فاخر
محفلین
مولانا افضال احمد قاسمی اکمل ؔ :
شاعرانہ تعلی سے بے نیاز ،البیلے طرزِ سخن کے شاعر
مولانا افضال احمد قاسمی صاحب اکملؔ مسلم الثبوت علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں ،کامیاب مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ درس نظامی کے ادق مضامین پر خصوصی دسترس رکھتے ہیں۔ ان امتیازات کے علاوہ وہ فنون لطیفہ کے مخصوص فن ’شاعری‘ سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں ،اور یہ دلچسپی شوق کی حد تک ہے،نیز وہ ایک مشاق اور خوش الحان قاری بھی ہیں ،ان کی تلاوت ِ قرآن بھی سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ والد بزرگوار صاحب نسبت بزرگ اور عارف باللہ شخصیت حضرت مولانا عمار احمد رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جنہیں مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ الٰہ آبادی ؒ کی خصوصی صحبتیں ملی ہیں،حضرت مصلح الامتؒ کی بافیض شخصیت سے اکتساب ِفیض کا موقعہ ملا ہے ۔ حضرت مولانا عمار احمدصاحبؒ درس و تدریس اور علوم دینیہ میں مہارت تامہ کے ساتھ ساتھ تصوف ، اخلاق ا ور ارشاد کے با ب میں بھی اعلیٰ مناصب پر فائز تھے۔علاوہ ازیںاردو عربی فارسی شاعری کا بھی نفیس ذوق رکھتے تھے۔اہل حال و دل شعراء بالخصوص حافظؔ ، رومیؔ ، سعدیؔ، عطار ؔاور امیر خسروؔ کے ہزاروں اشعار نوک بر زبان ہوا کرتے تھے۔ والدہ معظمہ بھی صاحب ِ تصنیف خاتون تھیں ۔ مولانا اکمل ؔ قاسمی کا خاندانی شجرہ مئو-اعظم گڑھ کے قصبہ گھوسی کی سرزمین سے ملتا ہے ، خطۂ اعظم گڑھ کی خاک اپنی مثا ل آپ ہے ، علامہ شبلی نعمانی ، قاضی اطہر مبارکبوری ، اور اقبالؔ سہیل جیسے اساطین علم و فن کاتعلق اسی خطہ ٔ اعظم گڑھ سے ہے ۔مولانا افضال احمد قاسمیؔ کا خاندانی تعلق تو خطۂ اعظم گڑھ سے ہے ؛ لیکن مستقل قیام الٰہ آباد میں رہا ہے، خود الٰہ آباد کی سرزمین زرخیز، با ثمراور مردم خیز رہی ہے ۔ اکبر الٰہ آبادی ، نوح ؔ ناروی ، فراقؔ گورکھپوری ، برج نرائن چکبست ؔ ، آنند نرائن ملا ؔ ،ابن صفیؔ، عتیق الٰہ آباد ی،او رمحقق و ناقد شمس الرحمن فاروقی مرحوم جیسے اَن گنت اشخاص کی جائے پیدائش اور ادبی وعلمی جولان گاہ ہونے کا شرف حاصل ہے،بلکہ الٰہ آبادابتداء سے ہی اہل علم و ادب اور’عرفان‘ کا گہوارہ رہا ہے ۔مولانا افضال احمد قاسمیؔ تین نسبتوں سے مربوط ہیں،اور یہ تین نسبت یہ ہیں ۔اول : خطہ ٔاعظم گڑھ، دوم: مسلم الثبوت علمی خانوادہ ، سوم : سرزمین الٰہ آباد۔ گویا ان تین نسبتوں کے مجموعہ کا نام ’اکمل‘ ہے ۔راقم ا لحروف کو مولانا افضا ل احمد قاسمی اکمل ؔ سے نحو اور منطق کی مشکل ترین کتاب ’کافیہ اور شرح تہذیب‘ جامعہ افضل المعارف الٰہ آباد]جس کے فی الحال ناظم و متولی مولانا افضا ل احمداکملؔ صاحب ہیں[ میں پڑھنے کی سعادت حاصل ہے۔جامعہ افضل المعارف،الٰہ آباد میں میرا قیام تین سال(2008تا 2010)تک رہا ہے،لیکن کبھی مولانا افضال احمد قاسمی اکملؔ کی شاعری کا ذکر نہیں سنا، اور نہ کبھی دورانِ درس احساس ہوا کہ مولانا ا فضال احمداکملؔ صاحب ایک کہنہ مشق ، نغز گو اور ا لبیلے فکر و طرز کے شاعر بھی ہیں ۔ ’ فیس بک ‘کی معرفت مولانا اکملؔ صاحب کی شاعری سے آشنا ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ ہمارے لئے خوشی اور مسرت کی بات ہے کہ عالی مرتبت استاد محترم کاپہلا شعری مجموعہ’’کلام اکملؔ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے ، جس کی ضخامت 244 ہے،جو ادبی شائقین اور ارباب فن کیلئے گران قدر تحفہ ہے۔
