مادری زبان کی وکالت کرنے والا کوئی نہیں کہتا کہ اسے دوسرے صوبوں میں نافذ کرو۔ ایک سیدھا سا حل ہے کہ لسانی پالیسی سازی کی جائے جس میں:
- بنیادی تعلیم مادری زبان میں دینے کا بندوبست کیا جائے۔
- متعلقہ صوبے میں مادری زبان کو سرکاری زبانوں میں شامل کیا جائے۔
- عدالتی کارروائی، صوبائی اور مقامی اسمبلیوں کی کارروائی اور دیگر انتظامی امور مادری زبانوں میں بھی سرانجام دینے کی اجازت دی جائے۔
- مادری زبانوں کے فروغ کے لیے صوبائی سطح پر ویسے ہی فنڈز فراہم کیے جائیں جیسے اردو کے لیے وفاقی سطح پر فراہم کیے جاتے ہیں۔
- اس کے ہمراہ اردو میں تعلیم اور وفاقی سطح کے انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
- عالمی سطح پر انگریزی میں ابلاغ کی ضرورت کے پیشِ نظر اس کی مناسب تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔
آپ پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ قابلِ عمل ہونے کی کیفیت (Feasibility) کو اچھی طرح سے جانتے ہوں گے۔
بات ایک قومی زبان کے ریاستی سطح پر نفاذ کی ہو رہی ہے۔ اس میں مادری زبان اور اس کے صوبائی نفاذ کا راگ الاپنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ معمولی سی عقل رکھنے والا شخص بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ یہ معاملہ قومی زبان کے نفاذ کے بعد کا ہے۔ قومی زبان کا قضیہ فیصل ہونے سے پہلے مادری زبان کا شور مچانے کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ یا تو آپ اپنی مادری زبان کو قومی سطح پر نافذ کرنا چاہتے ہیں یا پھر محض فتنہ پردازی کا شوق رکھتے ہیں۔
یوں بھی جو لوگ اردو کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں ان کا نظریاتی پس منظر انھیں علاقائی زبانوں کو نظرانداز کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اردو کے دشمنوں سے البتہ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ علاقائی زبانوں کے معاملے کو افراط و تفریط کا شکار کر سکتے ہیں۔
نیز جس قسم کی پالیسی آپ نے تجویز فرمائی ہے اس پر عمل نہ صرف ناممکن ہے بلکہ اس کی کوشش بھی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ آپ علاقائی زبانوں کے لیے ایک وفاقی سطح کی زبان کے برابر اخراجات رکھنا چاہ رہے ہیں۔ ہوائی قلعوں سے باہر کی حقیقی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔
پھر مادری اور علاقائی زبانوں کے حوالے سے پاکستان ماشاءاللہ ایک گنجان علاقہ ہے۔ رنگ رنگ کی زبانیں اور بھانت بھانت کی بولیاں آپ کو چند سو کلومیٹروں کے فاصلے پر ملتی ہیں۔ پنجاب کی مثال لی جائے تو پنجابی، پوٹھواری، سرائیکی اور رچناوی (خانیوال سے سرگودھا اور ساہیوال سے جھنگ تک بولی جانے والی میری مادری زبان) بڑی بولیاں ہیں۔ اب حکم فرمائیے۔ ان میں سے کس کو صوبے بھر میں نافذ کر کے اردو کے برابر فنڈز دیے جائیں؟
نفاذِ اردو کے حامی علاقائی زبانوں کی ترویج سے دامن نہیں چھڑانا چاہتے۔ مگر وہ کم از کم یہ ضرور جانتے ہیں کہ یہ معاملہ بدیہی طور پر قومی زبان کے بعد کا ہے۔
پاکستان جیسا ملک جس میں اردو کا نفاذ کئی دہائیوں سے ممکن نہیں ہو سکا وہاں آپ علاقائی زبانوں کی بین بجانے لگیں گے تو انتشار کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اگر یہی آپ کا مدعا ہے تو الگ بات ہے!
"عالمی سطح پر انگریزی میں ابلاغ کی ضرورت کے پیشِ نظر" زیادہ سے زیادہ اختیاری طور پر انگریزی کا مضمون رکھا جا سکتا ہے۔ یا اعلیٰ تعلیم کے خواہاں امیدواروں کو بوقتِ ضرورت کورسز کروائے جا سکتے ہیں۔
سچ صرف آپ کا بیان فرمایا ہوا نہیں ہے۔
بومرینگ!