شاعری سیکھیں (آٹھویں قسط) دو رکنی مشق

تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

آٹھویں قسط:
محترم قارئینِ کرام…!
بل کہ محترم شعرائے عظام…! (ظاہر ہے جب ’’فعولن‘‘ اور ’’فاعلن‘‘ سیکھ لیا تو شاعر بن ہی گئے… کیوں کہ ’’فعولن‘‘ اور ’’فاعلن‘‘ کے علاوہ شاعری میں ہے کیا؟… کچھ بھی تو نہیں۔)
اگر آپ ایسا سوچنے لگے ہیں تو ہم نہ یہ کہیں گے کہ آپ بالکل غلط سوچ رہے ہیں اور نہ یہ کہیں گے کہ آپ مکمل طور پر ٹھیک سوچ رہے ہیں، کیوں کہ ابھی آپ نیم شاعر بننے کے قریب ہیں، لہٰذا آپ کا یہ سوچنا کہ شاعری میں ’’فعولن‘‘ اور ’’فاعلن‘‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں، یہ ایک نیم شاعر کی سوچ ہے۔

اب ہم آپ کو حقیقت بتائے دیتے ہیں کہ شاعری صرف ’’فعولن‘‘ اور ’’فاعلن‘‘ کا نام نہیں، بل کہ یہ دونوں تو محض پانچ حرفی دو رکن ہیں، ان کے علاوہ چھ حرفی اور سات حرفی ارکان کا سیکھنا ابھی باقی ہے، پھر ارکان سے مل کر ’’بحور‘‘ بنتی ہیں اور بحور کے جاننے کو ’’علم عروض‘‘ کہتے ہیں۔
ع فعولن کے آگے عروض اور بھی ہیں

البتہ ’’فعولن‘‘ اور ’’فاعلن‘‘ کے علاوہ دوسرے ارکان بتانے اور ان کی مشق کروانے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ’’فعولن‘‘ اور ’’فاعلن‘‘ میں مزید پختگی حاصل کرلی جائے۔

گھبرائیے نہیں… ہم آپ سے ’’فعولن‘‘ اور ’’فاعلن‘‘ کی مزید مثالیں بنانے کو نہیں کہیں گے… وہ ماشاء اللہ آپ پہلے ہی سو سو بناکر اپنے ’’شوقِ شاعری‘‘ کا ہمیں یقین دلا چکے ہیں۔

بل کہ اب ہم ذرا ترقی کرتے ہوئے بجائے ایک فعولن یا فاعلن کے دو فعولن اور دو فاعلن کی مثالیں بنائیں گے، یعنی ایسے الفاظ بنائیں گے جن کا وزن ’’فعولن فعولن‘‘یا ’’فاعلن فاعلن‘‘ ہو۔

’’فعولن فعولن‘‘ کی مثالیں:
’’خدا ایک ہی ہے… محمد نبی ہیں… تمھاری دعائیں… تمنا ہے دل کی… ہے گرمی کا موسم… یہ آموں کی پیٹی… بھلی لگ رہی ہے۔‘‘
ان تمام مثالوں میں سے ہر ایک میں خوب غور کریں، ان سب کی تقطیع ’’فعولن فعولن‘‘ کے وزن پر ہوگی۔
سب سے پہلی مثال ’’خدا ایک ہی ہے‘‘ کی تقطیع اس طرح ہوگی:
خدا اے = فعولن
ک ہی ہے = فعولن
یہ بات ایک بار پھر بتائے دیتے ہیں کہ دو چشمی ہا(ھ) اور نون غنہ(ں) کو وزن میں شمار نہیں کیا جاتا، جب کہ حروفِ علت (الف، و ، ی) اورحرفِ ’’ہ‘‘ کو وزن میں شمار کرنے یا نہ کرنے کا شاعر کو اختیار ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر ’’تمنا ہے دل کی‘‘ اس مثال میں ’’ہے‘‘ کی ’’ے‘‘ کو شمار نہ کیا جائے گا، لہٰذا اس کا وزن یوں بنے گا:
تمنا =فعولن
ہِ دل کی= فعولن

