شاعری سیکھیں (انیسویں قسط) اصطلاحات

تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

انیسویں قسط:
محترم قارئین! ماشاء اللہ آپ نے شاعری سیکھنے کے لیے اب تک کئی سارے اسباق پڑھ لیے، ان کی مشقیں بھی کرلیں، قافیے کی بھی خوب مشق کی، وزن بھی درست کرتے رہے، کلام کو موزوں بھی کرتے رہے، بحریں بھی پڑھتے اور یاد کرتے رہے، بحروں کے مطابق کچھ نظمیں بھی لکھ چکے۔ ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ۔ بلاشبہ یہ سب اللہ کی نعمت اور توفیق سے ہوا ہے۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب علم عروض میں استعمال ہونے والی مشہور مشہور اصطلاحات کی الفبائی ترتیب پر آسان اور جامع انداز میں تعریفات پیش کردی جائیں، ان میں سے بعض تعریفات کو مثالوں سے بھی واضح کیا گیا ہے۔

آزاد نظم:وہ کلام جس میں ایک رکن کی پابندی کی جائے، اس میں ارکان کی تعداد شاعر کی مرضی پر منحصر ہوتی ہے، نیز قافیے کی پابندی بھی ضروری نہیں ہوگی، البتہ ایسا کلام جس میں کسی رکن کو ملحوظ نہ رکھا جائے وہ نثر ہے، اسے آزاد نظم کہنا ٹھیک نہیں۔

ابتدا:بحر کے چار ارکان میں سے پہلا رکن۔اسے ’’صدر‘‘ بھی کہتے ہیں۔

اِخفاء: اگر کسی صحیح ساکن حرف کے بعد متحرک الف آجائے تو الف کو گرا کر اس کی حرکت پچھلے حرف کو دینا اخفا کہلاتا ہے۔جیسے ’’کار آمد‘‘ کو فاعلاتن بھی باندھ سکتے ہیں اور مفعولن بھی۔

ایطا: ایک ہی قافیے کو لفظاً و معناً ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں لانا۔

ایطائے جلی: قافیے کو لفظاً و معناً مکرر لانا جیسے: دکان دار کا قافیہ دل دار۔

ایطائے خفی: قافیوں میں وہ تکرارجس کی طرف ذہن فوراً منتقل نہ ہو، جیسے: آب کا قافیہ گلاب۔

بحر: شعر کے وزن کو کہتے ہیں۔

تخییل/تخیل:وہ قوت جس کے ذریعے نظر نہ آنے والی اشیا یا وہ اشیا جو حواس کی کمی کی وجہ سے محسوس نہیں کی جاتیں، انھیں خود محسوس کیا جائے یا دوسروں کو کروایا جائے۔

ترصیع: دونوں مصرعوں کے تمام الفاظ یا اکثر الفاظ بالترتیب ہم وزن لانا، جیسے:
نام تیرا ہے زندگی میری
کام میرا ہے بندگی تیری

تسکینِ اوسط: مسلسل تین متحرک حروف میں سے بیچ والے حرف کو ساکن کرنا۔

تقطیع: شعر کے اجزا کو بحر کے اوزان پر وزن کرنا۔

حرفِ روی:قافیے کا سب سے آخری بار بار آنے والا اصلی حرف، جیسے شام اور نام کا میم۔

حرکت: زبر ، زیر اور پیش میں سے ہر ایک کو حرکت کہتے ہیں۔

حسن مطلع: غزل یا قصیدے کا دوسرا مطلع۔

حشوِ اول: بحر کے چار ارکان میں سے دوسرا رکن۔

حشوِ ثانی: بحر کے چار ارکان میں سے تیسرا رکن۔

حمد: وہ نظم جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے۔

دائرہ: وہ گول خط جس میں تہ بہ تہ اوزان لکھے جائیں۔

دیوان: کسی شاعر کی نظموں کا مجموعہ۔

ذو بحرین: وہ نظم یا شعر یا مصرع جو دو بحروں میں ہو۔

رباعی: وہ چار مصرعے جو اوزانِ مخصوصہ پر ہوں، رباعی میں پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے، رباعی کے چوبیس اوزان ہیں، کسی بھی رباعی میں ان چوبیس میں سے کوئی بھی چار اوزان جمع کیے جاسکتے ہیں، جو چار مصرعے ان چوبیس اوزان کے مطابق نہ ہوں ان کو رباعی نہیں بل کہ قطعہ کہنا چاہیے۔

ردیف: وہ تمام حروف اور الفاظ جو شعر میں حرفِ روی کے بعد بار بار آتے ہیں۔

رکن: بحر کا ایک حصہ،ارکان کل آٹھ ہیں: 1فَعُوْلُنْ 2فَاعِلُنْ 3مَفَاعِیْلُن 4فَاعِلاتُن 5مُسْتَفْعِلُن 6مُتَفَاعِلُن 7مَفْعُوْلات 8مُفَاعِلَتُن۔