صاحب ِ تذکرہ اکملؔ کی شاعری پر لب کشائی سے قبل یہ جان لینا اولیٰ ہوگا کہ ان کی شاعری قدیم و جدید روایات ، تصوف،جذب و سوزِ دروں کے حسین سنگم کا مجموعہ ہے ، نیزاِن قدیم و جدید روایات میں سب سے اہم عنصر اُن کا شاعرانہ بانکپن ہے ، جو شاعری کے باب میں اِنہیں امتیازو تفوق بخشتا ہے ۔ اِن عناصر کی کیفیات اُس وقت دو آتشہ ہوجاتی ہیں ، جب طرزِ کہن میں فکر جدید پیش کی جارہی ہو ۔ان کی شاعری میں جہاں فنی خوبیاں ہیں ، وہیں فکری خوبیاںبھی مسلم ّاور جاودانی حیثیت رکھتی ہیں ۔فنی خوبیوں پر فکری خوبیاں رنگ پیدا کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ شعراء کی الہام آمیز سخن طرازیاں جاوداں ہی ہوتی ہیں ، غالبؔ نے اِسی ’الہام‘ کو’ نوائے سروش‘ کا نام دیاہے۔شعر گوئی در اصل مضطر روح کی صدا ئے دل گرفتہ اور ٹوٹے ہوئے دلوں کا نالہ ہے ،اِس کا رشتہ روح سے ہمیشہ استوار رہتا ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ،جنہیں مبدأ فیاض نے سوزِ دروں جیسی عظیم دولت سے نوازا ہے۔معروف صوفی سرمدؔنے اسی سوزِ دروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’سوزِ دل پروانہ‘ کے شق کو نمایاں کیا ہے ۔ اردو شاعری کی تاریخ صدیوں قدیم ہے ، لیکن اِس مدت میں اردو شاعری نے کئی ادوار دیکھے اور ان کا رنج سہا۔کبھی فارسی کی اثر پذیری کا طعنہ سہنا پڑا، کبھی غزل میں فرسودہ مضامین کے تئیں شکوے سنے ، لیکن اسی اردو شاعری نے انقلاب 1857 سے لے کر اشتراکیت و ترقی پسندی کے عہد تک اور اس کے بعد تک کے دور میں ، منجمد خون کو آتشِ رواںبھی بنایا۔بیگانِ گان وطن (انگریزی استعمار )اور جاگیردارنہ نظام کیخلاف اردو شاعری نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ۔(حتیٰ کہ سی، اے، اے اورمجوزہ این، آر،سی کیخلاف ملک بھر میں منعقدہ احتجاجات میں اردو کی باغیانہ شاعری ایک بار دواوین و کلیات سے باہر نکل آئی ۔فیضؔ ، جالبؔ اور مرحوم راحتؔ اندروی کی لہو گرم کردینے والی شاعری کی باز گشت حکومت ِ وقت کیخلاف سنائے دینی لگی )اس شاعری میں بتدریج نئے پہلو تراشے گئے اور مضامینِ نو سے ہم آہنگ کیا گیا ۔کلام اکمل میںغزلیں ،قطعات اور نظمیں ہیں،لیکن اگر میں کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا؛بلکہ بجا ہوگا کہ اکمل ؔ فطری طور پر غزل کے شاعرہیں ۔ غزلوں میں جس قدر ان کا خصوصی وصف، جسے راقم نے ’’بانکپن‘‘ کہا ہے،نمایاں ہوتا ہے ، دوسرے وصف اِس بانکپن کی جلوہ گری میں مدھم پڑجاتے ہیں، یہی ان کا سرمایۂ شاعری ہے ۔ غزلوں کا کیف و کم ،لہجوں کا نک سک اور تصوف کی آمیزش دیکھئے :
فراق و ہجر درد و آہ ہو برگ و ثمر جس کا
زمینِ عشق پر ایسا شجر بونے سے ڈرتا ہوں
مزین دائروں سے عشق، محرابوں سے الفت ہے
منافق گوشہائے بزم کے کونے سے ڈرتا ہوں
یہ اجلاسِ محبت ہے یہاں غیبت نہیں جائز
کسی کا بوجھ اپنی پیٹھ پر ڈھونے سے ڈرتا ہوں
بقدرِ معصیت ہوں گے، تو پھر سیلاب آئے گا
کہ ہیں اشک ندامت اس لیے رونے سے ڈرتا ہوں
