی حد کھینچ رکھی ہے گویا
کُچھ خیالات سے آگے مجھے جانے نہ دِیا

بادبان اپنے سفِینے کا ذرا سی لیتے
وقت اِتنا بھی زمانے کی ہَوا نے نہ دِیا

وہی انعام! زمانہ سے جسے مِلنا تھا
لوگ معصُوم ہیں، کہتے ہیں خدا نے نہ دِیا

کوئی فریاد کرے گوُنج مِرے دِل سے اُٹھے
موقعِ درد کبھی ہاتھ سے جانے نہ دِیا

شاذ! اِک درد سے سو درد کے رشتے نِکلے
کِن مصائب نے اُسے جی سے بُھلانے نہ دِیا

شاذ تمکنت
 
Top