arifkarim
معطل
شاردہ: علم و ہنر کا جنت نظیر مرکز
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے شمال میں محض 136 کلومیٹر کی دوری پر ہندو مت، بدھ مت، اور شیو مت کا مقدس ترین گاﺅں شاردہ صدیوں سے ایستادہ ہے۔
شاردہ دیوی کی مقدس عمارت شاردہ کے وسط میں کشن گنگا (نیلم) دریا کے بائیں کنارے واقع ہے۔ شاردہ سنگم مقدس زیارت سے چند گز نیچے واقع ہے جہاں تینوں مقدس ندیاں یعنی کشن گنگا (نیلم) سرسوتی یا کنکوری (سرگن نالہ) اور مدھومتی (شاردہ نالہ) آپس میں بغل گیر ہوتی ہیں۔
کسی بھی تہذیب کی ارتقاء میں آب و ہوا، نباتات، جنگلی حیات، ماحول، رسم و رواج، علاقائی ساخت، یہ تمام چیزیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ہزاروں سالوں کے تغیر کے نتیجے میں تہذیبیں جنم لیتی ہیں اور تناور ہوتے ہی نظریات و عقائد کی وارث کہلانے لگتی ہیں۔ فطرت انسانی صدیوں سے غیر مرئی اور مافوق الفطرت قوتوں کی اطاعت میں راحت محسوس کرتی ہے۔
شاردہ مظفرآباد سے صرف 136 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
3058 قبلِ مسیح میں وسط ایشیاء میں آنے والے سراس وات برہمن، جو علم آشنا اور مہذب لوگ تھے، اس درے میں آ کر آباد ہوئے۔ شاردہ دیوی انہی قبائل کی تخلیق بتائی جاتی ہیں جن کے نام پر شاردہ گاﺅں آج بھی تابناک تاریخ اور اجڑے مقامات لیے موجود ہے۔
شاردہ دیوی کو علم، حکمت، ہنروفنون کی دیوی قرار دے کر صدیوں پوجا کی جاتی رہی ہے۔ وقت کے ساتھ اسے شکتی (طاقت) لکشمی (دولت) دیوی بھی قرار دیا گیا۔ وشنووتی، شیو مت، بدھ مت، جین مت اور ہندو دھرم کے عقائد کے باہم متصل ہونے سے یہاں سے مخلوط المذاہب تہذیب و ثقافت نے جنم لیا جو رواداری، برداشت اور احترام پر مبنی قرار پائی۔
آج ہندوستان اور سری لنکا سمیت متعدد ممالک میں شاردہ دیوی کے پیروکار موجود ہیں۔ بالخصوص نیپال کے کشن خاندان کے شہزادے کنشک اول (25 سے 60 عیسوی) جن کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی شاردہ مندر بنوایا تھا، ان کی نسل آج بھی نیپال میں موجود اور شاردہ دیوی کو مقدس مانتی ہے۔
ملک و بیرونِ ملک سے ہزاروں سیاح شاردہ کے آثارِ قدیمہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
یہاں کی قدیم تعمیرات لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔
شاردہ کسی زمانے میں بہت بڑی درسگاہ رہی ہے جہاں ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کرتے تھے۔
چینی سیاح ہیون شانگ (631 عیسوی) کے بقول بدھ مت کشمیر کا طاقتور ترین مذہب مانا جاتا تھا اور اسی دور میں بدھوں کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس ہندوستانی پنجاب کے شہر جالندھر میں منعقد ہوئی جس کے اثرات وادیء کشمیر پر بھی مرتب ہوئے تھے۔ نیپال اور بدھ مت کا تعلق ہزاروں سال پرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم، حکمت اور ہنر کی دیوی شاردہ کو وہاں آج بھی تقدس حاصل ہے۔
برہمن سماج کے دور 880 سے 1320 عیسوی تک شاردہ دیوی کو تقدس اور تہذیب کو عروج حاصل رہا۔ اسی دور میں شاردہ رسم الخط بھی تخلیق کیا گیا جو صدیوں تک رائج رہا۔
تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ دنیا بھر سے علم، روحانیت اور گیان کے حصول کے لیے طالب علم آئے، خود کو علم سے منور کیا اور شاردہ دیوی کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ کنشک اول کے دور میں شاردہ وسطی ایشیاء اور ایشیاء کی اہم ترین درسگاہ کہلائی۔ یہاں بدھ مت کی تعلیم کے ساتھ منطق، فلسفہ، جغرافیہ، تاریخ، معاشرت، روحانیت کی دیوناگری رسم الخط کے ذریعے تعلیم دی جاتی رہی۔
شاردہ میں دیوی کا مندر آج بھی کھنڈر کی صورت میں موجود ہے۔ یہاں پر لگائے گئے بھاری بھرکم پتھر عقل انسانی کو دنگ کر دیتے ہیں کہ جب ٹیکنالوجی بھی نہیں تھی اس وقت اتنے بڑے پتھر اس مقام تک کیسے پہنچائے گئے اور پھر انہیں ایک دوسرے کے اوپر کیسے چڑھایا گیا۔
بڑے بڑے پتھروں کی 18 سے 28 فٹ اونچی دیواروں میں شمالاً، جنوباً مستطیل درس گاہ کے درمیان میں کنشک اول کا تعمیر کروایا ہوا بغیر چھت کا چبوترہ موجود ہے جس کا کوئی نام اور تقدس ضرور رہا ہوگا۔
تقریباً 36 فٹ بلند چبوترے کا داخلی دروازہ مغرب کی سمت ہے جو نقش و نگار اور مذہبی تحریروں یا علامات سے مزین ہے۔ شاردہ کی قدیم عبادتگاہ و درسگاہ تک پہنچنے کے لیے 63 سیڑھیاں صدیوں سے انسانیت کا بوجھ سہار رہی ہیں۔ آٹھ بڑے بڑے پتھروں سے بنی دیوار اپنی اصلی حالت میں تو موجود نہیں لیکن اب اس کے آثار باقی ہیں۔
شاردہ دیوی کے استھان سے چند میٹر کے فاصلے پر حضرت سید جمال الدین شاہ کا مزار صدیوں رونق افروز رہا یہاں ڈوگرہ راج تک باقاعدہ عرس کی تقریبات منعقد ہوتی رہیں، جہاں ہندو و مسلم باقاعدگی سے حاضری دیتے رہے۔ حضرت سید جمال شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امیر کبیر سید علی ہمدانی کے ہمراہ وسط ایشیاء سے کشمیر تشریف لائے اور اپنے لیے شاردہ گاﺅں پسند فرمایا۔ جب ان کا وصال ہوا تو عقیدت مندوں نے مقبرہ بنایا، جو وقت کے ساتھ ختم ہو گیا۔ آج ان کی مرقد منورہ پر تاجکستان سے لایا ہوا برگد نما درخت ایستادہ ہے۔ عرس کی تقریبات اب منعقد نہیں کی جاتیں اور بیشتر لوگ حضرت سید جمال شاہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
آزاد کشمیر میں قائم محکمہ آثار قدیمہ نے آج تک شاردہ کی باقیات سے تاریخ کا تعین نہیں کیا اور نہ ہی وہاں سے دریافت ہونے والے نوادرات اور قیمتی سکے سنبھالے۔ ان نوادرات سے ماضی کی تہذیبوں اور مذاہب کے بارے میں آگاہی ممکن تھے اور یہ جاننا انتہائی آسان تھا کہ ماضی کی ان تہذیبوں سے آج وابستہ تہذیبیں اور افراد کہاں کہاں مکین ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ شاردہ سمیت وادی نیلم سے سالانہ لاکھوں فٹ لکڑی کی چوری بھی اس وادی کو مصائب و آلام میں مبتلا کر رہی ہے۔ آزاد کشمیر حکومت جنگلات کاٹ کر فروخت کر کے سالانہ 27 کروڑ کماتی ہے جو اپنے جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر فروخت کرنے کے مترادف ہے۔
