محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
بارھویں قسط:
محترم قارئین! اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ نے شاعری اور اس کے اوزان کہاں سے سیکھے تو آپ جواب دے سکتے ہیں کہ ’ماہ نامہ ذوق و شوق‘ میں شائع ہونے والے سلسلے ’شوقِ شاعری‘ کی ہر مہینے مشق کرکے سیکھے… مگر ہمارا معاملہ ذرا مختلف ہے:
ایک صاحب ہم سے پوچھنے لگے کہ کیا آپ نے باقاعدہ کہیں سے یہ فن سیکھا ہے؟ تو ہم نے انھیں جواب دیا کہ باقاعدہ کہیں سے نہیں سیکھا۔ اب آپ ہم سے یہ پوچھیں گے کہ پھر دوسروں کو کس طرح سکھا رہے ہیں؟
تو جناب ہم آپ کو یہ راز بتا ہی دیں کہ ہم نے یہ فن نہ کسی کتاب سے سیکھا ہے اور نہ ہی کسی استاد سے، البتہ اچھی خاصی شد بد ہونے کے بعد ہمیں شاعری سے متعلق کتابیں پڑھنے کا موقع ملا اور ماہر اساتذہ کی رہنمائی بھی بعد میں میسر آئی ۔
ہماری عمر تیرہ برس ہوگی کہ جب ہمیں قطعا ًاس بات کا علم نہیں تھا کہ شعر کیا ہوتا ہے اور شاعری کس چڑیا کا نام ہے؟ مدرسے میں فارسی کے ابتدائی قواعد کی کتابیں پڑھنے کے بعد ہماری ’’پنج کتاب‘‘ شروع ہوئی، اس ایک کتاب میں پانچ کتابیں تھیں، جن میں سے پہلی کتاب کا نام ’’کریما‘‘ تھا، یہ شیخ سعدی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی نصیحت آموز اشعار اور نظموں پر مشتمل سولہ صفحے کی مختصر سی کتاب ہے۔ اس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں:
ہم آپ کو لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس طرح کی نظم جس کے ہر شعر میں الگ الگ قافیہ استعمال کیا جائے اسے ’’مثنوی‘‘ کہتے ہیں۔ مثنوی کے لیے عام طور پر یہی وزن استعمال کیا جاتا ہے۔
خیر ہم نے ’’کریما‘‘ کا پہلا شعر پڑھا، سمجھا اور اس کا ترجمہ یاد کرلیا۔ استاد صاحب نے بتایا کہ اس کو شعر کہتے ہیں کہ جس میں دو جملے برابر سرابر ہوں اور دونوں کے آخر میں ایک ایک لفظ ہم قافیہ ہو جیسے کہ درج بالا پہلے شعر میں ’’ما‘‘ اور ’’ہوا‘‘ ہے، ان دونوں کے آخر میں ’’الف‘‘ ہے۔
پھر ایک روز ایک طالب علم ساتھی نے کہا:
’’یہ شیخ سعدی بھی کیا چیز تھے! اتنے اچھے انداز میں نظمیں کہہ ڈالیں۔ واقعی یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔‘‘
اس کی یہ بات سن کر ہم نے دل میں سوچا کہ وہ بھی ہماری طرح انسان تھے، لہٰذا یہ کام تو ہم بھی کرسکتے ہیں، چناں چہ یہ سوچ کر ہم کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئے۔ حال یہ تھا کہ شاعری کی الف بے سے بھی واقف نہیں تھے اور ہماری ناواقفیت کا اس سے اندازہ لگائیں کہ ہماری معلومات یہیں تک تھی کہ شاعری کا تعلق صرف فارسی زبان سے ہے… چناں چہ ہم نے بھی فارسی زبان میں ایک نعت لکھنی شروع کردی…ایک گھنٹے میں ایک شعر لکھا جس میں فارسی کے جملہ قواعد کی خلاف وزری کے ساتھ ساتھ شاعری کے قواعد کے ساتھ بھی کافی ناروا سلوک کیا گیا تھا۔
غرض پورے دو دن تک ہم اسی دھن میں رہے کہ چار پانچ اشعار کی ایک نعت لکھیں۔ نہ کھانے پینے کا ہوش، نہ نیند کا خیال۔ بڑی مشکل سے ہم نے ایک عدد نعت لکھ ڈالی۔ پھر ہم نے اسے ایک دوسرے کاغذ پر صاف ستھرا کرکے لکھا اور گئے اپنے ایک استاد صاحب کو دکھانے، استاد صاحب اگرچہ فارسی نہیں پڑھاتے تھے، مگر انھوں نے فارسی پڑھی ہوئی تھی اور شعر و شاعری کا بھی کافی شغف ان میں پایا جاتا تھا۔