زحاف: بحروں کے ارکان میں کوئی حرف کم یا زیادہ کرنا۔

زمین: ردیف ، قافیہ اور بحر کا تعین۔

ساکن: وہ حرف جس پر زبر، زیر اور پیش نہ ہو، بلکہ سکون ہو۔

سببِ خفیف: ہجائے بلند کا پرانا نام۔

سببِ ثقیل: وہ دو حروف جو دونوں متحرک ہوں۔

سقم: شعر میں کوئی ایسی چیز جو قواعدِ شعر و عروض کے خلاف ہو۔

شعر: وہ کلام جس میں وزن اور قافیے کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔

صدر/ابتدا: بحر کے چار ارکان میں سے پہلا رکن۔

عرض/ضرب: بحر کے چار ارکان میں سے آخری رکن۔

عروض: وہ علم جس میں کسی شعر کا وزن معلوم کیا جاتا ہے یا کسی شعر کو وزن میں رکھنے کی رہنمائی لی جاتی ہے۔

غزل: وہ نظم جس میں ہر شعر میں ایک مکمل مضمون ہو، غزل میں عام طور پر عشق و محبت کا ذکر ہوتا ہے، اور اس کا پہلا شعر مطلع اور آخری شعر مقطع ہوتا ہے۔

قافیہ: شعر کے آخر میں آنے والے ہم آواز الفاظ کو قوافی کہا جاتا ہے، تمام قوافی میں حرف روی ایک ہونا ضروری ہے، جیسے علمی کے قوافی ہیں: قلمی، نرمی اور گرمی۔ ان سب میں حرف روی ’’م‘‘ ہے، لہٰذا ’’قلبی‘‘ ، ’’سختی‘‘ اور ’’سردی‘‘ جیسے الفاظ ’’علمی‘‘ کے قوافی نہیں بن سکتے کیوں کہ ان میں حرف روی ’’م‘‘ نہیں ہے۔

قطعہ: وہ نظم جس میں کوئی ایک چیز بیان کی جائے، اس میں مطلع نہیں ہوتا اور کم سے کم دو شعر ہوتے ہیں۔

کلیات: ایک ہی شخص کی تمام منظومات یا تصنیفات کا مجموعہ۔

متحرک: وہ حرف جس پر زبر، زیر یا پیش ہو۔

مثنوی: وہ نظم جس میں کوئی مسلسل بات بیان کی اجائے، اس میں ہر شعر کا قافیہ جدا لیکن ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ

محاکات: کسی چیز یا کسی حالت کو اس انداز سے بیان کرنا کہ سننے یا پڑھنے والے کے دماغ میں اس چیز یا حالت کی عمدہ سے عمدہ تصویر آجائے۔

مصرع: شعر کا آدھا حصہ۔

مطلع: غزل یا قصیدے کا پہلا شعر جس میں دونوں مصرعے مقفّٰی ہوں۔

معرّا: وہ نظم جو قافیہ اور تعدادِ ارکان کی قید سے آزاد ہو۔اسے ’’آزاد نظم‘‘ بھی کہتے ہیں، مگر ہوتی یہ بھی موزوں ہی ہے، اگر وزن کا بھی خیال نہ رکھا جائے تو اسے ’’آزاد نظم‘‘ یا ’’نظمِ معرّا‘‘ کہنے کے بجائے ’’نثر‘‘ کہنا چاہیے۔

مقطع: غزل یا قصیدے کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا نام یا تخلص بھی بیان کرتا ہے۔

مقفّٰی: وہ کلام جس میں قافیہ ہو۔

نظم: وہ کلام جو وزن کے مطابق ہو۔

نعت: وہ نظم جس میں نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا جائے۔

وتد: تین حروف۔

وتد مجموع:وہ تین حروف جن کے پہلے دو حروف متحرک اور تیسرا ساکن ہو۔جیسے: سَفَر، قَلَم،شَجَر۔

وتد مفروق: وہ تین حروف جن کا پہلا اور تیسرا حرف متحرک اور دوسرا ساکن ہو۔ جیسے: ’’عالَمی‘‘ میں ’’عَالَ‘‘

وتد مقرون: وہ تین حروف جن کا پہلا متحرک اور دوسرا اور تیسرا ساکن ہو۔ جیسے: ’’قول، عام، سیب‘‘

وزن: شعر کے دونوں مصرعوں کا حروف اور حرکات و سکنات کی تعداد اور ترتیب میں یکساں ہونا۔

ہجائے بلند: وہ دو حروف جن میں سے پہلا متحرک اور دوسرا ساکن ہو۔اسے ’’سبب خفیف‘‘ بھی کہتے ہیں۔

ہجائے کوتاہ: وہ ساکن جس سے پہلا حرف ساکن ہو یا وہ متحرک جس کے بعد والا حرف متحرک ہو۔

الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔

اگلی قسط
 
آخری تدوین:

ساقی۔

محفلین
واہ! اسامہ بھائی یہ تو بہت اچھا کیا تمام اصطلاحات جمع فرما دیں ، بندہ جو بھول جائے ایک نظر میں دیکھ سکتا ہے ۔ تلاش کرنے کی محنت سے چھٹی مل گئی۔

آزاد نظم:وہ کلام جس میں ایک رکن کی پابندی کی جائے،

یہاں بھی پابندی کرنی ہے تو آزادی کہا ہے پھر؟ پھر تو یہ بھی "پابند" نظم ہوئی نا؟

کسی آزاد نظم نظم کی مثال دیجیے جو کسی رکن کی پابند ہو تا کہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔
 
یہاں بھی پابندی کرنی ہے تو آزادی کہا ہے پھر؟ پھر تو یہ بھی "پابند" نظم ہوئی نا؟
کسی آزاد نظم نظم کی مثال دیجیے جو کسی رکن کی پابند ہو تا کہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔
تلاش کرکے دکھاتا ہوں ، صبر۔
 
استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب کی نظم ہے، اس میں ایک رکن ہے "مفاعیلن" شروع سے آخر تک اس رکن کی پابندی کی گئی ہے۔
البتہ اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ ایک جملے کے آخر میں "مفا" اور "عیلن" دوسرے جملے کے شروع میں۔

یہ وقتِ صبحِ کاذب ہے
یہ مشرق کی طرف جو چھا گئی ہے
وہ ردائے نور جھوٹی ہے
ابھی پھر تیرگی ہو گی!
وہ راتوں کا مسافر
دیر گزری، جانبِ مغرب رواں تھا
رات کا افسوں جواں تھا
میں نے دیکھا تھا
وہ بے منزل کا راہی
جو تھکن سے چور لگتا تھا
وہ جس کے ہر قدم سے
اک نقاہت سی ہویدا تھی
کماں تھی یا کمر تھی اُس تھکے ہارے مسافر کی
جو مانگے کی شعائیں اس نے پہنی تھیں
وہ خود بھی مر رہی تھیں
اور جگنو مر چکے تھے
ہاں!
ابھی تو موت بام و در پہ چھائی ہے
ابھی اولادِ آدم شب گرفتہ ہے
وہ ہنستی بولتی گلیاں
گھروں میں شور بچوں کا، وہ بے ہنگام ہنگامے
سبھی! اس بے کراں شب کے سمندر میں
کسی کالی بلا کے سِحرِ بے درماں میں جکڑے ہیں
ابھی تو رات ہونی ہے!

مگر، مایوس کیا ہونا!
کہ وقتِ صبحِ کاذب تو
نقیبِ صبحِ صادق ہے!
ابھی گو رات ہونی ہے
مگر یہ رات کے آخر کا افسوں ہے
طلسمِ تیرگی کی آخری گھڑیاں
کسی کالی بلا کی موت کی ہچکی
کہ جس کے ساتھ
اس کے سارے جادو ٹوٹ جائیں گے
نوائے جاں فزا ’’اللہ اکبر‘‘ کی
زمیں کو، آسماں کو
روشنی سے ایسے بھر دے گی
کہ چڑیاں چہچہائیں گی
شگوفے مسکرائیں گے
سنو!
جو رات کی اس آخری ساعت میں
جاگے اور سو جائے
اُسے
صبحِ مبیں کی اوّلیں ساعت سے
محرومی کا
ایسا زخم آئے گا
کبھی جو بھر نہ پائے گا!
 
تو کیا اس کے ساتھ شاعری کی تمام اقساط مکمل ہو گئیں؟
استاد جی!
یہ سلسلہ ماہنامہ ذوق و شوق میں شائع ہورہا تھا ، مدیر صاحب نے کہا تھا کہ مئی 2014 تک اس سلسلے کو چلانا ہے، اس لیے مئی میں یہ آخری قسط کے طور پر شائع ہوئی تھی، مگر میرا ارادہ اسے اپنے طور پر مزید آگے چلانے کا ہے۔
 
یہ تمام اصطلاحات ایک صفحے میں ملاحظہ فرمائیے:
10486373_652464071514261_9014939534679067581_n.jpg
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ تمام اسباق یقیناً انتہائی عرق ریزی سے تیا کیے گئے ہیں اور ہم جیسے مبتدیوں کے لیے خصوصاً بہت قابل قدر ہیں ۔۔جزاک اللہ:thumbsup2:
 
یہ تمام اسباق یقیناً انتہائی عرق ریزی سے تیا کیے گئے ہیں اور ہم جیسے مبتدیوں کے لیے خصوصاً بہت قابل قدر ہیں ۔۔جزاک اللہ:thumbsup2:
عاطف بھائی! کیوں مذاق اڑا رہے ہیں ، آپ جیسے ادیب ابن ادیب لوگوں کی رہنمائی میں تو یہ اسباق تیار کیے گئے ہیں۔ :)
 
Top