اردو کےمنفرد شاعراور منھ چھٹ نقاد ساقی فاروقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ شاعر کو شعر کہتے وقت زبان و بیان کے سارے امکانات اچھی طرح سے کھنگال لینے چاہیئیں، ورنہ عوام اس شعر کی اصلاح کر دیتے ہیں۔ ساقی فاروقی فراق کے اس شعر کا ذکر کر رہے تھے:
ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
لیکن شاید عوام کو شعر کی یہ شکل پسند نہیں آئی کیوں کہ شعر کچھ یوں مشہور ہے:
شبِ وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
ترے شباب کی دوشیزگی نکھر آئی
ظاہر ہے کہ ’جمال کی دوشیزگی‘ کی جگہ ’شباب کی دوشیزگی‘ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، اسی طرح پہلے مصرعے میں ’ذرا وصال۔۔۔‘ کی بجائے ’شبِ وصال ۔۔۔‘ نے بھی شعر کی رنگینی میں اضافہ کر دیا ہے۔
اصل میں بات یہ ہے کہ شاعر تو چند لمحوں کے اندر شعر کہہ کر الگ ہو جاتا ہے اور وہ شعر اگر مشہور ہو جائے تو یوں سمجھیئے کہ عوامی ڈومین میں آ جاتا ہے۔ اب یہ تو آپ جانتے ہی ہیں زبان ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے اندر بے تحاشا امکانات پوشیدہ ہوتے ہیں اور کسی شخصِ واحد کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ بیک وقت تمام پہلوؤں پر قادر ہو سکے۔ اس لیے پبلک اپنے طریقے سے اس شعر کے ڈھانچے کو ٹٹولتی، پھرولتی اور اپنے اپنے خانوں میں رکھ کر دیکھتی ہے۔ اگر شعر کسا کسایا، گٹھا ہوا اور پوری طرح سے نک سے درست اور بے عیب نہ ہو تو زبان در زبان، سینہ بہ سینہ نقل در نقل کے عمل کے دوران شعر کی ساخت بدلنے کا احتمال رہتا ہے۔
ہم کوئی دعویٰ نہیں کر رہے کہ معاشرے کا اجتماعی شعور دھوکا نہیں کھا سکتا، تاہم دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بسا اوقات اشعار کی عوامی شکل اصل سے بہتر نکلتی ہے۔ اسی عوامی اصلاح کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
قائم چاند پوری میر و سودا کے عہد کے مشہور شاعر گزرے ہیں۔ ان کا شعر زباں زدِ خاص و عام ہے:
قسمت کی خوبی دیکھیئے، ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر قائم کی کلیات کھول کر دیکھیں، تو یہ شعر کچھ یوں لکھا نظر آتا ہے:
قسمت تو دیکھ، ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
فرق صاف ظاہر ہے، ’دو چار ہاتھ‘ میں جو سنسی خیزی اور حرکت ہے، وہ ’کچھ دور‘ میں کہاں۔ اسی طرح ’قسمت کی خوبی دیکھیئے۔۔۔‘ میں لفظ ’خوبی‘ نے طنزیہ کیفیت پیدا کر دی ہے، جس سے شعر کی تہہ داری بڑھ گئی ہے۔
میر طاہر
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے
عوام:
مکتبِ عشق کے دستور نرالے دیکھے
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
آپ نے دیکھا کہ عوامی شعر کی بندش اصل شعر سے کہیں چست ہے۔ ظاہر ہے کہ میر طاہر کو ردیف کی مشکل بھی درپیش رہی ہو گی، جب کہ عوام کے سامنے اس طرح کی کوئی رکاوٹ موجود نہیں تھی، کیوں کہ اس غزل کے دوسرے اشعار تو کیا، لوگ مرزا طاہر کے کسی اور شعر سے واقف نہیں ہیں۔
مومن
اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا چمک جائے ہے آواز تو دیکھو
عوام
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
شاید آپ مجھ سے اتفاق کریں کہ ’لپک‘ اس قدر متحرک لفظ ہے کہ اس کے سامنے ’چمک‘ کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔
ایک مصرع بہت مشہور ہے اورعام طور پر کسی ادیب کو داد دینے کے موقعوں پر خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے:
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