مرا اعزاز پوشیدہ تھا نفیِِ ذات میں اکمل
مجھے مارا ہے ہونے نے، اُسی ہونے سے ڈرتا ہوں
تصوف کی تعلیمات ، اخلاق پر عمل اور تذکیر و مواعظ خاندانی شباہت و وجاہت ہے ، البتہ شاعری کی ہیئت میں غزلیاتی بانکپن و آہنگ قابلِ دید نی ہے ۔’مزین دائروں سے عشق ‘ اور ’محرابوں سے الفت‘ ترک دنیا اورخلوت و تنہائی کی طرف اشارہ ہے ، مزید طرہ یہ کہ ’منافق گوشہائے بزم‘ نے اس امرکی کامل توضیح ہے کہ دنیاآلائشوں سے پر ہے ، اس سے اجتناب لازمی ہے ۔وہیں ’نفیِ ذات ‘ سے عجب و ریاکاری سے بھی احتراز کا سبق ملتا ہے ، پھرآیت کریمہ ’’یَا اَیُّہْاَ الَّذینَ آمَنْوُا اجَتَنِبُوا کَثِیرًا مِّنَ الظَّنِّ ِانَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثم ٌوَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغتَب بَعضُکْم بَعْضًا‘‘(الاٰیہ)کی تفسیرو تلمیع بھی پیش کی گئی ہے ۔ان چند اشعار میں کئی پہلو اورتلمیحات مضمر ہیں ،جن کا بیان بغیر شاعرانہ تجربہ ،تصوف اور سوز ِ دروں کے ممکن نہیں ۔ ادب میں قدیم ، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا قضیہ اردو ادب کا ایک پہلو ہے ، جو ناقدین کا وضع کردہ ہے۔ جدیدیت و مابعد جدیدیت کے ذیل میںیقینا کئی تبدیلیاں ہوئی ہیں ،اور افکار کی حک و اصلاح بھی ہوئی ہے ، اُن امور کی طرف نشاندہی کی گئی ہے ، جو صالح معاشرہ اور صالح ادب کی تشکیل و تخلیق میں معاون ور ہنما ثابت ہوسکتے ہیں ۔البتہ راقم الحروف کی نظر میں اولیٰ یہی ہے کہ’’ ادب جس زمانہ کا ہو ، وہ اپنے وقت کا ترجمان ہوا کرتاہے،اُسے کسی زمانے سے مقیدنہیں کرسکتے ‘‘۔ زمانہ آگے بڑھتا ہے ،لوگ بدلتے ہیں ، نظریات میں تبدیلی آتی ہے ، نیا موسم اور نئی رت بدلتی ہے ،ادب و شاعری اور دیگر فنونِ لطیفہ کی بھی ترقی ہوتی ہے۔البتہ اُن عناصر کی تراش خراش اوردرستگی متواتر ہوتی رہنی چاہیے ، جو ہماری مشرقی تہذیب کے مزاج و منہاج اور معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں ،بلکہ وہ ہماری تہذیب کے لئے ’سوہانِ روح ‘ ہوں،یقینا انہیں کسی طور بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اکملؔ نے ان قدیم و جدید روایات میں اپنی الگ ایک ’راہ ‘ نکالی ہے ،جس میں دونوں روایات کی خو ُ بوُ اور عطربیزی ملتی ہے،جسے خصوصی وصف کے نام سے جاننا چاہیے ، دونوں روایات کی ترجمانی دیکھیں:
کیا اذیت ہے سبزپوشوں کو
زرد گلشن کا باغباں ہونا
لب بھی خاموش آنکھ بھی چپ ہو
اتنا آساں ہے ،بے زباں ہونا؟
دھوپ کھاتا ہوں چھاؤں دیتا ہوں
کتنا مشکل ہے، سائباں ہونا
ہے اشارہ نمی کا سوزش میں
قبل جلنے کے کچھ دھواں ہونا
ہمارے زمانے میں جتنے شعراء کی باز گشت ہماری سماعتوں سے ٹکراتی ہے ، یہ خصوصیت اُن میں مکمل طور پر ناپید ہے ،(اِس جملہ سے کسی کی تنقیص مقصودنہیں ) خوش آئند امر یہ ہے کہ اس ناپید ی میں فنی اور فکری شعر و ادب کا ایک ’’چراغِ امید‘‘ فروزاں کیا ہے ۔ بلندیٔ تخیل کی پرواز قابلِ دیدنی ہے کہ کہ کس شانِ بے نیازی سے ’بے زباں‘ ہونے اور ’چھاؤں ‘ دینے کا اِدّعا کر رہے ہیں ،اسے ہم شاعرانہ تعلّی نہیں کہہ سکتے؛بلکہ یہ تو ذاتی مشاہدے اور تجربات ہیں،اگر اسے تعلّی تسلیم بھی کرلیں ،تو گفتار کا بانکپن اس کے تجربہ ہونے کی گواہی دیتا ہے ،ا سی غزل کے مقطع میں’بانکپن‘مشاہدہ کریں :