’’فاعلن فاعلن‘‘ کی مثالیں:
’’اے خدا کر عطا… مصطفی ہیں نبی… سلسلہ خوب ہے… آم کا جوس پی… آم کی پیٹیاں …ماں کی خدمت کرو… سب کی عزت کرو۔‘‘
ان تمام مثالوں میں سے ہر ایک کی تقطیع ’’فاعلن فاعلن‘‘ کے وزن پر ہوگی۔
سب سے پہلی مثال ’’اے خدا کر عطا‘‘ کی تقطیع یوں ہوگی:
اے خدا=فاعلن
کر عطا = فاعلن

کام:
1۔ ’’فعولن فعولن‘‘ کے وزن پر بیس مثالیں لکھیں۔
2۔ ’’فاعلن فاعلن‘‘ کے وزن پر بیس مثالیں لکھیں۔
3۔ علامہ اقبال کی نظموں کا مطالعہ کریں اور جو نظم آپ کو سب سے زیادہ پسند آئے وہ لکھ کر بتائیں کہ آپ کو وہ نظم سب سے زیادہ کیوں پسند آئی؟

الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔

اگلی قسط
 
آخری تدوین:

ساقی۔

محفلین
آٹھویں مشق حاضر ہے اسامہ بھائی۔

فعولن۔۔۔فعولن
وہ بچپن کے دن تھے۔۔۔وہ لمبی تھی راتیں۔۔۔گئی وہ کہاں ہیں۔۔۔جو کرتے تھے باتیں۔۔۔وہ تحتی وہ کاپی۔۔۔سلیٹیں دواتیں۔۔۔اچھا ہے وہ دل کا ۔۔۔کہو تم سنوں گا۔۔۔سہانا ہے موسم۔۔۔ذراتم کہو پھر۔۔۔کرو مہربانی۔۔۔ہمیشہ جوانی۔۔۔وہ آیا شہر سے۔۔۔کہو نا مجھے تم۔۔۔ہے تم نے یہ دیکھا۔۔۔یہ تحفہ تو لے لو۔۔۔محبت کرو تم۔۔۔ستایا کرو نہ۔۔۔رولایا کرو نہ۔۔۔ادھر سے اُدھر تک۔


فاعلن۔۔۔فاعلن۔
پھول مت توڑنا۔۔۔اب مجھے چھوڑ دو۔۔۔نیکیاں کیا کرو۔۔۔تم مجھے نہ دو سزا۔۔۔آج دن ہے کونسا۔۔۔کام پہ دل لگا۔۔۔شعر سن شعر لکھ۔۔۔سال ہے آخری۔۔۔اک مرا کام کر۔۔۔کر بھلا ہو بھلا۔۔۔اللہ کا نام لے۔۔۔فکر دل میں نہ رکھ۔۔۔سب کا کر کام تو۔۔۔ذکر کر ذکر تو۔۔۔بات کر خوب تر۔۔۔دکھ نہ دے تو کبھی۔۔۔رو نہ تو جان من۔۔۔اک ذرا بات سن۔۔۔چائے پی گرم ہی۔۔۔خوب سے خوب تر


علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی یہ نظم مجھے بہت پسند ہے ۔وجہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ نظم سے ہی صاف ظاہر ہو رہی ہے۔آج کے حالات پر صادق آتی ہے یہ نظم۔!

فتوی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر

تیغ و تفنگ دست مسلماں میں ہے کہاں
ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر

تعلیم اس کو چاہیے ترک جہاد کی
دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

باطل کی فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر

ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!