یہ دراصل داغ کا شعر ہے لیکن انھوں نے اس شعر کو کسی اور انداز میں کہا تھا:
داغ
خط ان کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی
اللہ کرے حسنِ رقم اور زیادہ
ملاحظہ ہو کہ اس شعر میں داغ صرف خطاطی کی داد دے رہے ہیں، نہ کہ تحریر کے مضمون کی۔
شاگرد تو دیکھ لیا، اب ذرا داغ کے استاد کا بھی ذکرِ خیر ہو جائے، یعنی استاد شیخ ابراہیم ذوق:
کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
پہلے مصرعے میں مسئلہ یہ تھا کہ مخاطب تو صبا ہے لیکن یہ لفظ دوسرے الفاظ کے درمیان اس طرح سے گھر گیا ہے کہ پہلی قرات میں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پھول ’صبا دکھلا گئے‘، جو بے معنی سی بات ہے۔ اگر جدید علاماتِ قرات استعمال کی جائیں تو شعر کچھ یوں لکھا جائے گا:
کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی، (اے) صبا!، دکھلا گئے
عوام کو یہ پیچیدگی پسند نہیں آئی، اس لیے انھوں نے بدل کر شعر کچھ یوں کر دیا:
پھول تو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
قافیے کی تبدیلی سے شعر زیادہ رواں ہو گیا ہے۔ یہ شعر عام طور پر قبرستانوں میں بچوں کی قبروں پر لکھا نظر آتا ہے۔
اس موقعے پر یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہمارا قطعا یہ خیال نہیں ہے کہ کسی کو شاعر کے کلام میں تحریف کا حق حاصل ہے۔ شعر جیسے لکھا گیا، وہ پتھر کی لکیر کی طرح سے اٹل رہنا چاہیئے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ جیسے ندی میں پڑا ہوا پتھر کا ٹکڑا پانی کی ٹھوکریں کھا کھا کر ہموار، گول مٹول اور چکنا ہو جاتا ہے، ویسے ہی پبلک بھی شعر پڑھتے پڑھتے ادھر ادھر نکلے ہوئے کونے رگڑ رگڑ کر سیدھے کر دیتی ہے۔
پتھر کا ذکر چل نکلا ہے تو ذرا نسبتاً جدید زمانےکے شاعرمصطفیٰ زیدی کا بے حد مشہور شعر ملاحظہ فرمائیے:
انھی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
میں نے کہا کہ مصطفیٰ زیدی کا شعر۔ لیکن اگر آپ مصفطیٰ زیدی کا دیوان کھول کر دیکھیں تو اس میں دوسرا مصرع یوں ہے:
میرے گھر کے راستے میں کہیں کہکشاں نہیں ہے
یہاں پر ’کوئی‘ کا لفظ خاص طور پر قابلِ غور ہے۔ اس لفظ کے درجنوں معنی نکلتے ہیں۔ عوامی شعر میں’ کوئی‘ کا مطلب some نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے، بالکل، ہرگز، کسی بھی صورت میں۔ یہ وہی استعمال ہے جو اس محاورے میں ملتا ہے:
یہ دشتِ عشق ہے میاں، کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے
اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ دشتِ عشق ہرگز ہرگز اور کسی بھی صورت میں خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ اس کے مقابلے پر ’کہیں‘سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ گھر کے راستے میں دوسری چیزیں بھی ہیں، یعنی پہاڑ، دریا، کھائیاں، لیکن اس تمام راستے میں کسی مقام پر کہکشاں نہیں ہے۔
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
یہ شعر ہےسبط علی صبا کا، لیکن صبا نے شعر کی جو شکل لکھی تھی وہ تھوڑی مختلف تھی:
دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی
اب دیکھیئے کہ خستہ کے مقابلے میں کچا زیادہ برجستہ اور موزوں لفظ ہے اور مصرعے کی چستی میں اضافہ کر رہا ہے۔ یہاں ایک واقعے کا ذکر کرتا چلوں۔ کچھ عرصہ قبل ایک صاحب نے یہ شعر عوامی طریقے سے پڑھا۔ ہم نے فوراً اپنی قابلیت جتانے کے لیے اضافہ کرنا ضروری سمجھا:
’کچے مکان کی نہیں ’’خستہ‘‘ مکان کی۔‘