متعدد حکومتیں آئیں اور چلی گئیں مگر جنگلات کی کٹائی پر پابندی نہ لگ سکی اور آزاد کشمیر میں جنگلات کی کٹائی سے سب سے زیادہ وادی نیلم متاثر ہے جہاں ہزاروں سال پرانے درخت بھی انسانوں کی ہوس زر کا شکار ہو رہے ہیں۔
درختوں کی کمی سے جہاں وادی نیلم کے حسن پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، تو وہیں ماحولیاتی تبدیلیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں اب کئی گنا کم برفباری اور ندی نالوں میں سطحِ آب کے درجہء حرارت میں اضافے سمیت مسائل جنم لے چکے ہیں۔ ان تمام مسائل پر توجہ نہ دے کر ہم اس جگہ کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں جو صدیوں سے اپنا حسن بچائے رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔ لیکن شاید اب شاردہ کے حقیقی زوال کا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔
— تصاویر بشکریہ اشفاق شاہ، ایم ڈی مغل۔
لنک
یاز محمد تابش صدیقی زیک
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے شمال میں محض 136 کلومیٹر کی دوری پر ہندو مت، بدھ مت، اور شیو مت کا مقدس ترین گاﺅں شاردہ صدیوں سے ایستادہ ہے۔
شاردہ دیوی کی مقدس عمارت شاردہ کے وسط میں کشن گنگا (نیلم) دریا کے بائیں کنارے واقع ہے۔ شاردہ سنگم مقدس زیارت سے چند گز نیچے واقع ہے جہاں تینوں مقدس ندیاں یعنی کشن گنگا (نیلم) سرسوتی یا کنکوری (سرگن نالہ) اور مدھومتی (شاردہ نالہ) آپس میں بغل گیر ہوتی ہیں۔
کسی بھی تہذیب کی ارتقاء میں آب و ہوا، نباتات، جنگلی حیات، ماحول، رسم و رواج، علاقائی ساخت، یہ تمام چیزیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ہزاروں سالوں کے تغیر کے نتیجے میں تہذیبیں جنم لیتی ہیں اور تناور ہوتے ہی نظریات و عقائد کی وارث کہلانے لگتی ہیں۔ فطرت انسانی صدیوں سے غیر مرئی اور مافوق الفطرت قوتوں کی اطاعت میں راحت محسوس کرتی ہے۔
شاردہ دیوی کو علم، حکمت، ہنروفنون کی دیوی قرار دے کر صدیوں پوجا کی جاتی رہی ہے۔ وقت کے ساتھ اسے شکتی (طاقت) لکشمی (دولت) دیوی بھی قرار دیا گیا۔ وشنووتی، شیو مت، بدھ مت، جین مت اور ہندو دھرم کے عقائد کے باہم متصل ہونے سے یہاں سے مخلوط المذاہب تہذیب و ثقافت نے جنم لیا جو رواداری، برداشت اور احترام پر مبنی قرار پائی۔
آج ہندوستان اور سری لنکا سمیت متعدد ممالک میں شاردہ دیوی کے پیروکار موجود ہیں۔ بالخصوص نیپال کے کشن خاندان کے شہزادے کنشک اول (25 سے 60 عیسوی) جن کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی شاردہ مندر بنوایا تھا، ان کی نسل آج بھی نیپال میں موجود اور شاردہ دیوی کو مقدس مانتی ہے۔
برہمن سماج کے دور 880 سے 1320 عیسوی تک شاردہ دیوی کو تقدس اور تہذیب کو عروج حاصل رہا۔ اسی دور میں شاردہ رسم الخط بھی تخلیق کیا گیا جو صدیوں تک رائج رہا۔
تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ دنیا بھر سے علم، روحانیت اور گیان کے حصول کے لیے طالب علم آئے، خود کو علم سے منور کیا اور شاردہ دیوی کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ کنشک اول کے دور میں شاردہ وسطی ایشیاء اور ایشیاء کی اہم ترین درسگاہ کہلائی۔ یہاں بدھ مت کی تعلیم کے ساتھ منطق، فلسفہ، جغرافیہ، تاریخ، معاشرت، روحانیت کی دیوناگری رسم الخط کے ذریعے تعلیم دی جاتی رہی۔