’’یہ کیا ہے بھئی…!‘‘ انھوں نے بڑی حیرت سے ہمارے نعت والے پرچے کو دیکھ کر استفسار کیا۔
’’جی… وہ… میں نے ایک نعت لکھی ہے!‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔
’’کہاں سے دیکھ کر؟‘‘ انھوں نے نظریں نعت پر جمائے ہم سے پوچھا۔
’’جی… کہیں سے نہیں… خود لکھی ہے اپنے ذہن سے۔‘‘ ہم نے حوصلہ کرکے جواب دیا۔
’’اپنے ذہن سے…!!‘‘ شاید انھیں یقین نہیں آیا تھا، اسی لیے زیرِ لب کچھ کہنے لگے، مگر ہمیں کچھ سنائی نہ دیا۔
اور پھر وہ ہوا جس کی ہمیں توقع نہ تھی… ان کی پیشانی پرپڑنے والے بلوں سے ناگواری جھلکنے لگی… پھر وہ کہنے لگے:
’’اول تو لکھا ایسا ہے کہ سمجھ میں بڑی مشکل سے آرہا ہے… پھر فارسی کی بہت سی غلطیاں ہیں … پھر قافیہ بھی درست نہیں باندھا گیا… بیٹا! شاعری کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ شعر میں وزن کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے جس سے بہت کم لوگ واقف ہوتے ہیں، خود میری معلومات بھی اس بارے میں کافی محدود ہیں۔‘‘
یہ باتیں سننے کے بعد ہم سے صرف ایک سوال ہی بن پڑا: ’’جی وہ آپ جو اشعار سناتے رہتے ہیں کلاس میں؟‘‘
’’ارے برخوردار! وہ تو میں نے مشہور شعرائے کرام کے کچھ اشعار یاد کرلیے ہیں، بس وہی سناتا ہوں، خود بنانا تو مجھے بھی نہیں آتا۔‘‘ پھر ہماری پیٹھ تھپک کر مخلصانہ مشورہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’جائو، بیٹا! اپنی پڑھائی پر توجہ دو…دیکھو تمھارا خط بھی کافی خراب ہے… پھر فارسی کے قواعد بھی معلوم ہوتا ہے تمھیں صحیح سے یاد نہیں ہیں…ایسے میں اگر شاعری سیکھنے لگو گے تو نہ ادھر کے رہو گے نہ ادھر کے۔‘‘
ہم نے نعت کا پرچہ لپیٹ کر جیب میں ڈالا اور وہاں سے لوٹ آئے، مگر وہ کہتے ہیں نا کہ شکر خورے کو اللہ شکر دے ہی دیتا ہے… ہمیں بھی ہماری مطلوبہ شکر ایک دن اچانک مل گئی، یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے شعر و شاعری سیکھنے کے اسباب پیدا فرمادیے، وہ کیا اسباب ہوئے؟ یہ ہم آپ کو ان شاء اللہ تعالیٰ پھر کبھی بتائیں گے۔
خیر، مذکورہ بالا قصے سے کچھ اور نہیں تو آپ کو اتنا تو معلوم ہوہی گیا ہوگا کہ ’’مثنوی‘‘ کسے کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں ’’قطعہ‘‘ آتا ہے، ’’قطعہ‘‘ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس کے ہر شعر کے دوسرے مصرع کا قافیہ پوری نظم میں ایک جیسا ہو… جیسے:
کام:
1۔ ’’فعولن فعولن فعولن فعو‘‘ کے وزن پر مثنوی کے انداز میں اللہ کی حمد لکھیںجس میں کم از کم پانچ اشعار ہوں۔
2۔ کسی بھی وزن میں قطعے کے انداز میں نعت لکھیں، جس میں بھی کم از کم پانچ اشعار ہوں۔
الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔
اگلی قسط
بارھویں قسط:
محترم قارئین! اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ نے شاعری اور اس کے اوزان کہاں سے سیکھے تو آپ جواب دے سکتے ہیں کہ ’ماہ نامہ ذوق و شوق‘ میں شائع ہونے والے سلسلے ’شوقِ شاعری‘ کی ہر مہینے مشق کرکے سیکھے… مگر ہمارا معاملہ ذرا مختلف ہے:
ایک صاحب ہم سے پوچھنے لگے کہ کیا آپ نے باقاعدہ کہیں سے یہ فن سیکھا ہے؟ تو ہم نے انھیں جواب دیا کہ باقاعدہ کہیں سے نہیں سیکھا۔ اب آپ ہم سے یہ پوچھیں گے کہ پھر دوسروں کو کس طرح سکھا رہے ہیں؟
تو جناب ہم آپ کو یہ راز بتا ہی دیں کہ ہم نے یہ فن نہ کسی کتاب سے سیکھا ہے اور نہ ہی کسی استاد سے، البتہ اچھی خاصی شد بد ہونے کے بعد ہمیں شاعری سے متعلق کتابیں پڑھنے کا موقع ملا اور ماہر اساتذہ کی رہنمائی بھی بعد میں میسر آئی ۔
ہماری عمر تیرہ برس ہوگی کہ جب ہمیں قطعا ًاس بات کا علم نہیں تھا کہ شعر کیا ہوتا ہے اور شاعری کس چڑیا کا نام ہے؟ مدرسے میں فارسی کے ابتدائی قواعد کی کتابیں پڑھنے کے بعد ہماری ’’پنج کتاب‘‘ شروع ہوئی، اس ایک کتاب میں پانچ کتابیں تھیں، جن میں سے پہلی کتاب کا نام ’’کریما‘‘ تھا، یہ شیخ سعدی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی نصیحت آموز اشعار اور نظموں پر مشتمل سولہ صفحے کی مختصر سی کتاب ہے۔ اس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں:
کریما! ببخشائے برحالِ ما۔۔۔کہ ہستم اسیرِ کمندِ ہوا
نداریم غیر از تو فریاد رس۔۔۔توئی عاصیاں را خطا بخش و بس
نگہ دار مارا ز راہِ خطا۔۔۔خطا در گزار و صوابم نما
اس کا وزن تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے، یعنی ’’فعولن فعولن فعولن فعو‘‘نداریم غیر از تو فریاد رس۔۔۔توئی عاصیاں را خطا بخش و بس
نگہ دار مارا ز راہِ خطا۔۔۔خطا در گزار و صوابم نما
ہم آپ کو لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس طرح کی نظم جس کے ہر شعر میں الگ الگ قافیہ استعمال کیا جائے اسے ’’مثنوی‘‘ کہتے ہیں۔ مثنوی کے لیے عام طور پر یہی وزن استعمال کیا جاتا ہے۔
خیر ہم نے ’’کریما‘‘ کا پہلا شعر پڑھا، سمجھا اور اس کا ترجمہ یاد کرلیا۔ استاد صاحب نے بتایا کہ اس کو شعر کہتے ہیں کہ جس میں دو جملے برابر سرابر ہوں اور دونوں کے آخر میں ایک ایک لفظ ہم قافیہ ہو جیسے کہ درج بالا پہلے شعر میں ’’ما‘‘ اور ’’ہوا‘‘ ہے، ان دونوں کے آخر میں ’’الف‘‘ ہے۔
پھر ایک روز ایک طالب علم ساتھی نے کہا:
’’یہ شیخ سعدی بھی کیا چیز تھے! اتنے اچھے انداز میں نظمیں کہہ ڈالیں۔ واقعی یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔‘‘
اس کی یہ بات سن کر ہم نے دل میں سوچا کہ وہ بھی ہماری طرح انسان تھے، لہٰذا یہ کام تو ہم بھی کرسکتے ہیں، چناں چہ یہ سوچ کر ہم کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئے۔ حال یہ تھا کہ شاعری کی الف بے سے بھی واقف نہیں تھے اور ہماری ناواقفیت کا اس سے اندازہ لگائیں کہ ہماری معلومات یہیں تک تھی کہ شاعری کا تعلق صرف فارسی زبان سے ہے… چناں چہ ہم نے بھی فارسی زبان میں ایک نعت لکھنی شروع کردی…ایک گھنٹے میں ایک شعر لکھا جس میں فارسی کے جملہ قواعد کی خلاف وزری کے ساتھ ساتھ شاعری کے قواعد کے ساتھ بھی کافی ناروا سلوک کیا گیا تھا۔
غرض پورے دو دن تک ہم اسی دھن میں رہے کہ چار پانچ اشعار کی ایک نعت لکھیں۔ نہ کھانے پینے کا ہوش، نہ نیند کا خیال۔ بڑی مشکل سے ہم نے ایک عدد نعت لکھ ڈالی۔ پھر ہم نے اسے ایک دوسرے کاغذ پر صاف ستھرا کرکے لکھا اور گئے اپنے ایک استاد صاحب کو دکھانے، استاد صاحب اگرچہ فارسی نہیں پڑھاتے تھے، مگر انھوں نے فارسی پڑھی ہوئی تھی اور شعر و شاعری کا بھی کافی شغف ان میں پایا جاتا تھا۔