وہ صاحب چمک کر بولے، ’خستہ تو بسکٹ ہوتا ہے، پیسٹری ہوتی ہے، دیوار نہیں!‘
قارئین سے مودبانہ گذارش ہے کہ اس مضمون کی روشنی میں کسی کی اصلاح فرمانے سے پیشتر اس واقعے کو ذہن میں رکھیے گا تاکہ آپ کو بھی اس موقعے پر بغلیں بجانے والے محاورے کی عملی تصویر نہ بننا پڑے۔
مضمون کا اختتام ایک بھاری پتھر اٹھانے سے کر رہا ہوں۔ چچا غالب کی مشہور ترین غزلوں میں سے ایک ہے:
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اس غزل کو کئی لوگوں نے گایا ہے، جن میں سہراب مودی کی مرزا غالب نام کی فلم میں ثریا بھی شامل ہیں۔ لیکن شاید کم لوگوں کو معلوم ہو کہ اس غزل کی ردیف کچھ اور ہے۔ دیوانِ غالب غالب کی زندگی میں پانچ بار شائع ہوا اور ہر نسخے میں آپ کو ردیف ’ہوتے تک‘ملے گی، نہ کہ ’ہونے تک۔‘ ہماری تحقیق کے مطابق انیسویں صدی میں غالب کے جو بھی نسخے شائع ہوئے ان میں ’ہوتے تک‘ لکھا تھا۔ بیسیوں صدی کے شروع میں کسی ستم ظریف کاتب نے غالب کی اصلاح کرتے ہوئے ’ہونے تک‘ کر دیا، اور اس کے بعد چل سو چل۔
اب ’ہوتے تک‘ میں جو مسئلہ ہے وہ صوتیات سے تعلق رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سبھی قارئین ہم س اتفاق نہ کریں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ ’ہوتے تک‘ میں ت کی تکرار کانوں کو تھوڑی ناگوار گزرتی ہے۔ اصل میں یہ چیز شاعری کا عیب سمجھی جاتی ہے اور تکنیکی زبان میں اسے ’تنافر‘ کہا جاتاہے۔ اس کے مقابلے پر صوتی اعتبار سے ’ہونے تک‘ کہیں زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ دونوں صورتوں میں کوئی خاص معنوی فرق نہیں ہے۔
ہم نے اس مضمون کے عنوان کے ذریعے ابھرتے ہوئے شعرا کو ایک مشورہ دینے کی کوشش کی تھی۔ لیکن مضمون کے آخر تک پہنچتے پہنچتے ہمیں احساس ہو گیا ہے کہ اس پر عمل کرنا آگ پر چلنے کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر مرزا غالب اس سے نہیں بچ سکے تو پھر کسی اور سے کیا گلہ؟
ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
لیکن شاید عوام کو شعر کی یہ شکل پسند نہیں آئی کیوں کہ شعر کچھ یوں مشہور ہے:
شبِ وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
ترے شباب کی دوشیزگی نکھر آئی
ظاہر ہے کہ ’جمال کی دوشیزگی‘ کی جگہ ’شباب کی دوشیزگی‘ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، اسی طرح پہلے مصرعے میں ’ذرا وصال۔۔۔‘ کی بجائے ’شبِ وصال ۔۔۔‘ نے بھی شعر کی رنگینی میں اضافہ کر دیا ہے۔
اصل میں بات یہ ہے کہ شاعر تو چند لمحوں کے اندر شعر کہہ کر الگ ہو جاتا ہے اور وہ شعر اگر مشہور ہو جائے تو یوں سمجھیئے کہ عوامی ڈومین میں آ جاتا ہے۔ اب یہ تو آپ جانتے ہی ہیں زبان ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے اندر بے تحاشا امکانات پوشیدہ ہوتے ہیں اور کسی شخصِ واحد کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ بیک وقت تمام پہلوؤں پر قادر ہو سکے۔ اس لیے پبلک اپنے طریقے سے اس شعر کے ڈھانچے کو ٹٹولتی، پھرولتی اور اپنے اپنے خانوں میں رکھ کر دیکھتی ہے۔ اگر شعر کسا کسایا، گٹھا ہوا اور پوری طرح سے نک سے درست اور بے عیب نہ ہو تو زبان در زبان، سینہ بہ سینہ نقل در نقل کے عمل کے دوران شعر کی ساخت بدلنے کا احتمال رہتا ہے۔
ہم کوئی دعویٰ نہیں کر رہے کہ معاشرے کا اجتماعی شعور دھوکا نہیں کھا سکتا، تاہم دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بسا اوقات اشعار کی عوامی شکل اصل سے بہتر نکلتی ہے۔ اسی عوامی اصلاح کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