تجھ میں دیکھا ہے بارہا اکملؔ
قوتِ ضبط کا جواں ہونا
غزل اردو شاعری کی شہِ رگ ہے ، غزل کے بغیر اردوبے جان ہے ۔یہی وہ صنف ہے ، جس میں شاعر تمام فنی حدود و قیود سے بالاتر ہوکر اپنے افکار کو پیش کرسکتا ہے ۔غزل اگر امراء کے حویلیوں کی زینت بنی ہے ، تو درویش و فقیر کی مجالس بھی غزلوں سے آراستہ ہوئی ہیں، غزل کی حشرسامانیوں نے درویشوں کی مجالس گرم کی ہیں ۔ غزل میںرونا پیٹنا اور گریباں چاک کرنا اِتمامِ فن یا فن کی معراج نہیں ؛بلکہ ’قوت ِ ضبط‘ جواں کرنا بھی غزل کی معراج ہے، مقطع میں ’قوتِ ضبط‘ کی نمود کاہی اشارہ ہے ،جو قابلِ تحسین اور قابلِ دید ہے ۔ اس قوتِ ضبط پر مزید ضبط کا طرہ دیکھیں :
آسماں روئے گا، روئے گی زمیں آج کہ ہم
نغمۂ درد سنانے کے لئے نکلے ہیں
ایک موجود حقیقت تھی، جسے بھول گئے
ایک موہوم فسانے کے لئے نکلے ہیں
جس کے ہر رنگ سے ظاہر ہو، اذیت اپنی
ہم وہ تصویر بنانے کے لئے نکلے ہیں
ان اشعار کے ذریعہ ضبط پر ضبط کا اعلان ہے ، جو کہ بانکپن کی ہی کرامت ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ غزل مضامینِ نو کے انبار لگانے کا نام ہے،خواہ وہ عاشقانہ پہلو ہو، تصوف آمیزی ہو ،یا پھر باغیانہ تیورہی کیوں نہ ہوں ، غزل ہمہ وقت جدت طرازی کا تقاضا کرتی ہے ،اکملؔ نے قدم بہ قدم غزل کے ان ہی تقاضو ں کو پورا کیا ہے ۔ ایک کے بعد ایک غزلیں ان کے فنی مدارج کی گواہیں دیتی ہیں ، اسی ذیل میں کی ایک گواہی ملاحظہ ہو:
جب بھی گاؤگے ،چیخ اٹّھوگے
گنگناؤگے، چیخ اٹھّوگے
درمیاں لاؤں، گر خودی اپنی
سہہ نہ پاؤگے، چیخ اٹّھوگے
میں دکھا دوں جو کیفیت دل کی
مسکراؤگے، چیخ اٹّھوگے
لذتِ درد کس کو کہتے ہیں
آزماؤگے؟ چیخ اٹّھوگے
جب ہم اکملؔ کی شاعری کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہیں ،اور فنی حسن وقبح کی جستجو کرتے ہیں ، توصرف فکری معراج کا ہی ادراکِ محض نہیں ہوتا؛بلکہ زبان کی سلاست ، چاشنی ، پختگی اور زبان و لہجے کے نک سک پردسترس کا بھی پتہ چلتا ہے ۔جملے چست ، الفاظ موزوں ،تراکیب برمحل اور اس کی نشست نفیس ہے ۔ میرے سامنے جتنی غزلیں ہیں ، اُن تمام غزلوں میں تراکیب تر اشی ہوئی اور منظم ہیں ،غزلوں کی تشبیہات میں ملاحت بھی ہے اور فصاحت کا عنصر بھی موجزن ہے ،گویا غزلیں قند و شکر ہیں، محسوس کرتے جائیں، اکتاہٹ نہیں ہوتی۔اِن اشعار میں زبان وبیان کی پختگی قابلِ دید ہے :
اِس ربطِ باہمی میں تقدس تھا اِس قدر
وہ نیند سے، میں خواب سے آگے نہیں بڑھا
یہ سوچ کر کہ طرزِ سخن ہوش لے نہ لے
نغمہ، مرے رباب سے آگے نہیں بڑھا
اس کی کتاب میں کبھی رکھے تھے چند پھول
میں پھول وہ کتاب سے آگے نہیں بڑھا
تجزیاتی مطالعہ کا نچوڑ یہ ہے کہ اکملؔ قدیم و جدید روایات کی شاعری کی نئی بازیافت ہے ، اوردرس و تدریس سے وابستہ ذی علم کی ایسی پُر مغز،فنی معراج کو چھوتی ہوئی شاعری یقینا ادب کیلئے بازیافت ہی کہنا چاہیے ۔ شاعری کے سفر کا آغاز ہوچکا ہے ،اِس سفر کی پہلی منزل بھی آچکی ہے۔ لیکن اس پہلی منزل کوہی معراجِ اصلی نہیں سمجھناچاہیے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ شاعری کے نئے برگ و بار ہوں گے ، اس برگ و بار میں ثمر آور شاخیں بھی ہوں گی ، جن سے شائقین و طلبہ استفاد ہ کریں ۔