علامہ محمد اقبال رح
 
آخری تدوین:
ماشاءاللہ ساقی صاحب بہت اچھے جارہے ہیں آپ۔۔۔۔
اللہم زد فزد۔۔۔۔۔

اغلاط کی طرف نشان دہی:
اچھا ہے وہ دل کا۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔ فعلن(22)
وہ آیا شہر سے۔۔۔ شہر ۔۔۔ فاع (12)
کہو نا مجھے تم ۔۔۔۔ ”مجھے کہو“ کہنا غلط ہے، ”مجھ سے کہو“ درست ہے۔
ستایا کرو نہ۔۔۔ رولایا کرو نہ۔۔۔ ”نہ“ نافیہ کو فا(2) باندھنا مناسب نہیں ہے۔
نیکیاں کیا کرو۔۔۔ لفظ ”کیا“ اگر ”کرنا“ سے ماضی کا صیغہ ہو تو فعو(21) ہوتا ہے اور اگر استفہامیہ ہو تو فا(2) ہوتا ہے۔
تم مجھے نہ دو سزا۔۔۔ اس میں ”نہ“ زائد از وزن ہے۔
آج دن ہے کونسا۔۔۔اس میں ”ہے“ زائد از وزن ہے۔
اللہ کا نام لے۔۔۔ لفظ ”اللہ“ کو مفعول(122) یا بہت سے بہت فعلن(22) باندھنا چاہیے۔ البتہ جب دو مرتبہ ہو تو پہلے کو فاع(12) کے وزن پر باندھا جاسکتا ہے جیسے ”اللہ اللہ“
خوب سے خوب تر۔۔۔۔۔ واقعی۔ :)
 

ساقی۔

محفلین
مزید مشق:

فا علن، فا علن
اک ذرا بات سن۔۔۔تو نہ یوں چھوڑ اسے۔۔۔یہ بری بات ہے۔۔۔بات تو مان لے۔۔۔اور یہ جان لے۔۔۔اس سے تو چین لے۔۔۔چین جو مل گیا۔۔۔مل گیا سبھی کچھ۔


فعو لن، فعو لن
وطن یہ ہمارا ۔۔۔پیارا ہے سب سے۔۔۔ہمیں جان سےبھی۔۔۔کبھی تم نے سوچا ۔۔۔کبھی تم نے سمجھا؟
 

ساقی۔

محفلین
مل گیا سبھی کچھ۔۔۔ ”سبھی کچھ“ فاعلن نہیں بلکہ مفاعلن ہے۔
پیارا ہے سب سے۔۔۔ ”پیارا“ فعلن ہے نہ کہ فعولن۔

2uxutg5.jpg



29zvm8l.jpg
 
تو کیا پیا ، پیادہ، پیام کی "پا" پادہ" پام" تقطیع کریں گے؟
جی نہیں ساقی صاحب ۔۔
وہ نہ بولنے والی یے جسے رسماً ’’آدھی یے‘‘ کہتے ہیں، اصلاً ہندی خط سے ہے اور معدودے چند الفاظ میں آئی ہے:
دھیان، گیان، پیاس، پیار، کیوں ۔۔۔ اور شاید کچھ اور ہوں۔

جاری ہے
 
لفظ کی املاء اس کی اصوات سے زیادہ اس کی اصل سے منسلک ہوا کرتی ہے۔ آپ کے دیے ہوئے الفاظ کو دیکھتے ہیں۔
پیا ۔۔ اگر تو یہ مصدر پِینا سےمشتق ہے تو اس کی اصل میں ی بہت نمایاں ہے، گردان اور صیغوں میں بھی۔ یہ ’’آدھی یے‘‘ نہیں ہو سکتا۔
پیا ۔۔ اگر پریتم کے معانی میں ہے تو اس کے قرین الفاظ پیتم، پی، وغیرہ سب میں یے بولتی ہے، یہاں بھی بولے گی۔
پیادہ، پیالہ، پیام ۔۔ ان کی اصل فارسی ہے اور فارسی میں ’’آدھی یے‘‘ کا کوئی تصور نہیں۔ فارسی والے جہاں ی بولتی نہ ہو لکھتے ہی نہیں۔
مثلاً: آئینہ اورآئنہ (دونوں املا درست ہیں)۔
 
فارسی زبان میں البتہ ایک اور ی ہوتی ہے لکھنے میں آتی ہے بولنے میں نہیں آتی۔ اس کا بیان خاصا طوالت طلب ہے۔
کسی اور موقعے پر سہی۔
 
Top