قائم چاند پوری میر و سودا کے عہد کے مشہور شاعر گزرے ہیں۔ ان کا شعر زباں زدِ خاص و عام ہے:
قسمت کی خوبی دیکھیئے، ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر قائم کی کلیات کھول کر دیکھیں، تو یہ شعر کچھ یوں لکھا نظر آتا ہے:
قسمت تو دیکھ، ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
فرق صاف ظاہر ہے، ’دو چار ہاتھ‘ میں جو سنسی خیزی اور حرکت ہے، وہ ’کچھ دور‘ میں کہاں۔ اسی طرح ’قسمت کی خوبی دیکھیئے۔۔۔‘ میں لفظ ’خوبی‘ نے طنزیہ کیفیت پیدا کر دی ہے، جس سے شعر کی تہہ داری بڑھ گئی ہے۔
میر طاہر
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے
عوام:
مکتبِ عشق کے دستور نرالے دیکھے
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
آپ نے دیکھا کہ عوامی شعر کی بندش اصل شعر سے کہیں چست ہے۔ ظاہر ہے کہ میر طاہر کو ردیف کی مشکل بھی درپیش رہی ہو گی، جب کہ عوام کے سامنے اس طرح کی کوئی رکاوٹ موجود نہیں تھی، کیوں کہ اس غزل کے دوسرے اشعار تو کیا، لوگ مرزا طاہر کے کسی اور شعر سے واقف نہیں ہیں۔
مومن
اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا چمک جائے ہے آواز تو دیکھو
عوام
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
شاید آپ مجھ سے اتفاق کریں کہ ’لپک‘ اس قدر متحرک لفظ ہے کہ اس کے سامنے ’چمک‘ کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔
ایک مصرع بہت مشہور ہے اورعام طور پر کسی ادیب کو داد دینے کے موقعوں پر خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے:
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
یہ دراصل داغ کا شعر ہے لیکن انھوں نے اس شعر کو کسی اور انداز میں کہا تھا:
داغ
خط ان کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی
اللہ کرے حسنِ رقم اور زیادہ
ملاحظہ ہو کہ اس شعر میں داغ صرف خطاطی کی داد دے رہے ہیں، نہ کہ تحریر کے مضمون کی۔
شاگرد تو دیکھ لیا، اب ذرا داغ کے استاد کا بھی ذکرِ خیر ہو جائے، یعنی استاد شیخ ابراہیم ذوق:
کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
پہلے مصرعے میں مسئلہ یہ تھا کہ مخاطب تو صبا ہے لیکن یہ لفظ دوسرے الفاظ کے درمیان اس طرح سے گھر گیا ہے کہ پہلی قرات میں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پھول ’صبا دکھلا گئے‘، جو بے معنی سی بات ہے۔ اگر جدید علاماتِ قرات استعمال کی جائیں تو شعر کچھ یوں لکھا جائے گا:
کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی، (اے) صبا!، دکھلا گئے
عوام کو یہ پیچیدگی پسند نہیں آئی، اس لیے انھوں نے بدل کر شعر کچھ یوں کر دیا:
پھول تو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
قافیے کی تبدیلی سے شعر زیادہ رواں ہو گیا ہے۔ یہ شعر عام طور پر قبرستانوں میں بچوں کی قبروں پر لکھا نظر آتا ہے۔
اس موقعے پر یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہمارا قطعا یہ خیال نہیں ہے کہ کسی کو شاعر کے کلام میں تحریف کا حق حاصل ہے۔ شعر جیسے لکھا گیا، وہ پتھر کی لکیر کی طرح سے اٹل رہنا چاہیئے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ جیسے ندی میں پڑا ہوا پتھر کا ٹکڑا پانی کی ٹھوکریں کھا کھا کر ہموار، گول مٹول اور چکنا ہو جاتا ہے، ویسے ہی پبلک بھی شعر پڑھتے پڑھتے ادھر ادھر نکلے ہوئے کونے رگڑ رگڑ کر سیدھے کر دیتی ہے۔
پتھر کا ذکر چل نکلا ہے تو ذرا نسبتاً جدید زمانےکے شاعرمصطفیٰ زیدی کا بے حد مشہور شعر ملاحظہ فرمائیے:
انھی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
میں نے کہا کہ مصطفیٰ زیدی کا شعر۔ لیکن اگر آپ مصفطیٰ زیدی کا دیوان کھول کر دیکھیں تو اس میں دوسرا مصرع یوں ہے:
میرے گھر کے راستے میں کہیں کہکشاں نہیں ہے
یہاں پر ’کوئی‘ کا لفظ خاص طور پر قابلِ غور ہے۔ اس لفظ کے درجنوں معنی نکلتے ہیں۔ عوامی شعر میں’ کوئی‘ کا مطلب some نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے، بالکل، ہرگز، کسی بھی صورت میں۔ یہ وہی استعمال ہے جو اس محاورے میں ملتا ہے:
یہ دشتِ عشق ہے میاں، کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے
اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ دشتِ عشق ہرگز ہرگز اور کسی بھی صورت میں خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ اس کے مقابلے پر ’کہیں‘سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ گھر کے راستے میں دوسری چیزیں بھی ہیں، یعنی پہاڑ، دریا، کھائیاں، لیکن اس تمام راستے میں کسی مقام پر کہکشاں نہیں ہے۔
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
یہ شعر ہےسبط علی صبا کا، لیکن صبا نے شعر کی جو شکل لکھی تھی وہ تھوڑی مختلف تھی:
دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی
اب دیکھیئے کہ خستہ کے مقابلے میں کچا زیادہ برجستہ اور موزوں لفظ ہے اور مصرعے کی چستی میں اضافہ کر رہا ہے۔ یہاں ایک واقعے کا ذکر کرتا چلوں۔ کچھ عرصہ قبل ایک صاحب نے یہ شعر عوامی طریقے سے پڑھا۔ ہم نے فوراً اپنی قابلیت جتانے کے لیے اضافہ کرنا ضروری سمجھا:
’کچے مکان کی نہیں ’’خستہ‘‘ مکان کی۔‘
وہ صاحب چمک کر بولے، ’خستہ تو بسکٹ ہوتا ہے، پیسٹری ہوتی ہے، دیوار نہیں!‘
قارئین سے مودبانہ گذارش ہے کہ اس مضمون کی روشنی میں کسی کی اصلاح فرمانے سے پیشتر اس واقعے کو ذہن میں رکھیے گا تاکہ آپ کو بھی اس موقعے پر بغلیں بجانے والے محاورے کی عملی تصویر نہ بننا پڑے۔
مضمون کا اختتام ایک بھاری پتھر اٹھانے سے کر رہا ہوں۔ چچا غالب کی مشہور ترین غزلوں میں سے ایک ہے:
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اس غزل کو کئی لوگوں نے گایا ہے، جن میں سہراب مودی کی مرزا غالب نام کی فلم میں ثریا بھی شامل ہیں۔ لیکن شاید کم لوگوں کو معلوم ہو کہ اس غزل کی ردیف کچھ اور ہے۔ دیوانِ غالب غالب کی زندگی میں پانچ بار شائع ہوا اور ہر نسخے میں آپ کو ردیف ’ہوتے تک‘ملے گی، نہ کہ ’ہونے تک۔‘ ہماری تحقیق کے مطابق انیسویں صدی میں غالب کے جو بھی نسخے شائع ہوئے ان میں ’ہوتے تک‘ لکھا تھا۔ بیسیوں صدی کے شروع میں کسی ستم ظریف کاتب نے غالب کی اصلاح کرتے ہوئے ’ہونے تک‘ کر دیا، اور اس کے بعد چل سو چل۔
اب ’ہوتے تک‘ میں جو مسئلہ ہے وہ صوتیات سے تعلق رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سبھی قارئین ہم س اتفاق نہ کریں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ ’ہوتے تک‘ میں ت کی تکرار کانوں کو تھوڑی ناگوار گزرتی ہے۔ اصل میں یہ چیز شاعری کا عیب سمجھی جاتی ہے اور تکنیکی زبان میں اسے ’تنافر‘ کہا جاتاہے۔ اس کے مقابلے پر صوتی اعتبار سے ’ہونے تک‘ کہیں زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ دونوں صورتوں میں کوئی خاص معنوی فرق نہیں ہے۔
ہم نے اس مضمون کے عنوان کے ذریعے ابھرتے ہوئے شعرا کو ایک مشورہ دینے کی کوشش کی تھی۔ لیکن مضمون کے آخر تک پہنچتے پہنچتے ہمیں احساس ہو گیا ہے کہ اس پر عمل کرنا آگ پر چلنے کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر مرزا غالب اس سے نہیں بچ سکے تو پھر کسی اور سے کیا گلہ؟