شاعرانہ تعلی سے بے نیاز ،البیلے طرزِ سخن کے شاعر
مولانا افضال احمد قاسمی صاحب اکملؔ مسلم الثبوت علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں ،کامیاب مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ درس نظامی کے ادق مضامین پر خصوصی دسترس رکھتے ہیں۔ ان امتیازات کے علاوہ وہ فنون لطیفہ کے مخصوص فن ’شاعری‘ سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں ،اور یہ دلچسپی شوق کی حد تک ہے،نیز وہ ایک مشاق اور خوش الحان قاری بھی ہیں ،ان کی تلاوت ِ قرآن بھی سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ والد بزرگوار صاحب نسبت بزرگ اور عارف باللہ شخصیت حضرت مولانا عمار احمد رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جنہیں مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ الٰہ آبادی ؒ کی خصوصی صحبتیں ملی ہیں،حضرت مصلح الامتؒ کی بافیض شخصیت سے اکتساب ِفیض کا موقعہ ملا ہے ۔ حضرت مولانا عمار احمدصاحبؒ درس و تدریس اور علوم دینیہ میں مہارت تامہ کے ساتھ ساتھ تصوف ، اخلاق ا ور ارشاد کے با ب میں بھی اعلیٰ مناصب پر فائز تھے۔علاوہ ازیںاردو عربی فارسی شاعری کا بھی نفیس ذوق رکھتے تھے۔اہل حال و دل شعراء بالخصوص حافظؔ ، رومیؔ ، سعدیؔ، عطار ؔاور امیر خسروؔ کے ہزاروں اشعار نوک بر زبان ہوا کرتے تھے۔ والدہ معظمہ بھی صاحب ِ تصنیف خاتون تھیں ۔ مولانا اکمل ؔ قاسمی کا خاندانی شجرہ مئو-اعظم گڑھ کے قصبہ گھوسی کی سرزمین سے ملتا ہے ، خطۂ اعظم گڑھ کی خاک اپنی مثا ل آپ ہے ، علامہ شبلی نعمانی ، قاضی اطہر مبارکبوری ، اور اقبالؔ سہیل جیسے اساطین علم و فن کاتعلق اسی خطہ ٔ اعظم گڑھ سے ہے ۔مولانا افضال احمد قاسمیؔ کا خاندانی تعلق تو خطۂ اعظم گڑھ سے ہے ؛ لیکن مستقل قیام الٰہ آباد میں رہا ہے، خود الٰہ آباد کی سرزمین زرخیز، با ثمراور مردم خیز رہی ہے ۔ اکبر الٰہ آبادی ، نوح ؔ ناروی ، فراقؔ گورکھپوری ، برج نرائن چکبست ؔ ، آنند نرائن ملا ؔ ،ابن صفیؔ، عتیق الٰہ آباد ی،او رمحقق و ناقد شمس الرحمن فاروقی مرحوم جیسے اَن گنت اشخاص کی جائے پیدائش اور ادبی وعلمی جولان گاہ ہونے کا شرف حاصل ہے،بلکہ الٰہ آبادابتداء سے ہی اہل علم و ادب اور’عرفان‘ کا گہوارہ رہا ہے ۔مولانا افضال احمد قاسمیؔ تین نسبتوں سے مربوط ہیں،اور یہ تین نسبت یہ ہیں ۔اول : خطہ ٔاعظم گڑھ، دوم: مسلم الثبوت علمی خانوادہ ، سوم : سرزمین الٰہ آباد۔ گویا ان تین نسبتوں کے مجموعہ کا نام ’اکمل‘ ہے ۔راقم ا لحروف کو مولانا افضا ل احمد قاسمی اکمل ؔ سے نحو اور منطق کی مشکل ترین کتاب ’کافیہ اور شرح تہذیب‘ جامعہ افضل المعارف الٰہ آباد]جس کے فی الحال ناظم و متولی مولانا افضا ل احمداکملؔ صاحب ہیں[ میں پڑھنے کی سعادت حاصل ہے۔جامعہ افضل المعارف،الٰہ آباد میں میرا قیام تین سال(2008تا 2010)تک رہا ہے،لیکن کبھی مولانا افضال احمد قاسمی اکملؔ کی شاعری کا ذکر نہیں سنا، اور نہ کبھی دورانِ درس احساس ہوا کہ مولانا ا فضال احمداکملؔ صاحب ایک کہنہ مشق ، نغز گو اور ا لبیلے فکر و طرز کے شاعر بھی ہیں ۔ ’ فیس بک ‘کی معرفت مولانا اکملؔ صاحب کی شاعری سے آشنا ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ ہمارے لئے خوشی اور مسرت کی بات ہے کہ عالی مرتبت استاد محترم کاپہلا شعری مجموعہ’’کلام اکملؔ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے ، جس کی ضخامت 244 ہے،جو ادبی شائقین اور ارباب فن کیلئے گران قدر تحفہ ہے۔