’’یہ کیا ہے بھئی…!‘‘ انھوں نے بڑی حیرت سے ہمارے نعت والے پرچے کو دیکھ کر استفسار کیا۔
’’جی… وہ… میں نے ایک نعت لکھی ہے!‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔
’’کہاں سے دیکھ کر؟‘‘ انھوں نے نظریں نعت پر جمائے ہم سے پوچھا۔
’’جی… کہیں سے نہیں… خود لکھی ہے اپنے ذہن سے۔‘‘ ہم نے حوصلہ کرکے جواب دیا۔
’’اپنے ذہن سے…!!‘‘ شاید انھیں یقین نہیں آیا تھا، اسی لیے زیرِ لب کچھ کہنے لگے، مگر ہمیں کچھ سنائی نہ دیا۔
اور پھر وہ ہوا جس کی ہمیں توقع نہ تھی… ان کی پیشانی پرپڑنے والے بلوں سے ناگواری جھلکنے لگی… پھر وہ کہنے لگے:
’’اول تو لکھا ایسا ہے کہ سمجھ میں بڑی مشکل سے آرہا ہے… پھر فارسی کی بہت سی غلطیاں ہیں … پھر قافیہ بھی درست نہیں باندھا گیا… بیٹا! شاعری کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ شعر میں وزن کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے جس سے بہت کم لوگ واقف ہوتے ہیں، خود میری معلومات بھی اس بارے میں کافی محدود ہیں۔‘‘
یہ باتیں سننے کے بعد ہم سے صرف ایک سوال ہی بن پڑا: ’’جی وہ آپ جو اشعار سناتے رہتے ہیں کلاس میں؟‘‘
’’ارے برخوردار! وہ تو میں نے مشہور شعرائے کرام کے کچھ اشعار یاد کرلیے ہیں، بس وہی سناتا ہوں، خود بنانا تو مجھے بھی نہیں آتا۔‘‘ پھر ہماری پیٹھ تھپک کر مخلصانہ مشورہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’جائو، بیٹا! اپنی پڑھائی پر توجہ دو…دیکھو تمھارا خط بھی کافی خراب ہے… پھر فارسی کے قواعد بھی معلوم ہوتا ہے تمھیں صحیح سے یاد نہیں ہیں…ایسے میں اگر شاعری سیکھنے لگو گے تو نہ ادھر کے رہو گے نہ ادھر کے۔‘‘
ہم نے نعت کا پرچہ لپیٹ کر جیب میں ڈالا اور وہاں سے لوٹ آئے، مگر وہ کہتے ہیں نا کہ شکر خورے کو اللہ شکر دے ہی دیتا ہے… ہمیں بھی ہماری مطلوبہ شکر ایک دن اچانک مل گئی، یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے شعر و شاعری سیکھنے کے اسباب پیدا فرمادیے، وہ کیا اسباب ہوئے؟ یہ ہم آپ کو ان شاء اللہ تعالیٰ پھر کبھی بتائیں گے۔
خیر، مذکورہ بالا قصے سے کچھ اور نہیں تو آپ کو اتنا تو معلوم ہوہی گیا ہوگا کہ ’’مثنوی‘‘ کسے کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں ’’قطعہ‘‘ آتا ہے، ’’قطعہ‘‘ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس کے ہر شعر کے دوسرے مصرع کا قافیہ پوری نظم میں ایک جیسا ہو… جیسے:
عزیزو ، رفیقو ، مرے دوستو!
مری بس یہی آپ سے عرض ہے
خدا اور نبی سے محبت کرو
یہ ہر اک مسلمان پر فرض ہے
حقوق العباد آپ پورے کریں
یہ بھی زندگی کا بڑا قرض ہے
اس میں غور کریں ہر شعر کا دوسرا مصرع مققیّٰ ہے اور ’’عرض، فرض اورقرض‘‘ قوافی ہیں۔مری بس یہی آپ سے عرض ہے
خدا اور نبی سے محبت کرو
یہ ہر اک مسلمان پر فرض ہے
حقوق العباد آپ پورے کریں
یہ بھی زندگی کا بڑا قرض ہے
کام:
1۔ ’’فعولن فعولن فعولن فعو‘‘ کے وزن پر مثنوی کے انداز میں اللہ کی حمد لکھیںجس میں کم از کم پانچ اشعار ہوں۔
2۔ کسی بھی وزن میں قطعے کے انداز میں نعت لکھیں، جس میں بھی کم از کم پانچ اشعار ہوں۔
الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔
اگلی قسط
آخری تدوین: