جوش شاعروں کا منشور - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
خاطر کا پیچ و تاب بھلاتے رہیں گے ہم
نوعِ بشر کی زلف بناتے رہیں گے ہم

احباب ہی کا ساتھ نہ دیں گے، خدا گواہ
اغیار کا بھی ہات بٹاتے رہیں گے ہم

بھولے سے بھی دَغا نہ کریں گے کسی کے ساتھ
اور خود ہر اک فریب میں آتے رہیں گے ہم

سارا جہاں جو بر سرِ شر ہے تو کیا ہوا
سارے جہاں کی خیر مناتے رہیں گے ہم

بنیادِ افتراق ہیں دین و زبان و مُلک
اِن جملہ فاصلوں کو مٹاتے رہیں گے ہم

اعدا کو آشناؤں کے سانچے میں ڈھال کر
اعداد کو اکائی بناتے رہیں گے ہم

ہاں بارگاہِ وحدتِ نوعِ بشر کی سمت
قوموں کے ریوڑوں کو ہنکاتے رہیں گے ہم

گپھوں میں بھر کر آتشِ حبِ عوام کو
جب تک بھڑک نہ جائے۔۔ گھماتے رہیں گے ہم

تجھ سے یہ قول ہار چکے ہیں کہ اے زمین
تیرے گرے ہوؤں کو اٹھاتے رہیں گے ہم

مانگیں گے اک دیا نہ کسی سے بطورِ اجر
روز اک نیا چراغ جلاتے رہیں گے ہم

اس ہولناک شدتِ عسرت کے باوجود
روز اک نیا خزانہ لٹاتے رہیں گے ہم

اک بوند بھی ملے گی نہ ہم کو تمام عمر
دریا سخاوتوں کے بہاتے رہیں گے ہم

مچلے گی اک کرن بھی نہ اپنے دیار میں
لاکھوں دلوں کی جوت جگاتے رہیں گے ہم

(۲)

گو انبیائے عصر ہیں، لیکن بحکمِ ذوق
صہبائیوں کے بھیس میں آتے رہیں گے ہم

سر سے گزر رہی ہے اگر موجِ خوں، تو کیا
رنگیں رخوں سے آنکھ لڑاتے رہیں گے ہم

باغِ سخن کو خلد بنانے کے واسطے
مکھڑوں کا آب و رنگ چراتے رہیں گے ہم

انفاسِ عطر بیزِ نگارانِ دہر سے
پھولوں میں شاعری کو بساتے رہیں گے ہم

گلبانگِ برشگال و نسیمِ شمال سے
لیلائے فن کو وجد میں لاتے رہیں گے ہم

ہر بات پر خدا سے کریں گے ہزار ناز
پیہم بتوں کے ناز اٹھاتے رہیں گے ہم

کوئے غنا میں شب کو بجاتے رہیں گے عود
جوئے حنا میں دن کو نہاتے رہیں گے ہم

ہر شب نگاہِ شوق کی مضرابِ نرم سے
مکھڑوں کے خد و خال بجاتے رہیں گے ہم

(۳)

روشن ہیں جس سے ارض و سماوات کے چراغ
اُس نور کا سراغ لگاتے رہیں گے ہم

ہاں بہرِ صیدِ مرغِ 'صفات' و ہمائے 'ذات'
فکر و نظر کے دام بچھاتے رہیں گے ہم

بھدرا کے رہ گئے ہیں جو اثمارِ آگہی
سوزِ نفس سے اُن کو پکاتے رہیں گے ہم

اسرارِ برق طبع و قوائے دوندہ کو
ادراک کی گرفت میں لاتے رہیں گے ہم

تا جلوۂ مسببِ اسباب دیکھ لیں
اسباب کی نقاب اٹھاتے رہیں گے ہم

بھر بھر کے جھولیوں میں گہر ہائے بحرِ علم
ذہنوں کی کارگاہ میں لاتے رہیں گے ہم

جتنی ملے گی خوانِ جہاں سے غذائے علم
اُتنی ہی اور بھوک بڑھاتے رہیں گے ہم

جتنی عطا کرے گا تفکر بلندیاں
کچھ اور بھی سروں کو جھکاتے رہیں گے ہم

اس درجہ آسماں سے نہ شرما کہ اے زمین
تجھ کو دلھن کی طرح سجاتے رہیں گے ہم

(۴)

جب تک زمین پر ہے وجودِ گدا و شاہ
روز آسمان سر پہ اٹھاتے رہیں گے ہم

رکتی ہے جن کے رعب سے اہلِ جہاں کی سانس
طاقوں سے اُن بتوں کو گراتے رہیں گے ہم

گزرے گا شہریار کا جس راہ سے جلوس
بارود سے وہ راہ اڑاتے رہیں گے ہم

اشرار کے تنے ہوئے نیزوں کے سامنے
سینوں کو تان تان کے جاتے رہیں گے ہم

فرِّ کیان و صولتِ جمشید کے خلاف
ہر لحظہ طبلِ جنگ بجاتے رہیں گے ہم

ہر دامنِ تبختر و ہر رختِ کبر میں
جب تک جئیں گے آگ لگاتے رہیں گے ہم

عُجبِ شیوخ و چینِ جبینِ ملوک پر
ہر آن آستین چڑھاتے رہیں گے ہم

لوہے کے گھَن کی ضربتِ خارا شگاف سے
سونے کے ہر مکان کو ڈھاتے رہیں گے ہم

تنکوں سے کاٹ دیں گے شراروں کی گردنیں
شاخوں کو بجلیوں پہ گراتے رہیں گے ہم

آتی رہیں گی دشتِ بلا سے جو آندھیاں
اپنی لوؤں پر اُن کو نچاتے رہیں گے ہم

تا اپنے خط و خال کا افلاس دیکھ لے
آئینہ خسروی کو دکھاتے رہیں گے ہم

جب تک کھڑے ہیں شیش محل اس زمین پر
کھیتوں میں پتھروں کو اگاتے رہیں گے ہم

تیغِ قلم سے اپنے گلے کاٹ کاٹ کر
رنگینیوں کے ڈھیر لگاتے رہیں گے ہم

روئیں گے خلوتوں میں جگر تھام تھام کر
اور جلوتوں میں راگ سناتے رہیں گے ہم

ہاں چہچہوں کی گونج، لطیفوں کی چھاؤں میں
یاروں سے دل کا درد چھپاتے رہیں گے ہم

نوحوں کو ڈوبتے ہوئے تاروں کے سامنے
نغموں کے زانوؤں پہ سلاتے رہیں گے ہم

دل سے ٹپک رہا ہے جو دامانِ ذہن پر
اُس خون کی سبیل لگاتے رہیں گے ہم

روز ایک ہار گردنِ انساں میں ڈال کر
قبروں پر اپنی پھول چڑھاتے رہیں گے ہم

گویا گزر رہی ہے بڑی دھوم سے برات
یوں اپنی میتوں کو اٹھاتے رہیں گے ہم

ہر سال اپنے قلب کے یومِ وفات پر
تہوار دوسروں کے مناتے رہیں گے ہم
(جوش ملیح آبادی)
 
Top