صاحب ِ تذکرہ اکملؔ کی شاعری پر لب کشائی سے قبل یہ جان لینا اولیٰ ہوگا کہ ان کی شاعری قدیم و جدید روایات ، تصوف،جذب و سوزِ دروں کے حسین سنگم کا مجموعہ ہے ، نیزاِن قدیم و جدید روایات میں سب سے اہم عنصر اُن کا شاعرانہ بانکپن ہے ، جو شاعری کے باب میں اِنہیں امتیازو تفوق بخشتا ہے ۔ اِن عناصر کی کیفیات اُس وقت دو آتشہ ہوجاتی ہیں ، جب طرزِ کہن میں فکر جدید پیش کی جارہی ہو ۔ان کی شاعری میں جہاں فنی خوبیاں ہیں ، وہیں فکری خوبیاںبھی مسلم ّاور جاودانی حیثیت رکھتی ہیں ۔فنی خوبیوں پر فکری خوبیاں رنگ پیدا کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ شعراء کی الہام آمیز سخن طرازیاں جاوداں ہی ہوتی ہیں ، غالبؔ نے اِسی ’الہام‘ کو’ نوائے سروش‘ کا نام دیاہے۔شعر گوئی در اصل مضطر روح کی صدا ئے دل گرفتہ اور ٹوٹے ہوئے دلوں کا نالہ ہے ،اِس کا رشتہ روح سے ہمیشہ استوار رہتا ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ،جنہیں مبدأ فیاض نے سوزِ دروں جیسی عظیم دولت سے نوازا ہے۔معروف صوفی سرمدؔنے اسی سوزِ دروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’سوزِ دل پروانہ‘ کے شق کو نمایاں کیا ہے ۔ اردو شاعری کی تاریخ صدیوں قدیم ہے ، لیکن اِس مدت میں اردو شاعری نے کئی ادوار دیکھے اور ان کا رنج سہا۔کبھی فارسی کی اثر پذیری کا طعنہ سہنا پڑا، کبھی غزل میں فرسودہ مضامین کے تئیں شکوے سنے ، لیکن اسی اردو شاعری نے انقلاب 1857 سے لے کر اشتراکیت و ترقی پسندی کے عہد تک اور اس کے بعد تک کے دور میں ، منجمد خون کو آتشِ رواںبھی بنایا۔بیگانِ گان وطن (انگریزی استعمار )اور جاگیردارنہ نظام کیخلاف اردو شاعری نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ۔(حتیٰ کہ سی، اے، اے اورمجوزہ این، آر،سی کیخلاف ملک بھر میں منعقدہ احتجاجات میں اردو کی باغیانہ شاعری ایک بار دواوین و کلیات سے باہر نکل آئی ۔فیضؔ ، جالبؔ اور مرحوم راحتؔ اندروی کی لہو گرم کردینے والی شاعری کی باز گشت حکومت ِ وقت کیخلاف سنائے دینی لگی )اس شاعری میں بتدریج نئے پہلو تراشے گئے اور مضامینِ نو سے ہم آہنگ کیا گیا ۔کلام اکمل میںغزلیں ،قطعات اور نظمیں ہیں،لیکن اگر میں کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا؛بلکہ بجا ہوگا کہ اکمل ؔ فطری طور پر غزل کے شاعرہیں ۔ غزلوں میں جس قدر ان کا خصوصی وصف، جسے راقم نے ’’بانکپن‘‘ کہا ہے،نمایاں ہوتا ہے ، دوسرے وصف اِس بانکپن کی جلوہ گری میں مدھم پڑجاتے ہیں، یہی ان کا سرمایۂ شاعری ہے ۔ غزلوں کا کیف و کم ،لہجوں کا نک سک اور تصوف کی آمیزش دیکھئے :
فراق و ہجر درد و آہ ہو برگ و ثمر جس کا
زمینِ عشق پر ایسا شجر بونے سے ڈرتا ہوں
مزین دائروں سے عشق، محرابوں سے الفت ہے
منافق گوشہائے بزم کے کونے سے ڈرتا ہوں
یہ اجلاسِ محبت ہے یہاں غیبت نہیں جائز
کسی کا بوجھ اپنی پیٹھ پر ڈھونے سے ڈرتا ہوں
بقدرِ معصیت ہوں گے، تو پھر سیلاب آئے گا
کہ ہیں اشک ندامت اس لیے رونے سے ڈرتا ہوں
مرا اعزاز پوشیدہ تھا نفیِِ ذات میں اکمل
مجھے مارا ہے ہونے نے، اُسی ہونے سے ڈرتا ہوں
تصوف کی تعلیمات ، اخلاق پر عمل اور تذکیر و مواعظ خاندانی شباہت و وجاہت ہے ، البتہ شاعری کی ہیئت میں غزلیاتی بانکپن و آہنگ قابلِ دید نی ہے ۔’مزین دائروں سے عشق ‘ اور ’محرابوں سے الفت‘ ترک دنیا اورخلوت و تنہائی کی طرف اشارہ ہے ، مزید طرہ یہ کہ ’منافق گوشہائے بزم‘ نے اس امرکی کامل توضیح ہے کہ دنیاآلائشوں سے پر ہے ، اس سے اجتناب لازمی ہے ۔وہیں ’نفیِ ذات ‘ سے عجب و ریاکاری سے بھی احتراز کا سبق ملتا ہے ، پھرآیت کریمہ ’’یَا اَیُّہْاَ الَّذینَ آمَنْوُا اجَتَنِبُوا کَثِیرًا مِّنَ الظَّنِّ ِانَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثم ٌوَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغتَب بَعضُکْم بَعْضًا‘‘(الاٰیہ)کی تفسیرو تلمیع بھی پیش کی گئی ہے ۔ان چند اشعار میں کئی پہلو اورتلمیحات مضمر ہیں ،جن کا بیان بغیر شاعرانہ تجربہ ،تصوف اور سوز ِ دروں کے ممکن نہیں ۔ ادب میں قدیم ، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا قضیہ اردو ادب کا ایک پہلو ہے ، جو ناقدین کا وضع کردہ ہے۔ جدیدیت و مابعد جدیدیت کے ذیل میںیقینا کئی تبدیلیاں ہوئی ہیں ،اور افکار کی حک و اصلاح بھی ہوئی ہے ، اُن امور کی طرف نشاندہی کی گئی ہے ، جو صالح معاشرہ اور صالح ادب کی تشکیل و تخلیق میں معاون ور ہنما ثابت ہوسکتے ہیں ۔البتہ راقم الحروف کی نظر میں اولیٰ یہی ہے کہ’’ ادب جس زمانہ کا ہو ، وہ اپنے وقت کا ترجمان ہوا کرتاہے،اُسے کسی زمانے سے مقیدنہیں کرسکتے ‘‘۔ زمانہ آگے بڑھتا ہے ،لوگ بدلتے ہیں ، نظریات میں تبدیلی آتی ہے ، نیا موسم اور نئی رت بدلتی ہے ،ادب و شاعری اور دیگر فنونِ لطیفہ کی بھی ترقی ہوتی ہے۔البتہ اُن عناصر کی تراش خراش اوردرستگی متواتر ہوتی رہنی چاہیے ، جو ہماری مشرقی تہذیب کے مزاج و منہاج اور معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں ،بلکہ وہ ہماری تہذیب کے لئے ’سوہانِ روح ‘ ہوں،یقینا انہیں کسی طور بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اکملؔ نے ان قدیم و جدید روایات میں اپنی الگ ایک ’راہ ‘ نکالی ہے ،جس میں دونوں روایات کی خو ُ بوُ اور عطربیزی ملتی ہے،جسے خصوصی وصف کے نام سے جاننا چاہیے ، دونوں روایات کی ترجمانی دیکھیں:
کیا اذیت ہے سبزپوشوں کو
زرد گلشن کا باغباں ہونا
لب بھی خاموش آنکھ بھی چپ ہو
اتنا آساں ہے ،بے زباں ہونا؟
دھوپ کھاتا ہوں چھاؤں دیتا ہوں
کتنا مشکل ہے، سائباں ہونا
ہے اشارہ نمی کا سوزش میں
قبل جلنے کے کچھ دھواں ہونا
ہمارے زمانے میں جتنے شعراء کی باز گشت ہماری سماعتوں سے ٹکراتی ہے ، یہ خصوصیت اُن میں مکمل طور پر ناپید ہے ،(اِس جملہ سے کسی کی تنقیص مقصودنہیں ) خوش آئند امر یہ ہے کہ اس ناپید ی میں فنی اور فکری شعر و ادب کا ایک ’’چراغِ امید‘‘ فروزاں کیا ہے ۔ بلندیٔ تخیل کی پرواز قابلِ دیدنی ہے کہ کہ کس شانِ بے نیازی سے ’بے زباں‘ ہونے اور ’چھاؤں ‘ دینے کا اِدّعا کر رہے ہیں ،اسے ہم شاعرانہ تعلّی نہیں کہہ سکتے؛بلکہ یہ تو ذاتی مشاہدے اور تجربات ہیں،اگر اسے تعلّی تسلیم بھی کرلیں ،تو گفتار کا بانکپن اس کے تجربہ ہونے کی گواہی دیتا ہے ،ا سی غزل کے مقطع میں’بانکپن‘مشاہدہ کریں :