شاردہ میں دیوی کا مندر آج بھی کھنڈر کی صورت میں موجود ہے۔ یہاں پر لگائے گئے بھاری بھرکم پتھر عقل انسانی کو دنگ کر دیتے ہیں کہ جب ٹیکنالوجی بھی نہیں تھی اس وقت اتنے بڑے پتھر اس مقام تک کیسے پہنچائے گئے اور پھر انہیں ایک دوسرے کے اوپر کیسے چڑھایا گیا۔
تقریباً 36 فٹ بلند چبوترے کا داخلی دروازہ مغرب کی سمت ہے جو نقش و نگار اور مذہبی تحریروں یا علامات سے مزین ہے۔ شاردہ کی قدیم عبادتگاہ و درسگاہ تک پہنچنے کے لیے 63 سیڑھیاں صدیوں سے انسانیت کا بوجھ سہار رہی ہیں۔ آٹھ بڑے بڑے پتھروں سے بنی دیوار اپنی اصلی حالت میں تو موجود نہیں لیکن اب اس کے آثار باقی ہیں۔
شاردہ دیوی کے استھان سے چند میٹر کے فاصلے پر حضرت سید جمال الدین شاہ کا مزار صدیوں رونق افروز رہا یہاں ڈوگرہ راج تک باقاعدہ عرس کی تقریبات منعقد ہوتی رہیں، جہاں ہندو و مسلم باقاعدگی سے حاضری دیتے رہے۔ حضرت سید جمال شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امیر کبیر سید علی ہمدانی کے ہمراہ وسط ایشیاء سے کشمیر تشریف لائے اور اپنے لیے شاردہ گاﺅں پسند فرمایا۔ جب ان کا وصال ہوا تو عقیدت مندوں نے مقبرہ بنایا، جو وقت کے ساتھ ختم ہو گیا۔ آج ان کی مرقد منورہ پر تاجکستان سے لایا ہوا برگد نما درخت ایستادہ ہے۔ عرس کی تقریبات اب منعقد نہیں کی جاتیں اور بیشتر لوگ حضرت سید جمال شاہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
آزاد کشمیر میں قائم محکمہ آثار قدیمہ نے آج تک شاردہ کی باقیات سے تاریخ کا تعین نہیں کیا اور نہ ہی وہاں سے دریافت ہونے والے نوادرات اور قیمتی سکے سنبھالے۔ ان نوادرات سے ماضی کی تہذیبوں اور مذاہب کے بارے میں آگاہی ممکن تھے اور یہ جاننا انتہائی آسان تھا کہ ماضی کی ان تہذیبوں سے آج وابستہ تہذیبیں اور افراد کہاں کہاں مکین ہیں۔
متعدد حکومتیں آئیں اور چلی گئیں مگر جنگلات کی کٹائی پر پابندی نہ لگ سکی اور آزاد کشمیر میں جنگلات کی کٹائی سے سب سے زیادہ وادی نیلم متاثر ہے جہاں ہزاروں سال پرانے درخت بھی انسانوں کی ہوس زر کا شکار ہو رہے ہیں۔
درختوں کی کمی سے جہاں وادی نیلم کے حسن پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، تو وہیں ماحولیاتی تبدیلیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں اب کئی گنا کم برفباری اور ندی نالوں میں سطحِ آب کے درجہء حرارت میں اضافے سمیت مسائل جنم لے چکے ہیں۔ ان تمام مسائل پر توجہ نہ دے کر ہم اس جگہ کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں جو صدیوں سے اپنا حسن بچائے رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔ لیکن شاید اب شاردہ کے حقیقی زوال کا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔
— تصاویر بشکریہ اشفاق شاہ، ایم ڈی مغل۔
لنک
یاز محمد تابش صدیقی زیک