تجھ میں دیکھا ہے بارہا اکملؔ
قوتِ ضبط کا جواں ہونا
غزل اردو شاعری کی شہِ رگ ہے ، غزل کے بغیر اردوبے جان ہے ۔یہی وہ صنف ہے ، جس میں شاعر تمام فنی حدود و قیود سے بالاتر ہوکر اپنے افکار کو پیش کرسکتا ہے ۔غزل اگر امراء کے حویلیوں کی زینت بنی ہے ، تو درویش و فقیر کی مجالس بھی غزلوں سے آراستہ ہوئی ہیں، غزل کی حشرسامانیوں نے درویشوں کی مجالس گرم کی ہیں ۔ غزل میںرونا پیٹنا اور گریباں چاک کرنا اِتمامِ فن یا فن کی معراج نہیں ؛بلکہ ’قوت ِ ضبط‘ جواں کرنا بھی غزل کی معراج ہے، مقطع میں ’قوتِ ضبط‘ کی نمود کاہی اشارہ ہے ،جو قابلِ تحسین اور قابلِ دید ہے ۔ اس قوتِ ضبط پر مزید ضبط کا طرہ دیکھیں :
آسماں روئے گا، روئے گی زمیں آج کہ ہم
نغمۂ درد سنانے کے لئے نکلے ہیں
ایک موجود حقیقت تھی، جسے بھول گئے
ایک موہوم فسانے کے لئے نکلے ہیں
جس کے ہر رنگ سے ظاہر ہو، اذیت اپنی
ہم وہ تصویر بنانے کے لئے نکلے ہیں
ان اشعار کے ذریعہ ضبط پر ضبط کا اعلان ہے ، جو کہ بانکپن کی ہی کرامت ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ غزل مضامینِ نو کے انبار لگانے کا نام ہے،خواہ وہ عاشقانہ پہلو ہو، تصوف آمیزی ہو ،یا پھر باغیانہ تیورہی کیوں نہ ہوں ، غزل ہمہ وقت جدت طرازی کا تقاضا کرتی ہے ،اکملؔ نے قدم بہ قدم غزل کے ان ہی تقاضو ں کو پورا کیا ہے ۔ ایک کے بعد ایک غزلیں ان کے فنی مدارج کی گواہیں دیتی ہیں ، اسی ذیل میں کی ایک گواہی ملاحظہ ہو:
جب بھی گاؤگے ،چیخ اٹّھوگے
گنگناؤگے، چیخ اٹھّوگے
درمیاں لاؤں، گر خودی اپنی
سہہ نہ پاؤگے، چیخ اٹّھوگے
میں دکھا دوں جو کیفیت دل کی
مسکراؤگے، چیخ اٹّھوگے
لذتِ درد کس کو کہتے ہیں
آزماؤگے؟ چیخ اٹّھوگے
جب ہم اکملؔ کی شاعری کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہیں ،اور فنی حسن وقبح کی جستجو کرتے ہیں ، توصرف فکری معراج کا ہی ادراکِ محض نہیں ہوتا؛بلکہ زبان کی سلاست ، چاشنی ، پختگی اور زبان و لہجے کے نک سک پردسترس کا بھی پتہ چلتا ہے ۔جملے چست ، الفاظ موزوں ،تراکیب برمحل اور اس کی نشست نفیس ہے ۔ میرے سامنے جتنی غزلیں ہیں ، اُن تمام غزلوں میں تراکیب تر اشی ہوئی اور منظم ہیں ،غزلوں کی تشبیہات میں ملاحت بھی ہے اور فصاحت کا عنصر بھی موجزن ہے ،گویا غزلیں قند و شکر ہیں، محسوس کرتے جائیں، اکتاہٹ نہیں ہوتی۔اِن اشعار میں زبان وبیان کی پختگی قابلِ دید ہے :
اِس ربطِ باہمی میں تقدس تھا اِس قدر
وہ نیند سے، میں خواب سے آگے نہیں بڑھا
یہ سوچ کر کہ طرزِ سخن ہوش لے نہ لے
نغمہ، مرے رباب سے آگے نہیں بڑھا
اس کی کتاب میں کبھی رکھے تھے چند پھول
میں پھول وہ کتاب سے آگے نہیں بڑھا
تجزیاتی مطالعہ کا نچوڑ یہ ہے کہ اکملؔ قدیم و جدید روایات کی شاعری کی نئی بازیافت ہے ، اوردرس و تدریس سے وابستہ ذی علم کی ایسی پُر مغز،فنی معراج کو چھوتی ہوئی شاعری یقینا ادب کیلئے بازیافت ہی کہنا چاہیے ۔ شاعری کے سفر کا آغاز ہوچکا ہے ،اِس سفر کی پہلی منزل بھی آچکی ہے۔ لیکن اس پہلی منزل کوہی معراجِ اصلی نہیں سمجھناچاہیے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ شاعری کے نئے برگ و بار ہوں گے ، اس برگ و بار میں ثمر آور شاخیں بھی ہوں گی ، جن سے شائقین و طلبہ استفاد ہ کریں ۔
٭٭٭